متفرق مضامین

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (جلسہ سالانہ کینیڈا ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ یاز دہم)

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

ایک نوجوان مربی سلسلہ کے گھر کا دورہ

بارہ بج کر ۵۵ منٹ پر حضورِانور اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور ایک نوجوان مربی سلسلہ اعزاز خان صاحب کے گھر کو رونق بخشی جنہوں نے حضورِانور کو اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ اپنی اس سعادت کے بارے میں بعد ازاں اعزاز  صاحب نے بتایا کہ خلافت سے ہماری محبت کی وجہ سے اور حضورِانور کے دورہ کینیڈا کی خوشی میں، ہم نے اپنے گھر کے سامنے اور اطراف کو روشنیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پانچوں خلفاء کی بڑی بڑی تصاویر سے مزین کیا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دس فٹ اونچی اور پندرہ فٹ چوڑی تھی جبکہ خلفاء کی تصاویر دس فٹ اونچی اور چودہ فٹ تین انچ چوڑی تھیں۔

اعزاز خان صاحب نے مجھے بتایا کہ چند دن قبل انہوں نے حضورِانور سے درخواست کی تھی کہ حضورِانور ہمارے گھر تشریف لائیں لیکن حضورِانور کی طرف سے جواب موصول ہوا کہ حضور ۲۰۱۲ء میں خاکسار کے گھر تشریف لا چکے ہیں۔ اس کے جواب میں اعزاز احمد صاحب نے بتایا کہ انہوں نے گرمیوں میں حضور  انور کی خدمت میں لکھا کہ حضورِانور دوبارہ ان کے گھر تشریف لائیں تو حضورِانور نے ازراہِ شفقت خاکسار کی دعوت کو قبول فرما لیا۔ یہ بات سن کر حضورِانور نے فرمایا کہ حضور پیس ویلیج سے واپس تشریف لے جانے سے قبل اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے۔ اعزاز خان صاحب نے بتایا کہ جب پیارے حضور نے یہ الفاظ مجھ سے کہے تو میرا دل خوشی سے لبریز ہو گیا کہ حضورِانور انشاءاللہ میرے گھر تشریف لائیں گےاور میں سوچنے لگا کہ میں حضورِانور کی اس درجہ شفقت اور توجہ حاصل کرنے والا کیسے بن گیا ہوں! الحمدللہ۔

حضورِانور کی اپنے گھر تشریف آوری کے بارےمیں موصوف نے بتایا کہ گھر کے اندر تشریف لانے کے بعد پیارے حضور نے خاکسار سے استفسار فرمایا کہ سب کیسے ہیں؟ جس پر خاکسار نے ایک ایک کر کے سب اہل خانہ کا تعارف کروایا۔ ہر فیملی ممبر کی خوش قسمتی تھی کہ اسے حضورِانور سے ملنے اور بات کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کی بابرکت صحبت میں ہر فیملی ممبر بے حد خوش اور حیران تھا کہ اسے یہ سعادت مل رہی ہے۔

حضورِانور کے زبردست حافظہ اور توجہ کے بارے میں اعزاز صاحب نے ایک واقعہ یوں بتایا کہ میرے چچا نے حضورِانور کی خدمت میں کچھ زیتون پیش کیے جن میں سے آپ نے ایک نوش فرمایا۔ اور پھر حضور مسکرائے اور فرمایا پچھلی مرتبہ آپ نے چیریز ( Cherries)دی تھیں۔

حضورِانور کی تشریف آوری سے ان کی فیملی کے خوشی کے جو جذبات تھے ان کے بارے میں موصوف نے بتایا کہ جب میں اپنے روحانی بادشاہ کے ساتھ گزارے ہوئے ان چند یادگار لمحات کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں شکر گزاری کے ایسے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہوں جو مجھے حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔ اس پر ہم صرف الحمدللہ ہی کہہ سکتے ہیں۔

ایک پُر شفقت لمحہ

اعزاز خان صاحب کے گھر سے باہر تشریف لاتے ہی حضور انورنے امیر صاحب کینیڈا سے استفسار فرمایا کہ کیا نوید منگلا صاحب ابھی موجود ہیں؟حضورِانور کو بتایا گیا کہ نوید صاحب ڈیوٹی کی غرض سے پہلے ہی Saskatoonجا چکے ہیں۔

بعد ازاں نوید صاحب نے مجھے بتایا کہ حضورانور نے ان کے بارے میں کیوں استفسار فرمایا تھا۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کے بہن بھائیوں نے اپنے مرحوم والد صاحب صالح منگلا صاحب کی روایت کے مطابق حضورِانور کے دورۂ پیس ویلیج کے دوران اپنے گھر کو سجایا تھا اور حضورِانور سے متعدد بار اپنے گھر تشریف لانے کی درخواست کی تھی۔ ہر موقع پر حضورِانور نے فرمایا تھاکہ دیکھیں گے۔ چنانچہ پیس ویلیج میں قیام کے آخری گھنٹے میں حضورِانور کو نوید صاحب کی درخواست یاد آگئی تھی، اس لیے آپ نے ان کے بارے میں استفسار فرمایا تھا۔

موصوف نے بتایا کہ میں نے حضورِانور کو ایک خط میں لکھا تھا کہ مجھے حضورِانور کے قافلہ ممبران میں سے چند نے بتایا ہے کہ حضورِانور نے خاکسار کے بارے میں استفسار فرمایا تھا اور یہ بھی لکھا کہ میں وہاں کیوں نہ تھا۔ اس کے جواب میں خاکسار کو حضورِانور کی طرف سے نہایت محبت اور شفقت والا جواب موصول ہوا تھا۔ میں اس خط کو حضورِانور کی طرف سے موصول ہونے والے جملہ خطوط میں سب سے بہترین شمار کرتا ہوں اور اس خط کے ملنے پر ساری زندگی خوشیاں مناؤں گا۔ حضورِانور نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا کہ اگر ہوتے تو گھر آ جاتا۔اس خوبصورت جواب نے مجھے بے حد جذباتی کر دیا تھا۔

نوید صاحب نے مزید بتایا کہ اگرچہ حضورِانور بغیر کسی وضاحت کے میری دعوت کو رد کر سکتے تھےلیکن حضورِانور نے یاد رکھا اور اس کو پورا کرنے کے لیے عملی طور پر قدم بھی اٹھایا۔ یہ وہ محبت ہے جو صرف خلافت ِاحمدیت میں پائی جاتی ہے۔ مجھے علم نہیں ہے کہ میں دوبارہ حضورِانور کو کینیڈا کے دورے پر تشریف لاتے ہوئے یا اپنے والد صاحب کے گھر کا دورہ کرتے ہوئے کب دیکھوں گا لیکن میں اس خوشی کو کبھی نہیں بھلا سکوں گا جس کا اظہار آپ نے خاکسار سے فرمایا۔

ایک احمدی کے دلی جذبات

بعد ازاں جب حضورِانور نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے لیے مسجد تشریف لائے تو امیر صاحب کینیڈا نے ایک ماں کی طرف اشارہ کیا جو اپنے نوزائیدہ بچے کو اٹھائے ہوئے تھی۔ جس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کچھ دیر توقف فرمایااور نہایت پُر شفقت انداز میں اس بچے کے گال پر تھپکی دی۔ اس بچے کی والدہ جذبات سے بے حد مغلوب ہو رہی تھی اور اس کے آنسو چہرے پر بہ رہے تھے۔

جب حضورانور نے ان کے بچے سے شفقت کا سلوک فرمایا تو وہ کہنے لگیں حضور یہ بچہ شادی کے بائیس سال بعد پیدا ہوا ہے اور محض آپ کی دعاؤں کا ثمر ہے۔یہ ایک معجزہ تھا۔

میں اس خاتون کو نہیں جانتا تھا لیکن یہ واضح تھا کہ وہ خاتون اس بچے کی پیدائش کو ایک معجزہ اور حضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کا ثمرہ خیال کر رہی تھیں۔

ایک جذباتی الوداعی تقریب

نماز کے بعد حضورِانور کچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ میں تشریف لے گئے اور اس دوران ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا پیس ویلیج ان گلیوں میں امڈ آیا ہو تاکہ اپنے محبوب آقا کو الوداع کہہ سکے۔

میں ان لمحات کو کبھی بھلا نہیں سکتا جب حضورِانور الوداع کہنے کے لیے باہر تشریف لائے۔ چند لمحات کے لیے حضورِانور نے اپنی رہائش گاہ کے باہر سیڑھیوں پر توقف فرمایا اور اپنے سامنے موجود احمدیوں کے سمندر کی طرف ہاتھ ہلایا۔ اس وقت کے پُرجوش نعرے کانوں کو بہرہ کر دینے والے تھے اور اگرچہ آسمان پر بادلوں کا کوئی وجود نہ تھا تاہم غم اور درد ِفراق کے آنسو ہر طرف سے بہ رہے تھے۔ ازراہ ِشفقت حضورِانور نے بشیر سٹریٹ اور احمدیہ ایونیو پر چہل قدمی فرمائی جہاں ہزاروں احمدی آپ کو الوداع کہنے کے لیے جمع تھے۔

جب حضورِانور لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کے پاس سے گزر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ بے شمار ممبرات لجنہ جذبات سے مغلوب تھیں۔ جن میں سے ایک سیکیورٹی پر مامور خاتون بھی تھیں جن کو دیکھ کر لگتا تھا کہ غم کے مارے وہ کسی بھی وقت بےہوش ہو کر گر جائیں گی۔

ایک موقع پر شاید اس پریشانی میں کہ فلائٹ پکڑنے میں تاخیر نہ ہو جائے محترم امیر صاحب نے عرض کی کہ واپس چلنا چاہیے تاہم حضورِانور نے فرمایا کہ ابھی آگے اَور بھی احمدی کھڑے ہیں اور آپ نے چہل قدمی جاری رکھی یہاں تک کہ سب کو پیارے حضور کو قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آگیا۔ذاتی طور پر میں اس دو طرفہ محبت اور پیار کے اظہار پر جذبات سے مغلوب ہوگیا۔ مجھے یہ خیال بھی گزرا کہ چندلمحات کے بعد ایک ماہ تک احمدیت کا مرکز بننے کی سعادت پانے والے پیس ویلیج کا کیا ماحول ہوگاجب حضورِانور اس کو الوداع کہیں گے۔

دوپہر ٹھیک دو بجے دعا کے بعدحضورِانور کا قافلہ روانہ ہوا اور جہاں تک ممکن تھا بعض احمدی احباب حضورِانور کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑتے رہے۔ اس دوران حضورِانور اپنی گاڑی کے شیشے نیچے کر کے انہیں ہاتھ ہلاتے رہے۔ چند نوجوان احمدی ہائی وے تک گاڑیوں کے ساتھ ساتھ رہے۔

پیس ویلیج میں گزرا ہوا یہ مہینہ غیر معمولی برکات کا متحمل ثابت ہوا۔ تاہم خلافت کی برکات کا کوئی کنارا نہیں اور یوں ہم نے نہایت پُرجوش انداز میں آنے والی برکات کو سمیٹنے کے لیے اپنا سفر جاری رکھا۔

(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت:مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button