حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حصول علم کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرنی چاہیے

علم کے حصول کے لئے محنت کرو۔ اور اپنے علم میں اضافہ کی طرف تازندگی توجہ دیتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ فرماتاہے اور یہ فرمایاہے کہ کسی نفس کوتکلیف میں نہیں ڈالتا وہ۔ یعنی کسی شخص کو اُس وقت اس کا مکلّف نہیں کرتا اس کی جواب دہی نہیں کرتا جب تک کسی معاملہ میں اس کی وسعت اور صلاحیت اور استعدادنہ پیدا ہوجائے اس کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ حقیقی مومن کو علم کے حصول کی بھی کوشش کرنی چاہئے اور یہ صلاحیتیں پیدا کرنی چاہئیں اور حتی الوسع اپنے علم کو بڑھانے کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے۔ پس ایک تو وہ علم ہے جو کہ انبیاء کو خداتعالیٰ دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ کو عطا فرمایالیکن ساتھ ہی یہ دعا بھی سکھائی کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ اور دوسرے وہ علم ہے جو روحانی اور دنیاوی دونوں طرح پر ہے۔ جس کے لئے محنت کرنی چاہئے اور ساتھ ہی دعا بھی کرنی چاہئے ایک مومن کو بھی۔ اگر علم کے حصول کے لئے محنت کی ضرورت نہیں تھی تو پھر آنحضرتﷺ کا یہ فرمانا بے معنی ہے کہ علم حاصل کرو خواہ صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اور اس کے لئے سفر کرنے پڑیں۔ لیکن علم کے حصول کے لئے بھی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے دعا بھی سکھائی کہ صرف اپنے پر بھروسہ نہ کرو بلکہ علم کے حصول کے لئے دعاؤں سے بھی خداتعالیٰ کی مدد حاصل کرو اور پھر جب یہ کوشش ہو گی، ہر ایک اپنی اپنی استعدادوں اور وسائل کے لحاظ سے علم حاصل کرے گا تمہاری صلاحیتوں کو خداتعالیٰ نے ہر ایک کی مختلف رکھی ہیں۔ بچپن کی تربیت، اٹھان اور معاشرے کا بھی انسان پر اثر ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بھی درجے مقرر فرمائے ہیں کہ ہر ایک اپنی اپنی استعداد کے لحاظ سے علم حاصل کرے اور اس کے لئے کوشش کرے تو تب ہی تمہارے اندر وسعت پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے درجے مقرر فرما دئیے ہیں۔ یہ نہیں کہ کم ذہنی صلاحیتوں جو علم کی کمی کی وجہ سے یا قدرتی طور پر کسی میں ہیں یا ماحول کے اثر کی وجہ سے علم میں کمی ہے اُسے بھی اسی طرح مکلف کرے جتنا اعلیٰ ذہنی اور علمی صلاحیتوں والے کو اور جسے دینی اور دنیاوی علم حاصل کرکے حاصل کرنے کے تمام تر مواقع میسر آئے ہوں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی وسعت علمی کی وجہ سے تمام حالات کو جانتا ہے۔ اس لئے جب وہ مکلف کرتا ہے کسی کو تو وہ ان سب باتوں کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے جو کسی بھی انسان کے بارےمیں اس کے علم میں ہیں۔ اگر انسان اپنی صلاحیتوں کو جو خداداد ہیں اُس علم کے حصول کے لئے استعمال میں نہیں لاتا جس کے حاصل کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا تھا تو ایسا شخص پھرجوابدہ ہے یہاں لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا کامطلب یہی ہے کہ اپنے نفس کو تم نے اس طرح استعمال نہیں کیا جو اس کا حق بنتا تھا اور ایک مسلمان کہلانے والے کے لئے سب سے بڑھ کر دینی علم میں ترقی ہے جو اس کو کوشش کرنی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ ۲۹؍مئی ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍جون ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button