خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 05؍ اپریل 2024ء

دعا ایسی مصیبت سے نجات کے لیے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت سے بھی بچاتی ہے جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو۔ فرمایا: پس اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کر لو (الحدیث)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔

اس دنیا کو حاصل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ ہوگا تو تب ہی ہم دعا سے حقیقی فیض پانے والے ہوں گے

آج کل تو دنیا کے جو حالات ہیں، جنگوں میں بھی ایسے ہتھیاراستعمال ہوتے ہیں جو آگ پھینکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آگ سے بھی بچائے اور دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حسنات عطا فرمائے

ہمیں چاہیے کہ ہم اس سوچ کے ساتھ دعا کیا کریں کہ جہاں ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کریں وہاں اپنی اصلاح اور ہدایت اور روحانیت میں بڑھنے کے لیے بھی دعا کریں۔ صرف دنیا کے حصول کے لیے ہماری دعائیں نہ ہوں بلکہ اپنی ظاہری اور باطنی حالتوں کی بہتری کے لیے جب ہم دعا کریں گے اور خاص توجہ سے کریں گے تو پھر ہم ہر قسم کے فضلوں کی بارش ہوتا دیکھیں گے

یہ دعائیں ہی ہیں جو ہماری ذاتی زندگی میں بھی تبدیلی لائیں گی اور جماعتی زندگی میں بھی فائدہ دیں گی

یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہیں ان کا ترجمہ کم از کم یاد کر کے یا اس کا مفہوم سمجھ کر ہمیں بھی اس طرح دعائیں کرنی چاہئیں

عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے لیکن دنیا کے حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ ان کے خیال میں وہ محفوظ رہیں گے اور عوام مریں گے لیکن یہ بھی ان کی خام خیالی ہے

بعض قرآنی دعاؤں، مسنون دعاؤں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی دعاؤں کا پُراثربیان اور پُرمعارف تشریح

رمضان کی برکات کے ہمیشہ قائم رہنے، اسیرانِ راہِ مولیٰ کی رہائی، جنگوں کی آگ سے اور ان کے بعد کے بد اثرات سے محفوظ رہنے اور انسانیت کو بچانے کے لیے دعاؤں کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ اپریل 2024ء بمطابق 05؍شہادت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ (النمل : 63)

یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دُور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث بناتا ہے ۔کیا اللہ کے ساتھ کوئی اَور معبود ہے۔ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔

اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ مَیں مضطر اور بے قرار کی دعائیں قبول کرتا ہوں۔ گذشتہ جمعہ بھی مَیں نے

دعا کا مضمون

ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے حوالوں کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ دعائیں کس طرح ہونی چاہئیں، ان کی حکمت، ان کی فلاسفی کیا ہے۔ یہی دعا کامضمون آج بھی جاری ہے۔ جیساکہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں مضطر کی دعائیں سنتا ہوں تو مضطر سے مراد صرف بےقرار ہی نہیں ہے بلکہ ایسا شخص ہے جس کے تمام راستے کٹ گئے ہوں۔ پس

جب ہم دعا کے لیے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں تو ایسی حالت بنا کر جھکیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کریں کہ سوائے تیرے ہمارا کوئی نہیں اور ہم تجھی پر انحصار کرتے ہیں بھروسا کرتے ہیں اور تیرے پاس ہی آئے ہیں۔

جماعتی لحاظ سے تو خاص طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اَور کوئی نہیں ہے جو ہمیں ان حالات سے نکالے جو پاکستان میں ہیں یا بعض دوسرے ملکوں میں ہیں بلکہ ذاتی طور پر بھی اگر انسان سمجھے تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کام کرتا ہے۔ وہی ہے جو ہماری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ وہی ہے جس کے آگے جھکا جا سکتا ہے۔ وہی ہے جو اسباب مہیا کرتا ہے۔ جو نہیں بھی اس کے سامنے جھکتے ان پر بھی اس کی رحمانیت کا جلوہ ہے کہ جو فیض اٹھا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مضطر کے حوالے سے جو خاص نکتہ بیان فرمایا ہے اور اس کا مَیں نے گذشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ

اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کی یہ خاص نشانی بیان فرمائی ہے کہ مَیں مضطر کی دعا سنتا ہوں۔

پس اپنی دعاؤں میں حالتِ اضطرار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں دعاؤں کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ یہ دعائیں ہی ہیں جو ہمیں ان حالات سے نکالیں گی جن میں ہم آج کل ہیں بلکہ

امّت مسلمہ کے ابتلا سے نکالنے کے لیے بھی دعائیں ہی کام آئیں گی اگر اس کو سمجھ کر یہ لوگ دعا کریں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت کو ترک کریں۔

بہرحال جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہیے کہ اگر یہ اپنی دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہیں تو اضطرار کی حالت پیدا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو ایک جگہ بیان فرمایا ہے۔ فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا۔‘‘ فرمایا ’’…قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد10صفحہ137۔ایڈیشن 1984ء)

اور اضطراب کی حالت وہ ہے جو سو فیصد یہ یقین ہو کہ اب دنیا کے تمام راستے بند ہو گئے ہیں اور اب ایک ہی راستہ ہے جو خدا تعالیٰ کا راستہ ہے، جو حضرتِ توّاب کا راستہ ہے جو ہمیں مشکلات سے نکال سکتا ہے۔ پس اپنی دعاؤں میں یہ درد کی حالت ہمیں پیدا کرنی چاہیے ورنہ یہ دعا اور ذکرِالٰہی اگر صرف زبانی جمع خرچ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس بارے میں ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ کو زیادہ یاد کرو اور ذکر کی مثال ایسی سمجھو کہ جیسے کسی آدمی کا اس کے دشمن نہایت تیزی کے ساتھ پیچھا کر رہے ہوں یہاں تک کہ اس آدمی نے بھاگ کر ایک مضبوط قلعے میں پناہ لی اور دشمنوں کے ہاتھ لگنے سے بچ گیا۔ اسی طرح انسان شیطان سے نجات پا سکتا ہے ورنہ کوئی ذریعہ نہیں۔

(شعب الایمان جزء دوم صفحہ 73 حدیث 534 مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون بیروت 2003ء)

پس دعاؤں کی طرف بہت زیادہ ضرورت ہے۔

قرآنی دعائیں ہیں، مسنون دعائیں ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سکھائی ہوئی دعائیں ہیں اور اپنی زبان میں دعائیں ہیں۔ اگر ہم نے ان حالات سے باہر نکلنا ہے جو ہمارے لیے پیدا کیے گئے ہیں یا پیدا کیے جا رہے ہیں تو ان کی طرف ہمیں بہت توجہ کرنی چاہیے۔ پاکستان میں یا بعض دوسرے ملکوں میں آزادی سے ہم نماز نہیں ادا کر سکتے۔ آزادی سے ہم اپنے عشقِ رسولؐ ظاہر نہیں کر سکتے۔ آزادی سے ہم خدا تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم نہیں پڑھ سکتے۔ آزادی سے ہم کسی بھی قسم کے اسلامی شعائر کا اظہار نہیں کر سکتے۔ شیطان کے چیلے ہر وقت اس تاک میں ہیں کہ کہاں اور کب موقع ملے اور ہم احمدیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اپنے زعم میں ثواب کمانے والے بنیں۔ گذشتہ دنوں ایک احمدی کو شہید کیا اور قاتل پکڑے گئے جب ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے فلاں مدرسے کے مولوی صاحب سے پوچھا تھا کہ جنت میں جانے کا قریب ترین راستہ کیا ہے تو انہوں نے کہا قریب ترین طریقہ یہی ہے کہ تم کسی کافر کو مار دو اور احمدی کیونکہ کافر ہیں اس لیے ان کو مارنا جائز ہے، قتل کرنا جائز ہے۔ لیکن

حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں۔

بہرحال ہمیں اپنی حالتوں کو مضطر کی حالت بنانے کی ضرورت ہے اور مضطر کی ایک پہچان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بتائی ہے بلکہ کلامِ الٰہی کی روشنی میں یہ بتائی ہے کہ

’’لفظ مُضْطَر سے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلا کے طور پر ضرر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر‘‘۔

(دافع البلاء، روحانی خزائن جلد18صفحہ231)

اور آج احمدی ہی ہیں جو ان ابتلاؤں سے گزر رہے ہیں، جن پر یہ پابندیاں ہیں کہ عشقِ خدا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اظہار نہیں کر سکتے۔ کوئی ذاتی خواہشات تو نہیں، کوئی ذاتی جرم تو نہیں جن کی سزائیں مل رہی ہیں۔ یہ تو ابتلاؤں میں سے ہمیں گزارا جا رہا ہے۔ پس ان دنوں میں اور ہمیشہ اپنی زبانوں کو دعاؤں اور ذکرِ الٰہی سے تر رکھنا چاہیے۔ اپنے سجدوں میں، اپنی دعاؤں میں اضطرار کی حالت پیدا کرنی چاہیے۔ اس وقت مَیں

بعض قرآنی اور مسنون دعاؤں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی دعاؤں کو بھی دہراؤں گا

ان دعاؤں پر صرف یہاں آمین کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ ان پر ہمیں مستقل توجہ دینی چاہیے اور غور کرکے اضطرار کے ساتھ پڑھنا بھی چاہیے۔ اس کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو تاکہ اضطرار کی حالت زیادہ پیدا ہو۔دل اسے محسوس کرے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد6صفحہ146۔ایڈیشن 1984ء)

ذکر الٰہی کرنے والوں کے متعلق

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللّٰہ عزوجل حدیث 6407)

پس ہمیں ان زندوں میں شمار ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جو ذکر الٰہی سے اپنی زبانیں تر رکھنے والے ہوں۔

پھر ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

دعا ایسی مصیبت سے نجات کے لیے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت سے بھی بچاتی ہے جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو۔ فرمایا: پس اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کر لو۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب من فتح لہ منکم باب الدعاء حدیث 3548)

پس دعا کی اہمیت کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے۔

بعض دعاؤں کاذکر

مَیں کرتا ہوں جیساکہ مَیں نے کہا

سب سے پہلے تو سورہ فاتحہ ہے۔

صرف نماز میں ہی نہیں ویسے بھی اسےدہراتے رہنا چاہیے۔ جوبلی کی دعاؤں میں ہم نے یہ مقرر کی تھی سورۂ فاتحہ بھی لوگ ساتھ دہراتے تھے۔ دوسرےعادت پڑ جانی چاہیے کہ انسان مستقل دہراتا رہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ سورۂ فاتحہ کی ایک خصوصیت یہ ہے ’’اس کو توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلمانی پردوں کو اٹھاتا ہے۔‘‘ جو اندھیرے دل پہ چھائے ہوئے ہیں ان کو دُور کرتا ہے ’’اور سینے کو منشرح کرتا ہے۔‘‘ انشراح بخشتا ہے۔ تسلی دلاتا ہے ’’اور طالبِ حق کو حضرتِ احدیت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقربان حضرت احدیت میں ہونی چاہئے‘‘ اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کی طرف لے جاتاہے۔ اگر انسان غور سے پڑھے تو جو قرب اللہ تعالیٰ کے مقربین کا ہوتا ہے ویسا قرب مل سکتا ہے، یہ نہیں کہ ہمیں نہیں مل سکتا ’’اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1صفحہ402)

پس سورۂ فاتحہ کو بڑے غور سے اور سمجھ کر پڑھنے اور ورد کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے بلکہ اگر غور کیا جائےتو اس میں بیان دعائیں ہی انسان میں اضطرار کی حالت پیدا کر دیتی ہیں۔

پھر قرآن کریم کی ایک دعا ہے

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ : 202)

اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اس کے بارے میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے‘‘ مومن کا نصب العین دین ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کی نظر میں دنیا کے تعلقات بھی اس کو مرتبے عطا کرتے ہیں کیونکہ دین مقدم ہوتا ہے ’’اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔ پس

اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو۔ بلکہ حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو۔‘‘

فرمایا ’’دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو۔ اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔‘‘ فرمایا ’’…اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً (البقرۃ:202) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے۔‘‘ پہلے دنیا رکھی ہے ’’لیکن کس دنیا کو؟… جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جاوے۔‘‘ وہ دنیا مقدم ہے جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے۔ ’’اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حسنۃ الدنیا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئے۔‘‘ دنیا کے لیے حسنات مانگیں گے تو پھر آدمی دنیا کمانے کے لیے غلط کام نہیں کر سکتا۔ دین مقدم ہوگا، اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوگی تو پھر اس کے مطابق انسان کام کرے گا۔ فرمایا ’’دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اورخوبی ہی ہو نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو۔ نہ ہم جنسوں میں کسی عار وشرم کا باعث۔ ایسی دنیا بے شک حسنة الآخرت کا موجب ہوگی۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ 91-92۔ایڈیشن 1984ء)

پس اس دنیا کو حاصل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ ہوگا تو تب ہی ہم دعا سے حقیقی فیض پانے والے ہوں گے۔

ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہماری جماعت کو یہ دعا آج کل بہت مانگنی چاہئے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 9۔ایڈیشن 1984ء)

اس لیے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بنیں۔ اس لیے بھی کہ ہم دشمنوں کی بھڑکائی ہوئی آگ سے محفوظ رہیں اور

آج کل تو دنیا کے جو حالات ہیں، جنگوں میں بھی ایسے ہتھیاراستعمال ہوتے ہیں جو آگ پھینکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آگ سے بھی بچائے اور دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حسنات عطا فرمائے۔

پس اپنے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی احمدیوں کو بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔

پھر اس دعا کو بھی آج کل بہت شدت سے اور بہت اضطرار سے کرنا چاہیے۔ قرآنی دعا ہے۔

رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔(البقرۃ:251)

اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔ کسی قسم کا خوف اور حالات ہمارے قدموں کو ڈگمگانہ دیں۔

اس دعا کا بھی بار بار اور اضطرار کے ساتھ ورد کرنا چاہیے کہ

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَ اعۡفُ عَنَّا وَ اغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرۃ:287)

اے ہمارے رب! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے اور اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیساکہ ہم سے پہلے لوگوں پران کے گناہوں کے نتیجے میں تُو نے ڈالا اور اے ہمارے رب! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابلے پر نصرت عطا کر۔

ایمان کی مضبوطی کے لیے یہ دعا بھی بہت پڑھنی چاہیے

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ۔(آل عمران:9)

اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تُو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر یقیناً تُو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔

اب اس کے بعد مَیں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی بعض دعاؤں کا ذکر

کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے ایسی دعا سکھائیں جس کے ذریعے میں اپنی نماز میں دعا مانگوں۔ آپؐ نے فرمایا تم کہو

اَللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيْمُ۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء فی الصلاۃ حدیث6326)

اے اللہ! مَیں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا اور کوئی گناہ نہیں بخش سکتا سوائے تیرے۔پس تُو اپنی جناب سے میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ یقیناً تُو ہی بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓکو اس کی تاکید فرمائی۔

پھر مصعب بن سعدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی بات سکھائیے جو مَیں کہا کروں آپؐ نے فرمایا یہ کہا کرو کہ

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيْمِ۔

اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے لیے بہت حمد ہے۔ پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا ربّ ہے نہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی قوت ہے مگر اللہ کو جو غالب بزرگی والا اور خوب حکمت والا ہے۔ اس بدوی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ تو میرے ربّ کے لیے ہیں۔ اس کی تعریف مَیں کر رہا ہوں۔ میرے لیے کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ کہا کرو کہ

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَارْحَمْنِيْ وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ۔

کہ اے اللہ! مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔

(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء… باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء حدیث 6848)

ایک دوسری روایت میں بیان ہے کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ دعا سکھایا کرتے تھے۔ ابو مالک اشجعیؓ اپنے والد سے اس کی روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اسلام لاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نماز سکھاتے۔ پھر آپؐ اسے ارشاد فرماتے کہ ان کلمات کے ذریعے دعا کرے۔

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ، وَارْحَمْنِيْ، وَاهْدِنِيْ، وَعَافِنِيْ وَارْزُقْنِيْ۔

(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء… باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء حدیث 6850)

اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت دے اور مجھے عافیت سے رکھ اور مجھے رزق عطا کر۔اب دو سجدوں کے درمیان جو دعا ہے اس میں بھی ہم یہ دعا پڑھتے ہیں لیکن لوگ تو صرف سجدے سے اٹھتے ہیں اور پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ دعا کرتے ہی نہیں۔ ان کے نزدیک تو اس کی اہمیت ہی کوئی نہیں لگتی حالانکہ اس پر بڑا غور کر کے سمجھ کے پڑھنی چاہیے۔ جہاں رزق سے مراد مادی رزق ہے وہاں روحانیت سے بھی اس کی مراد ہے۔ اس میں بھی بڑھنے سے اس کی مراد ہے۔

پس ہمیں چاہیے کہ ہم اس سوچ کے ساتھ دعا کیا کریں کہ جہاں ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کریں وہاں اپنی اصلاح اور ہدایت اور روحانیت میں بڑھنے کے لیے بھی دعا کریں۔ صرف دنیا کے حصول کے لیے ہماری دعائیں نہ ہوں بلکہ اپنی ظاہری اور باطنی حالتوں کی بہتری کے لیے جب ہم دعا کریں گے اور خاص توجہ سے کریں گے تو پھر ہر قسم کے فضلوں کی بارش ہم ہوتی دیکھیں گے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی ایک دعا کا یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو جاگتے تو فرماتے

لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، سُبْحَانَكَ، اللّٰهُمَّ أَسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِيْ، وَأَسْأَلُكَ رَحْمَتَكَ، اللّٰهُمَّ زِدْنِيْ عِلْمًا، وَلَا تُزِغْ قَلْبِيْ بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِيْ، وَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔

(سنن ابی داؤد ابواب النوم باب ما یقول الرجل اذا تعار من اللیل حدیث5061)

اے اللہ! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اے اللہ! مَیں تجھ سے اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ! مجھے علم میں بڑھا دے اور میرے دل کو ٹیڑھا نہ کرنا بعد اس کے جب تُو نے مجھے ہدایت دے دی اور اپنی جناب سے مجھے رحمت عطا فرما یقیناً تُو ہی بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی معاملے میں پریشانی ہوتی تو آپؐ فرماتے۔

يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات حدیث 3524)

اے زندہ اور دوسروں کو زندہ رکھنے والے! اے قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والے! اپنی رحمت کے ساتھ میری مدد فرما۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً روزہ دار کی اس کے افطار کے وقت کی دعا ایسی ہے جو ردّ نہیں کی جاتی۔ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ جب افطار کرتے تو کہتے۔

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِيْ۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی (الصائم لا ترد دعوتہ) حدیث1753)

اے اللہ! مَیں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری رحمت کے واسطے سے جو ہر چیز پر وسیع ہے کہ تُو مجھے بخش دے۔

پھر حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاھْدِنِیْ لِلطَّرِیْقِ الْاَقْوَمِ۔

(مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ610 ام سلمۃ زوج النبیﷺ حدیث 27126۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)

اے میرے رب !بخش دے اور رحم فرما اور مجھے اس طریق کی ہدایت دے جو سب سے سیدھا اور درست اور مضبوط ہے۔

اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کر رہے ہیں تو ہمیں کس شدّت سے کرنی چاہیے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ایک دعا کا ذکر بھی یوں ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا کیا کرتے تھے۔

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام حدیث 832)

اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں زندگی کے فتنے سے اور موت کے فتنے سے۔ اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں گناہ سے اور مالی بوجھ سے۔ کسی کہنے والے نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپؐ اس قدر کثرت سے کیوں مالی بوجھ سے پناہ طلب کرتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا

جب آدمی پر مالی بوجھ پڑتا ہے تو جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔

اب یہ دعا جو کر رہے ہیں۔ آپؐ تو بہرحال ان چیزوں سے پاک تھے۔ یقیناً اپنی امّت کے لیے کر رہے تھے کہ وہ ان چیزوں سے بچیں۔ وہ جھوٹ سے بچیں۔ وعدہ خلافی سے بچیں۔ اب اپنے جائزےلینے کی ضرورت ہے۔ ہم یہ دعائیں کرتے ہیں تو کیا ہم ان چیزوں کی پابندی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ پس یہ دعا بھی کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے بچائے اور دنیا کے حسنات سے ہمیں نوازتا رہے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا ہے جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یوں ذکر فرمایا ہے۔ یہ لمبی دعا ہے اس لیے مَیں ترجمہ پڑھ دیتا ہوں کہ

[اللّٰهُمَّ إنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْمَغْرَمِِ وَالْمَأْثَمِ۔ اللّٰهُمَّ اِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ فِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَ شَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللّٰهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطَايَا، كما یُنَقَّي الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِيْ وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بيْنَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ]

اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں سستی اور بڑھاپے سے اور چٹی اور گناہ سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے اور آگ کے فتنے سے اور قبر کے فتنے سے اور قبر کے عذاب سے اور امیری کے فتنے کے شر سے اور محتاجی کے فتنے کے شر سے اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے۔ اے اللہ! میری خطاؤں کو برف کے پانی اور ٹھنڈک سے دھو ڈال اور میرے قلب کو خطاؤں سے یوں صاف کر دے جیسے سفید کپڑا گندگی سے دھویا جاتا ہے اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری پیدا کر دے جیسا کہ تُو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری پیدا کر دی۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الاستعاذۃ من ارذل العمر… حدیث 6375)

تو اس میں بہت ساری دعائیں آ گئی ہیں

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے جیساکہ مَیں نے پہلے کہا۔ پہلی حدیث اس سے ملتی جلتی ہے تو ہمیں کس قدر اس کی طرف توجہ دینی چاہیے! پس یہ دعائیں ہی ہیں جو ہماری ذاتی زندگی میں بھی تبدیلی لائیں گی اور جماعتی زندگی میں بھی فائدہ دیں گی

لیکن ہمیں اس کے ساتھ اس درد کو بھی محسوس کرنا ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دعاؤں کے وقت محسوس کرتے ہوں گے اور صرف اپنے لیے نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی امّت کے لیے کرتے تھے۔ پس یہ دعائیں کرتے ہوئے اس بات کوبھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کیا درد ہوگا۔

آپؐ نے مسیح دجال کے فتنے سے بھی خاص طور پر پناہ مانگی جو اس زمانے میں اپنے عروج پر ہے۔ پس مسیح موعود کے غلاموں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی متبعین میں سے ہیں خاص طور پر دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ان فتنوں سے بچنے کے لیے اور خاص طور پر فتنہ دجال سے بچنے کے لیے اور دنیا کو بچانے کے لیے اس دعا کی بہت ضرورت ہے۔

بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نماز میں جو ایک دعا کا ذکر ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتے تو فرماتے۔ یہ دعا لمبی ہے اس کا میں ترجمہ پڑھ دیتا ہوں کہ [اللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ حَقٌّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّوْنَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ(صلّى اللّٰه عليه وسلّم) حَقٌّ،وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللّٰهُمَّ إِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِيْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أَوْ لَا إِلٰهَ غَيْرُكَ]

اے اللہ! سب تعریفوں کا تُو حقدار ہے تُو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور ان کو بھی جو ان میں ہیں اور ہر قسم کی تعریف کا تُو ہی مستحق ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت تیری ہے اور ان کی بھی جو اُن میں ہیں۔ ہر قسم کی تعریف کا تُو ہی مستحق ہے تُو آسمانوں کا اور زمین کا نور ہے اور ان کا جو اُن میں ہیں اور ہر قسم کی تعریف کا تُو ہی مستحق ہے تُو برحق ہے تیرا وعدہ بر حق ہے تیری ملاقات برحق ہے تیرا ارشاد برحق ہے اور جنت برحق ہے اور آگ برحق ہے اور انبیاء برحق ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں اور موعود گھڑی برحق ہے۔ اے اللہ! مَیں تیرے حضور جھکا ہوں اور تیری خاطر میں نے جھگڑا کیا اور تیرے حضور فیصلہ چاہا۔ پس تُو مجھے بخش دے جو مَیں نے پہلے آگے بھیجا اور جو بعد کے لیے رکھ دیا اور جسے مَیں نے پوشیدہ کیا اور جس کا مَیں نے اظہار کیا۔ تُو مقدم ہے اور تُو موخر ہے صرف تُو ہی عبادت کے لائق ہے یا فرمایا تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

(صحیح البخاری کتاب التہجد باب التہجد باللیل حدیث 1120)

پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں نے آج رات آپؐ کی دعا سنی ہےاس میں سے جو مجھ تک پہنچا آپؐ کہہ رہے تھے۔

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ، وَوَسِّعْ لِي فِيْ دَارِيْ وَبَارِكْ لِيْ فِيْمَا رَزَقْتَنِيْ۔

اے اللہ! مجھے میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے میرا گھر وسیع کر دے اور میرے لیے اس میں برکت رکھ دے جو تُو نے مجھے بطور رزق عطا فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم دیکھتے ہو کہ ان کلمات نے کوئی چیز چھوڑی ہے۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات حدیث3500)

تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہیں ان کا ترجمہ کم از کم یاد کر کے یا اس کا مفہوم سمجھ کر ہمیں بھی اس طرح دعائیں کرنی چاہئیں۔

پھر بخاری میں ایک دعا اس طرح ملتی ہے کہ

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِيْ قَلْبِيْ نُوْرًا، وَفِيْ بَصَرِيْ نُوْرًا، وَفِيْ سَمْعِيْ نُوْرًا، وَعَنْ يَمِيْنِيْ نُوْرًا، وَعَنْ يَسَارِيْ نُوْرًا، وَفَوْقِيْ نُوْرًا، وَتَحْتِيْ نُوْرًا، وَأَمَامِيْ نُوْرًا، وَخَلْفِيْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ لِيْ نُوْرًا۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبہ من اللیل حدیث 6316)

یہ بھی یہ روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! میرے دل میں نور رکھ دے۔ میری بصارت و بصیرت میں نور رکھ دے۔ میری سماعت میں نور رکھ دے۔ میرے دائیں بھی نور رکھ دے۔ میرے بائیں بھی نور رکھ دے۔ میرے اوپر بھی نور ہو اور میرے نیچے بھی نور ہو اور میرے آگے بھی نور رکھ دے اور میرے پیچھے بھی نور رکھ دے اور میرے لیے نور ہی نور کر دے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کا یوں ذکر ہے۔ زِیاد بن عِلَاقہ اپنے چچا قُطْبَہ بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ

[اللّٰهُمَّ إنِّي أعُوْذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَهْواءِ]

اے میرے اللہ! مَیں بُرے اخلاق اور بُرے اعمال سے اور بُری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب دعاء ام سلمۃ حدیث 3591)

بڑی مختصر سی یہ دعا ہے اور یہ ہر کوئی آرام سے کر بھی سکتا ہے۔ بُرے اخلاق بُرے اعمال اور بُری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اگر یہ انسان کرےاور درد سے کرے تو بہت ساری برائیاں بھی دُور ہو جائیں گی اور نیکیاں پیدا ہو جائیں گی۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کثرت سے دعائیں کیں کہ ہم کو ان میں سے کچھ بھی یاد نہ رہا۔ بیٹھے ہوں گے۔ دعائیں سکھا رہے ہوں گے۔ بہت ساری دعائیں کیں۔ چنانچہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ اتنی زیادہ دعائیں تھیں کہ ہمیں یاد نہیں رہا۔ کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ!آپ نے بہت سی دعائیں کی ہیں مگر ہم کو تو ان دعاؤں میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا مَیں تم لوگوں کو ایک ایسی دعا نہ بتا دوں جو ان سب دعاؤں کی جامع دعا ہے۔

سنیں غور سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا۔

فرمایا کہ تم لوگ یہ دعا کیا کرو کہ

[اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ الْبَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ]

اے اللہ! ہم تجھ سے اس خیر کے طالب ہیں جس خیر کے طالب تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہم ہر اس شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے پناہ طلب کی تھی اور اصل مددگار تو تُو ہی ہے اور تجھ ہی سے ہم دعائیں مانگتے ہیں اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ تو ہم نیکی کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور نہ ہی شیطان کے حملوں سے بچنے کی قوت۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات حدیث 3521)

پس اگر ہم یہ دعا کریں گےتو جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہو گی وہاں تمام جامع دعائیں ہمارے دل میںسے نکلنا شروع ہو جائیں گی۔

پھر

بخشش اور مغفرت کی ایک دعا

ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ

[رَبِّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ وَ جَہْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ کُلِّہٖ وَمَااَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ خَطَایَایَ وَعَمْدِیْ وَجَہْلِیْ وَ جِدِّیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَاقَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَ مَااَعْلَنْتُ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُوَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ]

اے میرے رب! میری خطائیں، میری جہالتیں، میرے تمام معاملات میں میری زیادتیاںجو تُو مجھ سےزیادہ جانتا ہے مجھے بخش دے۔ اے میرے اللہ! اب یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا کر رہے ہیں جن میں یہ برائیوں کا، ان باتوں کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ نیکیاں ہی نیکیاں تھیں لیکن کس لیے؟ امّت کے لیے، امّت کو سکھانے کے لیے یہ فرما رہے ہیں کہ اے میرے اللہ! مجھے میری خطائیں، میری عمداًکی گئی غلطیاں، جہالت اور سنجیدگی سے ہونے والی میری غلطیاں مجھے معاف فرما دے اور یہ سب میری طرف سے ہوئی ہیں۔ اے اللہ! مجھے میرے وہ گناہ بخش دے جو مَیں پہلے کر چکا ہوں اور جو مجھ سے بعد میں سرزد ہوئے ہیں اور جو مَیں چھپ کر کر چکا ہوں اور جو مَیں اعلانیہ کر چکا ہوں۔ مقدم و مؤخرتُو ہی ہے اور تُو ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب قول النبی ﷺ اللّٰھم اغفرلی مَا قَدَّمْتُ وَ مَا اَخرت حدیث 6398)

یہ بخاری کی حدیث ہے اور یہ روایتیں اس لیے ہیں کہ ہم یہ دعا کریں۔ پس یہ ہمارے لیے دعائیں سکھائی گئی ہیں۔

پھر

مصیبت اور حالتِ کرب کی ایک دعا

کا ذکر یوں ملتا ہے کہ

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعا عند الکرب حدیث 6346)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف کی حالت میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عظمت والا اور بُردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عرش عظیم کا ربّ ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان و زمین کا اور عرشِ کریم کا ربّ ہے۔

پھر

ابتلا کے وقت کی ایک دعا

اس طرح ہے ۔ اس کا حضرت ابوہریرہؓ نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَتَعَوَّذُ مِنْ جَھْدِ الْبَلَاءِ وَدَرْکِ الشِّقَاءِ وَسُوْءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من جھد البلاء حدیث 6347)

حضرت ابو ہریر ہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناقابل برداشت آزمائشوں، بدبختی، بُری قضا اور دشمن کے خوش ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرمایا کرتے تھے۔

دنیا کے فتنے سے بچنے کے لیے

ایک دعا ہے۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ نُرَدَّ اِلَی أَرْزَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَةِ الدِّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من فتنۃ الدنیا حدیث 6390)

مصعب بن سعد بن ابی وقاصؓ اپنے والد سے یہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ کلمات ایسے سکھایا کرتے تھے جس طرح لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔ اس طرح لکھاتے تھے تاکید کرتے تھے جس طرح لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ دعا کیا تھی جو سکھاتے تھے کہ اے اللہ! مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں بخل سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ مَیں ارزل العمر کی طرف لوٹایا جاؤں اور تیری پناہ چاہتا ہوں دنیاوی آزمائشوں میں گھرنے سے اور قبر کے عذاب میں گرفتار ہونے سے۔ بڑی جامع دعا ہے۔

حصولِ رشد کی دعا۔

اس کا ترجمہ یہ ہے عمران بن حُصَین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد حُصَین کو فرمایا اگر تُو اسلام قبول کر لیتا تو میں تمہیں دو کلمات سکھاتا جو تیرے لیے نفع کا موجب ہوتے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب حُصین نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! مجھے وہ دو کلمات سکھائیے جن کا آپؐ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ کہا کرو کہ

اَللّٰہُمَّ أَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ وَ أَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ۔

کہ اے اللہ! مجھے میری ہدایت کے ذرائع الہام کر اور میرے نفس کے شر سے مجھے محفوظ رکھ۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب قصۃ تعلیم الدعا… حدیث 3483)

یہ دعا بھی فی زمانہ بہت پڑھنے کی ضرورت ہے۔

دشمنوں کے بد ارادوں کے خلاف دعا۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔

(سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب ما یقول اذا خاف قومًا حدیث 1537)

حضرت ابو بُردہ بن عبداللہؓ نے یہ روایت کی ہے۔ کہتے ہیں میرے والد نے مجھے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کی طرف سے خوف محسوس کرتے تو ان الفاظ میں یہ دعا کیا کرتے تھے

اے اللہ! ہم تجھے ان کے سینوں کے مقابل پر رکھتے ہیں

اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔

یہ دعا بھی آج کل احمدیوں کو بہت زیادہ پڑھنی چاہیے۔ دشمنوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔

اب ان دعاؤں کے بارے میں مَیں بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف سے ہمیں ملتی ہیں۔

جن میں بعض ارشادات ہیں اور بعض دعائیں ہیں۔ اپنے ایک خط میں مولوی نذیر حسین صاحب سخاؔ دہلوی نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھا کہ حصولِ حضور کا کیا طریقہ ہے ؟کس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا کریں۔ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ طریق یہی ہے کہ نماز میں اپنے لئے دعا کرتے رہیں اور سرسری اور بے خیال نماز پر خوش نہ ہوں بلکہ جہاں تک ممکن ہو توجہ سے نماز ادا کریں اور اگر توجہ پیدا نہ ہو تو پنج وقت ہر یک نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور میں بعد ہر رکعت کے کھڑے ہو کر یہ دعا کریں۔‘‘ یعنی جب قیام کرتے ہیں اس وقت یہ دعا کریں ’’کہ

اے خدائے تعالیٰ قادر ذوالجلال! مَیں گنہگار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ و ریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں ہو سکتا تُو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دُور ہو کر حضور نماز میں میسر آوے۔‘‘

(مکتوباتِ احمد جلد پنجم صفحہ 471۔ایڈیشن 2015ء)

نماز میں توجہ پیدا کرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔

پھر ایک جگہ آپؑ نے یہ دعا کی ہے کہ

’’اے میرے محسن اور میرے خدا! مَیں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُرغفلت ہوں تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پرگناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اَور کوئی چارہ گر نہیں۔آمین‘‘

(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 10۔ایڈیشن 2015ء)

یہ ایسی دعا ہے جسے مَیں سمجھتا ہوں روزانہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ دعا آپؑ نے حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ایک خط میں لکھی تھی۔ ان کا مقام دیکھ کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کس توجہ سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو اگر یہ دعا لکھی تھی تو ہمیں اَور بڑھ بڑھ کے یہ دعا توجہ سے کرنی چاہیے۔ دل سے نکلی ہوئی دعا ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کوبھی کھینچنے والی ہوگی۔

پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کی ایک دعا ہے جو جہاں آپؑ کی عاجزی اور خشیت اللہ کا اظہار کرتی ہے وہاں ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم بھی اپنی حالت کا جائزہ لے کر یہ دعا کریں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا مَیں شکر نہیں کر سکتا تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تامَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ مَیں تیری وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ 235۔ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ کی ایک دعا ہے جو آپؑ نے پیغامِ صلح کے شروع میں تحریر فرمائی ہے جس کی طرف ہمیں بہت توجہ دینی چاہیے۔ فرمایا کہ

’’اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے رہنما!! تُو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہلِ صدق و صفا اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بغض یا دنیا کی حرص و ہوا۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 439)

دین ہمیں مقدم ہو۔

پھر ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا۔

’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضامندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا ہے اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دُور کر دے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے۔‘‘

(ملفوظات جلد7صفحہ 39۔ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ کی ایک دعا ہے کہ ’’ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہیں تُو ہم کو معاف فرما اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا۔‘‘ (اخبار البدر جلد نمبر۲صفحہ۳۰)

دنیا کی اصلاح کے درد میں آپؑ کی ایک دعا کا یوں ذکر ملتا ہے کہ

’’اے خداوند قادر مطلق! اگرچہ قدیم سے تیری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ تو بچوں اور اُمیوں کو سمجھ عطا کرتا ہے اور اس دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کی آنکھوں اور دلوں پر سخت پردے تاریکی کے ڈال دیتا ہے مگر مَیں تیری جناب میں عجز اور تضرع سے عرض کرتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بھی ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا‘‘ یعنی جو بڑے پڑھے لکھے لوگ ہیں ان لوگوں میں سے ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا ’’جیسے تُو نے بعض کو کھینچا بھی ہے اور ان کو بھی آنکھیں بخش اور کان عطا کر اور دل عنایت فرما تا وہ دیکھیں اور سنیں اور سمجھیں اور تیری اس نعمت کا جو تُو نے اپنے وقت پر نازل کی ہے‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کانازل ہونا، آنا۔ ’’قدر پہچان کر اس کے حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہو جائیں۔ اگر تُو چاہے تو تُو ایسا کر سکتا ہے کیونکہ کوئی بات تیرے آگے اَن ہونی نہیں۔ آمین‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 120)

آج بھی اس دعا کی ہمیں آپؑ کی پیروی میں ضرورت ہے۔

دنیا کی اور خاص طور پر مسلم امہ کی اصلاح ہو گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو تب ہی ان کی کھوئی ہوئی عظمت انہیں ملے گی اور دنیا میں جو آج ان کی ہر جگہ سبکی ہو رہی ہے اس سے بھی نجات ملے گی۔ خدا تعالیٰ ہمارے لیڈروں کو اور علماء کو بھی عقل دے۔ ان میں سے بھی بعض ایسے نیک فطرت ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں اس طرف کھینچ کے لائے۔ پس ہمیں بڑے درد سے اس دعا کو بھی کرنا چاہیے۔

پھر آپؑ کی ایک دعا کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو ایک خط میں آپؑ نے یہ دعا لکھی تھی کہ ’’دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ۔جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں۔‘‘ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے وہ کچھ بھی چیز نہیں ہوتی۔ ’’…جب دعا کرو تو بجز صلوٰة فریضہ کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی ہی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ‘‘ یعنی صرف فرض نمازیں نہیں بلکہ نفل نمازوں میں بھی۔ نہایت عاجزی کے ساتھ ’’جیسے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے خدائے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔ کہ

اے رب العالمین! تیرے احسان کا مَیں شکر نہیں کر سکتا۔ تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا مَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جاوے۔ مَیں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین‘‘

(مکتوباتِ احمدجلد دوم صفحہ 158-159۔ایڈیشن 2015ء)

اور

ان دعاؤں کی قبولیت کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں۔ درود کے بغیر ہماری دعائیں ہوا میں معلق ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تک پہنچتی نہیں۔

پس

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ، وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ، وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۔

اس کا بہت زیادہ ہمیں ورد کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی دے کہ ہم اپنے دل سے یہ دعائیں کرنے والے ہوں۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کریں اور وہ حقیقی بے قرار اور مضطر بن کر دعائیں کریں جن کے دل کی گہرائیوں سے یہ دعائیں نکل رہی ہوں۔

رمضان کی برکات کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے بھی دعا کریں۔

اس جمعہ کی برکات اور آئندہ آنے والے تمام جمعوں کی برکات ہم حاصل کرنے والے ہوں۔

اسیران کی رہائی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کےماننے کے جرم میں اسیر ہیں ان کے لیے بہت دعا کریں۔ چاہے وہ پاکستان میں ہیں، یمن میں ہیں یا اَور جگہوں پہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے اور شریروں کے شر ان پر الٹائے۔

ہمیں اور ہماری نسلوں کے

جنگوں کی آگ سے محفوظ رہنے اور اس کے بعد کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے بہت دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔ اور اب لگتا ہے کہ یہ جنگ سامنے کھڑی کیا اب تو شروع ہو چکی ہے بلکہ

عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے لیکن دنیا کے حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ ان کے خیال میں وہ محفوظ رہیں گے اور عوام مریں گے لیکن یہ بھی ان کی خام خیالی ہے۔

اپنی اَنا کو مقدم کر رہے ہیں۔ عوام کی تو ان کوکوئی پروا بھی نہیں ہے۔ یہی دجالی چالیں ہیں۔ عوام کو اپنے دام میں پھنسا لیا ہے کہ ہم تمہارے لیے یہ کرتے ہیں وہ کرتے ہیں اور اب تو عوام میں کہیں کہیں بہرحال آوازیں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں لیکن ان کی چالوں نے لوگوں کو خدا تعالیٰ سے دُور کر دیا ہے۔ خود تو یہ دُور ہیں ہی اور ساتھ ہی ہر قسم کی بے حیائی اور بے باکی عروج پر ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا ہے کہ خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں۔ ایسے میں

احمدیوں کو اپنے آپ کو خدا کے قریب کرنے اور دعاؤں میں اضطرار پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے تاکہ ان کے شر سے بچ سکیں۔

ان کے نیک فطرت لوگوں کے بھی شر سے بچنے کے لیے، جو ان کے نیک فطرت لوگ ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں کہ وہ بھی شر سے بچ جائیں۔

جیساکہ مَیں نے کہا کہ جنگ عظیم تو شروع ہو چکی ہے فلسطین کی سرحدوں سے اب یہ جنگ باہر نکل گئی ہے۔ انہوں نے سیریا میں ایران کے سفارت خانے میں جو حملہ کیا ہے یہ کسی بھی قانون کے تحت ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اسرائیل نے کیا ہے اس لیے دنیا خاموش ہے۔ اب اس سے مزید جنگ پھیلے گی۔ ان کے امدادی کارکنوں کے مرنے پر اب شور مچا ہے اور کچھ لوگ بولنے لگ گئے ہیں لیکن معصوم فلسطینیوں کے مرنے پریہ خاموش تھے۔ جب اپنے لوگ مرے ہیں تو اب اس درد کو یہ محسوس کر رہے ہیں۔ بہرحال

یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انسانیت کو بچا لے

اور ہمیں دعاؤں میں بھی اپنا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 26 ؍ اپریل 2024ء صفحہ 1تا8 )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button