السلام علیکم…امن اور سلامتی کا پاکیزہ تحفہ
امن، سلامتی اور خیروبرکت عطا کرنے والے اس آسمانی تحفے کے ساتھ وابستہ برکات کے پیش نظر اسے بہت پھیلانے اور رواج دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی برکات اور ثمرات ہمارے گھروں، ہمارے گلی محلوں، ہمارے قصبوں، ہمارے شہروں، تمام ملکوں اور ساری دنیا پر محیط ہوجائیں
مولانا روم نے ’’مثنوی معنوی‘‘ میں انسان کی آفرینش کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ؎
تُو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
یعنی اے حضرتِ انسان! تجھے دنیا میں اخوت و محبت اور بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے،نفرت پھیلانے کے لیے نہیں۔ نبی کریمﷺ جو دین لے کر مبعوث ہوئے،اللہ تعالیٰ نے اُس کا نام اسلام رکھاہے:اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ(اٰل عمران:۲۰) یقیناً دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے اور اسلام میں شامل ہونے والوں کا نام مسلمان رکھا گیا۔ ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ(الحج:۷۹)اُس (یعنی اللہ)نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔اسلام عربی زبان کا لفظ ہے جو سَلِمَ سے نکلا ہے۔ سَلِمَ کا مطلب ہے امن وسلامتی۔پس آنحضورﷺ کے اوپر نازل ہونے والی تعلیم امن وسلامتی اور صلح وآشتی پر مبنی ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:وَاللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ (یونس:۲۶) اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے یعنی جو اس دنیا میں سلامتی پھیلائے گا اُسے اگلے جہان میں سلامتی والا گھر نصیب ہوگاگویا اَلسَّلَامُ مِنَ الۡاِسۡلَامِ امن و سلامتی اسلام ہی سے ہے یعنی امن وسلامتی اسلام کا خاصہ اوراس کا طرۂ امتیاز ہے۔
نبی کریمﷺ نے نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کا خاندان قرار دیتے ہوئے فرمایاہے:اَلۡخَلۡقُ عِیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الۡخَلۡقِ اِلَی اللّٰہِ مَنۡ اَحۡسَنَ اِلٰی عِیَالِہِ (مشکٰوۃ المصابیح کِتَابُ الۡآدَابِ بَابُ الشَّفۡقَۃِ وَالرَّحۡمَۃِ عَلَی الۡخَلۡقِ حدیث:4999 )تمام مخلوق اللہ کا عیال (کنبہ ) ہے۔پس اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہی شخص پیارا اور محبوب ہے جو اُس کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں چوتھی شرط یہ بیان فرمائی ہے:چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاًاپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔ (اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۰۶۔ مطبوعہ قادیان مارچ ۲۰۱۹ء)
اسلام کی امن پسندی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کا نازل کرنے والا خود سلام ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے پسندیدہ دین کے ذریعہ امن و سلامتی پھیلے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ (الحشر:۲۴) وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے (اور) کبریائی والا ہے۔ پاک ہے اللہ اُس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہیٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ کَثِیۡرًا مِّمَّا کُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَیَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ۬ؕ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ۔ یَّہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذۡنِہٖ وَیَہۡدِیۡہِمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ(المائدۃ:۱۶-۱۷) اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارا وہ رسول آچکا ہے جو تمہارے سامنے بہت سی باتیں جو تم (اپنی ) کتاب میں سے چھپایا کرتے تھے خوب کھول کر بیان کررہا ہے اور بہت سی ایسی ہیں جن سے وہ صَرفِ نظر کررہا ہے۔ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آچکا ہے اور ایک روشن کتاب بھی۔ اللہ اس کے ذریعہ انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اِذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ایمان لانے والوں پر سلام بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:وَاِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ(الانعام:۵۵)اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تُو (ان سے) کہا کر تم پر سلام ہو۔ (تمہارے لیے ) تمہارے ربّ نے اپنے اوپر رحمت فرض کردی ہے۔ پس جوشخص اسلام میں داخل ہوکرخود سلامتی کے حصار میں آجاتاہے،اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امن اورسلامتی پھیلانے والا بن جائے۔اسی لیے آنحضورﷺ نے مسلمان کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہاَلۡمُسۡلِمُ مَنۡ سَلِمَ النَّاسُ مِنۡ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ وَالۡمُؤۡمِنُ مَنۡ اَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمۡ وَاَمۡوَالِھِمۡ۔(سنن نسائی کتاب الایمان وشرائعہ بَاب صِفَۃُ الۡمُؤۡمِنِ حدیث:۴۹۹۵) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے انسان امن میں رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ رہیں۔آنحضرتﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے:الۡمُسۡلِمُ مَنۡ سَلِمَ الۡمُسۡلِمُوۡنَ مِنۡ لِسَانِہِ وَالۡمُھَاجِرُ مَنۡ ھَجَرَ مَا نَھَی اللّٰہُ عَنۡہُ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، اَلۡمُسۡلِمُ مَنۡ سَلِمَ الۡمُسۡلِمُوۡنَ مِنۡ لِّسَانِہِ وَ یَدِہِ حدیث:10) اصل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامتی میں رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جو اس بات کو جسے اللہ نے منع فرمایا ہے چھوڑ دے۔ پس بانی اسلامﷺ پر نازل ہونے والی تعلیم سراسر امن، سلامتی اور اخوت و محبت سے بھرپور ہے جس پر آپؐ نے خود بھی عمل کیا اور آپؐ نے یہی تعلیم دی ہے کہ آپؐ کے ماننے والے بھی اس پر عمل کریں تاکہ اسلام کا زندگی بخش پیغام دنیا میں عام ہو۔ آنحضرتﷺ نے یہ نصیحت بھی فرمائی ہے کہیَسِّرُوۡا وَلَا تُعَسِّرُوۡا وَبَشِّرُوۡا وَلَا تُنَفِّرُوۡا(صحیح البخاری کتاب الجھاد باب ماکان النبی یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لا ینفروا) لوگوں کے لیے آسانی مہیا کرو، ان کے لیے مشکل پیدا نہ کرو، خوشخبری سناؤ اور ان کو مایوس مت کرو۔ رسول اللہﷺ نے مخلوق خدا کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کرنے والوں کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ ہر آسانی پیدا کرنے والا، نرم خو، نرم دل اور لوگوں کے قریب رہنے والا اہل جنت میں شامل ہے۔(المعجم الصغیر طبرانی جلد 1صفحہ72حدیث:89 مکتب اسلامی بیروت 1985ء طبع اوّل)
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا خدا السَّلٰمُ یعنی سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ ہمارے رسول مقبولﷺامن وسلامتی کے پیامبر اور اخوت ومحبت کے داعی ہیں اور ہمارا دین امن، سلامتی اور بھائی چارے کا دین ہے۔ پس اسلام اس لیے آیا ہے تا کہ اس کے ذریعہ امن اور سلامتی عطا کرنے والے خدا کاپیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے تاکہ دنیا امن،سکون اور سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔ انسانی تعلقات میں میل ملاقات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ انسان کے اچھے اخلاق میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے ملنے والوںکے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئے اور مسکراتے چہرے سے اُن کا استقبال کرے۔ پس اگر خوش روئی اور مسکراہٹ کے ساتھ ہر ایک کو امن اور خیر کی دعا دی جائے تو اس سے یقیناً دل ایک دوسرے کے قریب ہوں گے اورباہمی الفت ویگانگت میں اضافہ ہوگا۔ انسانی فطرت کے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے میل ملاقات کے وقت اپنے ماننے والوں کو السلام علیکم کہنے کی ہدایت کی ہے۔
السلام علیکم ایک دعا ہےجس کے معنی امن، سلامتی اوررحمت وبرکت کے ہیں۔یہ دنیا کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے عنایت کردہ آسمانی تحفہ ہے جس میں امن،سلامتی، بھائی چارے اور اخوت ومحبت کا پیغام مضمرہے۔یہ تحفہ نبی کریمﷺکے ذریعہ ہم تک پہنچاہے۔پس ملاقات کے وقت جو شخص سلامتی کا یہ تحفہ پیش کرے اُسے اس سے بہتر یا کم ازکم اس جیسا تحفہ ضرورواپس لوٹانا چاہیے تاکہ باہمی الفت و یگانگت میں اضافہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہوَاِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا (النّسآء:۸۷) ’’اور اگر کوئی تمہیں سلام کہے تو اس سے بہتر اور نیک تراس کو سلام کہو۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۳۶) ’’اور سلام کا جواب احسن طور پر دے۔‘‘ (براہین احمدیہ چہارحصص، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۶۶۶حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴)
سلام مسلمان کا حق ہے
نبی کریمﷺ نے سلام کی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق قراردیا ہے۔پس ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب بھی اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملے، وہ اُسے سلام کرے اور خیر وبرکت عطا کرنے والی اس دعا سے اُس کا استقبال کرے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا:مسلمان پر مسلمان کے پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والے کو دعا دینا۔(صحیح البخاری، کتاب الجنائز۔بَاب،اَلۡأَمۡرُ بِاتِّبَاعِ الۡجَنَائِزِ۔حدیث:۱۳۴۰) آنحضورﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے: یَا اَیُّھَاالنَّاسُ، اَفۡشُواالسَّلَامَ، وَاَطۡعِمُواالطَّعَامَ، وَصَلُّوۡا وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدۡخُلُواالۡجَنَّۃَ بِسَلَامٍ۔ (الجَامِعُ الکَبِیۡرللامَامِ الۡحَافِظ التِّرۡمِذِی اَبۡوَابُ صِفَۃِ الۡقِیَامَۃِ والرقاق والورع بَابُ: ۱۰۷ حدیث:۲۴۸۵،دارالغرب الاسلامی بیروت ۱۹۹۶) اے لوگو! سلام کو رواج دو، لوگوں کو کھانا کھلاؤاور جب لوگ سوجائیں تواس وقت نماز پڑھا کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔پس سلام ایک عمدہ دعا اور بہت بڑی نیکی ہے جوبھائی چارے کے فروغ کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے سلام کو چھوٹی اور معمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کو کثرت کے ساتھ پھیلانے کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ اس اہم اسلامی شعار پر ہر جگہ اور ہر سطح پر عمل ہونے لگے۔
چنیدہ بندوں کے لیے سلام
اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مقبولﷺ نے اس قول خیر کو پھیلانے کی اس قدر تاکید فرمائی ہے کہ اگر اِس پرصحیح معنوںمیں عمل کیاجائے تو اس کے نتیجے میںانسان ایک دوسرے کے قریب ہوں گے اور باہمی الفت ویگانگت میں اضافہ ہوگا۔سلام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ عزّوجل نے اپنے چنیدہ بندوں اور اپنے مرسلوں پرخود سلام بھیجا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے:قُلِ الۡحَمۡدُلِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیۡنَ اصۡطَفٰی (النمل:۶۰)کہہ دے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور سلام ہو اس کے بندوں پر جنہیں اس نے چُن لیا۔ وَسَلٰمٌ عَلَی الۡمُرۡسَلِیۡنَ (الصافّات:۱۸۲)اور سلام ہو سب مُرسَلین پر۔
رسول پاکﷺپر سلام بھیجنے کی تاکید
سلام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کی یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے حسن واحسان کو یاد کرتے ہوئے آپ کی ذات بابرکات پر خوب خوب سلام بھیجتارہے۔جیسا کہ فرمایاہے:اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (الاحزاب:۵۷)یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔
جنت کا ایک نام دَارُالسَّلٰم
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صالح اعمال بجالانے والوں سے ایک ایسے گھر کا وعدہ کیا ہے جو دارالسلام یعنی امن کا گھرہے:لَہُمۡ دَارُ السَّلٰمِ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَہُوَ وَلِیُّہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ(الانعام:۱۲۸) ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس امن کا گھر ہے اور وہ ان (نیک) کاموں کے سبب سے جو وہ کیا کرتے تھے ان کاولی ہوگیا۔ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا ہے:وَاللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ ؕ وَیَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (یونس:۲۷)اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
اہل جنت کا استقبال سلام سے کیاجائے گا
امن وسلامتی عطا کرنے والے اس تحفے کا تعلق صرف اس دنیا سے ہی نہیں ہے بلکہ ابدی جنتوں میں داخل ہونے والوں کا خیر سگالی تحفہ سلام ہی ہو گا۔یہاں تک کہ جنت کے داروغے اور جنت کے فرشتے بھی سلام کہتے ہوئے اُنہیں خوش آمدید کہیں گے اور یوں اُخروی زندگی میں یہی کلمہ خیر اُن کی زندگی کا لازمی حصہ بنا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰھُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ادۡخُلُواالۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (النحل:۳۳) (یعنی) وہ لوگ جن کو فرشتے اس حالت میں وفات دیتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں وہ (انہیں) کہتے ہیں تم پر سلام ہو۔ جنّت میں داخل ہوجاؤ اُس کی بنا پر جو تم عمل کرتے تھے۔نیز فرمایا ہے:اِنَّ اللۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّعُیُوۡنٍ اُدۡخُلُوۡھَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیۡنَ (الحجر:۴۷) یقیناً متقی باغوں اور چشموں میں (متمکن ) ہوں گے۔ ان میں سلامتی کے ساتھ مطمئن اور بے خوف ہوتے ہوئے داخل ہوجاؤ۔
قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا:ادۡخُلُوۡہَا بِسَلٰمٍ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُلُوۡدِ ۔ لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا وَلَدَیۡنَا مَزِیۡدٌ۔ (قٓ:۳۵-۳۶) سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ یہی وہ ہمیشہ رہنے والا دن ہے۔ اُن کے لیے اُس میں جو وہ چاہیں گے ہوگا اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔ جنتیوں کو یہ خوشخبری بھی سنائی گئی ہے کہ لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡھَا لَغۡوًا اِلَّا سَلٰمًا وَلَھُمۡ رِزۡقُھُمۡ فِیۡھَا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا۔تِلۡکَ الۡجَنَّۃُ الَّتِیۡ نُوۡرِثُ مِنۡ عِبَادِنَا مَنۡ کَانَ تَقِیًّا(مریم:۶۳-۶۴)وہ ان میں کوئی لغو (بات) نہیں سنیں گے مگر (صرف) سلام۔ اور ان کے لیے اُن کا رزق ان میں صبح وشام میسر ہوگا۔ یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو متقی ہو۔ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اہل جنت اپنی مخصوص نشانیوں کی وجہ سے ہر جگہ پہچانے جائیں گے اور اُن کا استقبال خیر سگالی کے اسی تحفے سے کیا جائے گا۔ چنانچہ اہل اعراف بھی جنتیوں کو پہچان لیں گے اور اُن پر سلام بھیجیں گے۔جیسا کہ فرمایا ہے:وَبَیۡنَھُمَا حِجَابٌ وَعَلَی الۡاَعۡرَافِ رِجَالٌ یَّعۡرِفُوۡنَ بِسِیۡمٰھُمۡ وَنَادَوۡا اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ لَمۡ یَدۡخُلُوۡھَا وَھُمۡ یَطۡمَعُوۡنَ (الاعراف:۴۷)اور ان کے درمیان پردہ حائل ہوگا اور بلند جگہوں پر ایسے مرد ہوں گے جو سب کو اُن کی علامتوں سے پہچان لیں گے اور وہ اہلِ جنت کو آواز دیں گے کہ تم پر سلام ہو جبکہ ابھی وہ اُس (جنت) میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور (اس کی) خواہش رکھ رہے ہوں گے۔
جنت کے داروغوں کا سلام
جنت کے داروغے بھی جنتیوں کو سلام کے ذریعہ سلامتی کی خوشخبری سنائیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے داروغوں کی طرف سے سلامتی کے اس تحفے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:وَسِیۡقَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ اِلَی الۡجَنَّۃِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا وَفُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا وَقَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡہَا خٰلِدِیۡنَ۔(الزمر:۷۴) اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کیا وہ بھی گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے حتیٰ کہ جب وہ اس تک پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے تب اس کے داروغے ان سے کہیں گے تم پر سلامتی ہو۔ تم بہت عمدہ حالت کو پہنچے۔ پس اس میں ہمیشہ رہنے والے بن کر داخل ہوجاؤ۔
ملائکہ کا سلام
پس جنت کے داروغے اور ملائکہ جنتیوں پر سلام بھیجتے رہیں گے۔ وہ کیاہی عمدہ ٹھکانا ہے جو ایک مستقل رہنے کی جگہ ہے جہاں اُن کے آباؤاجداد اور اُن کے اَزواج اور اُن کی اولادیں قیام پذیر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَھَا وَمَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِھِمۡ وَاَزۡوَاجِھِمۡ وَذُرِّیّٰتِھِمۡ وَالۡمَلٰۡئِکَۃُ یَدۡخُلُوۡنَ عَلَیۡھِمۡ مِّنۡ کُلِّ بَابٍ۔سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرۡتُمۡ فَنِعۡمَ عُقۡبَی الدَّارِ (الرعد:۲۴-۲۵) (یعنی) دوام کی جنتیں ہیں۔ ان میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بھی جو اُن کے آباء واَجداد اور ان کے اَزواج اور ان کی اولادوں میں سے اصلاح پذیر ہوئے۔ اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہور ہے ہوں گے۔ سلام ہو تم پر بسبب اس کے جو تم نے صبر کیا۔ پس کیا ہی اچھا ہے گھر کا انجام۔
آسمانی آقا کا سلام
جنّتی جب ابدی جنتوں میں داخل ہوں گے تو ایک خوشی کے بعد ایک نئی خوشی کو اپنا منتظر پائیں گے اور اس طرح خوشیوںاور مختلف دلچسپیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ اُن کے لیے جاری رہے گا۔جب وہ قدم قدم پر سلامتی کی صدائیں سنیں گے اور بالآخر اُن کا آسمانی آقا بھی اُن پر سلام بھیجے گا۔ جیسا کہ اُس نے خوشخبری کے طور پر فرمایاہے کہ اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ الۡیَوۡمَ فِیْ شُغُلٍ فٰکِھُوۡنَ۔ھُمۡ وَاَزۡوَاجُھُمۡ فِیۡ ظِلٰلٍ عَلَی الۡاَرَآئِکِ مُتَّکِئُوۡنَ۔ لَھُمۡ فِیۡھَا فَاکِھَۃٌ وَّلَھُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ۔سَلٰمٌ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ(یٰسٓ:۵۶-۵۹)یقیناً اہلِ جنت آج کے دن مختلف دلچسپیوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے۔ وہ اور ان کے ساتھی سایوں میں تختوں پر تکیے لگائے ہوں گے۔ ان کے لیے اس میں پھل ہوگا اور ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ طلب کریں گے۔ ’’سلام‘‘ کہا جائے گا ربّ رحیم کی طرف سے۔
جنتیوں کا ایک دوسرے کو سلام کہنا
قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں جنتیوں کا ملاقات کے وقت خیر سگالی تحفہ بھی سلام ہی ہوگا۔ وَاُدۡخِلَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِھَاالۡاَنۡھٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡھَا بِاِذۡنِ رَبِّھِمۡ تَحِیَّتُھُمۡ فِیۡھَا سَلٰمٌ (ابراہیم:۲۴) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ایسے باغات میں داخل کیے جائیں گے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ وہ اپنے ربّ کے حکم کے ساتھ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اُن کا تحفہ اُن (جنّتوں ) میں سلام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایاہے:اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ یَھۡدِیۡھِمۡ رَبُّھُمۡ بِاِیۡمَانِھِمۡ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِھِمُ الۡاَنۡھٰرُ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ۔ دَعۡوٰھُمۡ فِیۡھَا سُبۡحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمۡ فِیۡھَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعۡوٰھُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (یونس:۱۰-۱۱) یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ان کا ربّ انہیں ان کے ایمان کی بدولت ہدایت دے گا۔ نعمتوں والی جنتوں کے درمیان ان کے زیر تصرف نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہاں ان کا اعلان یہ ہوگا کہ اے (ہمارے) اللہ! تو پاک ہے اور وہاں ان کا خیرسگالی کا کلمہ سلام ہوگا اور اُن کا آخری اعلان یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔
قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جنت کے باسیوں کو نہ تو وہاں کوئی بیہودہ بات سننے کو ملے گی اور نہ ہی وہ کوئی گناہ کی بات سنیں گے بلکہ سلام کی مسحور کن صدائیں اُن کی سماعتوں کو تسکین دیں گی:لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّلَا تَاۡثِیۡمًا۔ اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا (الواقعۃ:۲۶-۲۷) وہ اس میں کوئی بیہودہ یا گناہ کی بات نہیں سنتے۔ مگر ’’سلام سلام‘‘ کا قول۔
پس امن، سلامتی اور خیروبرکت عطا کرنے والے اس آسمانی تحفے کے ساتھ وابستہ برکات کے پیش نظر اسے بہت پھیلانے اور رواج دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی برکات اور ثمرات ہمارے گھروں، ہمارے گلی محلوں، ہمارے قصبوں، ہمارے شہروں، تمام ملکوں اور ساری دنیا پر محیط ہوجائیں۔
٭…٭…٭