حضرت مصلح موعود ؓ

قُربِ الٰہی کی راہیں (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۶؍مئی ۱۹۲۲ء)

تشہدو تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی۔

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ۔(البقرہ:۱۸۷)

اور فرمایا: رمضان کا یہ آخری جمعہ ہے اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو جن لوگوں کو توفیق ملی وہ ایک یا دو روزے اور رکھیں گے۔ اس کے بعد پھر رمضان کس پر آئے گا اور کس پر نہیں آئے گااس کا علم سوائے اﷲ تعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ اور کس کو آئندہ رمضان میں روزے رکھنے کا موقع ملے گا یہ بھی اُسی کو معلوم ہے۔ اس لیے اس رمضان سے جتنا بھی فائدہ حاصل ہوسکے اٹھانا چاہیے۔رمضان انسان کے لیے روحانی برکات اور ترقیات کا موجب ہے۔

اگر اُن طریقوں کو استعمال کیا جائے جو رمضان میں رکھے گئے ہیں تو انسان بہت نفع اُٹھا سکتا ہے۔

آج میں ایک آیت پڑھ کر جو رمضان شریف کے متعلق ہے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کے پہلے اور بعد روزے کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت روزوں کے متعلق ہے۔ یہ آیت یہاں بےجوڑ اور بےموقع نہیں۔ قرآن کریم میں کوئی لفظ بھی بےموقع نہیں رکھا گیا۔ جس لفظ کو خداتعالیٰ نے جہاں رکھا ہے اس کے تعلق کی وجہ سے رکھا ہے اور اس کی مناسبت کے باعث رکھا ہے۔ آیات قرآنی یونہی پراگندہ طور پر پھینک نہیں دی گئیں۔ پس اس آیت کا رمضان سے خاص تعلق ہے۔ میں نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا تھا۔

آج ایک اَور بات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک نیکی کا کچھ بدلہ ہے لیکن روزے کا بدلہ میں خود ہوں۔(بخاری کتاب الصوم باب فضل الصیام)یعنی ہر ایک نیکی کا بدلہ اﷲتعالیٰ دیتا ہے لیکن روزے کے بدلہ میں خود اﷲ تعالیٰ ملتا ہے۔

یہ جو کچھ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اپنے پاس سے نہیں فرمایا بلکہ اس آیت سے استدلال کر کے فرمایا ہے۔ آپؐ کو الگ بھی علم ہو گا مگر وہ اسی آیت کے ماتحت تھا۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ روزے دار جو بھوک پیاس کی تکالیف اٹھاتے ہیں تو اس لیے اٹھاتے ہیں کہ خدا کو پائیں، خدا کا پتا معلوم کریں۔ میں نے پہلے کئی بار بتایا کہ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ رمضان میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ آیت قبولیت ِدعا کے ذرائع میں سے ہے۔

لیکن آج میں یہ بھی بتاتا ہوں کہ یہ آیت قُربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ اے محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم)! اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡجب تجھ سے سوال کریں میرے بندے میرے متعلق تو میں قریب ہوں۔ اس آیت میں روحانی ترقی کا پہلا باب بیان کیا گیا ہے۔

انسان پہلا قدم جو خدا کی طرف اٹھاتا ہے اس میں تین تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ جب تک یہ تین تغیر نہ ہوں اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر یہ تغیر پیدا ہو جائیں تو قُربِ الٰہی حاصل ہو جاتا ہے۔ وہ تین تغیر یہ ہیں۔ اول خداتعالیٰ کے متعلق سوال پیدا ہو کہ خدا کو ملوں۔ جب یہ خواہش ہو تو کامیابی کے راستے کھلتے ہیں۔ لیکن ہزارہا انسان پیدا ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ ان کے دل میں کوئی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ جن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو ان پر ہنستے ہیں کہ کس خیال میں پڑے ہیں۔ یہ شقاوت کی علامت ہے ایسے شخص کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ پس پہلے کسی چیز کی خواہش پیدا ہونی چاہیے۔

یہاں جو ولایت سے نومسلمہ آئی ہوئی ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ تم نے جو عیسائی مذہب چھوڑ کر اسلام اختیار کیا اس کی کیا وجہ ہے؟ کیوں نہ تم نے یہ خیال کیا کہ عیسائی مذہب جب جھوٹا ثابت ہوا تو سب مذاہب ہی جھوٹے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میری عقل مجھے بتاتی تھی کہ کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہونا چاہیے کیونکہ سچائی ہے ضرور۔ خواہ وہ عیسائیت میں نہ ہو۔ اس لیے مجھے اسے ڈھونڈنا چاہیے اور وہ مجھے اسلام میں نظر آئی۔ تو

پہلا سوال یہی ہوتا ہے جو کسی چیز کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ مجھے کسی چیز کی تلاش کرنی چاہیے۔

جب یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے تو اس سے علم کو ترقی ہوتی ہے۔

پھر خداتعالیٰ فرماتا ہے

دوسرا تغیّر یہ ہونا چاہیے سَاَلَکَ تجھ سے (اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) پوچھیں۔ یعنی ہدایت پانے والے اور خدا کو تلاش کرنے کے لیے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف جانا اور آپ سے پتا دریافت کرنا ضروری ہے۔

یہ دو تغیر ہوئے۔ اوّل یہ کہ سوال کی خواہش پیدا ہو کہ مجھے کچھ پوچھنا اور تلاش کرنا ہے۔ دوسرے اُس سے پوچھے جو واقف ہے۔ جس طرح بیمار کے تندرستی پانے کے لیے ضرورت ہے کہ وہ جان لے کہ وہ بیمار ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اُس ڈاکٹر کے پاس جائے جو اعلیٰ درجہ کا تجربہ کار ہو۔

تیسری بات جو قُربِ الٰہی کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کا سوال عَنِّی ہو۔ یعنی ان کی غرض محض خداتعالیٰ کو پانا ہو۔

کئی اغراض کے ماتحت لوگ مذاہب میں داخل ہوتے ہیں۔ بعض لوگ محض ایک جماعت میں منسلک ہونے کے لیے۔ بعض اخلاقِ فاضلہ کے لیے بعض معاشرہ یا تمدّن کے خیال سے۔ مگر یہاں فرمایا کہ ان کا سوال محض خداتعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہو کہ خدا کس طرح مل سکتا ہے۔

اس وقت بارش اُتر آئی ہے۔ حضور نے سلسلۂ کلام چھوڑ کر فرمایا:’’بارش ہے تو بے شک آگے کو ہو جاؤ‘‘۔

پھر فرمایا:پس مذہب دوسرے اغراض کے لیے نہیں بلکہ محض خدا کے لیے اختیار کیا جائے۔ ہاں! اگر دوسرے فوائد حاصل ہو جائیں تو ہو جائیں۔ مذہب سے غرض دوسرے فوائد نہیں ہونے چاہئیں بلکہ محض خدا ہونا چاہیے۔

یہ پہلا مقام ہے جو قُرب الٰہی میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ یاد رکھو عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب اِذَا کے بعد ’’ف‘‘ آتی ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں کہ پہلے کام کے نتیجہ سے یہ ہو گا۔ پس فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ پس اﷲ قریب ہے۔ بلکہ یہ بھی ہیں کہ جب یہ تین باتیں جمع ہو جائیں یعنی سوال کریں کہ ہمیں خدا کی جستجو کی ضرورت ہے۔ پھر تجھ سے سوال کریں اور میری ذات کے لیے کریں۔ فلاسفروں، سائنسدانوں سے یا عیسیٰ یا موسیٰ سے نہیں بلکہ تیرے پاس آئیں، قرآن کے پاس آئیں، احادیث میں ڈھونڈیں یا تیرے خلفاء کے پاس آئیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے متعلق دریافت کریں کہ خدا کیونکر مل سکتا ہے؟ فرمایا جب یہ تغیرات ہو جائیں تو اس کا نتیجہ ہوتا ہے میں اس کے قریب ہو جاتا ہوں۔

کسی کو یہ غرض نہ ہو کہ مال مل جائے۔ یہ خواہش نہ ہو کہ جماعت مل جائے گی۔ بلکہ خدا کی تلاش ہو۔ تو ان تینوں باتوں کے نتیجہ میں مَیں قریب ہو جاتا ہوں۔

یہ پہلا مقام ہے۔

پھر فرمایا: اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ اس کے بعد لازمی نتیجہ کیا ہے اور طبعی نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ آپ لوگوں میں سے بہت سے لوگ جنگلوں میں نہیں گئے ہوں گے مگر میں گیا ہوں۔ جب کوئی ساتھی دُور چلا جاتا ہے تو پھر انسان اُس کی تلاش کرتا ہے۔ کوئی شخص ملے تو اُس سے پوچھتا ہے کہ کیا ایسی شکل، ایسی ٹوپی، ایسے قد کا آدمی تو تم نے نہیں دیکھا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہاں دیکھا ہے اور قریب ہی جاتا ہے تو انسان بےاختیار ہو کر آواز دیتا ہے ’’او نور محمدا‘‘مثلاً اُس کا نام نور محمد ہے تو فوراً اُس کو پکارتا ہے کہ وہ اَور آگے نہ چلا جائے۔ اور وہ آگے سے جواب دیتا ہے اِدھر آ جاؤ میں یہاں ہوں۔ اِسی طرح جب خدا سے ملنے کی خواہش انسان میں پیدا ہوتی ہے تو وہ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم سے پوچھتا ہے یعنی جب انسان کے دل میں خدا کے پانے کی خواہش ہوتی اور وہ پوچھ بھی لیتا ہے کہ کیا وہ مل سکتا ہے۔ تو وہ بےاختیار کہتا ہے خدایا میں تیرا قُرب چاہتا ہوں۔تجھ سے ملنا چاہتا ہوں۔ پھر خداتعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اِدھر آ جاؤ۔ اِسی کے متعلق فرمایا میں پکارنے والوں کی آواز کا جواب دیتا ہوں۔ یہ دوسرا قُرب ہوا۔ پہلا تو یہ تھا کہ انسان اُس کی تلاش میں جا رہا تھا۔ دوسرا یہ ہے کہ خدا کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اے ڈھونڈنے والے! اِدھر آؤ میں یہاں ہوں۔

پھر کیا ہوتا ہے۔ فرمایا اِس پر نہ ٹھہر جاؤ بلکہ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَجیسا کہ پیچدار راستوں میں قاعدہ ہوتا ہے کہ تم جس کو تلاش کرتے ہو اور وہ تمہاری آواز سن لیتا ہے تو وہ تمہیں بتاتا ہے۔ اس راستہ سے آنا، اس طرف کو آنا، فلاں درخت کے نیچے سے آنا۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ بھی اپنے ملنے کی ترکیبیں بتلاتا ہے جن پر چل کر انسان کو اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً اﷲتعالیٰ نیک اعمال کے رستے بتاتا ہے۔ نیک سلوک کے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ کوئی فقیر اس کے پاس بھیج دیتا ہے کہ اس سے نیک سلوک کرے اور ثواب حاصل کرے۔ تبلیغ کا کوئی موقع بہم پہنچا دیتا ہے۔ اس کے متعلق یہ ضروری نہیں کہ الہام ہی خدا کی طرف سے ہو بلکہ نیکی کرنے کے مواقع انسان کے سامنے آنے لگتے ہیں۔

اُس وقت انسان کو چاہیے کہ ان تحریکات کو قبول کرے۔ خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی۔

پھر فرمایا: وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ مجھ پر توکّل اور بھروسہ بھی رکھیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مجھ تک پہنچ جائیں گے۔ اِس طرح رئویت کا مقام حاصل ہو گا یا وِصال کا مقام مل جائے گا۔

پہلی حالت تو سماعی تھی۔ سنا تھا کہ خدا مل سکتا ہے۔ دوسری یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہاں میں قریب ہوں۔ تیسرا یہ کہ خداتعالیٰ اپنے قُرب پانے کے رستے کھولتا ہے۔ نئے نئے مواقع پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان ان کو استعمال کرے اور خدا پر توکّل رکھے تو ایک دن خداتعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ سو اس آیت میں قُرب الٰہی کے یہ تین مدارج بتائے گئے ہیں۔

ہماری جماعت کے لوگوں کو خدا کے فضل سے پہلا موقع تو مل گیا کہ اوّل ہم خدا کی تلاش میں ہیں۔ دوسرے ہم نے مولویوں سے نہیں پوچھا بلکہ ایک نبی سے پوچھا ہے ۔تیسرے سوال بھی خداتعالیٰ ہی کے متعلق کیا ہے کہ ہمیں خدا کے قُرب کی راہ بتائے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس رمضان میں موقع بھی دعاؤں کا خوب مل گیا اور قریباً ہر ایک شخص نے یہی دعا کی ہو گی کہ خدایا! میں تیرا قُرب چاہتا ہوں۔

اب اگلا مرحلہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے نیکی اور ثواب حاصل کرنے کے لیے جو مواقع نکالے جائیں گے اُن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔

کیونکہ ان سے ہمیں قُرب الٰہی حاصل ہو گا۔ ہمیں مشکلات بھی درپیش ہوں گی۔ مگر ان کا نتیجہ کامیابی ہو گا۔ کیونکہ جیسا کہ کہا گیا ہے۔

ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است

زیر آں گنج کرم بنہادہ است

پس اب اگر سلسلہ کے لیے مشکلات برداشت کرنی پڑیں تو ہمیں پہلوتہی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ ہمیں اپنی قربانیوں سے اس آواز پر لبیک کہنا چاہیے۔ کیونکہ تم نے آوازیں دیں۔ دعائیں کی ہیں کہ خدایا ہم تجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اور ان دعاؤں کی قبولیت کے لیے الہام کی ضرورت نہیں بلکہ نیکیوں کے راستے بتلانا بھی ہے۔ سو ان دعاؤں کے بدلے میں تمہیں نیک کام کرنے کے مواقع ملیں گے۔ اس لیے تم ہوشیار ہو جاؤ اور چوکس ہو جاؤ۔ تا ایسا نہ ہو کہ وہ مواقع آئیں اور تم انہیں غفلت میں گزار دو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری مثال اُس شخص کی مانند ہو جو اپنے ساتھی کو پکارتا ہے لیکن جب وہ آتا ہے تو یہ وہاں سے ہٹ جاتا ہے۔ یا اُس کی مانند ہو جو اپنے دوست کے دروازے پر دستک دیتا ہے مگر جب اُس کا دوست آتا ہے تو یہ وہاں سے ہٹ کر دوسرے مکان کے دروازے پر چلا جاتا ہے یا سو جاتا ہے۔ تم نے خدا کی تلاش شروع کی ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے اُس کے متعلق سوال کیا ہے اور خدا کی نسبت کیا ہے۔ تم نے روزے رکھے اور راتیں جاگ کر گزاری ہیں۔ اس لیے کہ تمہارے لیے خدا کے قُرب کی راہ کھل جائے۔ تم نے آوازیں دی ہیں۔ اب تمہارا فرض ہے کہ نیکی کے جو مواقع تمہارے لیے بہم پہنچیں اُن سے فائدہ اٹھاؤ۔ خدا کے بندوں سے حُسنِ سلوک کرو۔ تبلیغ کے لیے اگر مال کی ضرورت ہو تو دو۔ دین کے لیے اگر وقت کی ضرورت پیش آئے تو دو۔ اگر جان کی ضرورت پڑے تو دو۔ اور اگر دین کی خاطر عزت بھی قُربان کرنی پڑے تو کرو۔ اور ہر ایک نیک تحریک کو قبول کرو۔ جب یہ حالت ہو گی تو کیا ہو گا؟ خدا کا قُرب حاصل ہو گا۔

یہ انتہائی قُرب نہیں۔قرب کے بھی مدارج ہیں۔ خداتعالیٰ کی ذات بے انتہا ہے۔ اس لیے اُس کے قُرب کی راہیں بھی کھلتی رہتی ہیں۔ یہ قُربِ الٰہی جو اس آیت میں بتایا گیا ہے پہلا مقامِ قُرب ہے۔ اس کے بعد شک اور تردّد کی حالت جاتی رہتی ہے۔ بلکہ اس کے بعد تسلّی اوراطمینان کی زندگی ہوتی ہے۔ جب اس پر چلو گے تو اَور زیادہ سے زیادہ اس کے قُرب کی راہیں کُھلیںگی۔یہ اطمینان کا رستہ ہمیں رمضان میں بتایا گیا ہے۔ اِس پر چل کر فائدہ اٹھاؤ تا اطمینان کی زندگی پاؤ۔(الفضل ۵؍جون ۱۹۲۲ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button