تعارف کتاب

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۴۹) خطوط امام بنام غلام (مصنفہ حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی رضی اللہ عنہ )

(اواب سعد حیات)

حضرت حکیم محمد حسین قریشی صاحبؓ کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳؍ صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ آپؓ مئی ۱۸۶۹ء کو لاہور کے ایک متموّل خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپؓ نے طب کی تعلیم حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ سے لاہور اور سری نگر میں رہ کر حاصل کی تھی۔ حضرت حکیم محمد حسین قریشی صاحبؓ نے تئیس سال کی عمر میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ حافظ قرآن تھے۔ لاہور کے قائم مقام امیر بھی رہے۔ ۱۹۲۴ء میں لاہور کی احمدیہ مسجد تعمیر کروائی۔الغرض آپ ایک غیر معمولی زندگی گزار کر ۱۲؍اپریل ۱۹۳۳ء کو ۶۳؍سال کی عمر میں فوت ہوئے۔

شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگرمل نے اپنی تالیف ’’لاہور۔تاریخ احمدیت‘‘کے صفحہ ۱۵۶ سے صفحہ ۱۶۸ تک آپ کے تفصیلی اور ایمان افروز حالات درج فرمائے ہیں۔

حضرت حکیم محمد حسین قریشی صاحبؓ اُن خوش نصیب اصحاب میں سے تھے جن کو بعض اہم مواقع پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے ہاتھ سے خط لکھا کرتے تھے۔ لاہور سے متعلق جو بھی کام ہوتا حضورؑ بے تکلفی سے حضرت قریشی صاحب کو لکھ دیاکرتے تھے۔ مورخہ ۹؍جولائی ۱۹۰۹ء کو اس مختصر کتاب کے پیش لفظ میں آپ لکھتے ہیں کہ’’ المکتوب نصف الملاقات، ایک مشہور مقولہ ہے جس کے صحیح ہونے میں کسی تامل کی گنجائش نہیں۔ اسی خیال سے میں نے بدر کے کسی نمبر میں بھائیوں سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نورٌ من اللّٰہ الاحد والصمد علیہ الصلاۃ والسلام کے وہ کرم نامے اور وہ پاک الفاظ جو آنجناب نے وقتاً فوقتاً مجھے تحریر فرمائے ہیں، عنقریب شائع کر کے عاشقان صادق کی خدمت میں پیش کروں گا۔سو الحمدللہ کہ آج اس عہد سے سبکدوش ہوتا ہوں۔

اگرچہ مجھے خدا کے فضل سے یقین ہے کہ بہت ساری سعید روحیں اور پاک فطرت لوگ ان کلمات اور خطوط سے بہت فائدہ اور کئی سبق حاصل کریں گے۔ مثلاً غور اور فکر کرنے والے لوگ دیکھیں گے کہ حضرت اقدسؑ کی کوئی تحریر بھی خواہ وہ کیسی ہی مختصر کیوں نہ ہو شروع ہمیشہ بسم اللہ اور درود شریف سے ہوگی۔ معاملات کی صفائی، اپنے خادم مریدوں سے اخلاق اور برتاؤ،رضا بقضا وغیرہ بہتیری باتیں ایسی ہیں کہ جو ایک متقی دل کے لیے رہنمائی کا کام دیں گی۔ مگر چونکہ طبیعتیں اور مذاق مختلف ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی کوتا ہ نظر انسان کو بدظنی کا موقع ملے اور یہ خیال پیدا ہو کہ ان خطوط کو صرف اپنے دنیاوی فائدہ اور شیخی دکھلانے کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ سو میں بغرض ان کی بھلائی کے اس کا جواب بھی عرض کر دیتا ہوں کہ شیخی ویخی تو ہرگز نہیں۔ہاں مجھے اس کا فخر ضرور ہے اور میں بےحد مسرور ہوں کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ انسان نے مجھے اپنی بعض خدمات کے لیے ہمیشہ پسند فرمایا ہے۔ واما بنعمة ربک فحدث۔ اور میں اس کو منجملہ ہزار ہا اور بے اندازہ فضلوں کے اپنے مولا کریم کی طرف سے ایک انعام سمجھتا ہوں۔

رہا دنیاوی فائدہ۔ مجھے اس کے لینے میں بھی کوئی انکار نہیں اور میں دن رات کوشش کرتا ہوں اور دعا بھی کرتا ہوں جیسا کہ علیم و خبیر خدا نے خود ہی سکھائی ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ:۲۰۲) پس اگر اس کے شائع کرنے سے مجھے کوئی دنیاوی فائدہ بھی پہنچے اور پہلے سے زیادہ مال و دولت ملنے لگے تو زہےقسمت۔ چشم ما روشن۔ دل ماشاد۔ ذالک فضل اللہ العظیم۔

محمد حسین قریشی مالک کارخانہ رفیق الصحت،حویلی کابلی مل۔لاہور‘‘

حضرت مسیح موعودؑ کے پاکیزہ منظوم کلام سے مزین سرورق والی یہ کتاب مصنف نے ’’حمید سٹیم پریس لاہو‘‘سے دور خلافت اولیٰ میں طبع کروائی۔

اس کتاب کے مقدم الذکر پیش لفظ کے بعد قریباً دو درجن خطوط بمع تفصیل/وضاحت درج کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ ذیل کا خط میرے بچے محمد بشیر کی وفات کے موقع پر حضرت نے تحریر فرمایا تھا۔ یا فلاں خط ملازم کے ہاتھ دستی آیا تھا۔ وغیرہ۔

آگے چل کر اس کتاب میں مصنف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دیسی طبی نسخہ جات جو حضور ؑنے اپنے بعض خدام کی بیماری میں تجویز فرمائے اور نیز حکیم صاحب کی اپنی ایجاد کردہ بعض ادویات کے اشتہارات اور ان کے بارے میں احباب کے تاثرات کو بھی جگہ دی ہے۔

ذیل میں بطو رنمونہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند خطوط درج کیے جاتے ہیں:

مصنفؓ کے ایک بیٹے محمد بشیر کی وفات پر حضورؑ نے لکھا:’’آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے لخت جگر محمد بشیر کا واقعہ وفات درحقیقت سخت صدمہ تھا۔اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس مرحوم بچے کی ماں کو صبر عطا فرمائے اور نعم البدل عطا فرماوے آمین ثم آمین

اے عزیز! دنیا میں ہر ایک مومن کے لئے درالامتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ آزماتا ہے کہ اس کی قضاء و قدر پر صبر کرتا ہے یا نہیں۔ بچہ والدین کے لیے فرط ہوتا ہے یعنی ان کی نجات کے لیے پیش خیمہ ہوتا ہے۔ چاہیے کہ ہمیشہ درود شریف (جو درود یاد ہو) اور نیز استغفار (جو استغفار یاد ہو)آپ دونوں پڑھا کریں۔ میں نے بہت دعا کی ہے اللہ تعالی سلامتی،ایمان اور اس بچے کا نعم البدل بخشے۔ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو منظور فرما دے۔باقی سب خیریت ہے۔ والسلام۔ مرزا غلام احمد عفی عنہ۔ ۱۴۳جنوری ۱۸۹۸ء‘‘

’’محبی اخویم حکیم محمد حسین قریشی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ اس وقت والدہ محمود احمد ہوا کی تبدیلی کے لئے لاہور آئی ہیں۔ غالبا ان شاء اللہ تعالیٰ دس دن تک لاہور میں رہیں گی۔ اور بعض ضروری چیزیں پارچہ جات وغیرہ خریدیں گی۔ اس لئے اس خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے آپ سے بہتر اور کسی شخص کو میں نہیں دیکھتا۔ لہذا اس غرض سے آپ کو یہ خط لکھتا ہوں کہ آپ جہاں تک ہوسکے اِس خدمت کے ادا کرنے میں اُن کی خوشنودی حاصل کریں۔ اور خود تکلیف اٹھا کر عمدہ چیزیں خرید دیں۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ مرزا غلام احمد۔ عفی عنہ۔ ۴ جون ۱۹۰۷ء‘‘

’’السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ آج ۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو مبارک احمد بقضائے الٰہی فوت ہوگیا۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ ہم خدا تعالیٰ کی مرضی پر راضی ہیں۔ اُس کے کام حکمت اور مصلحت سے بھرے ہوئے ہیں…‘‘

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت قریشی صاحب کی لڑکی زینب تقریباً ہم عمر تھیں۔ بچپن میں جب لباس کی تیاری کی ضرورت پیش آتی توحضورؑ قریشی صاحب کی بچی کے ناپ پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے لیے کپڑے تیار کروا لیتے تھے۔

چنانچہ ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:’’ محبی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس وقت بتاکید والدہ محمود لکھتا ہوں کہ آپ مبارکہ میری لڑکی کے لیے ایک قمیض ریشمی یا جالی کی جو چھ روپے قیمت سے زیادہ نہ ہو۔ گوٹا لگا ہوا ہو۔عید سے پہلے تیار کروا کر بھیج دیں۔ رنگ کوئی ہو۔مگر پارچہ ریشمی یا جالی ہو۔ اندازہ قمیض کا آپ کی لڑکی زینب کے اندازہ پر ہو۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۱۴ فروری ۱۹۰۴ء‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button