حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے وفد کی ملاقات

مورخہ ۲۰؍اپریل۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جرمنی سے آئے ہوئے مجلس خدام الاحمدیہ کے ایک سو دس احباب پر مشتمل وفد کو، اسلام آباد (ٹلفورڈ )ميں واقع مسرور ہال میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کے لیے جرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

ملاقات کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم و اردوترجمہ سے ہوا جس کے بعد کلام محمود میں سے بعض اشعارخوش الحانی سے پیش کیے گئے۔بعد ازاںشاملینِ مجلس کوحضور انور سے مختلف موضوعات پر مبنی سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

سب سے پہلا سوال یہ کیا گیا کہ آج کی تیز رفتار اور مسابقتی دنیا میں حضور انور نوجوان طلبہ کو کیا مشورہ دیں گےتاکہ وہ اپنی تعلیمی جستجو کو اپنی روحانی ترقی کے ساتھ متوازی رکھ سکیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری spiritual betterment کے لیے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر آپ پانچ نمازیں باقاعدہ پڑھ رہے ہیں اور جو ان کا حق ہے اس کو ادا کرتے ہوئے پڑھ رہے ہیں،وقت پر ادا کر رہے ہیں، قرآن شریف میں بھی لکھا ہے کہ نمازوں کو وقت پہ ادا کرو،تو ایک لحاظ سے آپ نے اپنے آپ کو روحانی طور پر کوَر کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ نماز فحشاء سے دور کرتی ہے، بری باتوں سے روکتی ہے۔تو جب آپ نمازیں پڑھ رہے ہوں گے تو سوسائٹی کی جو بری چیزیں ہیں ان سے آپ بچ کے رہیں گےاورپھر ظاہر ہےspiritual growth ہوتی رہے گی۔ یہ ایک سٹوڈنٹ اور دنیا میں کام کرنے والے کے لیے basic چیز ہے۔ اس کے بعد جب آپ یہ باتیں کر رہے ہوں گے تو ساتھ ہی قرآن کریم پہ عمل کرنا ضروری ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میرا حق ادا کرو۔ حق ادا کرنے میں پہلے نمازیں، عبادت اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل ہے۔پھر بندوں کے حق ادا کرو اور بعض جگہ فرمایا ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کرنا بعض مواقع پر اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے سے بھی اوپر چلے جاتے ہیں۔ جب آپ لوگوں کا حق ادا کر رہے ہیں، چیریٹی دے رہے ہیں، لوگوں کا خیال رکھ رہے ہیں، ان کے sentimentsکاخیال رکھ رہے ہیں، ان کو کسی طرح نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ فائدہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ بھی spiritual growthکے بہتر کرنے کا ایک aspectہے۔ جب یہ چیزیں ہوں گی تو ایک لحاظ سے تو آپ شیطان سے محفوظ ہوگئے۔ جب شیطان سے محفوظ ہو گئے تو پھر آپ کے دنیا کے جو کام ہیں مثلاً ایک سٹوڈنٹ ہے اس نے پڑھنا ہے وہ پڑھائی کرے، اس کو وقت دے اوراس کا حق ادا کرے۔ جو نوکری کرنے والا ہے جہاں وہ Jobکر رہا ہے اس Job پہ پوری طرح concentrateکرے اور ایمانداری سے کام کرے۔یہ اس کے لیے ضروری ہے۔ اور جب یہ کر رہا ہوگا تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بن رہا ہوگا۔ اسی طرح کاروباری آدمی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کاروباری آدمی کو پوری concentration سے کام کرنا چاہیے۔ملازمت والے کو،job کرنے والے کو اپنی job پرپوری طرح concentrateکرنا چاہیے۔یہ بھی اسلام کا حکم ہے۔اس طرح دنیاوی لحاظ سے بھی اپنے آپ کو بہتر کر لیا۔پھر بات رہ گئی کہ جو آج کل دنیا کی lust یامختلف قسم کی خواہشات ہیں ان سے کس طرح بچے؟ اس کے لیے پہلے میں نے کہہ دیا ہے کہ قرآن شریف میں آتا ہے: اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِکہ نماز بری باتوں سے روکتی ہے۔تو جب نماز پڑھنے والے ہوں گے اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنے والے ہوں گے تو بری باتوں سے خودہی رک جائیں گے۔ ایک مومن کو اس طرح زندگی گزارنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کسی نے پوچھا تھا کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں جس سے میری بہتری ہو جائے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سب کچھ کرو۔ اگر اللہ کا خوف ہے تو آدمی بری بات کر ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک پر نظر ہے اور گناہوں میں جو ڈوب جائے وہ تو پھر تباہ ہوجاتاہے۔ اس لیے ایک چیز یاد رکھو کہ خدا کا خوف ہونا چاہیے، خدا پہ مضبوط ایمان ہونا چاہیے۔ یہ یقین ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے ہر حالت میں دیکھ رہا ہے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ یہاںیہ جو CCTVکیمرے لگے ہوئے ہیں ان کے سامنے جاؤ گے تو نظر آؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ کا CCTVکیمرہ ہم پہ مستقل نظر رکھے ہوئے ہے یہاں تک کہ ہمارے دل کے اندر بھی نظر ہےکہ کیا کر رہے ہو، دماغ کے اندر بھی نظر ہے کہ کیا سوچ رہےہو۔ اس لیے یہ خوف ہو تو نیک ہو جاؤ گے،بری باتوں سے بچو گے اور پھرآج کل دنیا کی جتنی attractionsہیں پورنوگرافی ہے، سوشل میڈیا کے گندے پروگرام ہیں، انٹرنیٹ ہے، ٹی وی ہے ان سب سے بچ کے رہو گے۔

ایک طالب علم نے artificial intelligence پر تحقیق کے متعلق سوال کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آیا اسلامی نقطۂ  نظر سے کوئی راہنما اصول موجود ہے کہ artificial intelligence کو کون سے کردار ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور کون سے نہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ artificial intelligenceکیا چیز ہے؟artificial intelligence یہی ہے کہ آپ نے کسی particular field کے متعلق معلومات فیڈ کر دیے۔مثلاًایک language کے جتنے الفاظ ہیں اس کے اندر feedکر دیے۔پھر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کونسا suitable لفظ ہے جو آپ استعمال کر سکتے ہیں۔ میڈیسن میں اگر artificial intelligenceاستعمال کرنا ہے تو میڈیسن کے لیے دنیا میں جو کچھ بھی تحقیق ہوئی ہے، جو بھی plus اور minus پوائنٹ ہیں، اس میں ہم نے فیڈ کر دیے۔ اگرکسی اَور ریسرچ کے لیے استعمال کرنا ہے تو اس میں بھی اسی طرح آپ نے کمپیوٹر میں فیڈ کر دیااور اس کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس پروگرام نے اکٹھا کر کےconsolidateکر لینا ہے۔ پھر جب آپ اس سے پوچھیں گے تو وہ آپ کو اس بارے میں بتا دے گا کہ یہ فائدہ مند چیزیں ہیں یہ نقصان دہ چیزیں ہیں۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں مجھے کسی خاص subject پہ کوئی آرٹیکل لکھ کے دو اورکسی لفظ کےاشارے سے ہی یہ کہا ہے کہ اس کے جتنے منفی پوائنٹس ہیں وہ مجھے ظاہر کرو تو artificial intelligenceساری ایسی باتیں لکھ کے آپ کو دے دے گی جس میں سوائے frustration کے آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ اگر آپ اس کو کہیں گے کہ مثبت پوائنٹس مجھے لکھ کے دو تو اسی مضمون پہ artificial intelligenceآپ کو ایک اَور آرٹیکل لکھ کے دے دے گا۔

اسی طرح اگر آپ کہیں کہ انگلش، اردو،عربی اور مختلف زبانوں کے مناسب الفاظ جو لوگ استعمال کرتے ہیں وہ چاہیں تو وہ مل جاتے ہیں۔اس لیے اس کا جو مثبت پہلوہے اس کو ہمیں دیکھنا چاہیےکہ کس طرح ہم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔artificial intelligence وہی چیز ہے جو انسان نے اب تک کام کیا ہے اسے ایک جگہ اکٹھاکر دیا۔ اس بارے میں جب آپ اس سے پوچھتے ہیں تو اس کو reproduceکر دیتی ہے اس کی عقل آپ سے بڑی نہیں۔ اس کی اپنی عقل نہیں ہے جس سے اس نے کام لینا ہے۔اس کی عقل وہ ہے جو آپ نے اس کے اندر ڈالی ہے۔ ایک آدمی کی عقل کی بجائے سو آدمی کی عقل اس کے اندر چلی گئی۔اب اس نے اس ایک آدمی کو بتا دینا ہے کہ تمہاری عقل تو یہاں تک تھی لیکن باقی ۹۹؍لوگوں کی عقل یہ بھی کہتی ہے۔ تو اس کا یہ فائدہ ہے۔ اگر تم اس کو برے معنوں میں استعمال کرنا چاہو گے تو برے طریق پہ آپ کو گائیڈ کر دے گی۔ اچھے طریقے پہ استعمال کرنا چاہو گے تو اچھے طریق پہ کر دے گی۔ الاسلام والوں نے بھی artificial intelligenceکے اوپر کام شروع کیا ہے۔ ان کو میں نے کہا تھا کہ یہ دیکھ لیں کہ اس کی پوری طرح protection ہونی چاہیے۔ کسی ذریعے سے کسی بھی قسم کا کوئی ایسا accessنہ ہو جو اس کے subjectکو ہی الٹا پلٹا دے۔

جہاں وہ دیکھیں کہ یہ ہو رہا ہے وہاں artificial intelligence کو یہ حکم ہو جائے کہ یہاں لاک کر دوتاکہ آپ کے مقصد کی بات سامنے آئے۔تو جو beneficial side ہے اس کو آپ لیں۔ ہر چیز کے نقصان بھی ہیں فائدے بھی ہیں اگر آپ اس سے فائدہ اٹھائیں گے تو آپ کے کام آئے گی اور زندگی بہتر کرے گی۔اگر آپ اس کو کھلی چھٹی دے دیں گے تو آپ گمراہ ہو جائیں گے اور دین سے ہٹ جائیں گے۔ آپ کہہ دیں گے artificial intelligence مجھے بتاؤ دین کی کیا کیا برائیاں ہیںتو وہ دنیا جہان کی جو برائیاں ہیں، جتنی دہریوں نے دین کے بارے پھیلائی ہیں وہ سارے دہریوں کے کالم آ جائیں گے۔ اگر سرچ کریں کہ خدا پہ اعتبار نہیں کرنا تو سارا جتنا دہریوں کا لٹریچر ہے وہ آ جائے گا۔

اس کے مقابلے میں اگر آپ کہیں گے کہ مجھے یہ بتاؤ کہ جتنے ریلیجس سکالرز ہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے بارے کیا کہا ہے اور ہماری اپنی جماعت کی کیا تعلیم ہے؟تو وہ آپ کو اس کے سارے پازیٹو پوائنٹس دے دے گا۔اس لیے اس کا بہترین استعمال کرنا سیکھو تو پھر ٹھیک ہے اگر غلط استعمال کرو گے تو غلط ہے۔ہر چیز کا اچھا پہلو بھی ہوتا ہے اور برا پہلو بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو پیدا کیا ہے اور عقل دی ہے۔اس لیے artificial intelligence انسان کی intelligence سے اوپر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے تمہیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔تم supreme beingہوتو تم اپنی superiority قائم رکھو۔ کیسے قائم رکھو؟ اپنی عقل استعمال کرو۔یہ دیکھو کہ برا کیا ہے اور اچھا کیا ہے۔ اگر تمہیں artificial intelligenceکہتی ہے کہ یہ بہت اچھی بات ہے اور فی الحقیقت اس میں ساری برائیاں ہیں تو تم اپنی عقل استعمال کر کے کہوکہ نہیں مجھے تمہارے پہ یقین نہیں مجھے اس کی اچھی باتیں بتاؤ تو artificial intelligenceتمہیں اچھی باتیں بتانے پرمجبور ہوگی۔

ایک خادم نے حضور انور سے سوال کیا کہ حضور انور کو خدام الاحمدیہ جرمنی کے متعلق سب سے اچھی بات کیا لگتی ہے اور حضور کی خدام الاحمدیہ جرمنی کے لیے کیا دلی خواہش اور توقعات ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو پہلے سوال کے جواب میں مَیں نےکہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو۔یہی خدام الاحمدیہ جرمنی سے توقع ہے۔ یہی خدام الاحمدیہ یوکے سےہے، یہی خدام الاحمدیہ امریکہ سے ہے،یہی کینیڈا، ہالینڈ،بیلجیم، فرانس، افریقہ کے ممالک، گھانا، نائیجیریا، مالی، انڈونیشیا سےہے۔ دنیا کے تمام خدام الاحمدیہ سے یہی expectations ہیں۔ ابھی نظم پڑھی گئی ہے اس میں جو expectations بیان کی گئی ہیں وہی ہیں۔

ایک خادم نے عرض کی کہ حضور انور نے بارہا جنگ کی تنبیہ کی ہے اور آج ہم پہلے سے زیادہ تباہی کے قریب ہیں۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ہم سے بحیثیت خادم اور academics کیا توقعات ہیں تاکہ ہم جنگ کے بعد کے دور کی تیاری کر سکیں۔ عین ممکن ہے کہ ذرائع ابلاغ بند ہو جائیں۔ ایسی صورت میں خلیفة المسیح کی ہدایات افراد جماعت تک کیسے پہنچائی جا سکیں گی؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہدایات کے لیے تو اللہ تعالیٰ رستہ بنا دے گا۔ دنیا بالکل ختم نہیں ہو جاتی۔ جتنی مرضی تباہی آئے دنیا کا ایک حصہ بہرحال ایسا رہتا ہے جہاں رابطے رہتے ہیں اور رابطے پہنچتے ہیں۔سیٹلائٹ تو اوپر آسمان پہ ہےاس لیے کسی نہ کسی طریق سے رابطہ ہو جائے گا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ سولر سیل،سولر سسٹم یاسولر gadgets لے لیں تاکہ اگر الیکٹرسٹی وغیرہ بند ہو جائے تو آپ چارج کر سکیں۔ اب تو فون چارج کرنے کے لیے بھی سولر سیل آ گئے ہیں۔ ان کے ذریعے سے ہدایات مل جائیں گی۔جہاں تک امراء کا تعلق ہے ان کو بھی چاہیے کہ ہر ملک میں کم از کم ایک سیٹلائٹ فون امیر جماعت رکھیں تا کہ مرکز سے رابطہ رہے۔اگر سیل فون ختم بھی ہو جاتے ہیں تو سیٹلائٹ فون کے ذریعے رابطہ رہے۔ اگر آپ کی سولر چارجنگ ہو رہی ہے تو ایم ٹی اے ٹی وی پربھی چلتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ انتظام کرتا رہے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب بھی جنگ کی تباہی سے متنبہ فرمایا ہے تو یہ نہیں لکھا کہ ساری دنیا تباہ ہو جائے گی یا اکثر تباہ ہو جائے گی۔ بلکہ آپؑ نے فرمایا کہ بہت بڑی تباہی آئے گی، دنیا کے بہت سے حصے متاثر ہوں گے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ ساری دنیا متاثر ہو جائے گی۔ ’بہت سے حصے‘ کے الفاظ ہیں جو پیشگوئی میں ہیں۔ تو اس لیے اس کا مطلب ہے کہ ہر ملک میں کچھ حصے بچ بھی جائیں گے۔ ان کے ذریعے سے رابطے قائم رہیں گے۔ جنگ تھوڑے محدود وقت کے لیے ہوتی ہے اس کے بعد دوبارہ contact شروع ہو جاتے ہیں۔جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرے تھے۔ وہ لوگ تو ختم ہو گئے لیکن ارد گرد جو لوگ تھے انہوں نے تھوڑے عرصے میں دوبارہ آپس میں رابطہ کر لیااور ان شہروں کو بھی ری بلٹ کر لیا۔تویہ عارضی طور پہ رابطہ ٹوٹتا بھی ہے تو آپ لوگوں کو خدام الاحمدیہ کو بھی اور جماعت کو بھی آپس میں اس طرح پلاننگ کرنی چاہیےکہ ہمارے کون کون سے ایسے sensitiveپوائنٹس ہیں جہاں جنگوں کی صورت میں زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ یاایسے سٹریٹیجک پوائنٹس جہاں دشمن ضرور حملہ کرے اور تباہ کرے اور پھر ان سےقریب قریب علاقوں میں جہاں احمدی رہتے ہیں ان سے ہم نے کس طرح رابطہ کر ناہے۔ تو یہ planningکرنی چاہیے۔ مرکز جماعتوں کو عمومی ہدایات پہنچاتا رہے گا اور پھر آگےجماعت،خدام، انصار اور لجنہ اپنے اپنے افراد تک ہدایات پہنچاتے رہیں گے۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ دنیا والوں کو کیا ہم بتائیں؟ میں پہلے کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ آپ لوگ دنیا کو ابھی بتائیں کہ ایک خدا ہے اس کی طرف آؤ، اس کی بات مانو،اس کی عبادت کرو، اس کا حق ادا کرو اوربندوں کے حق ادا کرو۔اللہ تعالیٰ قوموں کی تباہی صرف مذہب کو ماننے یا نہ ماننے سے نہیں کرتابلکہ اس وقت کرتا ہے جب اخلاقی لحاظ سے بھی وہ بالکل دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ اتنی کرپشن آ جاتی ہے کہ بالکل ہر لحاظ سے کرپٹ ہو جاتے ہیں۔ تو اس وقت پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی آتا ہے اس لیے ان کو یہ بھی بتاؤ کہ لوگوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں اور دنیا کی یہ جوبرائیاں ہیںاس سے بے حیائیاں پھیل رہی ہیں ان سے بھی بچنا ہے۔اس کے بعد جو جنگ ہوگی اس میں جو تمہاری تباہی ہوگی تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ جرمنی کے لوگوں کو خیال ہے کہ تباہی آنی ہے۔لیکن جو حکومت ہے وہ مثلاً اسرائیل کی حمایت میں اتنی حد تک چلی گئی ہے کہ وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ان کے کیا انٹرسٹ ہیں وہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن یہ ہے کہ وہ سننے کو تیار نہیں۔ تو آپ کو پہلے لوگوں کو ہوشیار کرنا ہو گا تاکہ جب یہ ہو جائے پھر لوگ آپ کی طرف توجہ کریں۔ پھر لوگ خدا کی طرف بھی آئیں گے اور آپ کو تبلیغ کرنے کا موقع بھی ملے گا۔

ایک طالب علم نے سوال کیا کہ اگر پڑھائی یا روز مرّہ کے حالاتِ زندگی کے دوران کسی مشکل وقت سے گزرنا پڑے تو کیا کرنا چاہیے؟

اس پر حضور انور فرمایا کہ ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرو۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل وقت سے مجھے گزارے۔ عبادت کی طرف زیادہ توجہ کرو،استغفار زیادہ پڑھو،درود پڑھو، اللہ تعالیٰ مشکلات سے گزار دے اور مرد بنو۔ مرد میدان بنو۔ ڈر کے بیٹھ گئے تو پھر ختم ہو گئے۔ انسان کوہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ مومن کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہے۔

ایک سائل نے سوال کیا کہ موجودہ مشکلات کے پیش نظر تعلیم مکمل کرنے کے بعد مناسب ملازمت تلاش کرنے کے لیے بہت سے طلبہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس طرح بہتر طریقے سے آگے بڑھا جائے۔ انہوں نے پیارے آقا سے راہنمائی کی درخواست کی کہ ایسے مرحلے میں کس طرح applications دینی چاہئیں؟

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ جب پڑھائی مکمل کر لیں گے تو اپنی فیلڈ میں آپ نے جاب تلاش کرنی ہے۔ دنیا کی اکانومی اتنی برے طریقے سے متاثر ہو رہی ہے۔ فی الحال جرمنی میں تھوڑی بہت اکانومی بہتر ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کی انڈسٹری ختم ہو رہی ہے۔ جو ان کا arsenals, arms اور ایمونیشن کا جو کاروبار تھا وہ اسرائیل کو پہلے سے دس گنا زیادہ بڑھ کے جا رہا ہے اس کی وجہ سے ان کو پیسے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے تھوڑی بہت اکانومی stable ہے۔ stable تو نہیں ہے لیکن کچھ نہ کچھ اپنے پاؤں پہ کھڑی ہے۔ جب اسرائیل حماس وار ختم ہوتی ہے، یوکرین وار ختم ہوتی ہے تو پھر ایک دم اس کی اکانومی بالکل بیٹھ جائے گی اور پھر آپ کوجاب تو ویسے بھی نہیں ملنے۔ پھرجاب تلاش کرنے کے لیے نئے نئے ذریعے سے لوگ نئے سرے سے investment کریں گے،کاروبار شروع کریں گے ان میں جتنی ان کی جاب requirementہے اس کو پورا کریں گے۔پھر بہت سارے جو ان کے ایمپلائیز ہیں ملازمین ہیں یا پرو فیشنل ہیں وہ redundantہو جائیں گے ان کو کوئی جاب نہیں ملے گی۔ اس وقت پھر یہی ہے کہ روٹی کھانے کے لیے جو ملتا ہے کرو۔مزدوری کرنی پڑے تو مزدوری کرو۔

یہاں بھی مثلاً اب لوگ پاکستان سے آتے ہیں کوئی لائر ہے کوئی انجینئر ہے تو یہاں آ کے جب تک ان کو جاب نہیں ملتاتومزدوری کرتے ہیں۔ چند دن ہوئے ایک نے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔میں نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو۔ جس پر اس نے بتایا کہ میں فلاں کنٹریکٹر کے ساتھ مزدوری کر رہا ہوں۔ ماسٹرز کی ڈگری کے باوجود لیبر کا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ تو جب ایسے حالات ہو جائیں پھر تو روٹی کھانے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ باقی دنیا کی اکانومی جب تک بہتر نہیں ہوتی تو پھر اس طرح ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ اس لیے تعلیم نہ چھوڑو یہ سوچ کے کہ آخر میں نے مزدوری کرنی ہے تو پھر پڑھنے کا کیا فائدہ۔ یہ سوچ بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بہتر امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ حالات پیدا کرے کہ ایسے حالات نہ ہی آئیں۔ دعا بھی کرو اور اگر کبھی مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑے تو پھر مرد میدان بنو۔

ایک طالب علم نے حضور انور نے استفسار کیا کہ ہم طلبہ فلسطینیوں کے لیے دعاؤں اور سرکاری اہلکاروں کو خطوط لکھنے کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں اور کیا ہمیں احتجاجوں میں شامل ہونے کی اجازت ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر تو پُرامن احتجاج ہے، توڑ پھوڑ نہیں کرنی اور جو نیشنل پراپرٹی ہے یا حکومت کے پراپرٹیز ہیں انسٹالیشنز ہیں ان کو نقصان نہیں پہنچانا اور ٹائر وغیرہ جلا نا نہیں، پولیس پہ پتھراؤ نہیں کرنا یاپٹرول بم نہیں پھینکنے، پٹرول بوتل نہیں پھینکنی تو پھر تو ٹھیک ہے کرسکتے ہیں احتجاج۔ اس حد تک تا معلوم ہو کہ strengthکتنی ہے۔یہاں یو کے میں فلسطینیوں کے حق میں پُرامن احتجاج ہوتے رہے ہیں اور احمدی اس میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی ہرج نہیں۔ لیکن توڑ پھوڑ کرنے کی اجازت نہیں۔وہ غلط چیز ہے۔ باقی رہ گئی کہ دعا۔ دعا کے ساتھ میں نے کہا تھا کہ بعض چیریٹی آرگنائزیشنز جو وہاں aid پہنچا رہی ہیں ان میں ہیومینٹی فرسٹ بھی ہے۔ یو کے کی ہیومینٹی فرسٹ بھی ہے ان کے ذریعے سے یا اَور چیریٹی آرگنائزیشن کے ذریعہ سے وہاں جن کی access ہے ان کے ذریعہ سے خوراک، پانی،کپڑے وغیرہ پہنچانے کی کوشش کرو تاکہ وہ اپنا ننگ ڈھانپ سکیں، بھوک مٹا سکیں۔ یہ بھی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔یہ بھی انسانی ہمدردی کے لیے ضروری ہے۔اور ساتھ دعا کہ یہ چیزیں ان کو پہنچ بھی جائیں اور اللہ تعالیٰ ان کے یہ حالات جلدی ختم بھی کر دے۔جو میری باقی باتیں ہیں وہ بھی تو یاد رکھو۔ دعا تو میں نے کہا تھا کہ کرو لیکن باقی یہ بھی تو کہا تھا ان کے لیے مالی مدد بھی کرو۔ ان کو سامان پہنچانے کی کوشش کرو۔ ہم جنگ نہیں کرسکتے۔ یا تو مسلمانوں کی کوئی فوج اکٹھی ہو گئی ہے اور ۵۴؍مسلمان ممالک نے اکٹھےہو کر کوئی جنگ کر رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ جو جس ملک میں احمدی رہتے ہیں وہ بےشک اپنے اپنے ملکوں کی فوجوں میں جائیں۔ لیکن کوئی ایسی صورتحال نہیں۔ مسلمانوں میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ابھی عراق نے سیریا پہ حملہ کر دیا ہے۔ سوڈان میں سوڈانیوں پہ حملے کر رہے ہیں۔ ایتھوپیا میں بھی یہی حالات ہیں۔اسی طرح پاکستان میں بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ہمارے پر ظلم ہوتے رہتے ہیں۔ان حالات میں مسلمانوں نے کہاں اکٹھے ہونا ہے؟ اس لیے اس وقت جو موجودہ حالات ہیں اس میں یہی ہے کہ ان کے لیے جو خوراک، پانی اور کپڑے پہنچانے کے لیے کر سکتے ہو وہ کرو اور ان کے لیے دعا کرو ۔یہ دعا کرو کہ جنگ جلدی بند ہو جائے اور یہ دعا کرو کہ مسلمان اکٹھے ہو جائیں تاکہ ان کی ایک قوت ہو جائے۔ مسلمان اگر جنگ نہ بھی لڑیں اگرایک ہو جائیں، ایک ہاتھ ہو جائیں،آج یہ اعلان کر دیں ہم ایک ہیں اور ہم ساروںکامقابلہ کریں گے تو کوئی بھی ان کے سامنے نہیں آئے گا۔ سب ٹھیک ہو جائیں گے۔لیکن یہاں تو ایران،بحرین، سیریا،عراق،قطر،سعودی عرب، انڈونیشیا،ملائیشیا،پاکستان،ہر ایک میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ اکٹھے کیا ہونا ہے؟

ایک خادم نے حضور انور سے جماعتی خدمت کے حوالے سےعرض کی کہ موجودہ پیشرفت کے مطابق ہم بحیثیت طالب علم جماعت کی بہترین خدمت کیسے کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اپنے سٹوڈنٹس میں بتاؤ، یونیورسٹیوں میں جو پڑھے لکھے لوگ ہیں ان میں مذہب سے دوری پیدا ہو رہی ہے اور atheismکی طرف لوگوں کازیادہ جھکاؤ ہو رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھول رہے ہیںبلکہ خدا تعالیٰ کے خلاف ہو رہے ہیں اور دنیا داری کی طرف زیادہ جھکاؤ ہوا ہے۔ برائیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اخلاقی برائیاں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ ایسی برائیاں جس پہ قوموں کو اللہ تعالیٰ نے عذاب دیا تھا وہ برائیاں بھی آج کل پیدا ہو گئی ہیں۔تو لوگوں کو بتاؤ کہ ہمیں ان سے بچنا چاہیے اور یہی اس وقت کوشش ہے جس سے آپ اپنی سٹوڈنٹ کمیونٹی کو برائیوں سےبچا سکتے ہیں ۔ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوگ آئیں۔کم از کم برائیوں کو چھوڑ دیں یہی ان کی بچت کا ایک راستہ ہے۔ نہیں تو پھر بچت کا راستہ کوئی نہیں۔یا اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے یا پھر یہ جنگیں تباہ کر دیتی ہیں۔ اس لیے ان کو ڈراؤ۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور ایدہ اللہ نے مختلف خدام سے ان کی تعلیم کے حوالہ سے استفسار فرمایا۔ بعد ازاں خدام کو اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصاویر بنوانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔اس طرح یہ ملاقات بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button