صحتمتفرق مضامین

جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering) کے بارے میں قرآنی پیشگوئی

(ابو نائل)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں شیطان کی اس تعلّی کا ذکر فرماتا ہے: لَّعَنَہُ اللّٰہُ ۘ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنۡ عِبَادِکَ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا۔ وَّلَاُضِلَّنَّہُمۡ وَلَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَلَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَمَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا۔(النساء:۱۱۹-۱۲۰)ترجمہ: اللہ نے اس پر لعنت کی جبکہ اس نے کہا کہ میں تیرے بندوں میں سے ضرور ایک معیّن حصہ لوں گا۔ اور میں ضرور ان کو گمراہ کروں گا اور ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور مویشیوں کے کانوں پر زخم لگائیں گے اور میں ضرور اُنہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی تخلیق میں تغیّر کردیں گے۔ اور جس نے بھی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا تو یقیناً اس نے کھلا کھلا نقصان اٹھایا۔

اللہ کی تخلیق میں تغیّر کرنے کا مطلب کیا ہے؟ جہاں تک انسانی فطرت کے حوالے سے اس میں تغیر کرنے کا تعلق ہے تو انسانی فطرت تو توحید کی پیروی کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اور اس میں تغیر کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ تفسیر صغیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی فطرت کو جو توحید کی طرف توجہ دلاتی ہے بدل کر وہ شرک کا رواج قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اگر اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں جسمانی تغیر کے پہلو سے جائزہ لیں تو آج سے دو تین صدیاں پہلے تک نسل ِانسانی کا علم محدود تھا۔ بہت سے مفسرین نے سوچ بچار کی کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کریں لیکن وہ اپنے زمانے کے علم کے مطابق محدود معانی ہی بیان کر سکے۔مثال کے طور پر تفسیر در منثور میں بہت سے علماء کے حوالے درج کیے گئے ہیں کہ شاید اس سے مراد جانوروں کو خصی کرنا ہے۔لیکن جب سائنسی ترقی کا دور شروع ہوا تو اس کے ساتھ انسان کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اور ایسے نئے امکانات سامنے آنے لگے کہ اب سائنسدان مختلف ذرائع سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے کے تجربات کر سکتے ہیں۔

ڈی این اے(DNA) کی اہمیت

اس ممکنہ مداخلت یا تبدیلی کا ایک نیا راستہ اس وقت پیدا ہوا جب خلیوں کے نیوکلیئس (Nucleus)یا مرکزمیں ڈی این اے اور اس کی اہمیت دریافت ہوئی۔ کسی شخص کی آنکھوں، جلدیا بالوں کا رنگ کیسا ہونا چاہیے۔ اس کا فیصلہ اس کا ڈی این اے کا ایک حصہ کرتا ہے۔ جسے جین (Gene)کہتے ہیں۔ مختلف موروثی بیماریاں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کیونکہ متاثرہ شخص کا ڈی این اے عام انسانی ڈی این اے سے مختلف ہوتا ہے۔اب تو سائنسدان یہ کہنے لگے ہیں کہ انسان کا قد کتنا ہوگا اس کا اسّی فیصد انحصار اس کے ڈی این اے پر ہوتا ہے اور اس کا مزاج کیسا ہے اس کا بیس سے ساٹھ فیصد انحصار اس کے ڈی این اے پر ہوتا ہے۔ وغیرہ۔ اس دریافت کے ساتھ یہ سوال اٹھنا شروع ہو گیا کہ اگر سائنسدان کسی جاندار کا ڈی این اے مصنوعی طریقہ پر تبدیل کر دیں تو اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟

ابتدائی تجربات

ستّر کی دہائی میں سائنسدانوں نے اس سمت میں تجربات شروع کیے۔۱۹۷۲ءمیں ایک سائنسدان جان برگ نے دو اقسام کے وائرس کے genome کو آپس میں مدغم کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔اس کے بعد یہ تجربات شروع ہوئے کہ کسی جاندار کے ڈی این اے میں تبدیلی کی جائے۔۱۹۷۳ء میں دو سائنسدانوں ہربرٹ بائر (Herbert Boyer) اور سٹینلے کوہن (Stanley Cohen )نے ایک بیکٹیریا کے ڈی این اے کو تبدیل کیا۔اور اس سے اگلے سال ہی ایک چوہے کے ڈی این اے میں بیرونی ڈی این اے شامل کیا گیا۔

اب ان راستوں کی تلاش شروع ہوئی کہ کس طرح جینیٹک انجینئرنگ (Genetic Engineering)کے ذریعہ طبی اور دیگر فوائد حاصل کیے جائیں۔جلد ہی سائنسدانوں نے اس کے راستے ڈھونڈنے کی کامیاب کوششیں شروع کر دیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ارشاد

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی تصنیف Revelation Rationality Knowledge and Truthمیں اس تیکنیک کے ممکنہ فوائد اور نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ اس قسم کی تحقیقات کی باریک بینی سے نگرانی کرنا ضروری ہے۔اور جن جاندار اشیاء کا ڈی این اے مصنوعی طریق پر تبدیل کیا گیا ہے، کئی نسلوں تک ان کا جائزہ لینا چاہیے کہ زمین پر زندگی کے توازن پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ آپؒ تحریر فرماتے ہیں:’’یہ استنباط بھی درست نہیں کہ یہ آیت جینیاتی انجینئرنگ کے استعمال کو یکسر غلط قرار دیتی ہے۔ سائنس کی کسی بھی ایسی شاخ کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت اور اس میں تبدیلی کی بجائے اس کی حفاظت کے لیے کام کر رہی ہو۔مثلاََ کسی حادثہ کے نتیجہ میں جینز میں پیدا ہونے والی خرابی کو ٹھیک کرنے کے لیے جینیاتی انجینئرنگ کا استعمال کسی صورت میں بھی خدا تعالیٰ کے کاموں میں دخل اندازی قرار نہیں دیا جاسکتا۔اور کسی بیماری اور کسی غلط ادویات کے استعمال کے نتیجہ میں جینز میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعہ ٹھیک کرنے کی کوشش یقیناََ مذکورہ بالا آیت کے منافی نہیں ہے۔

بہر حال کچھ بھی ہو یہ بات نہایت اہم ہے کہ سائنسدانوں کو خدا کی تخلیق کے عظیم منصوبہ میں بے جا دخل اندازی کی کھلی چھٹی ہر گز نہیں دی جانی چاہیے۔انہیں تو شکر گذار ہونا چاہیے کہ ابھی تک کوئی شدید حادثہ رونما نہیں ہوا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو سراسر یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہو گی۔‘‘(الہام عقل علم اور سچائی، مصنفہ حضرت مرزا طاہر احمد صفحہ ۳۴۹)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی یہ پُر معرفت تحریر واضح کر دیتی ہے کہ جینیاتی انجینئرنگ سے نسل انسانی کو فوائد بھی پہنچائے جا سکتے ہیں اور اس کے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور تحقیق کے خوفناک نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔

جینیاتی انجینئرنگ کا ابتدائی استعمال

سب سے پہلے اس بات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ سائنسدانوں نے جینیاتی انجینئرنگ کے مثبت استعمال کے تجربات کس طریق پر شروع کیے؟

ہم یہ جانتے ہیں کہ ذیابیطس کی ایک قسم میں مریض کے جسم میں انسولین کا ہارمون صحیح مقدار میں نہیں بن رہا ہوتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس مریض کے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور وقت کے ساتھ مختلف اعضا پر اس کے مضر اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔اس صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے ایسے مریض کو انسولین کے ٹیکے لگانے پڑتے ہیں۔۱۹۷۸ءمیں سائنسدانوں نے جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعہ انسولین تیار کرنے کا کام شروع کر دیا اور ۱۹۸۲ء میں ایسے بیکٹیریا کی خرید و فروخت کی اجازت دے دی گئی جو کہ انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اور اس طرح انسولین کی فراہمی آسان ہو گئی۔

۱۹۹۴ء میں اس تیکنیک کے ذریعہ ایسا ٹماٹر تیار کر لیا گیا جو کہ دیر تک خراب نہیں ہوتا تھا۔ پھر فصلوں کی ایسی اقسام بھی تیار کی گئیں جو کہ نقصان دہ کیڑوں کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتی تھیں اور اس طرح پیداوار کو ان کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچتا تھا۔

اس سائنس کی تاریخی تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے اب اس پہلو کا تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ تجربات کے کیا ممکنہ نتائج نکل سکتے ہیں۔سب سے پہلے اس قسم کی فصلوں کی مثال کا جائزہ لیتے ہیں جن میں جینیاتی تبدیلیاں کی گئی تھیں، جیسا کہ پہلے مثال دی گئی تھی کہ ایسے ٹماٹر کی قسم تیار کی گئی تھی جو کہ دیر تک خراب نہیں ہوتا اور ایسی فصلیں تیار کی گئی تھیں جن پر ایسی ادویات کے بد اثرات ظاہر نہیں ہوتے جو کہ ان فصلوں کو نقصان پہنچانے والے حشرات الارض یا جڑی بوٹیوں کو ختم کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ایسی ادویات زیادہ مقدار میں استعمال کر کے ان فصلوں کی زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔

ممکنہ نقصانات

لیکن یہ سوال بار بار اٹھایا گیا ہے کہ ایسی اقسام جن میں جینیاتی تبدیلیاں کی گئی ہیں، کے صرف فوائد ہی ہیں یا ان کے کچھ نقصانات بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔سائنسی حلقوں میں یہ سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں کہ کیا جینیاتی تبدیلی کے بعد حاصل کی جانے والی خوراک مکمل طور پر محفوظ ہوتی ہے۔کیا یہ ضروری ہے کہ جب ایسی اشیا مارکیٹ میں لائی جائیں تو انہیں لیبل کیا جائے کہ یہ خوارک genetic engineering کے بعد پیدا کی گئی ہے؟یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ اس پس  منظر میں جب کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مستقبل میں خوراک کی قلت کے خطرات منڈلا رہے ہیں، یہ مناسب ہوگا کہ ایسی تیکنیک کی حوصلہ شکنی کی جائے؟

جب فصلوں یا سبزیوں کی ایسی اقسام تیار کی جاتی ہیں جو کہ اپنے آپ کو ان ادویات کے مضر اثرات سے محفوظ رکھ سکتی ہیں جو کہ جڑی بوٹیوں اور نقصان دہ حشرات الارض کو ختم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایسی ادویات بڑی مقدار میں استعمال کر کے ان فصلوں یا سبزیوں کو محفوظ بنایا جائے گا اور زیادہ پیداوار حاصل کی جائے گی۔لیکن ان ادویات کے اس استعمال کا یہ ممکنہ نتیجہ بہرحال نکل سکتا ہے کہ قدرتی نظام کے تحت یہ حشرات الارض اور جڑی بوٹیاں اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے اور زیادہ خطرناک بن جائیں۔اور پہلے سے بھی زیادہ مسائل پیدا کرنے کا باعث بن جائیں۔بعض ماہرین اس خدشہ کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اگر ایک ماحول میں کیڑوں کی ایک قسم ختم ہو یا بہت کم ہو جائے تو اس سے قدرتی توازن اس طرح متاثر ہو سکتا ہے کہ دوسری قسم کے حشرات الارض جو پہلے کم تعداد میں موجود تھے زیادہ بڑھ کر پیداوار کو نقصان پہنچانے لگ جائیں۔ مثال کے طور پردوسری قسم کی فصلوں اور سبزیوں کی اقسام کو نقصان پہنچانے لگ جائیں۔کیونکہ حشرات الارض کی مختلف اقسام ایک دوسرے کو زیادہ بڑھنے سے روکتی ہیں۔علاوہ ازیں بعض کیڑے اس لیے زرعی پیداوار کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں کیونکہ وہ نقصان دہ کیڑوں کو ختم کرتے ہیں۔ اگر ادویات کا بے دریغ استعمال بڑھ جائے تو ایسے کیڑے بھی ختم ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح جب کسی قسم میں جینیاتی تبدیلی کی جاتی ہے تو سائنسی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ممکن ہے کہ ماحول میں جو وائرس موجود ہوتے ہیں وہ ان نباتات کے تبدیل شدہ ڈی این اے سے مل کر نئی قسم کے وائرس کا روپ دھار لیں اور ممکن ہے کہ یہ نئے وائرس خطرناک ہوں۔

انسانی صحت پر ممکنہ بد اثرات

اب انسانی صحت پر ان ممکنہ مضر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ ایسی خوراک کے استعمال سے پیدا ہو سکتے ہیں جنہیں جینیاتی تبدیلی یا ڈی این اے کو سائنسی طور پر تبدیل کر کے تیار کیا گیا ہو۔ایسی خوراک میں ایسی نئی پروٹین موجود ہو سکتی ہے جو کہ انسانی آبادی میں خطرناک الرجی پیدا کرنے کا باعث بنے۔مثال کے طور پر اس تیکنیک سے پھلیوں کی ایسی اقسام تیار کی گئی تھیں جن میں پروٹین کی مقدار قدرتی اقسام سے زائد تھی۔لیکن ابتدائی استعمال کے بعد ان کی پیداوار روکنی پڑی کیونکہ ان سے الرجی کا مرض زیادہ ہو رہا تھا۔اسی طرح اگر اس تیکنیک سے خوراک کی اقسام تیار کی جائیں تو یہ خطرہ موجود رہے گا کہ اس خوراک میں کوئی ایسی پروٹین بن جائے جو کہ انسانی جسم کے لیے زہریلی ہو۔ لیکن اس امکان کو ابتدائی تجربات میں پکڑا جا سکتا ہے۔اس وقت بھی تیس کے قریب ممالک میں کروڑوں ایکڑ اراضی پر جینیاتی تبدیلی کے بعد تیار کی جانے والی خوراک اگائی جا رہی ہے۔ایسی فصلوں کا سب سے زیادہ استعمال امریکہ میں کیا جارہا ہے۔ امریکہ میں نوے فیصد سے زیادہ سویابین اور کپاس اور اسی فیصد سے زائد مکئی کی ان اقسام کی کاشت کی جا رہی ہے جنہیں جینیاتی تبدیلی (Genetic Modification)کے بعد تیار کیا گیا تھا۔

(Bawa AS, Anilakumar KR. Genetically modified foods: safety, risks and public concerns-a review. J Food Sci Technol. 2013 Dec;50(6):1035-46.)

اس تیکنیک کا مثبت پہلو

یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ سائنسدانوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ جینیاتی انجینئرنگ سے تیار ہونے والی اقسام کی تیاری اور وسیع پیمانے پر اس کا استعمال نسل انسانی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔راجر بیچی (Roger Beachy)وہ امریکی سائنسدان ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ ٹماٹر کی ایسی قسم تیار کی جو کہ موزیک وائرس (Mosaic Virus) سے اپنے آپ کو بچانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔انہوں نے سائنسی جریدے، Scientific American کو ایک انٹرویو میں اس ضمن میں ایک معین مثال پیش کی۔ اور وہ مثال یہ تھی کہ جینیاتی انجینئرنگ سےچاولوں کی ایک ایسی قسم تیار کی گئی ہے جو کہ گولڈن چاول کہلاتے ہیں۔یہ چاول اپنے اندر وٹامن اے کی زیادہ مقدار پیدا کرتے ہیں۔اور یہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہو سکتی ہے جو کہ وٹامن اے کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اور کئی بچے اس کمی کی وجہ سے اپنی بینائی کھو بیٹھتے ہیں۔ اکثر سائنسدان اس بات کے قائل ہیں کہ ماحول کو اس قسم سےکوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن پھر بھی مختلف ممالک میں اس کی کاشت کی منظوری کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔

(Scientific American April 2011. P 80-83)

اس بارے میں عدالتی فیصلے

جیسا کہ ایسی صورت حال میں ہوتا ہے، جب کسی صنعتی یا اقتصادی معاملہ میں متضاد آرا ایک دوسرے سے متصادم ہوں تو مختلف ممالک میں عدالتوں اور قانون ساز اسمبلیوں میں قانونی ٹکرائو شروع ہو جاتا ہے۔جینیاتی انجینئرنگ سے تیار ہونے والی فصلوں کی اقسام پر بھی مقدمات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اور اس طرح سائنسی بحث کے ساتھ قانونی جنگ بھی شروع ہو گئی جو کہ اب تک جاری ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے ۲۰۱۴ء میں ایک فیصلہ کے ذریعہ حکومت کو اس بات سے روک دیا کہ وہ مکئی اور کپاس کی ایسی اقسام کے استعمال کی منظوری دے جب تک کہ اس معاملہ میں قانون سازی نہ ہو جائے۔یورپ میں ایسی اقسام کے بارے میں ۲۰۰۳ء اور ۲۰۱۹ءمیں اہم قانون سازی کی گئی۔۲۰۰۹ءمیں امریکہ کی ایک عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ حکومت نے چقندر کی ایسی قسم کی منظوری دینے سے قبل ماحول پر اس کے اثرات کا مکمل جائزہ نہیں لیا۔گذشتہ سال کینیا کی ایک عدالت نے ایک ایسی درخواست رد کردی جس میں تمام ایسے بیجوں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کی درخواست کی گئی تھی جنہیں جینیاتی انجینئرنگ سے تیار کیا گیا ہو۔

جراثیم کی تبدیل شدہ اقسام

جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering) سے بیکٹیریا اور وائرس کی تبدیل شدہ اقسام تیار کرنے کے بہت سے منصوبے بھی بنائے گئے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سے کیا ممکنہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ایک استعمال تو یہ ہو سکتا ہے کہ مٹی کے اندر موجود بعض زہریلے مواد کو ختم کر کے کیمیاوی طور پر ایسے مواد میں تبدیل کر دیا جائے جو کہ زہریلا نہ ہو۔بیکٹیریا اور وائرس کی ایسی اقسام تیار کی جائیں جو کہ فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا خاتمہ کریں۔سمندر میں بعض مقامات پر کسی حادثہ کے نتیجے میں خام تیل کی بڑی مقدار بہ کر سمندر کے ماحول کو تباہ کرتی ہے۔ یہ تجویز کیا گیا کہ بیکٹیریا کی ایسی اقسام تیار کر لی جائیں جو کہ اس تیل کو ختم کریں۔حتیٰ کہ ایسی تجاویز بھی زیر تحقیق ہیں کہ جینیاتی انجینئرنگ سے ان جرثوموں کی اقسام تیار کی جائیں جو کہ معدنیات کے حصول میں کارآمد ثابت ہوں۔مثال کے طور پر ایسے جراثیم جو کہ زمین سے نکلنے والی خام حالت میں موجود معدنیات سے خالص دھاتوں کے حصول کا کام کریں۔یا کچرے اور ضائع ہونے والے مواد سے دھاتوں کو علیحدہ کر کے قابل استعمال بنا سکیں۔

(Chen J, Liu Y, Diep P, Mahadevan R. Harnessing synthetic biology for sustainable biomining with Fe/S-oxidizing microbes. Front Bioeng Biotechnol. 2022 Sep 5;10)

یہ تو ممکنہ طور پر حاصل ہونے والے فوائد تھے۔ اس کے ساتھ یہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ جب ایسے بیکٹیریا یا وائرس بڑھ کر زمین کے ماحول میں پھیلنا شروع کریں گے تو اس کے انسان اور دوسری جاندار اشیا کی صحت پر اور زمین کے ماحول پر کیا ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں؟ایسے جرثومے بہت تیزی سے اگلی نسلوں کو جنم دے کر تعداد میں بڑھتے ہیں۔ اس لیے انہیں ایک مرتبہ ماحول میں چھوڑ دیا جائے تو پھر انہیں ختم کرنا بہت مشکل ہوگا اور ان جرثوموں کے استعمال سے قبل ان کے مکمل اثرات کا جائزہ لینا سائنسی طور پر نا ممکن ہے۔

بہت سے سائنسدان اور تنظیمیں اس تیکنیک کے ذریعہ تبدیل شدہ جرثوموں کو تیار کر کے استعمال کرنے کی شدید مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ قدرتی طور پر مٹی میں اربوں اقسام کے جرثومے پائے جاتے ہیں جو کہ خوراک کی پیداوار کو بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔اگر زرعی مقاصد کے لیے جرثوموں کو استعمال کرنا ہے تو ان قدرتی جرثوموں کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔جو تبدیل شدہ جراثیم تیار کیے جا رہے ہیں وہ غیر متوقع طور پر جانوروں اور انسانوں میں بیماری کا باعث بن سکتے ہیں اور خاص طور پر وہ لوگ جن کی قوت مدافعت کمزور ہے ان جراثیم کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ان گروہوں کی طرف سے ان اندیشوں کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ جو کمپنیاں یہ جراثیم تیار کر رہی ہیں، ان کی تحقیق کا اکثر مواد خفیہ رکھا جاتا ہے اور قانونی طور پر دوسرے سائنسدان ان حقائق تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔

(https://foe.org/resources/ge-soil-microbes/.accessed on 12.03.2024)

انسانوں پر جینیاتی انجینئرنگ کا استعمال

اس پس منظر میں سب سے زیادہ اہمیت اس سوال کی تھی کہ جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering) کی تیکنیک کو انسانوں میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے مثبت اور منفی پہلو کیا ہوں گے؟ بعض موروثی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن میں صرف ایک جین (Gene)میں نقص ہوتا ہے۔اور اگر ایسی بیماریوں میں اس جین کو تبدیل کر کے درست جین ڈال دی جائے تو یہ ناقابل علاج کہلانے والی بیماریاں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔۱۹۹۰ءکی دہائی میں ایسی بیماریوں کا جینیاتی انجینئرنگ سے علاج کے تجربات شروع کیے گئے۔۱۹۹۰ءمیں دو بچیوں کا اس تیکنیک سے علاج کیا گیا۔ ان بچیوں میں ایک جین کے نقص کی وجہ سے قوت مدافعت کم تھی۔سائنسدانوں نے ایک وائرس میں یہ جین (Gene)داخل کی اور ان مریضوں کے خون میں موجود سفید ذرات (جو کہ جسم کی قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں ) علیحدہ کیے۔اور وائرس کی ایک تبدیل شدہ قسم کو ان سفید ذرات میں داخل کر دیا۔اس طریق پران کی بیماری مکمل طور پر تو ٹھیک نہیں ہوئی لیکن اس کی علامات نمایاں طور پر کم ہو گئیں۔

اس جزوی کامیابی کے بعد سائنسدانوں نے تواتر سے اس قسم کے تجربات شروع کیے لیکن چند سالوں میں ہی ان محدود تجربات میں ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک مریض کی جگرکی بیماری کا اس طریق پر جب علاج کیا گیا تو اس کی قوت مدافعت تیز ہو کر اپنے جسم پر ہی حملہ آور ہو گئی اور اس اٹھارہ سال کے مریض کا انتقال ہو گیا۔ بعض مریض جن کی کم قوت مدافعت کو اس طریق پر ٹھیک کیا گیا تھا خون کے کینسر یعنی Leukemiaکا شکار ہو گئے۔ان حادثوں کے بعد وقتی طور پر ان تجربات میں کمی کر دی گئی اور اس قسم کی تحقیق کو ملنے والے مالی وسائل بھی بڑی حدتک منقطع ہو گئے۔

لیکن اس وقفہ میں سائنسدانوں نے انسانی خلیوں (Cells)میں جین داخل کرنے والی تیکنیک کو بہتر بنانا شروع کیا۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ شروع میں تبدیل شدہ وائرس کے ذریعہ خلیوں کے جین تبدیل کیے جاتے تھے۔اب اس کام کے لیے جدید ترین طریق CRISPR-Cas9استعمال کیا جاتا ہے۔اس طریق میں ایک RNAاستعمال کیا جاتا ہے جو کہ خلیوں کے مرکز (Nucleus)میں اس جین کی نشاندہی کر دیتا ہے جس کو بدلنا مقصود ہو۔اور Cas9وہ enzyme ہے جس کے ذریعہ اس جین کو کاٹ کر علیحدہ کر دیا جاتا ہے تا کہ اسے تبدیل کیا جا سکے۔ گویا یہ ایک قینچی کا کام دیتا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کے نزدیک اس طریق کو استعمال کرنے کے بھی مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔مثال کے طورپر غلطی سے غلط حصہ کٹ کر علیحدہ ہو سکتا ہے۔اور اس تیکنیک سے سائنسدانوں کو ایک ایسی قینچی میسرآ گئی ہے جس کو استعمال کر تے ہوئےبے احتیاطی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کے بھیانک نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔اور جن دو خواتین کو اس کی دریافت پر نوبیل پرائز ملا تھا، انہوں نے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ خاص طور پر انسانوں پر اس تیکنیک کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے ورنہ اس کے غلط نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔

بہر حال اب جینیاتی انجینئرنگ سے موروثی بیماریوں کا علاج کرنے کا سلسلہ ایک نئے اعتماد سے شروع کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بوسٹن چلڈرن ہاسپٹل میں اس سے SCIDکی بیماری کا کامیاب علاج کیا گیا۔ اس بیماری میں پیدائشی طور پر قوت مدافعت نہایت کم ہوتی ہے۔ اور اس کا مریض بار بار مختلف جراثیموں کا شکار بن کر موت کے منہ میں جا پہنچتا ہے۔لیکن ابھی بھی تمام تجربات کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہے۔ایک کمپنی بلوبرڈ بایو نے اس طرز پر ایک موروثی بیماریLeukodystrophyکا علاج شروع کیا۔ اس بیماری میں بچوں کے دماغ کا نقصان ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ دس سال کی عمر سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے۔جن کا علاج کیا گیا ان میں سے ۶۷؍ مریضوں میں خون کے سرطان کی ابتدائی شکل پیدا ہو گئی اور یہ سلسلہ روکنا پڑا۔اس پر ایک سائنسدان نے یہ تبصرہ کیا :

“I think you have to have humility when you‘re manipulating the human genome.”

یعنی میرے خیال میں جب آپ انسانی جین میں جوڑ توڑ کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

(Overcoming Gene Therapy‘s Long Shadow By Tanya Lewis. Scientific American, Nov. 2021. P-913)

سٹیفن ہاکنگ کی ایک تشویش ناک تحریر

بار بار خطرے کی گھنٹیاں بجنے کے باوجود ابھی بھی چوٹی کے سائنسدانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو کہ اس کے ممکنہ بداثرات کا ذکر کیے بغیر اس کے بارے میں ایسے خوش کن نتائج کا پرچار کر رہے ہیں جیسے اب انسانی ارتقا صرف اس تیکنیک سے وابستہ ہے۔ ابھی بھی یہ کیفیت ہے کہ خود اس میدان کے چوٹی کے سائنسدان یہ اعتراف کرتے ہیں کہ گو کہ ہم نے انسانی ڈی این اے کا نقشہ تو تیار کر لیا ہے لیکن ابھی بھی ہم اس کے کام، ماہیت اور اس کی باریکی کے بارے میں صرف سطحی علم رکھتے ہیں۔ اس کم علمی کے ساتھ اس میں غیر ذمہ دارانہ چھیڑ چھاڑ بھیانک نتائج بھی پیدا کر سکتی ہے۔

اس مضمون کے آخر میں ہم مشہور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کی ایک کتاب کا اقتباس پیش کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

There is no time to wait for Darwinian evolution to make us more intelligent and better natured. But we are now entering a new phase of what might be called self-designed evolution, in which we will be able to change and improve our DNA. We have now mapped DNA, which means we have read “the book of life,” so we can start writing in corrections. At first, these changes will be confined to the repair of genetic defects—like cystic fibrosis and muscular dystrophy, which are controlled by single genes and so are fairly easy to identify and correct. Other qualities, such as intelligence, are probably controlled by a large number of genes, and it will be much more difficult to find them and work out the relations between them. Nevertheless, I am sure that during this century people will discover how to modify both intelligence and instincts like aggression.

Laws will probably be passed against genetic engineering with humans. But some people won‘t be able to resist the temptation to improve human characteristics, such as size of memory, resistance to disease and length of life. Once such superhumans appear, there are going to be major political problems with the unimproved humans, who won‘t be able to compete. Presumably, they will die out, or become unimportant. Instead, there will be a race of self-designing beings, who are improving themselves at an ever increasing rate.

If the human race manages to redesign itself, to reduce or eliminate the risk of self-destruction, it will probably spread out and colonise other planets and stars.

(Stephen Hawking, Brief Answers to Big Questions, (Bantam Books New York, 2018), p 62-63)

ترجمہ: اب ڈارون کے ارتقا کا انتظار کرنے کا وقت نہیں ہے تا کہ ہم زیادہ ذہین اور فطرتی طور پر بہتر بن سکیں۔ہم ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو رہے ہیں جس میں کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنا ارتقا خود کریں گے۔اس میں ہم اپنا ڈی این اے خود بہتر بنائیں گے۔ہم نے ڈی این اے کا نقشہ تیار کر لیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہم نے زندگی کی کتاب پڑھ لی ہے۔ اب ہم اس کی غلطیاں درست کر سکتے ہیں۔شروع میں جین کی وہ غلطیاں درست کی جائیں گی جن کے نتیجہ میں Cystic Fibrosis اور Muscular Dystrophyجیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں میں ایک جین کے نقص کی وجہ سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔

دوسری صلاحیتیں جن میں ذہانت وغیرہ شامل ہیں بہت سی جینز سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا کھوج لگانا اور ان کے آپس کے تعلق کو سمجھنا بہت زیادہ مشکل ہو گا۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ اس صدی میں یہ سمجھ لیا جائے گا کہ ذہانت اور جارحیت جیسی جبلتوں کو کس طرح تبدیل کرنا ہے۔

اغلباََ ایسے قوانین بنائے جائیں گے جن کے ذریعہ جینیاتی انجینئرنگ پر پابندی لگائی جائے گی۔ لیکن بہت سے لوگ اس خواہش کو قابو نہیں کر پائیں گے کہ یہ کھوج لگائیں کہ کس طرح یادداشت کے حجم اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت اور زندگی کی میعاد کو بہتر بنایا جائے ایک مرتبہ جب ایسا برتر انسان پیدا ہوجائے گا تو پھر عام غیر ترقی یافتہ انسانوں کا سیاسی مسئلہ پیدا ہوگا۔جو کہ مقابلہ نہیں کر پائیں گے جو کہ غالباََ یا تو ختم ہوجائیں گے یا پھر غیر اہم ہو جائیں گے۔ بلکہ یہ دوڑ شروع ہوجائے گی کہ کون اپنے آپ کو زیادہ تیزی سے بہتر بنا پاتا ہے؟ اگر انسان نےاپنے آپ کو نئی ساخت میں ڈھال لیا تو وہ خود اپنے ہاتھ سے تباہ ہونے سے بچ جائے گا اوراس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ بڑھ کر دوسرے ستاروں اور سیاروں کو آباد کرنا شروع کردے۔

اس اقتباس کا مطلب واضح ہے۔ موجودہ سائنسی پیشرفت کی روشنی میں یہ نظر آر ہا ہے کہ قرآن مجید نے جو خدا کی تخلیق میں تبدیلی کی کوشش کے بارے میں پیش گوئی کی تھی کم از کم اس کے پورا ہونے کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ تمام سائنسدانوں کو ذمہ داری کے ساتھ ان تجربات کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button