متفرق مضامین

قدرت ثانیہ کے پانچویں بابرکت مظہر کے ذریعہ زندہ خدا کی زندہ تجلّیات

(’م الف شہزاد‘)

اللہ کے مقرر کردہ خلفاءزمین پر خداتعالیٰ کی قدرتوں کے مظہر ہوتے ہیں۔ان کا مبارک وجود خداتعالیٰ کی زندہ جاوید ہستی کا روشن نشان ہوتاہے۔ہم کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اس دور آخر میں خلافت کی نعمت میسر ہے اور قدرت ثانیہ کے پانچویں مظہر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مبارک ذات میں خداتعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق کو آئے دن مشاہدہ کرتے ہیں۔خدا تعالیٰ کی ان تازہ بہ تازہ تجلیات کو دیکھ کر ہمارا خلافت احمدیہ پر ایمان پہلے سے زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوتاہے اور دل اس یقین سے پُر ہو جاتاہے کہ خدا تعالیٰ اپنے مقرر کردہ خلیفۂ وقت سے ہم کلام ہو کر ہر آن تائید و نصرت فرمارہا ہے۔امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مبارک حیات سے تعلق باللہ کے چند ایمان افروز واقعات پیش خدمت ہیں:

مشورہ مانگ رہے ہیں تو پھر نہ جائیں

مولانا سلطان محمود انور صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جس عرصہ میں ناظر اعلیٰ و امیر مقامی تھے ایک دن میرے ہم زلف مکرم چودھری رشید الدین صاحب مرحوم سابق امیر ضلع گجرات میرے پاس دفتر خدمت درویشاں میں آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں ربوہ پہنچ کر اچانک کھاریاں جانا پڑ رہا ہے۔ ابھی گاڑی کا انتظار ہے اگر آپ بھی تیار ہو جائیں تو ہمارے ساتھ کھاریاں چلیں شام تک انشاءاللہ تعالیٰ واپس ربوہ آ جائیں گے۔ چنانچہ گاڑی آ جانے پر خاکسار نے کہا کہ میں میاں صاحب کو جا کر بتا تو آؤں۔ میں نظارت علیاءکے دفتر چلا گیا۔ محترم مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ کو اپنے پروگرام کے متعلق بتایا۔ فرمانے لگے کہ ٹھیک ہے چلے جائیں۔ میں نے عرض کی کہ میاں صاحب میں اجازت نہیں مانگ رہا بلکہ مشورہ مانگ رہا ہوں کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ اس پر محترم میاں صاحب فرمانے لگے کہ اگر مشورہ مانگ رہے ہیں تو پھر نہ جائیں۔ خاکسار یہ الفاظ سن کر واپس آگیا اور رشید الدین صاحب سے کہا کہ آپ چلے جائیں میں نہیں جا سکتا۔ وہ کہنے لگے کہ اگرمیاں صاحب سے اجازت نہیں ملی تو میں اجازت لینے کے لیے دفتر چلا جاتا ہوں لیکن میں نے انہیں منع کر دیا۔ چنانچہ وہ خود گاڑی پر کھاریاں کے لیے روانہ ہوگئے۔ شام کو مجھے اطلاع ملی کہ اس گاڑی کے ڈرائیور کو گاڑی چلاتے ہوئے کھاریاں لاری اڈہ میں پہنچ کر ہارٹ اٹیک ہو گیا جس کی وجہ سے گاڑی کا شدید ایکسیڈنٹ (حادثہ ) ہوا ہے۔ ڈرائیور موقع پر ہی فوت ہو گیاہے اور باقیوں کو گہری چوٹیں آئی ہیں۔ رشید الدین صاحب کا کولہا ٹوٹ گیا ہے۔ رشید الدین صاحب مرحوم آخری وقت تک معذور رہے اور چھڑی کے ساتھ تھوڑا سا چل لیتے تھے(حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت) مشورہ کے جواب میں کھاریاں جانے سے جو منع فرمایا وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی انکار تھا اور خدا کے پیارے بندے کی معرفت نہ جانے کا مشورہ ملا۔(رسالہ تشحیذالاذہان سیدنا مسرور ایدہ اللہ تعالیٰ نمبر ستمبر تا اکتوبر ۲۰۰۸ءصفحہ٤٥)

’’دوسرے دو کا کیا کیاہے،دو اور بھی ہیں‘‘

مکرم ناصر احمد سعیدصاحب کو۱۹٥۱ءسے ۲۰۲۰ءتک بطور کارکن عملہ حفاظت خاص خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ سنہ ۲۰۱۲ءمیں انہیں ہارٹ اٹیک ہوا۔ان کی ایک شریان بند ہونے کی وجہ سے ایکStentڈالا گیا۔اس دن مرحوم کی شفٹ کا آغاز ۳:۰۰بجے ہونا تھا۔دن ۱۲:۴۵پر انہیں آپریشن کےلیے لے جایا جارہا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے خالد احمد سعیدسے ٹائم پوچھا۔اور کہنے لگے ’’میری ڈیوٹی گئی‘‘خالد سعید صاحب کہتے ہیں کہ ماسوائے آج کے دن کے والد صاحب اپنی پوری سروس میں کسی بھی شفٹ پر لیٹ نہیں ہوئے۔ہمیشہ ہشاش بشاش ڈیوٹی دیتے۔آپریشن مکمل ہونے پرجب والد صاحب کو آپریشن تھیئٹر سے باہر لایاگیا تو کہنے لگے کہ خالد جاؤ اور حضور کو اطلاع کر دو۔چنانچہ خاکسار فوراً وہاں سے نکلا اور مسجد فضل پہنچا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو مطلع کیا کہ ابو ٹھیک ہیں اور ایک Stentڈلا ہے۔جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ’’دوسرے دو کا کیا کیاہے،دو اور بھی ہیں‘‘۔خاکسار اُسی وقت واپس St.George,s Hospitalگیا جہاں ابا جان زیر علاج تھے۔اور ڈاکٹروں کو ملا اور کہا کہ میں ابھی His Holiness (حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز )کو مل کر آیا ہوں اور انہوں نے مجھ سے یہ کہا ہے جس پر ڈاکٹر صاحب نے بغیر کوئی مزاحمت کیے دوبارہ تمام ریکارڈنگ دیکھی تو واقعتا ًدو مزید شریانیں بھی بلاک تھیں۔ایک ۹٥فیصداور ایک ۹۰فیصد بلاک تھی۔وہ ڈاکٹر یہ دیکھ کر حیران و پریشان رہ گیا کہ کس طرح His Holiness (حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز )کو معلوم ہوا اور ان کے الفاظ کس طرح پورے ہوئے چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی فراست کی وجہ سے مزید دو Stentڈالے گے۔(روزنامہ الفضل (آن لائن) سوموار ۱۳؍اپریل ۲۰۲۰ءصفحہ۱۲)

میرا سلام میرے آقا تک پہنچا دے

مکرم منور اقبال مجوکہ صاحب سابق امیر جماعت ضلع خوشاب کہتے ہیں کہ ایک دن جب میں اپنی رہائش گاہ سے ضلع خوشاب کے عمومی دورہ کی غرض سے روانہ ہوا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں نے مکرم محمد اقبال صاحب سیال (جو کئی سال قبل بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے) کے گھر جا نا ہے اور ان کو ملنا ہے، محترم امیر صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی معلوم نہیں تھا کہ یہ ماسٹر محمد اقبال صاحب کون ہیں بس جماعت احمدیہ خوشاب کے ممبر ہونے کی وجہ سے ایک غیبی تعارف ضرور تھا جبکہ ان کی شکل اور شخصیت کا اندازہ تھا نہ گمان،لیکن یہ بات میرے دل میں بڑے زور سے ڈالی گئی کہ میں نے مکرم محمد اقبال صاحب سیال کے گھر جا کر ان سے ملنا ہے۔ چنانچہ میں نے راستہ میں ہی پیلووینس کے صدر صاحب جماعت کو فون کال کی اور کہا کہ تیار ہو جائیں اور آپ نے مجھے مکرم محمد اقبال صاحب سیال کے ہاں لے جانا ہے میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ٹھیک آپ آ جائیں ہم چلے چلیں گے۔اتنے میں محترم صدر صاحب نے از خود سوچا کہ کیو ں نہ مکرم محمد اقبال صاحب سیال کو ہی یہاں بلا لیا جائے کیونکہ ان کا گھر دور ہے رستہ کچا ہے گاڑی کا جانا مشکل ہو گا اور اس پر انہوں نے مکرم محمداقبال صاحب سیال کو اپنے پاس بلا لیا کہ آپ میرے پاس آجائیں مکرم امیر صاحب آ رہے ہیں اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ بھی اپنے گھر سے روانہ ہو گئے۔ جب محترم امیر صاحب ،محترم صدر صاحب کے پاس پہنچے تو جب ان کو معلوم ہوا کہ مکرم محمد اقبال صاحب کو ادھر ہی بلا لیا گیا ہے اور وہ آ رہے ہیں تو محترم صدر صاحب سے بڑے جوش سے فرمانے لگے کہ میں نے ان سے ملنا ہے نہ کہ انہوں نے مجھ سے ملنا ہے آپ نے ان کو کیوں بلا بھیجا؟ میں ان کے ہاں جانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اس پر محترم صدر صاحب نے ان کو بذریعہ ٹیلی فون آنے سے روکا کہ امیر صاحب خود آپ کے گھرآرہے ہیں آپ اپنے گھر پر ہی ٹھہرے رہیں۔ جس پر وہ رستہ سے اپنے گھر لوٹ گئے اور محترم امیر صاحب خود ریگستانی کچا رستہ طے کر کے ان کے گھر گئے اور پہنچ کر ملتے ہی آپ نے سلام کیا اور کہا کہ آپ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا بھی سلام ہو۔ اس پر مکرم محمد اقبال احمد سیال صاحب محترم امیر صاحب سے لپٹ کر زارو قطار رونے لگے جب ان کی حالت کچھ سنبھلی تو رونے کی وجہ پوچھی گئی ، سیال صاحب کہنے لگے کہ کل نماز مغرب میں نے سامنے ریت کے ٹیلے پر ادا کی اور نماز کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں یہاں ویرانے میں رہتا ہوں میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ میں اپنے پیارے خلیفہ وقت کو سلام بھجوا سکوں اور اے خدا تو کسی ذریعہ یا واسطے کا محتاج نہیں تو ہی میرا سلام میرے آقا تک پہنچا دے…تو یہ لیں میرے رب نے میری دعا سن لی اور آپ کے ذریعے آج یعنی دوسری ہی صبح سلام کا جواب بھی بھجوا دیا… اس پر محترم امیر صاحب نے یہ سارا واقعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ دوبارہ جائیں اور مکرم محمد اقبال صاحب سیال اور ان کی فیملی کو میری طرف سے محبت بھرا سلام پہنچائیں اس پر مکرم امیر صاحب اور مکرم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب ایڈمنسٹریٹر طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ مکرم محمد اقبال صاحب سیال کے گھر گئے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچایا اور جوابی خط ان کو دیا۔(روزنامہ الفضل (آن لائن ایڈیشن)۷؍مئی ۲۰۲۲ء صفحہ٦)

ہمQuebecنہیں جائیں گے

مکرم عابد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں جس سے میں بہت متاثر ہوا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی راہ نمائی فرماتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو کئی مواقع اور تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے جیسے کہ پارلیمنٹس میں خطاب، مختلف ممالک میں کئی پروگراموں وغیرہ میں شرکت کی درخواست کی جاتی ہے۔ یقینا ًجس قدر ممکن ہوتا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزشرکت فرماتے ہیں۔ مگر بسااوقات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو معذرت کرنی پڑتی ہے۔بسااوقات ہم نے دیکھا ہے کہ ایسی تقریبات جن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمدعو تھے مگر شرکت نہیں فرما سکے وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی افضال دیکھنے کو ملے جو خلافت احمدیہ کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر معمولی تعلق کی دلیل ہے۔مجھے یاد ہے کہ ۲۰۱٦ء میں جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھ ہفتوں کے لیے کینیڈا کا دورہ فرما رہے تھے۔ اس کے دوران حضور انور کی مصروفیت بہت زیادہ تھی۔ کئی یونیورسٹیز اور پارلیمنٹس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے خطابات تھے۔ایک پروگرام جو کینیڈا کی جماعت نے ترتیب دیا تھا وہ حضورِ انور کا دورۂ Quebecتھا جو کینیڈا کا فرنچ حصہ ہے اور یہ کہ آپ وہاں کی صوبائی پارلیمنٹ میں خطاب فرمائیں جس کو Quebec legislative Assemblyکہتے ہیں۔ جس جماعت کے ذمہ اس پروگرام کا انعقاد تھا وہ بےحد خوش تھے کیونکہ یہ کینیڈا کا وہ حصہ ہے جہاں جماعت کا بہت کم تعارف ہے اور یہاں احمدیوں کی تعداد کینیڈ ا کے دوسرے حصوں کی نسبت کافی کم ہےیعنی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں۔ویسے بھی گذشتہ دورے کے دوران حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےQuebec دورہ فرمانے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے بہت محنت سے یہ دورہ ترتیب دیا تھا۔ ایسے روابط پیدا کیے گئے تھے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کوQuebecپارلیمنٹ میں خطاب کے لیے مدعو کیا جائے۔ جب چھ ہفتوں پر مشتمل دورۂ کینیڈا کا مجوزہ تفصیلی پروگرام بغرض منظوری لندن بھجوایا گیا تو یہ سارا پروگرام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے منظور فرمالیا سوائے ان دو سے تین دنوں کے جو Quebecمیں گزارنے تھے۔ ان پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کراس لگا دیا تھا۔ اور فرمایا کہ ہمQuebecنہیں جائیں گے۔باقی پروگرام کی منظوری ہو گئی۔ جب یہ پیغام کینیڈا کی جماعت کو پہنچا تو ان کے نیشنل سیکرٹری امورخارجہ نے میرے سے رابطہ کیا اوروہ کچھ پریشان تھے۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے Quebecکے حوالے سے محنت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر حال میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی ہدایات کی مکمل پیروی کریں گے۔ مگر الفاظ یہ تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک بہت اچھا موقع یہاں جماعت کے تعارف کا گنوا دیں گے۔ بہرحال محنت تو انہوں نے کی ہوئی تھی۔ میں نے ان کو بتایا کہ دیکھیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاور خلیفہ وقت کے ہر فیصلے میں برکت اور حکمت ہوتی ہے اور بسااوقات ہم فوری طور پر اس کو نہیں سمجھ سکتے مگر بعد میں سمجھ آجاتی ہے۔ اس دورہ کا آغاز ہوا اور الحمد للہ ہر چیز بہت بہتر رنگ میں چل رہی تھی کہ وہی دوست جو سیکرٹری امورخارجہ تھے میرے کمرے میں تشریف لائے اور بہت پُرجوش تھے اور کہنے لگے عابد میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ میں نے کہا ہاں بتائیں تو کہنے لگے شکر ہے کہ ہمQuebecنہیں گئے۔ میں نےکہا کیا مطلب؟تو وہ کہنے لگے کہ کل اور آج ہر جگہ خبروں میں ہے کہ Quebecکی پارلیمنٹ کے ایک ممبر کسی criminal activityمیں ملوث پائے گئے ہیں۔ جس کی تفصیل میں مَیں جانا نہیں چاہتا اور انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہی وہ Member of Parliament تھا جس سے ہم رابطے میں تھے اور اس نے ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو مدعو کیاہوا تھا۔ اور اگر چند روز قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزوہاں کا دورہ فرماچکے ہوتے اور سارے میڈیا نے اس کی تشہیر کی ہوتی تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی چند تصاویر اس کے ساتھ پورے ملک میں نشر ہوچکی ہوتیں کہ جماعت اس سیاسی لیڈر کے ساتھ منسلک ہے تو اس کا بہرحال کوئی اچھا اثر نہ پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمQuebecنہیں گئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے اس واقعہ کا ضرور ذکر کروں اور یہ بھی کہ پہلے میں متذبذب تھا کہ ہمیں ضرور Quebec جانا چاہیے لیکن اب میں نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے فیصلے کے بعد حقیقت اور سچائی کو دیکھ لیا ہے جو یقینا ًخلافت کی برکت ہے۔ بعد ازاں میں نے یہ واقعہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت میں بیان کیا تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ خلافت کی عزت اور مقام کی حفاظت فرماتا ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے علم میںQuebecکے سیاسی لیڈر ز کی تفصیل نہ تھی اور جو پروگرام پیش ہوا تھا اس میںQuebecکے کسی ممبر آف پارلیمنٹ کا نام بطور میزبان موجود نہ تھا۔ مگر کوئی بات تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے دل میں ڈالی اور حضور نے یہ پروگرام منسوخ کر دیا اور جماعت ایک بڑی آزمائش سے محفوظ رہی۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۲تا ۲۷؍اگست ۲۰۲۱ء صفحہ٥۱-٥۲)

’’کیا یہ درست ہے کہ آپ انصار میں جا رہے ہیں ؟‘‘

مکرم عابد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دوست ہیں جو Scotlandمیں رہتے ہیں، احمد کوناڈو صاحب جو کافی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے WhatsApp statusپر ایک فوٹو تھی جس میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نہایت شفقت کے ساتھ ان کا بازو پکڑا ہوا ہے۔ کئی دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ فوٹو کب کی ہے تو ایک دن انہوں نے بتایا کہ عابد صاحب، بہت سے لوگوں نے میرے سے اس تصویر کے بارے میں پوچھا ہے اور میں نے کسی کو حقیقت نہیں بتائی مگر میں آپ کو بتا دیتا ہوں اور اگر آپ کسی کو بتانا چاہیں تو آپ کی مرضی۔ تو ان کی اجازت سے میں بیان کر دیتا ہوں۔ وہ کئی سال تک Scotland میں مجلس خدام الاحمدیہ کے ریجنل قائد کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ اور ان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ مثالی طور پر اپنا نمونہ پیش کریں۔ اس لیے بڑی باقاعدگی سے وہ فجر اور عشاء پر اپنے بچوں کے ساتھ مسجد نماز کے لیے جاتے تھے اور ہر جماعتی پروگرام میں شرکت کرتے تھے تاکہ دوسرے خدام کے لیے اچھا نمونہ بن سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ خدام الاحمدیہ کے حوالے سے ان کی جماعت اچھی تھی مگر اس درجہ تک پہلے نہیں پہنچی تھی کہ عَلَم انعامی حاصل کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ۲۰۱٥ء میں بطور خادم یہ ان کا آخری اجتماع تھا کیونکہ اگلے سال وہ مجلس انصاراللہ میں جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کافی افسردہ تھے کہ انہیں اس سے قبل کبھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے مصافحہ کا موقع نہ مل سکا تھا۔ خاص طور پر سٹیج پر، کوئی ایوارڈ وصول کرتے ہوئے، بطور ریجنل قائد۔ انہوں نے بتایا کہ اجتماع کے دو سے تین دن وہ ہر روز تہجد کے لیے اٹھتے اور روتے اور دعا کرتے کہ اے خدا! اگر تیری رضا کے حصول کے لیے گذشتہ سات آٹھ سالوں میں مَیں نے کوئی کام کیا ہو تو مجھے میرے خلیفہ سے مصافحہ کرنے کا موقع عطا فرما۔ ایک موقع مل جائے انصار میں جانے سے پہلے۔ مگر اس خواہش کا اظہار میں نے کبھی کسی کے سامنے نہیں کیا۔ میری فیملی میں سے کوئی بھی میری اس شدید خواہش کے بارے میں نہ جانتا تھا۔اجتماع کے تین دن آئے اورگزر گئے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا اختتامی خطاب، دعا، سب مکمل ہو چکا تھا۔ واپسی کی تیاری ہو رہی تھی اور وہ اپنا سامان گاڑی میں رکھ رہے تھے کہ کسی نے دُور سے اونچی آواز میں کہا کہ حضور دورہ فرما رہے ہیں سب آجائیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت بڑا ہجوم تھا اور میں اس کی طرف دوڑا۔ کیونکہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ بہت سے لوگ تھے۔ اس لیے میں زیادہ قریب نہ جا سکا۔ اچانک کسی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزآپ کو بلا رہے ہیں۔ تو میں دوڑا اور راستہ بنا کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزتک پہنچا توحضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کوناڈو صاحب کیا یہ درست ہے کہ آپ انصار میں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس پر میں بالکل بے خود سا ہو گیا۔ کیونکہ انہوں نے انہیں الفاظ میں دعا کی تھی کہ میں انصار میں جا رہا ہوں اور اس سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے مصافحہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو اس بات کا علم کیسے ہوا۔ پھر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ازراہِ تفنن ان سے فرمایا کہ گھانین (Ghanian)اور افریقن لوگ انصار میں جانا پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ جس قدر ہو سکے تاخیر سے انصار میں شامل ہوں۔ اس پر وہ ہنس پڑے اور حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے بھی تبسم فرمایا اور حاضرین بھی محظوظ ہوئے۔ پھر اگلے ہی لمحے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنا دست مبارک ان کی طرف بڑھایا اور فرمایا کہ آئیں مصافحہ کر لیں اور پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نہ صرف یہ کہ مصافحہ کا شرف بخشا بلکہ بہت محبت سے ان کا بازو بھی پکڑ لیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کچھ دیر تک ان کا بازو پکڑ کر رکھا اور اسی دوران کسی نے ان کی تصویر بنا لی۔ انہوں نے بتایا کہ عابد صاحب یہ وہ فوٹو ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ لمحات ہیں جو ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں قبول فرمائیں۔ یہ ایک خوبصورت واقعہ تھا اور خاص طور پر جس طرح انہوں نے بیان کیا تو یہ اور بھی زیادہ ایمان افروز بن گیا۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۲تا ۲۷؍اگست ۲۰۲۱ءصفحہ٥۲)

’’اس لمحہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ الفاظ استعمال کرنے چاہئیں ‘‘

مکرم عابد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ ناظرین نے کینیڈا میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا وہ کلپ دیکھا ہو گا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے امریکہ میںCivil Warکا ذکر فرمایا تھا۔ ۲۰۱٦ء میں جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکینیڈا کا دورہ فرما رہے تھے اور میڈیا بہت کثرت سے اس کی تشہیر کر رہا تھا۔ کینیڈا کی پریس ٹیم کی خواہش تھی کہ Peter Mansbridgeحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا ایک انٹرویو کریں کیونکہ وہ کینیڈا کی صحافت میں ایک بہت بڑا نام ہیں اور کئی نہایت اہم مواقع پر وہ میزبانی کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں اور دنیا کے کئی مشہور راہ نما ؤں کے انٹرویو کر چکے ہیں۔ جب پریس ٹیم نے ان کو بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکینیڈا تشریف لائے ہوئے ہیں تو انہوں نے بہت خوشی کے ساتھ حضورِ انور کا انٹرویو کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔چنانچہ انٹرویوکے انتظامات کیے گئے جو مسجد بیت الاسلام (Peace Village)میں ہوا۔

اس انٹرویو کے اختتام پر موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے امریکہ میں ہونے والے صدارتی الیکشن کے بارے میں دریافت کیا جن میں Donald TrumpنےHillary Clintonسے مدمقابل ہونا تھا اور Donald Trumpنے الیکشن سے قبل مسلمانوں کے بارے میں اور دیگر اقوام و نسل کے لوگوں کے بارے میں کافی اشتعال انگیز بیانات دیے تھے۔ تو اس پر موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی رائے طلب کی کہ Donald Trumpکے صدر منتخب ہونے کی صورت میں کیا حالات ہوں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ اگر وہ اس طرح کی پالیسیزپر عمل درآمد کرے گا۔ اس طرح لوگوں میں اشتعال پیدا کرتا رہا اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے تقسیم کر دے گا تو مجھے تو ایک Civil Warہوتی نظر آرہی ہے۔ ان الفاظ کے سنتے ہی اس سینئر صحافی نے حیرانی سے پوچھا ?Civil Warیعنی شاید حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو لفظ کے چناؤ میں کوئی غلطی لگ گئی ہو۔ تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نہایت اطمینان سے فرمایا کہ ہاں، اگر ایسی پالیسیز پر عملدرآمد ہو تو وہ Civil Warپر ہی منتج ہوتی ہیں۔اس صحافی نے پوری احتیاط سے اس کلپ کو نشر کیا کہ یہ کہیں نشر ہونے سے رہ نہ جائے۔اور مجھے خوشی ہے کہ اس کلپ کو نشر کیا گیا۔کئی احمدیوں نے بھی مجھ سے رابطہ کیا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی Civil Warسے کیا مراد تھی۔کیا واقعی یا محض حالات کی خرابی کی طرف اشارہ ہے۔

پھر جب Donald Trumpصدر بن گئے اور اگلے چار سالوں میں بظاہر ایسی پالیسیز بنتی رہیں جو امن عامہ کے حق میں تھیں اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے تھیں۔ یہاں تک کہ George Floyd والا واقعہ رونما ہوا اور اس کی وجہ سے نسلی فسادات ہوئے اور خطرات نے جنم لیا اور اس دَور کا اختتام ٦؍جنوری۲۰۲۱ءکو ہوا۔جب اگلا الیکشن ہارنے کے بعد Donald Trumpنے دعویٰ کیا کہ وہ اصل میں الیکشن جیت گیا ہے۔اور اس کے ہزاروں حامیوں نے Capitol Hillکو یرغمال بنا لیا جیسا کہ ۱٥۰سال قبلCivil Warکی صورت میں ہوا تھا۔ ان گذشتہ چار سالوں میں اس قدر بد امنی، اشتعال انگیز تقسیم کو ہوا دی گئی تھی کہ اب میڈیا میں کثرت سے امریکہ میںCivil Warکے خطرات کے بارے میں خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اب حیرت کی بجائے یقین سے Civil Warکے خطرات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ دو سے تین سال بعد جب میں نےCivil Warکی خبروں کے متعلق حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بتایا کہ کس طرح دوسرے لوگوں نے بھی Civil Warکے خطرات کی گھنٹی بجا دی ہے تو میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے جواب سے حیران رہ گیا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ میں نے یہ لفظCivil Warبولا تھا تو میں خود بھی حیران ر ہ گیا تھا کیونکہ یہ ایسی چیز نہیں تھی جس کے بارے میں مَیں نے کبھی سوچا ہو کہ امریکہ میں کبھیCivil Warہوگی۔ اس لمحہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ الفاظ استعمال کرنے چاہئیں اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ اب میڈیا اور دوسرے لوگ بھی اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۲تا ۲۷؍اگست ۲۰۲۱ء صفحہ٥۳)

’’اگر آپ اس کو رکھیں گے تو یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا ‘‘

ایک گیمبین (Gambian)دوست بیان کرتے ہیں کہ ان کی اہلیہ امید سے تھیں تو ڈاکٹروں نے کچھ ٹیسٹ کیے اور ان کو بتایا کہ رپورٹس نہایت مایوس کن ہیں اور ان کا بچہ معذور پیدا ہوگا اور اب آپ کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک ہفتہ کا وقت ہے کہ آپ اس بچے کو رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ یہ بچہ نارمل زندگی نہیں گزار سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب پریشان تھے اور گھر گئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ ہم یہ فیصلہ نہیں کریں گے۔ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے راہنمائی لیں گے۔ کچھ دنوں کے بعد جب ڈاکٹر کے پاس گئے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ ہمارے خلیفہ جو بھی فیصلہ کریں گے وہی ہمارا فیصلہ ہو گا۔ کیونکہ خلیفۃ المسیح ہمارے روحانی لیڈر اور راہنما ہیں اور جب تک وہ کوئی فیصلہ نہیں فرماتے میں انتظار کروں گا۔ بالآخر وہ دن آگیا جب بہرحال ان کو کوئی حتمی فیصلہ کرنا تھا۔ چنانچہ اس سے ایک دن پہلے شام کو انہیں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے کال موصول ہوئی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرما یا ہے کہ اگر آپ ایک مخلص احمدی ہیں تو اس بچے کو ضائع نہ کریں۔ اگر آپ اس کو رکھیں گے تو یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ان الفاظ کے ساتھ ہی ساری پریشانیاں ہَوا ہو گئیں۔اور حتمی فیصلہ کے بارے میں سب خیالات صاف ہو گئے۔ اگلے دن جب وہ ڈاکٹر کو یہ بتانے کے لیے گئے کہ ہم اس بچے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر نے آکر ان کو مبارکباد دی اور کہا کہ گذشتہ ٹیسٹ کے بعد آج کچھ مزید ٹیسٹ کیے ہیں اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہماری پہلی رپورٹس بالکل غلط تھیں اور بچہ بالکل ٹھیک ہے اور ہم ایک نارمل اور صحت مند بچے کی پیدائش کی توقع رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر کو کہا کہ جو تم مجھے بتا رہے ہو وہ میرے لیے حیرت کا باعث نہیں ہے مجھے اس بات کا گذشتہ روز سے پتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کیا مطلب ہے آپ کا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے بڑے فخر سے ان کو بتایا کہ میرے خلیفہ کی طرف سے مجھے کل ہی ایک پیغام موصول ہوا ہے کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی اور آپ مجھے اب بتا رہے ہیں۔ اس پر اس ڈاکٹر کا رویہ بہت اچھا ہو گیا اور وہ اسلام اور خلیفۃ المسیح کے بارے میں پوچھتے رہے اور بعد میں ان کی بیٹی کی پیدائش بالکل نارمل ہوئی اور وہ بالکل ٹھیک ہے اور بہت اچھی پڑھائی کر رہی ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۲تا ۲۷؍اگست ۲۰۲۱ء صفحہ٥۱)

اب اس بچے کو کچھ نہیں ہوگا

مکرم محمد حمید کوثر صاحب بیان کرتے ہیں کہ محمد شریف عودہ امیرجماعت احمدیہ کبابیر نے خاکسار(محمد حمید کوثر) کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اُن کا بیٹا بشیر الدین عودہ جس کی عمر اس وقت ۱۲ سال تھی کھیلتے کھیلتے اچانک سینہ میں تکلیف محسوس کرنے لگا۔فوراً ہسپتال لے جایا گیا اور وہاں تمام ٹیسٹ مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے دل کی شریان میں ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے خون ٹھیک سے نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس کا آپریشن کرنا ہو گا۔اس کے علاوہ کوئی علاج نہیں ہے۔اور آپریشن کافی خطرناک ہے۔ان کے تمام ٹیسٹ کی رپورٹ امریکہ کے ماہرین کو بھیجی گئی اور اُنہوں نے بھی یہی کہا کہ آپریشن کرنا ہو گا۔عودہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپریشن سے پہلے میں بیٹے کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس لندن لے جاؤں اور حضور سے درخواست کروں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی انگوٹھی اس کے سینے پر رکھ کر دعا فرمائیں۔عودہ صاحب نے بتایا کہ بہرحال خاکسار بیٹے کو لےکر لندن گیا اور حضور سے ملاقات کے دوران اس کے دل کی بیماری کا ذکر کیا اور ڈاکٹروں کی تجویز آپریشن کا ذکر کیا۔مگر خلافت کے ادب کی وجہ سے میں یہ نہ کہہ سکا کہ اس کےسینہ پر انگوٹھی رکھ کر دعا فرمائیں۔مگر دل میں شدید تڑپ تھی کہ ایسا ہی ہو۔بہر حال حضور انور نے بعض سوالات پوچھے اور دعا فرمائی جیسے ہی شریف عودہ صاحب اور ان کا بیٹا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دفتر سے نکلنے لگے تو حضور نے بیٹے کو بلایا اور اس کی قمیض کے اوپر کے بٹن کھول کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی انگوٹھی اُس کے سینہ پر رکھ کر دعائیں کیں۔امیر صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد میرا دل بالکل مطمئن ہو گیا کہ اب اس بچے کو کچھ نہیں ہوگا۔اور حضور انور کی دعا کی وجہ سے یہ ٹھیک ہو جائے گا۔(اِن شَاء اللہ تعالیٰ)جب واپس کبابیر آیا اور بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا تو تمام ڈاکٹرز حیران رہ گئے کہ اس بچے کی حالت تو بالکل نارمل ہے اور کسی قسم کے آپریشن کی ضرورت نہیں۔(ہفت روزہ اخبار بدر مسیح موعود نمبر۱۰ ۱۷؍ مارچ ۲۰۲۲ء صفحہ۳۲)

stop them (ان کو روک دیں)

نیپال میں زلزلہ آیا تھا اور ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کے ڈاکٹر ز کی ٹیم وہاں جانے والی تھی۔جہاز کی سیٹیں بک ہو چکی تھیں۔بلکہ ایئرلائن والوں نے آفر بھی دے دی تھی کہ آپ خدمت خلق کےلیے جا رہے ہیں بے شک تین چار سو کلو سامان لے جائیں۔یہ سامان فری جائے گا۔ہیومینٹی فرسٹ کی اس ٹیم میں چار یا پانچ جرمن ڈاکٹرز بھی تھے۔روانگی سے عین ایک دن قبل چیئر مین ہیومینٹی فرسٹ جرمنی نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اپنا اس سفر کا پروگرام بھجوایا کہ اس طرح ڈاکٹروں کی ٹیم کل نیپال روانہ ہو رہی ہے۔اس پر حضور انور نے فرمایاstop them (ان کو روک دیں)

چیئر مین ہیومینٹی فرسٹ بتاتے ہیں کہ ہم نے فوراً تعمیل کی اور فوری اپنا سفر کینسل کر دیا۔ڈاکٹر چونکہ جرمن تھے وہ پریشان ہوئے کہ کیا وجہ ہے؟بہر حال پروگرام ختم کر دیا گیا۔اب آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے جس جہاز میں انہوں نے سفر کرنا تھا اس میں بعض دوسری NGOsبھی سفر کر رہی تھیں۔جب جہاز نیپال کے ایئرپورٹ پر اُترا تو ان NGOs میں کسی کو بھی نیپال حکومت نے اپنے بعض ملکی حالات کی وجہ سے ملک میں داخلہ کی اجازت نہ دی۔چنانچہ ان سب کو ایئرپورٹ سے واپس آنا پڑا۔ اب دیکھیں خلیفہ وقت کے ارشاد stop themنے ہماری ہیومینٹی فرسٹ کی ٹیم کو کتنی بڑی پریشانی سے بچالیا ورنہ ان کو بھی اتنے لمبے سفر کے بعد ایئر پورٹ سے ہی واپس آنا پڑنا تھا۔( مکتوب وکالت تبشیر اسلام آباد یو۔ کے ۲٤ ستمبر ۲۰۱۹ء بحوالہ ہفت روزہ اخبار بدر مسیح موعود نمبر ۱۰۔ ۱۷؍مارچ ۲۰۲۲ء صفحہ۳۳-۳٤)

اگر وہ صلح کی طرف مائل ہے تو صلح کر لو

کینیڈا کی ڈرہم (Durham)جماعت سے ایک خاتون نے ایک مربی صاحب کو اپنا واقعہ سنایا۔ یہ واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ اس میں وہ کہتی ہیں کہ چند سال پہلے ہماری عائلی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے اور آپس میں اس قدر شدید اختلافات پیدا ہو گئے کہ مَیں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں نے اس بندے کے ساتھ نہیں رہنا اور میں نے اب علیحدہ ہونا ہے۔ اسی دوران حضور کا کینیڈا کا دورہ آ گیا۔ حضور تشریف لائے۔ میں نے بھی ملاقات کی درخواست کی اور ملاقات میں حاضر ہوئے تو میں نے یہ ساری صورتحال، کیفیت بیان کی اور بچوں کے لیے دعا کی درخواست کی اور حضور کی خدمت میں تو فیصلہ بھی سنا دیا کہ میں نے تو علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حضور نے فرمایا تمہارا خاوند کیا کہتا ہے؟ تو خاتون کہتی ہیں میں نے کہا وہ تو صلح کی طرف مائل ہے لیکن میں نے بس اب آخری فیصلہ کر لیا ہے، کوئی صلح نہیں، کوئی واپسی نہیں۔ حضور نے اس وقت فرمایا اگر وہ صلح کی طرف مائل ہے تو صلح کر لو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ کہتی ہیں کہ یہ عجیب ہے کہ میں نے عرض کیا کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے، سب کچھ ختم ہو گیا ہے اورحضور فرما رہے ہیں کہ نہیں صلح کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ تو کہتی ہیں اب میرے سامنے سوائے سرِ تسلیم خم کرنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے ملاقات سے نکل کر خود ہی خاوند کو فون کیا اور اس سے صلح کر لی۔اللہ تعالیٰ نے حضور کے ان الفاظ میں ایسی تسکین رکھی اور ان الفاظ کو ایسی برکت بخشی کہ اس صلح کے بعد ہماری زندگی ہی بدل گئی ہے۔اب ہمارے درمیان ایک ایسے پیار اور محبت اور مودّت سے معمور تعلق کی بنیاد پڑ گئی ہے کہ ایسے لگتا ہے جیسے ہر روز ہماری شادی ہو رہی ہے۔ کاش وہ لوگ جو خلافت کی اس نعمت سے محروم ہیں وہ یہ سمجھ سکیں کہ ایسے مواقع پر جب انہیں سمجھانے والا، ان کے لیے دعائیں کرنے والا اور ان کو تسکین کے کلمات عطا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تو احمدیوں کے پاس ان کا خلیفہ ہوتا ہے جو ایک عظیم الشان نعمت کی طرح میسر ہے اور یہ خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ کی نعمت ہے اور یہی نعمت وجہ تسکین جان ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ٤؍مارچ۲۰۲۲ء صفحہ۱۱)

زخم کا نشان تک نہ تھا

مکرم عابد وحید خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۲۰۱٦ء میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسویڈن کا دورہ فرما رہے تھے اور حسب معمول بہت سا وقت فیملی ملاقاتوں میں صرف ہو رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملاقات کرنے والوں میں ایک دوست اس وقت صدر مجلس خدام الاحمدیہ فن لینڈ جماعت تھے جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملنے سویڈن آئے تھے۔ ملاقات کے بعد جب وہ مجھے ملے تو وہ بہت جذباتی کیفیت میں تھے اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ چند روز پہلے گھر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے ان کی انگلی پر کافی گہرا زخم آیا تھا اور گذشتہ دنوں میں وہ انگلی مزید خراب ہو تی گئی اور انفیکشن بہت بڑھ گیا اور انہیں خوف پیدا ہوا کہ کہیں ملاقات رہ نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ملاقات سے قبل اپنی انگلی پر اچھی طرح پٹی کی اوردوران ملاقات میں نے اپنے زخم کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو نہیں بتایا اور جماعتی امور کے متعلق راہنمائی حاصل کرتا رہا۔ ملاقات کے اختتام پر جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ تصویر بنانے کا وقت آیا تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے میرا ہاتھ پکڑا ا ور زخم والی انگلی کو اس زور سے دبایا کہ میری درد کی انتہانہ رہی اور جب تصویر بن چکی تو میری درد بالکل ختم ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان لمحات میں کچھ ایسا ہوا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے فوراًبعد الگ ہو کر انہوں نے اپنی پٹی کھولی تو اس انگلی میں زخم یا انفیکشن کا نشان تک باقی نہ رہا تھا اور انہوں نے مجھے اپنے موبائل فون پر اس زخم کی اسی دن صبح کے وقت لی جانے والی تصویر دکھائی تو وہ ایک گہرا زخم تھا اور اس وقت جب میں ان کا ہاتھ دیکھ رہا تھا وہاں زخم کا نشان تک نہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں اپنے بچوں کو بتاؤں گا اور وہ اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ یہ ایسا واقعہ ہے جو ہمارے خاندان میں احمدیت کو نسلوں تک قائم رکھے گا۔ انشاء اللہ۔کیونکہ آج ہم نے خلافت احمدیت کی برکت اپنی ذات میں محسوس کی ہے۔ اگرچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو اس زخم کا علم نہ تھا مگر کچھ ایسا ہوا کہ میں نے خلافت کی سچائی کا ایک رنگ دیکھا ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۲تا ۲۷؍اگست۲۰۲۱صفحہ٥۱)

’’ایک دو Rodلگائیں گے اور سب ٹھیک ہو گا ‘‘

مکرم عابد وحید خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۲۰۱۹ء میں ہالینڈ کا دورہ فرمارہے تھے۔ میری ملاقات ایک احمدی دوست سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے گذشتہ دورہ ۲۰۱٥ء میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکو ملنے کے لیے گئے تھے اور بیٹے کی عمر پانچ یا چھ سال تھی۔ اس بچے کی پیدائش کے وقت کچھ موروثی بیماریاں(Genetic illnesses) لاحق تھیں جس کی وجہ سے اس کی جسمانی بڑھوتری اثر انداز ہوئی تھی۔ اس کو ہڈیوں کے مسائل تھے اور کمر بھی جھکی ہوئی تھی۔ ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ یہ ایسا مرض ہے کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بگڑتا جائے گا اور یہ بچہ بالآخر مفلوج ہو جائے گا۔ بلاشبہ یہ کیفیت کسی بھی بچے کے والدین کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ۲۰۱٥ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملنے کے لیے گئے اور اپنے بچے کی ساری کیفیت بیان کر کے اس کے لیے دعا کی دردمندانہ درخواست کی۔ اس پر حیران کن طور پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا ’’کچھ نہیں ہوتا۔ ایک دو Rodلگائیں گے اور سب ٹھیک ہو گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ ہم اتنے عرصے سے ڈاکٹرز سے مل رہے ہیں اور کبھی کسی نے Rodsکا ذکر نہیں کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے الفاظ میں اس قدر اعتماد اور سکو ن تھا کہ سب ٹھیک ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ چند ہفتے کے بعد جب ہم ڈاکٹر کو ملنے گئے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے آپ کے بچے کا کیس دوبارہ دیکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر اس کی کمر کے ساتھ دو Rodsلگائے جائیں تو اس کی زندگی نارمل ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جونہی انہوں نے Rodsکا لفظ بولا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے الفاظ ہیں جو پورے ہونے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ بالکل یہی سرجری ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ پھر دوران گفتگو (۲۰۱۹ء میں، چار سال بعد) انہوں نے اپنے بیٹے کو آواز دے کر بلایا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ وہ بالکل ٹھیک تھا، صحت مند تھا اور بالکل سیدھا کھڑا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کو اس آپریشن کی کامیابی کی امید تھی مگر اس قدر اچھے نتائج ان کے لیے بھی حیران کن تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح کی دعائیں اور راہ نمائی ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۲تا ۲۷؍اگست۲۰۲۱صفحہ٥۱)

مجھے میرے سارے سوالوں کا جواب مل گیا

محترم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات بعض احباب لکھتے ہیں، مرد بھی لکھتے ہیں، عورتیں بھی لکھتی ہیں، بچے بھی بعض اوقات لکھتے ہیں کہ ہمارے دل میں ایک سوال تھا اور ہم پوچھ نہیں سکے موقع نہیں ملا اور خط نہیں لکھ سکے۔ سوال ذہن میں تھا تو عجیب قدرت کا اظہار خدا کی طرف سے ہوا کہ اگلے جمعہ میں یا آئندہ کسی آنے والی تقریر میں مجھے میرے سارے سوالوں کا جواب مل گیا۔ یہ بھی خدا تعالیٰ نے ایک تعلق روحوں میں جو ہے وہ جوڑا ہوا ہے کہ جو دل بہ دل راہ دارد۔کہتے ہیں یا یہ کہ خدا تعالیٰ حضور کو لوگوں کے دلوں میں اٹھنے والے سوالات کے جواب کے لیے خود تیاری کرواتا ہے اور وہ وہ باتیں ہی بیان فرماتے ہیں جو بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہی ہوتی ہیں اور وہ اس کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہیں۔ کینیڈا سے ایک نوجوان نے لکھا کہ میں نے انتظامیہ کو ایسی ہی کسی اپنی ملاقات کے حوالے سے سوال بھیجا کہ اگر میں کسی چیز کے بارے میں کسی سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو کبر کا دل میں عارضی احساس ہوتا ہے۔ میں اس احساس سے کیسے بچوں؟خادم کہتے ہیں کہ میرا یہ سوال انتظامیہ نے ردّ کر دیا کہ یہ سوال حضرت صاحب کے سامنے کرنے والا نہیں تو مجھے یہ feeling ہوئی کہ شاید میں اتنا اچھا واقفِ نو نہیں ہوں جو انتظامیہ نے میرا سوال ردّ کر دیا ہے لیکن میں قربان جاؤں خدا کے اور خدا کے خلیفہ کے کہ حضور نے جلسہ سالانہ جرمنی پر جب گذشتہ دنوں تقریر کی تو کہتے ہیں کہ وہ خطاب تقویٰ کے متعلق تھا لیکن اس میں میرے سارے سوالوں کے جواب آ گئے اور مجھے بہت ہی تسلی ہوئی کہ یہ خدا کا خلیفہ ہے۔ خدا کا بنایا ہوا ہے تبھی ان کی زبان سے وہی باتیں جاری ہوتی ہیں جو ان کی جماعت کے احباب اپنے دلوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور اس کا جواب خدا تعالیٰ ان کو سمجھا دیتا ہے، خلیفۃ المسیح کی زبان سے سمجھا دیتا ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ۱٥؍ فروری ۲۰۲۲ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button