مکتوب

مکتوب جنوبی امریکہ (مارچ ۲۰۲۴ء) (مارچ ۲۴ء کے دوران بر اعظم جنوبی امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات کا خلاصہ)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

کیریبین کمیونٹی کے سربراہان کی کانفرنس

کیریبین کمیونٹی (CARICOM) کے سربراہان کی چھیالیسویں کانفرنس جارج ٹاؤن گیانا کے نیشنل کلچرل سینٹر میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی صدارت گیانا کے صدر محترم ڈاکٹر محمد عرفان علی صاحب نے کی۔ تمام رکن ممالک کے سربراہان اجلاس میں شامل ہوئے۔ برازیل کے صدر مہمان خصوصی کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شامل ہوئے۔ اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی، زراعت خوراک اور غذائی تحفظ کی ذمہ داری، سنگل مارکیٹ اینڈ اکانومی، علاقائی سلامتی بشمول ہیٹی کی صورتحال اور سرحدی مسائل، علاقائی نقل و حمل اور اس کے تحفظ پر غور کیا گیا۔

کینیڈا کے بین الاقوامی ترقی کے وزیر مسٹر احمد حسین(Ahmed Hussen) نے بھی اس دو،روزہ کانفرنس میں خصوصی طور پر شرکت کی، وزیر موصوف نے گیانا کی علاقائی سالمیت اور اقتصادی ترقی کےلیے بھر پور حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔مزید برآں ہیٹی، بیلیز، ڈومینیکا، گریناڈا، گیانا، جمیکا، سینٹ لوشیا، سینٹ ونسنٹ سمیت متعدد ممالک کے لیے چار نئے بین الاقوامی امدادی منصوبوں کے لیے ۳۹.۲ ملین ڈالر کی فنڈنگ کا اعلان کرتے ہوئے کیریبین خطے کی ترقی میں بھرپور شراکت داری کا عزم ظاہر کیا۔

چھ سوافراد اور ۲۰ ارب ڈالر کے سونے سمیت غرق ہونے والا بحری جہاز اور اس کا ملبہ

یہ ۸؍جون ۱۷۰۸ءکا واقعہ ہے جب کولمبیا کے ساحل کے نزدیک ہسپانوی بحری جہاز(San Jose galleon) ’’سین ہوزے‘‘پر برٹش بحریہ کے جنگی جہازوں نے حملہ کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں سین ہوزےاسی روز رات کے وقت بحیرہ کیریبین میں ڈوب گیا۔اس جہاز کے غرق ہونے کے ساتھ اس پر سوار تقریباً چھ سو افراد اور ۲۰؍ ارب ڈالر مالیت کا سونا، چاندی اور زیورات بھی ہمیشہ کے لیے سمندر میں غائب ہو گئے۔صدیوں تک لوگ سین ہوزےکے ساتھ غرق ہونے والے خزانے کی تلاش میں لگے رہے لیکن کسی کو کامیابی نہ مل سکی اور رفتہ رفتہ یہ سمندر کی تہہ میں چھپا ایک راز بن گیا۔اس جہاز کے غرق ہونے کے ۲۰۵ سال بعد بالآخر سنہ ۲۰۱۵ء میں اس جہاز کا بھید اُس وقت کُھلنا شروع ہوا، جب کولمبیا کی حکومت نے اعلان کیا کہ انہوں نے سمندر کی گہرائیوں میں اس جہاز کا ملبہ تلاش کر لیا ہے۔یہ جہاز آج کولمبیا کے پانیوں میں ۶۰۰ میٹر گہرائی میں موجود ہے۔ تاہم اس پر لدے ہوئے اربوں ڈالر مالیت کے سونے کے باعث یہ جہاز تنازعات کو جنم دے رہا ہے کیونکہ اب بہت سے فریق میدان میں ہیں جو اس خزانے کے دعویدار ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ کولمبین حکومت نے آج تک اس جہاز کے ملبے کے صحیح مقام کا انکشاف نہیں کیا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ سین ہوزے کا ملبہ(Cartagena) کارتیخینا ساحل سے ۴۰؍ کلومیٹر دور جزائر روزاریو کے قریب سمندر کی تہہ میں پڑا ہوا ہے۔۲۷؍نومبر ۲۰۱۵ ءکو امریکی کمپنی’’ووڈز ہول اوشینیو گرافک انسٹیٹیوشن‘‘(Woods Hole Oceanographic Institution)کی روبوٹک آبدوز ’ریمس ۶۰۰۰‘نے سین ہوزے کو باضابطہ طور پراور پہلی دفعہ سمندر کی گہرائی میں دریافت کیا۔تقریباً چار میٹر لمبی یہ روبوٹک آبدوز سمندر کی سطح کے نیچے چھ کلومیٹر تک جا سکتی ہے۔ یہ سین ہوزے سے صرف نو میٹر کے فاصلے تک پہنچنے میں کامیاب رہی اور وہیں سے اس نے ڈوبے ہوئے جہاز کی اور اس پر موجود کانسی کی توپوں (جن پر ڈولفن کے نشان کندہ تھے) کی تصاویر لیں۔ اس جہاز پر موجود اِن منفرد توپوں کی ہی بدولت محققین سین ہوزے کو پہچاننے میں کامیاب رہے۔سنہ ۲۰۱۵ءمیں سین ہوزے کی باقاعدہ دریافت کے بعد کہا جا رہا تھا کولمبیا کی حکومت خزانے کو نکالنے کے لیے نجی کمپنی کے ساتھ شراکت داری کرنے جا رہی ہے۔ ماہرین کو خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے سین ہوزے کا ملبہ تقسیم ہو سکتا ہے اور وہ چیزیں جن کی ثقافتی ورثے کے تحت درجہ بند ی نہیں ہوئی ہے، وہ کسی نجی کمپنی کو جا سکتی ہیں۔مصنف اور تاریخ دان فرانسسکو میوز سین ہوزے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو سین ہوزے کے بارے میں مکمل طور پر جاننے کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کولمبیا کو اس معاملے میں ایک نگران کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو جہاز کے خزانے سے روشناس کروانے کے لیے کارتیخینا (Cartagena)میں ایک میوزیم کھولا جانا چاہیے۔ کولمبیا کے وزیر ثقافت ہوآن ڈیوڈ نے کہا کہ سین ہوزے کے ملبے کو نکالنے کے لیے رواں برس اپریل اور مئی میں کوششیں کی جائیں گی لیکن اس کا دارومدار کیریبین میں سمندری حالات پر منحصر ہو گا۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک سائنسی مہم ہو گی۔

کولمبین صدر(Gustavo Petro) گسٹاو پیٹرو سے ملاقات کے بعد وزیر ثقافت(Juan David Correa) ہوآن ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ یہ آثار قدیمہ کا ملبہ ہے کوئی خزانہ نہیں ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کولمبیا کی حکومت کا یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر جلد بازی نہیں کی جا سکتی۔ہوآن گیلرمو مارٹن پانی کے اندر پائے جانے والے آثار قدیمہ کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کولمبیا کے پاس اس کو سنبھالنے کے لیے وسائل نہیں ہیں، تو اس کو حاصل کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔ یہ نہ صرف کولمبیا کے ورثے کے لیے بلکہ انسانیت کی طرف ذمہ داری کا ایک بنیادی اصول ہے۔

ہیٹی میں بد امنی اور لاقانونیت

ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرنس کی مرکزی جیل پر مسلح گروہوں کے حملے کے بعد چار ہزار قیدی فرار ہوگئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جیل توڑ کر بھاگنے والے ملزمان میں وہ ارکان شامل تھے جن پر ۲۰۲۱ءمیں صدر جوونیل مویس کے قتل کا الزام ہے۔ہیٹی میں حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔گینگ لیڈر جمی چیریزیئر، جسے ’باربی کیو‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے حملے کا اعلان کیا تھا۔فائرنگ کے نتیجے میں چار پولیس اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔

دارالحکومت(Port-au-Prince) پورٹو پرنس میں جاری تشدد کے بیج ملک کے وزیر اعظم ایریل ہنری کے استعفیٰ کی ذمہ داری ملک کے دو طاقتور مافیا گینگ لیڈروں پر عائد کی جا رہی ہے۔ہیٹی پولیس یونین نے جیل کی سیکیورٹی بڑھانے کے لیے فوجی مدد کی درخواست کی، لیکن ۲؍مارچ کی رات کو کمپاؤنڈ پر دھاوا بول دیا گیا۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ۳؍مارچ کو جیل کے دروازے کھلے رہے اور وہاں سیکیورٹی موجود نہیں تھی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ فرار ہونے کی کوشش کرنے والے تین قیدی صحن میں مردہ پائے گئے۔صدر جوونیل مویس کے قتل کے الزام میں قید کولمبیا کے سابق فوجیوں سمیت ۹۹؍ قیدیوں نےافراتفری میں زخمی ہونے یا مارے جانے کے خوف سے جیلوں میں رہنے کا فیصلہ کیا۔صدر جوونیل مویس کے قتل کے بعد سےملک میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا تھا، ابھی تک کوئی نیا صدر نہیں بنا اور ۲۰۱۶ء سے انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔سال ۲۰۲۳ءکے اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ کی آبادی والے ملک ہیٹی میں قومی پولیس فورس میں فعال ڈیوٹی افسران کی تعداد محض نو ہزار ہے۔ یہ تعداد ان گروہوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے جو امریکہ سے سمگل کیے گئے اعلیٰ معیار کے ہتھیاروں سے لیس ہیں۔اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کی کوآرڈینیٹر الریکا رچرڈسن کے مطابق دارالحکومت کا اسی فیصد حصہ اب ان گینگز کے کنٹرول میں ہے اور ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو ’غیر انسانی‘سطح کے تشدد کا سامنا ہے۔ مز رچرڈسن نے کہا کہ ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۳ء کے درمیان جنسی تشدد میں ۵۰ فیصد اضافہ ہوا ہے خاص طور پر خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو گینگز کے ارکین کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔مسٹر ہنری نے متعدد بار تشدد سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے لیکن ابھی تک صرف بہاماس، بنگلہ دیش، بارباڈوس اور چاڈ نے اقوام متحدہ کو باضابطہ طور پر بتایا ہے کہ وہ سکیورٹی اہلکار بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔لیکن ابھی تک کوئی سکیورٹی اہلکار ان کی مدد کو نہیں پہنچا ہے۔تشدد میں تازہ ترین اضافے کے دوران ہی ہیٹی کے وزیراعظم ہنری کینیا کے دورے پر گئے تاکہ وہاں کے حکام کے ساتھ لابنگ کریں اور ہیٹی میں مزید ایک ہزار پولیس افسران کی تعیناتی کے اپنے وعدے کو پورا کرسکیں۔ لیکن ان دونوں گینگ سربراہان کے ساتھ ساتھ ایک سابق باغی بھی ہیں جو حال ہی میں امریکہ کی ایک جیل سے رہا ہوئے ہیں اور اب وہ ملک کا صدر بننے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو اس تمام تر پیچیدہ صورتحال کو مزید گھمبیر بنانےکے مترادف ہے۔ہیٹی ایک ایسا ملک جو اس وقت بدامنی کی وجہ سے مفلوج ہے اور ایک عبوری حکومت کے قیام کا منتظر ہے۔ ملک کے وزیراعظم طاقتور مافیا سربراہان کے دباؤ میں آ کر مستعفیٰ ہو چکے ہیں جب کہ اس سے قبل وہ اپنے ہی ملک میں روپوش تھے۔

برازیل کے سابق صدر پر دھوکہ دہی کا الزام

برازیل کی پولیس نے باضابطہ طور پر سابق صدر(Jair Bolsonaro) جیر بولسونارو پر کروناویکسی نیشن کے ریکارڈ سے متعلق دھوکہ دہی کا الزام لگایا ہےجس سے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ممکنہ مجرمانہ الزامات کی تحقیقات کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ محکمہ صحت کے ریکارڈ کے مطابق موصوف نے ۲۰۲۱ء میں ساؤ پالو میں کورونا سے بچاو کی ویکسین لگوائی۔ لیکن بعد میں کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ اس وقت شہر میں تھے ہی نہیں۔ مسٹر بولسنارو نے کورونا ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا اور عوامی سطح پر اعلان کیا تھا کہ وہ کبھی بھی ویکسین نہیں لگوائیں گے۔امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق برازیل میں کوویڈ ۱۹ سے تقریباً سات لاکھ افراد ہلاک ہو ئے۔ وفاقی پولیس نے مسٹر بولسنارو پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے جعلی ویکسی نیشن کارڈ بنوایا جو اس وقت امریکہ سمیت بہت سے ممالک کے لیے داخلے کی ضروری تھا۔ برازیل کے اٹارنی جنرل کا دفتر اب فیصلہ کرے گا کہ آیا سابق صدر پر فرد جرم عائد کی جائے۔ قبل ازیں ۶۸؍ سابق صدر کو ان الزامات کی تحقیقات کے لیے اپنا پاسپورٹ حکام کے حوالے کرنا پڑا تھا جس میں انہوں نے اکتوبر ۲۰۲۲ءکے انتخابی نتائج کو الٹنے کی کوشش کی تھی اور فوجی سربراہان پر بغاوت کی کوشش میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر) (Luiz Ignacio Lula da Silva سے شکست کے بعد ان کے ہزاروں حامیوں نے دارالحکومت برازیلیا میں صدارتی محل، سپریم کورٹ اور کانگریس سمیت سرکاری عمارتوں پر دھاوا بول دیا اور عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی۔

کیوبا میں بجلی کی بندش کے خلاف عوام کا احتجاج

کیوبا کے دوسرے سب سے بڑے شہر سینٹیاگو میں سینکڑوں لوگوں نے بجلی کی طویل بندش اور خوراک کی قلت کے خلاف ایک غیر معمولی عوامی احتجاج کیا۔ اس جزیرے کو تین دہائیوں سے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے، ملک کا بڑا حصہ دن میں چودہ گھنٹے سے زیادہ بجلی سے محروم رہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں لوگوں کو ’’طاقت اور خوراک‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اربابِ اختیاراس صورتحال کا ذمہ دار امریکی پابندیوں کو قرار دیتے ہیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی بدانتظامی کی وجہ سے ہے۔ ۱۹۶۰ء کے بعد سے، امریکہ نے کیوبا کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ تقریباً ۱۱ ملین کی آبادی کے ساتھ کمیونسٹوں کے زیر انتظام جزیرے کیوبا کی معیشت حالیہ برسوں میں شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے نقد رقم سے محروم ملک پر مزید دباؤ ڈالا، جس کی وجہ سے خوراک، ایندھن اور دوائیوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ فروری میں حکومت نے اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام سے خوراک کی کمی کی وجہ سے مدد طلب کی جس میں بطور خاص سات سال سے کم عمر بچوں کے لیے خشک دودھ فراہم کرنے کے لیے فوری مدد کی درخواست کی گئی۔ لیکن حالیہ دنوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگ گھروں میں پاور جنریٹر ہونے کے باوجود ایندھن حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں تاکہ وہ اپنےفریج اور فریزر میں بنیادی ضرورت کی اشیا ذخیرہ کرسکیں۔ معاشی حالات کی وجہ سے کیوبا کے باشندوں کی ریکارڈ تعداد میں امریکہ ہجرت کی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button