سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

براہین احمدیہ کا مسودہ

وہ مسودہ کہاں تھا، کتنے صفحات کا تھا تاریخ کے یہ ایسے گوشے ہیں کہ جن میں کچھ تو ابھی تک قدرے پوشیدہ ہی ہیں لیکن کچھ ایسے حقائق بھی ہیں جو تاریخ وسیرت کی کتب میں نمایاں بھی ہیں۔اوران کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ وہ مسودہ ۲۵۰۰/۴۸۰۰صفحات پر مشتمل تھا اورایک صندوق میں محفوظ تھا۔

چنانچہ درج ذیل روایات اورحوالہ جات ہماری کچھ راہنمائی کرتے ہیں۔

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ اپنی تصنیف سیرت المہدی میں فرماتے ہیں: ’’بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحبؓ نے کہ ایک دفعہ لالہ ملاوامل نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مرزا صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ایک صندوقچی کھول کر دکھائی تھی جس میں ان کی ایک کتاب کا مسودہ رکھا ہوا تھا اور آپؑ نے مجھ سے کہا تھا کہ بس میری جائیداد اور مال سب یہی ہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ براہین احمدیہ کے مسودہ کا ذکر ہے۔‘‘(سیرت المہدی، جلداول روایت نمبر۱۲۴)

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اسی مسودے کی بابت ایک اور روایت اپنی تالیف ’’سیرت المہدی‘‘ میں درج فرمائی ہے۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں: ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ۱۸۷۹ء میں براہین کے متعلق اعلان شائع فرمایا تو اس وقت آپ براہین احمدیہ تصنیف فر ما چکے تھے اور کتا ب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا اور اس میں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبردست دلائل تحریر کئے تھے کہ جن کے متعلق آپ کا دعویٰ تھاکہ ان سے صداقت اسلام آفتاب کی طرح ظاہرہو جائے گی اور آپ کا ارادہ تھاکہ جب اس کے شائع ہو نے کا انتظام ہو تو کتا ب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہیدی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی بھی زائد کرتے جاویں۔چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں۔اس کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیا ن ہوئی ہے اور وہ بھی نامکمل طورپر۔ ان چار حصوں کے طبع ہونے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدائی تصرف کے ماتحت رک گئی اور سنا جاتاہے کہ بعد میں اس ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہوگئے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۱۲۳)

٭…’’Life of Ahmad‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں:

’’A portion of the book (probably 2500 pages) seems to have been completed by May, 1879, when a notice concerning it was published in the Zameema Ishaat-us-Sunna No. 4. Vol. 2, pages 3 and 4 (issued in May, 1879). In this Ahmad says that the occasion for the writing of his book was the teaching of the Arya Samaj. Who looked upon Moses, Jesus and Muhammad (Peace be on them all) as liars and their sacred books as impostures. They had made it a habit to heap abuse upon all holy personages. A certain Arya had been challenging Ahmad for a long time through the columns of the Safeer Hind. ‘‘(Life of Ahmad part 1 P:70-71)

٭…’’Life of Ahmad‘‘ کے مصنف مزید لکھتے ہیں :

’’The author was unable to publish the whole of his manuscript because the events of his life took a different turn altogether missioned him in March 1882, as a Reformer of this age; He said: قُلۡ اِنِّیۡۤ اُمِرۡتُ وَ اَنَا اَوَّلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَi.e., ‘Say, I have been commissioned and that I am the first to believe’. Actually he undertook the work formally much later. This was certainly a far better way of vindicating Islam. Not only were the prophecies made in the book fulfilled, but God also gave Ahmad(as) better proofs of the superiority of Islam; and therefore, the old arguments were no longer required. It is said that the unpublished portion of the manuscript was afterwards accidentally burnt and destroyed in spite of the fact that Ahmad(as) took good care of it and kept it in a special box.‘‘(Life of Ahmad, P:72،73)

آخر پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام کی ایک تحریر پیش کرتاہوں جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ براہین احمدیہ کے جو چارحصے شائع ہوچکے تھے تو اس وقت مزید کچھ صفحات ابھی موجود تھے اوران کی تعداد ۲۵۰۰ نہیں تھی بلکہ ۴۸۰۰؍تھی۔اوریہ ابھی قابل اشاعت تھے چنانچہ حضرت اقدسؑ نے براہین احمدیہ کے چوتھے حصہ کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کے مذہبی اوردیگر سیاسی وسماجی راہنماؤں کو ایک خط لکھا جس کے ساتھ اردواورانگریزی زبان میں براہین احمدیہ کی بابت ایک اشتہار بھی تھا۔یہ خط اوراردواورانگریزی اشتہار مجموعہ اشتہارات جلد اول کے صفحات ۳۰ تا ۴۰ پر موجودہیں۔ خط جو کہ صفحہ ۳۰۔۳۲ پر ہے اورمرتضائی پریس لاہور سے طبع ہواہے اس میں حضوراقدسؑ لکھتے ہیں:’’…اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے۔جس کی ۳۷جز چھپ کر شائع ہوچکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے۔لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرارپایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط(جس کی ۲۴۰ کاپی چھپوائی گئی ہے ) معہ اشتہار انگریزی (جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہے) شائع کیاجائے اوراس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز پادری صاحبان پنجاب وہندوستان وانگلستان بلاد جہاں تک ارسال خط ممکن ہو جو اپنی قوم میں خاص طورپر مشہوراورمعزز ہوں۔اوربخدمت معزز برہموں صاحبان ونیچری صاحبان وآریہ صاحبان وحضرات مولوی صاحبان جو وجود خوارق وکرامات سے منکرہیں اوراس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاوے…اورآپ کے کمال علم اوربزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حسبتہ للّٰہ اس خط کے مضمون کی طرف توجہ فرماکر طلب حق میں کوشش کریں گےاگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہوگی اوراس کارروائی کی ( کہ آپ کو رجسٹری شدہ خط ملا۔پھر آپ نے اس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا ) حصہ پنجم کتاب میں پوری تفصیل سے اشاعت کی جائے گی…‘‘

اس کے ساتھ دوصفحات کا اردواشتہار ہے جو کہ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسرہے اوربیس ہزار(۲۰۰۰۰)کی تعداد میں چھپاہے اوردوصفحات کا انگریزی اشتہارہے جو کہ Ripon Press Lahore ,Punjabکا شائع شدہ ہے۔ اس انگریزی اشتہار میں درج ہے :

’’…All these evidences will be found by perusal of the book which will consist of nearly 4800 pages of which about 592 pages have been published… ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۸)

براہین احمدیہ ایک مکمل کتاب

براہین احمدیہ کامطالعہ کرنے سے ہرذی علم اور صاحب عقل کے لیے یہ سمجھناقطعاً مشکل نہیں ہوگا کہ یہ اپنی ذات میں ایک مکمل کتاب ہے۔کیامضمون اورکیاعبارت، کیادعویٰ اور کیادلائل ہرپہلوسے یہ اتنے ہی صفحات میں ہونے کے باوجودایک لاجواب کتاب ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کاایک ارشاد اسی کی تائیدمیں ایک روشن دلیل ہے۔چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں : ’’مجھے بھی خداتعالیٰ نے خاص طور پر قرآن کریم کا علم بخشا ہے مگر جب میں حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھتا ہوں تو ان سے نئے نئے معارف اور نکات ہی حاصل ہوتے ہیں اور اگر ایک ہی عبارت کو دس دفعہ پڑھوں تو دس ہی نئے معارف حاصل ہوتے ہیں۔ براہین احمدیہ کو میں کئی مہینوں میں ختم کر سکا تھا۔ میں بڑا پڑھنے والا ہوں کئی کئی سو صفحے لگاتار پڑھ جاتا ہوں مگر براہین کو پڑھتے ہوئے اس وجہ سے اتنی دیر لگی کہ کچھ سطریں پڑھتا تو اس قدر مطالب اور نکتے ذہن میں آنے شروع ہو جاتے کہ آگے نہ پڑھ سکتا اور وہیں کتاب رکھ کر لطف اُٹھانے لگ جاتا۔‘‘(علم حاصل کرو، انوار العلوم جلد ۴صفحہ۱۴۰)

اوریہی وہ بات ہےکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پرفرمایاتھا کہ ’’ لوگ کہتے ہیں کہ براہین میں جودلائل کاوعدہ دیاگیا تھا وہ پورانہیں ہوا۔حالانکہ براہین میں صداقت ِ اسلام کے واسطے کئی لاکھ دلیل ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۹ صفحہ ۲۶۷، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

اس لیے علیٰ وجہ البصیرت کہاجاسکتاہے کہ براہین احمدیہ اپنے مضمون اور دلائل حقیت اسلام کے اعتبار سے مکمل کتاب ہے۔ہاں وہ براہین احمدیہ کہ جوایک مقدمہ اور چارفصول اور ایک خاتمہ پرمشتمل تھی وہ ان معنوں میں نامکمل رہی اور باوجودپوری کوشش اور خواہش کے شائع نہ ہوسکی البتہ اس کے مضامین اور دلائل اور نشانات ۹۰ کے قریب کتب میں بیان ہوتے رہے۔

الغرض براہین احمدیہ جسے آپؑ نے اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ خرچ کرکے تصنیف کیااور یہی آپؑ کی مال و متاع اور جائیداد تھی(ماخوذازسیرت المہدی روایت۱۲۴) وہ تصنیف ہوئی اور مکمل تصنیف ہوئی۔ قضا وقدرکی کیاکچھ حکمتیں اور مصالح تھے۔ خدائے علیم وحکیم کے ان بھیدوں کو کوئی نہیں جان سکتا۔ ہاں یہ ضرورہے کہ چارحصے شائع ہونے کے بعد باوجودکوشش کے باقی حصے شائع نہ ہوسکے۔ایک وقت آیا کہ محسوس ہوتاتھا کہ اب سرمایہ کی کمی بھی نہ ہوگی۔لیکن خدائے فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ جب چاہے اور جوچاہے کرتاہے۔اب قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے کتاب کے اس مصنف کوموسیٰ ؑکی طرح ایک ایسے عالم سے خبردی کہ جس سے اس کوپہلے خبرنہ تھی۔ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کرنے والے کو پردۂ غیب سے انی أنا ربک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل کی رسائی تھی نہ خیال کی۔اس کتاب کے بعد کوئی ایک سوسے زائد کتب، ملفوظات اور اشتہارات وغیرہ سامنے آئے جوکئی سودلائل حقیت اسلام پرمشتمل تھے۔ دوسری طرف خود براہین احمدیہ اپنی ذات میں اس طورسے مکمل کتاب ٹھہری کہ اس کتاب کے اندرتین سوکیا کئی لاکھ دلائل موجودتھے۔بس ڈھونڈنے والا دل اور دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button