حضرت مصلح موعود ؓ

خلیفہ وقت کی مجلس میں بیٹھنے کے چند ضروری آداب (قسط دوم) (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۳ء )

(گذشتہ سے پیوستہ) پھر ایک اور ہدایت اس موقع کے متعلق میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ

اسلام نے اجتماع کے موقعوں پر حفظان ِصحت کا خصوصیت سے خیال رکھا ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ حفظانِ صحت کا خیال نہ صرف اپنی ذات کے لئے مفید ہوتا ہے بلکہ دوسروں پر بھی اس کا اچھا اثر پڑتا ہے۔ بعض لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور کئی قسم کی بدعنوانیاں کرنے کے باوجود ان کی صحت میں نمایاں خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ جس سے وہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ ان پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑا اس لئے دوسروں پر بھی کوئی خراب اثر ان کی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ دنیا میں سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے اندر بیماریوں کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔ اور اپنی قوت کی وجہ سے وہ ان کا اثر محسوس نہیں کرتے مگر ان سے ملنے والے ان کے اثرات سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے رسول کریم صلى الله عليہ وسلم نے جمعہ اور عیدین کے موقع پر فرمایا کہ نہا کر آؤ،اچھے کپڑے پہن کر آؤ، خوشبو استعمال کرو اور ان امور کی تاکید کی۔(بخاری کتاب الجمعۃ باب الدھن للجمعۃ)آپؐ خود ہمیشہ غسل کرتے اور دوسروں کو غسل کرنے کی تاکید فرماتے۔ خوشبو استعمال کرتے اور دوسروں کو خوشبو لگانے کی تاکید کرتے۔ حالانکہ جمعہ یا عیدین کے ساتھ غسل کی کوئی خصوصیت نہیں۔ ہر وقت انسان غسل کر سکتا ہے اور ہر وقت خوشبو استعمال کر سکتا ہے۔ جمعہ اور عیدین کے ساتھ غسل جو رکھا گیا ہے وہ محض اس لئے کہ ان موقعوں پر جبکہ اژدہام ہوتا ہے کئی لوگوں کو جِلدی بیماریاں ہوتی ہیں، بعضوں کو کھجلی ہوتی ہے، بعضوں کو بغل گند کی شکایت ہوتی ہے، بعضوں کے ہاتھ یا منہ وغیرہ میں بیماری ہوتی ہے، مگر تازہ بتازہ غسل کے ساتھ کچھ عرصہ کے لئے اس قسم کی بیماریاں دب جاتی ہیں۔ اور پاس بیٹھنے والے اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتے جتنی دوسری صورت میں کر سکتے ہیں۔ یا مثلاً رسول کریم صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسجد میں گندنا[گندنا: ایک ترکاری کا نام جو لہسن سے مشابہ ہوتی ہے]، پیاز اور لہسن وغیرہ ایسی چیزیں کھا کر مت آیا کرو۔ یہ چیزیں اپنی ذات میں مضر نہیں لیکن اِن کی بو سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور رسول کریم صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا ان کے کھانے سے فرشتے نہیں آتے۔(مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ باب نھی من اکل ثومًا او بصلًا او کراثًا او نحوھا)

جس کے معنی یہ ہیں کہ

جب کوئی شخص اپنے بھائی کو تکلیف دیتا ہے تو خداتعالیٰ کے ملائکہ اس سے الگ ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک مثال ہے جو رسول کریم صلى الله علیہ وسلم نے دی۔ ورنہ اگر کسی کو کوئی ایسی بیماری ہے جس سے بُو پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کا وقتی علاج کر کے بھی مجلس میں نہیں آتا تو وہ بھی فرشتوں کی معیت سے محروم رہتا ہے۔ عام طور پر مَیں دیکھتا ہوں ہمارے ملک میں پچانوے فیصدی لوگوں کے منہ سے بدبُو آتی ہے۔ یہ بدبُو کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ محض اس بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ کھانے کے بعد کُلّی نہیں کرتے۔ یا درمیانی وقفوں میں اگر مٹھائی یا کوئی میوہ وغیرہ کھاتے ہیں تو اس کے بعد منہ کی صفائی نہیں کرتے۔ یا لمبے عرصہ تک خاموش رہنے اور منہ بند رکھنے کے بعد بھی منہ میں بدبُو پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ بھی صفائی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اور جب مجلس میں ایسے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے تو ہر ایک کی تھوڑی تھوڑی بُو مل کر ایسی تکلیف دہ چیز بن جاتی ہے کہ بیسیوں کمزور صحت والوں کو سردرد، نزلہ اور کھانسی وغیرہ کی شکایت ہو جاتی ہے۔

اسلام نے ہمارے لئے ہر بات کے متعلق احکام رکھے ہیں۔ یہ احکام بیکار اور فضول نہیں بلکہ نہایت ضروری ہیں۔ اور انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مجموعہ کا نام اسلامی تمدن ہے۔

اسلامی تمدن نماز کا نام نہیں، روزے کا نام نہیں، زکوٰۃ کا نام نہیں بلکہ ان چھوٹے چھوٹے احکام کے مجموعہ کا نام ہے جو ایسا تغیر پیدا کردیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے وہ سوسائٹی دوسری سوسائیٹیوں سے نمایاں اور ممتاز نظر آتی ہے۔

یورپین لوگ یوں تو صفائی کے بڑے پابند ہیں۔ مگر کھانا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کرنے کے وہ بھی عادی نہیں۔ اور اس وجہ سے اگر ان کے اُن پوڈروں اور بوڈی کلون وغیرہ خوشبوؤں کو نکال دیا جائے جو وہ اپنے چہروں پر ملتے ہیں تو صاف طور پر ان کے منہ سے بدبو محسوس ہوتی ہے۔ اب چونکہ انہیں ہندوستانیوں سے ملنے کا موقع ملا ہے، اس لئے آہستہ آہستہ ان میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے اور مجھے بھی بعض انگریزوں سے ملنے کا موقع ملا ہے میں نے دیکھا ہے کہ اب مسلمانوں سے مل کر وہ صفائی کے اس پہلو کو بھی سیکھ رہے ہیں۔ غرض مجلس میں آنے والوں کو یہ امور مد نظر رکھنے چاہئیں اگر کسی شخص کو بغل گند ہو یا اُس کے ہاتھوں کی انگلیاں خراب ہوں اور ان میں ایسی بُو ہو جو دوسروں کو ناگوار گزرے تو اسے چاہیے کہ وہ ایسی صفائی کے بعد مجلس میں آئے جس سے اس کے اثر کو کم سے کم مُضِرّ بنایا جاسکے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے لیکن اگر کسی کو علاج میسر نہیں آتا تو وہ عارضی صفائی کے بعد مجلس میں آیا کرے۔

پھر مجلس میں ان چیزوں کے بعد ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب لوگ بیٹھتے ہیں تو ایسا تنگ حلقہ بناتے ہیں کہ اس میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ مجلس میں زیادہ دیر بیٹھنے کو میرا جی چاہا مگر تنگ حلقہ کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں مجھے سردرد ہو گیا اور میں اُٹھنے پر مجبور ہو گیا۔ اور بسا اوقات میں صحت کے ساتھ مجلس میں بیٹھتا ہوں اور بیمار ہو کر اُٹھتا ہوں۔ ہر شخص اپنے اخلاص میں یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں ایک انچ آگے بڑھ گیا تو کیا نقصان ہے۔ اور اس طرح ہر شخص کے ایک ایک انچ بڑھنے سے وہی مثال ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک شخص کو وہم کی بیماری تھی۔ وہ جب باجماعت نماز میں کھڑا ہوتا تو کہتا ’’چار رکعت نماز فرض پیچھے اس امام کے‘‘اور پھر خیال کرتا کہ امام اور میرے درمیان تو کئی صفیں ہیں، نیت ٹھیک نہیں ہوئی۔ یہ خیال کرکے وہ بڑھتے بڑھتے پہلی صف میں آجاتا۔ اور امام کی طرف اشارہ کر کے کہتا پیچھے اس امام کے۔ آخر اس طرح بھی اس کی تسلی نہ ہوتی تو وہ امام کو ہاتھ لگا کر کہتا پیچھے اس امام کے۔ پھر بڑھتے بڑھتے اس کے وہم کی یہاں تک کیفیت ہو جاتی کہ وہ امام کو دھکے دینے لگ جاتا اور کہتا جاتا پیچھے اس امام کے۔ ہر شخص مجلس میں آگے آنا چاہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میرے ذرا سا آگے بڑھنے سے کیا نقصان ہو جائے گا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ

حلقہ نہایت ہی تنگ ہو جاتا ہے اور صحت پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے۔

مگر علاوہ اس کے کہ صحت کے لئے یہ مفید بات نہیں اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ آدمی اس حلقہ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ مجھے ایسے حلقہ میں سخت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مجھے گلے اور آنکھوں کی ہمیشہ تکلیف رہتی ہے۔ پھر یہ حلقہ تو بڑی بات ہے میری تو یہ حالت ہے کہ اگر لیمپ کی بتی خفیف سی بھی اونچی رہے اور اس سے ایسا دُھواں نکلے جو نظر بھی نہ آسکتا ہو، تو مجھے شدید کھانسی اور نزلہ ہو جاتا ہے۔ ناک کی حِسّ اللہ تعالیٰ نے میری ایسی تیز بنائی ہے کہ میں دوسرے لوگوں کی نسبت کئی گُنے زیادہ بُو یا خوشبو محسوس کرلیتا ہوں۔ یہاں تک کہ جانوروں کے دودھ سے پہچان لیتا ہوں کہ انہوں نے کیا چارہ کھایا ہے۔ جس شخص کے ناک کی حِسّ اتنی شدید واقع ہو وہ اس قسم کی باتوں سے بہت زیادہ تکلیف محسوس کرتا ہے۔

ایک اور ادب مجلس کا یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے

مجلس کو مفید بنانا چاہیے۔ اور خصوصاً جو باہر سے دوست آئیں اُنہیں چاہیے کہ اپنی مشکلات پیش کرکے میرے خیالات معلوم کرنے کی کوشش کیا کریں۔

بہت لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ بے ادبی ہے مگر میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بے ادبی نہیں بلکہ مجلس کو مفید بنانا ہے۔ میں نے دیکھا ہے بسا اوقات مجلس میں دوست خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور مَیں بھی خاموش بیٹھا رہتا ہوں۔ میری اپنی طبیعت ایسی ہے کہ میں گفتگو شروع نہیں کر سکتا۔ اس مقام کے لحاظ سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ بولوں مگر طبیعت کی اُفتاد ایسی ہے کہ کوشش کے باوجود میں کلام شروع نہیں کر سکتا۔ اور جب کوئی شخص سوال کرے تبھی میرے لئے گفتگو کا راستہ کھلتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جو دوست باہر سے آیا کرتے تھے، وہ مشکل مسائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کرتے اور اس طرح گفتگو کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور بعض دوست تو عادتاً بھی کر لیا کرتے اور جب بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھتے کوئی نہ کوئی سوال پیش کر دیا کرتے۔ مجھے ان میں سے دو شخص جو اس کام کو خصوصیت سے کیا کرتے تھے اچھی طرح یاد ہیں۔ ایک میاں معراج دین صاحب عمر جو آج کل قادیان میں ہی رہتے ہیں اور دوسرے میاں رجب الدین صاحب جو خواجہ کمال الدین صاحب کے خسر تھے۔ مجھے یاد ہے مجلس میں بیٹھتے ہی یہ سوال کردیا کرتے کہ حضور فلاں مسئلہ کس طرح ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مسئلہ پر تقریر شروع فرمادیتے۔ تو جو دوست باہر سے آتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے مطالب پیش کرنے کے علاوہ مشکل مسائل دریافت کیا کریں تاکہ مجلس زیادہ سے زیادہ مفید ہو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے۔ میں نے بتایا ہے کہ اول تو میری عادت ہے کہ میں گفتگو شروع نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر میں کبھی نفس پر زور دے کر گفتگو شروع بھی کردوں تو بھی مجھے کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ کسی کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔ گو ایسا بھی ہوتا ہے کہ

بسا اوقات اللہ تعالیٰ القاء اور الہام کے ذریعہ زبان پر ایسی گفتگو جاری کر دیتا ہے کہ جو اس وقت کی مجلس کے مطابق ہو۔

مگر پھر بھی کئی خیالات ایسے ہو سکتے ہیں جن کے متعلق کوئی شخص چاہتا ہو کہ وہ مجھ سے ہدایت لے لیکن سوال نہ کرنے کی وجہ سے وہ اس سے محروم رہے۔ پس باہر سے آنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس تبلیغی زمانہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے سوالات پوچھا کریں جن کے جوابات سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ مگر ایک چیز ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ بعض لوگ سوال تو کرتے ہیں مگر ان کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ مجھ سے کچھ سنیں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ اپنی سنائیں۔ بعض مبلّغین میں بھی یہ عادت پائی جاتی ہے۔ جب وہ میرے پاس آتے ہیں تو وہ شروع سے آخر تک مباحثہ کی روئداد سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں اس نے یہ اعتراض کیا میں نے یہ جواب دیا اس نے فلاں اعتراض کیا میں نے فلاں جواب دیا۔ اور اس ذریعہ سے وہ اپنی گفتگو کو اتنا لمبالے جاتے ہیں کہ وہ ملال پیدا کرنے والا طُول بن جاتا ہے اور پھر لوگوں کو بھی غصہ آتا ہے کہ یہ اپنی بات کیوں ختم نہیں کرتے۔ جو لوگ میرے پاس آتے ہیں ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مجھ سے کچھ سنیں یہ نہیں ہوتی کہ دوسروں کی سنیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی طرف سے خلاف آداب حرکات سرزد ہو جاتی ہیں۔ مثلاً یہی کہ کہتے ہیں جَزَاكَ اللّٰهُ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بس کریں اب ہم سے زیادہ باتیں نہیں سنی جاتیں۔ مگر وہ بھی اپنی طبیعت کے ایسے پختہ ہوتے ہیں کہ جَزَاكَ اللّٰهُ سے خوش ہو کر اور زیادہ باتیں سنانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جَزَاكَ اللّٰهُ تعریف کے لئے نہیں بلکہ گفتگو بند کرانے کے لئے کہا گیا ہے۔

(باقی آئندہ جمعرات)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button