متفرق مضامین

رمضان المبارک میں خوشنودئ خدا کا حصول بذریعہ ہمسایہ کے حقوق کی پاسداری

(ناصر سلیم)

جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ہماری والدہ فرحت سکینہ اختر صاحبہ زوجہ چودھری احمد حیات صاحب مرحوم (اللہ ان دونوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین) اکثر میٹھا یا اچھا کھانا پلاؤ، کھیر، زردہ، کڑی یا حلوہ پکاتیں تو ضرور اردگرد کے پانچ چھ گھروں میں بھجواتیں اور بعد میں گھر میں ہمیں کھانے کے لیے دیا جاتا۔ بھائی جنہوں نے تقسیم کرنا ہوتا تھا وہ ذرا چوں چراں کرتے تو امی جان کہتیں۔ اسلام میں ارد گرد کے چالیس گھروں تک ہمسائیگی کے حقوق ادا کرنے کی تاکید ہے۔ رمضان میں اکثر ثواب کی خاطر افطاری بنا کر سب گھروں میں بھجوائی جاتی۔ اور عید کے روز صبح صبح چھوٹے بچے بچیاں زرق برق لباس زیب تن کیے گھر میں پکایا گیا میٹھا مختلف گھروں میں پہنچانے کا اہتمام کرتے۔ والدہ کا سلام اور عید  مبارک کا تحفہ پہنچایا جاتا۔ بچوں کو جواب میں بے شمار دعائیں اور محبت اور کسی کسی کی طرف سے کچھ عیدی بھی مل جاتی تو بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔

اب جبکہ ہم اپنے ملک سے کافی دُور مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور اچھی روایات کو جاری رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ ہماری نئی نسل کوبھی ان نیکیوں کو دیکھنے اور جاری رکھنے کی توفیق ملےاور اس طرح ہم خدا کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔

اللہ تعا لیٰ نے قرآ ن کریم میں رشتہ داروں اور قریبی تعلق رکھنے والوں سے احسان اور صلہ رحمی کی نصیحت فرمائی ہے۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھنا اور دکھ سکھ میں ان کے ساتھ شریک ہونا ایک مسلمان کا بنیادی فرض ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمسایوں سے اچھے تعلقات اور ان کے ساتھ محبت کا سلوک روارکھنے کا درس دیا ہے، فرما یا کہ وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ (النِساء: ۳۷) اور رشتہ دارہمسایوں اور بے تعلق ہمسا یوں کے ساتھ بیٹھنے والے لوگوں (اور دوستوں )سے محبت اور پیار کا تعلق قا ئم کرو۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے یعنی سچا مومن ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اپنے مہمان کا احترام کرے۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی اور نیکی کی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔ (بخاری کتاب الادب باب من کان یومن باللّٰہ والیوم الآخر فلایؤذ جارہ حدیث۶۰۱۸)

حضرت نبی کریمﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ إذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً، فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، وَتَعَاهَدْ جِيْرَانَكَ۔(مسلم کتاب البر و الصلۃ) جب کبھی تم اچھا سالن بنا ؤ تو اس کاشوربہ کچھ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھو یعنی کسی نہ کسی پڑوسی کو بھی اس میں سے سالن بھجواؤ۔

یہ ہے وہ سلوک جس کی تاکید ہمیں ہمارے پیارے نبیﷺ نے فرمائی ہے:ایک اور جگہ ذکر ملتاہے کہ ایک صحابیؓ نے آپﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کس طرح معلوم ہو کہ میں اچھاکر رہا ہوں یا برا؟ حضورﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے اچھے ہوتو سمجھو کہ تم اچھا کررہے ہو اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے برے ہو سو سمجھ لوکہ تمہارا رویہ برا ہے۔ (ابن ماجہ ابو اب الزھد)

ہم احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے تحت مانا اور ایک عہد کیا جو کہ شرائط بیعت کی صورت میں ہے۔

اس عہد کی شرط نمبر چار۴ اور شرط نمبر نو۹ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ہربیعت کرنے والا:عام خلق اللہ کو عموماًاور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح اورعام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا۔ (اشتہارتکمیل تبلیغ مورخہ ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱۶۰ جدید ایڈیشن)

اسی سلسلہ میںآپؑ فرماتے ہیں: ’’میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھا ئیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھا ئی بھوکا مر تا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیر ی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی اَو رقسم کی مشکلات میں ہے تو اتنانہیں کرتے کہ اس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسا یہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکا ؤ تو شوربہ زیادہ کرلو تا کہ اسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے، اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں لیکن اس کی کچھ پرواہ نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھرکے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں۔‘‘(ملفو ظات جلد ۴ صفحہ ۲۱۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

حضرت مصلح موعودؓ حقو ق ہمسا یہ کی ادائیگی سے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’آپؐ اپنے ہمسائیوں سے خواہ وہ کسی مذہب و ملّت سے تعلق رکھتے ہوں، اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتے تھے اور اس کے متعلق اتنا زور دیتے تھے کہ صحابہؓ ہر وقت اس کی پابندی ملحوظ رکھتے تھے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۵۳۱)

پڑوسیوں کے حقوق، اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی جو تاکید قرآن وحدیث میں مذکور ہے ان میں غیرمسلم بھی داخل ہے، ایک روایت میں ہے: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الْجِيْرَانُ ثَلَاثَةٌ: فَمِنْهُمْ مَنْ لَہُ ثَلَاثَةُ حُقُوْقٌ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَهُ حَقَّانِ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَهُ حَقٌّ، فَأَمَّا الَّذِيْ لَهُ ثَلَاثَةُ حُقُوْقٍ فَالْجَارُ الْمُسْلِمُ الْقَرِيْبُ لَهُ حَقُ الْجَِارِ، وَحَقُّ الْإِسْلَامِ، وَحَقُ الْقِرَابَةِ، وَأَمَّا الَّذِيْ لَهُ حَقَّانِ فَالْجَارُ الْمُسْلِمُ لَهُ حَقُّ الْجَِوَارِ،، وَ حَقُّ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الَّذِيْ لَهُ حَقٌّ وَاحِدٌ فَالْجَارُ الْكَافِرُ لَهُ حَقُّ الْجَِوَارِ۔ (شعب الايمان (۱۲/۱۰۵) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے تین حقوق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔

تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے۔

وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ ترجمہ: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔

اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے ہمسائے کے ساتھ اِحْسان کا وہی سلوک کرے جو رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہرمخالفِ اسلام کے دِل میں اتر کر ان کو صراطِ مستقیم پر چلانے کا موجب نہ بن جائے۔

ہمارا ذاتی تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ اپنے ارد گرد والے ہمسایہ کو خدا کی رضا کے حصول کی خاطر کھانا پکا کر تحفۃًبھجوانے سے ہمسائے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اوراس طرح راہ ورسم بڑھانے سے تبلیغ کے کئی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اسلام کی تعلیمات کے بارے خود دریافت کرتےہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ اسلام اس قدر ہمسایوں کے حقوق کے بارے میںتاکید کرتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’معاشرے کی سلامتی، صلح اور محبت کی فضا پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے … فرمایا کہ ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو۔ اور صرف رشتہ دار ہمسایوں سے اچھا سلوک نہیں کرنا کہ اس میں سوفیصد بے نفسی اور صر ف اور صرف خداتعالیٰ کی رضا کے لیےحسن سلوک نظر نہیں آتا بلکہ غیر رشتہ داروں سے بھی کرنا ہے۔ یعنی رشتہ داروں سے حسن سلوک میں تو پسند اور ناپسند کا سوال آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے اس کا تو تب پتہ لگے گا کہ غیروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ جو غیر رشتہ دار ہمسائے ہیں ان سے بھی حسن سلوک کرو۔ ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قدر تلقین کی گئی، اس قدر تواتر سے آنحضرت ﷺ کو اس طرف توجہ دلائی گئی کہ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید اب ہمسائے ہماری وراثت میں بھی حصہ دار بن جائیں گے۔ تو ہمسائے کی یہ اہمیت،یہ احساس دلانے کے لیے ہے کہ اس کا خیال رکھنا، اس سے حسن سلوک کرنا، اس کی ضروریات کو پورا کرنا بہت اہم ہے۔ کیونکہ یہ بھی ہمسائے ہیں جو گھر کی چاردیواری سے باہر قریب ترین لوگ ہیں۔ اگر یہ ایک دوسرے سے حسن سلوک نہ کریں، ایک دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث بنیں، تو جس گلی میں یہ گھر ہوں گے جہاں حسن سلوک نہیں ہو رہا ہو گا تووہ گلی ہی فساد کی جڑ بن جائے گی۔ اس گلی میں پھر سلامتی کی خوشبو نہیں پھیل سکتی۔ گھر سے باہر نکلتے ہی سب سے زیادہ آمنا سامنا ہمسایوں سے ہوتا ہے۔ ان کو اگر دل کی گہرائیوں سے سلامتی کا پیغام پہنچائیں گے تو وہ بھی آپ کے لیے سلامتی بن جائیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ یکم جون۲۰۰۷ء)

ہمیں عید پہ بھی ضرور کچھ اہتمام کرکے اپنے ہمسایوں کو تحائف کھانے کی صورت میں یا چاکلیٹ وغیرہ کی صورت میں پہنچانے چاہئیں۔ معاشرتی ہم آہنگی اور یگانگت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پہ عمل کریں۔

اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر کوئی ان اعلیٰ اخلاق کو اپناتے ہوئے اپنے حقوق کو احسن رنگ میں ادا کرنے والا ہو اور ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے والا اور رمضان میں جو بھی اچھی تبدیلی پیدا کریں اُس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

(ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (آنکھ کے متعلق نمبر ۵) (قسط ۶۴) آئندہ منگل کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ادارہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button