منظوم کلام

حضور کے قلبِ اطہر کے لیے دعا

(آصف محمود باسط)

جو دل خدا کے نور سے پاتا ہے روشنی
جس میں ہے دھڑکنوں کی طرح سنتِ رسولؐ
جو دل ہُوا مسیحؑ کی مسیحائی کا امین
جس دل پہ ہے ملائکۂ عرش کا نزول

اقوام اور اُمَم کے مقدر کی فکر میں
سارے جہاں کا درد ہے جس میں بسا ہُوا
اُس دل کو ایسی وسعتِ افلاک ہے نصیب
ہر غم نصیب فرد ہے جس میں بسا ہوا

جس دل میں خیمہ زَن ہیں دعاؤں کے عسکری
اِس دَور میں وہ بدر کا میدان ہی تو ہے
جو دل ہوا مدینے کے میثاق کا امین
وہ عصرِنو میں عدل کی میزان ہی تو ہے

جس دل کے ساتھ چلتی ہیں ملت کی دھڑکنیں
جس سے طلوع ہوئی ہے سحر انقلاب کی
اُس دل کے آئینے سے جو ٹکرا کے آئی ہے
تب روشنی ملی ہے ہمیں آفتاب کی

اُس دل کو تجھ سے ، اے خدا! مشکوٰۃ ہو نصیب
تُو اُس کو اپنے رحم کی مصباح میں سجا
ہر دَم ترے کرم کی زجاجہ ملے اُسے
اپنی چمک سے کوکبِ دُرّی اُسے بنا

تیرے کرم کے زَیت سے روشن سدا رہے
لیکن کبھی نہ کوئی تمازت ہو اُس سے مَس
دستِ دعا دراز کیے تیرے در پہ ہم
اُس دل کی خیر مانگنے آئے ہیں مولیٰ، بس!

(آصف محمود باسط)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button