مکتوب

مکتوب نیو زی لینڈ (فروری ۲۰۲۴ء) (نئی متحدہ حکومت کے پہلے ۱۰۰ دن)

(مبارک احمد خان۔ نیوزی لینڈ)

نیوزی لینڈ میں اکتوبر ۲۰۲۳ میں نئی متحدہ حکومت کے قیام کے بعد وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن (Christopher Luxon)نے اپنے پہلے ۱۰۰ دن کا پلان عوام کے سامنے پیش کیا تھا۔ اب یہ ۱۰۰ دن مکمل ہو نے پر مختلف ذرائع ابلاغ نے حکومت کی کارکردگی پر اپنے تبصرے شائع کیے ہیں۔ اکثر میڈیا تبصرہ نگاروں نے کہا ہے کہ حکومت نے اپنے ان ایک سو دنوں میں سوائے سابقہ حکومت کے منصوبوں کو ختم کرنے کے اَور کچھ نہیں کیا۔ رچرڈ شا (Richard Shaw) لکھتے ہیں بہت سے نکات ایسے الفاظ سے شروع ہوتے ہیں جیسے ’’ منسوخ کریں‘‘، ’’منسوخ کریں‘‘ یا ’’کم کرنا شروع کریں‘‘۔ اسی طرح محقق میرین سپرڈل( Maryanne Spurdle) نے بھی کہا ہے کہ انیس آئٹمز ’’منسوخ‘‘، ’’واپس لینے‘‘، ’’کام بند کرو‘‘ یا سابقہ قانون سازی کو ریورس کرنے کے لیے ’’قانون سازی متعارف کروائیں‘‘سے شروع ہوتی ہیں۔

نیشنل پارٹی نے دو چھوٹی پارٹیوں (ایکٹ پارٹی اور نیوزی لینڈ فرسٹ پارٹی) سے اتحاد کر کے یہ حکومت بنائی تھی۔اس لیے نیشنل پارٹی کو اپنے ایجنڈے پر کام کرنے میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ تقریباً پہلے دو ہفتے تو ایکٹ پارٹی نے اپنی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک بہت متنازعہ بیان دے کر عوام کی مکمل توجہ اپنی طرف کیے رکھی۔ ماؤری قوم کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ پرائم منسٹر کے پاس کہنے کو سوائے اس کے اَور کچھ نہیں تھا کہ یہ پلان صرف ایکٹ پارٹی کا ہے اور نیشنل پارٹی اس میں مکمل طور پر شامل نہیں ہے۔ اس عوامی دباؤ کے باعث اس بل نے بلاشبہ خاص طور پر لکسن (وزیر اعظم ) اور سیمور (ایکٹ پارٹی لیڈر ) کے درمیان ابتدائی تناؤ پیدا کر دیا ہے۔

اس کے بعد نیشنل پارٹی کے دوسرے اتحادی پارٹنر بھی سرخیوں پر حاوی تھے نیوزی لینڈ فرسٹ(NZ First) ماحولیاتی پلان سموک فری(smoke free) کی منسوخی کے لیے کریڈٹ کا دعویٰ کر نے لگی۔ اور اندرون و بیرون ملک ہونے والی تنقید سے بے نیاز ہو کر یہ دعویٰ کر دیا کہ یہ اس کےحامیوں کے لیے ایک بڑی جیت ہے۔ اس سے پبلک کافی ناراض ہو چکی ہے۔ اور وزیر اعظم کو اس کا قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔ اصل میں عوام یہ سوچ رہی تھی کہ جلد ہی نیوزی  لینڈ سگریٹ نوشی سے مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا۔ لیکن اب یہ مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اکثر لوگ متعلقہ وزیر پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے سگریٹ کمپنیوں سے حکومت کے لیے کافی مالی فائدہ حاصل کیا ہے جو حکومت کو اپنا مالی بجٹ پورا کرنے میں مدد دے گا۔ اب حا لت یہ ہے کہ لوگ سر عام سگریٹ پیتے نظر آ تے ہیں اور کوئی کسی کو منع نہیں کر سکتا۔

سب سے زیادہ نتیجہ خیز چیزیں جو اتحاد کے پہلے ۱۰۰ دنوں میں ہوئیں ان کے ایکشن پلان میں نہیں تھیں۔ جس سے لوگ کافی پریشان ہیں۔

بعض اَور اہم معاہدے جن کو حکومت نے تبدیل کیا ہے ان میں منصفانہ تنخواہ کے معاہدوں کو منسوخ کرنا یا فلاحی انحصار (سوشل ویلفیئر) میں اضافے کو روکنے کے اقدام ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ حکومت غریب عوام پر ظلم کر رہی ہے اس سے نچلے طبقہ کے لوگ پِس جائیں گے۔ خاص طور پر صحت کے سلسلہ میں ماؤری ہیلتھ اتھارٹی(Te Aka Whai Ora (Māori Health Authority) کی منسوخی کو ماؤری نسل کے عوام پر حملہ کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ معاشی ترقی کو کس طرح بہتر بنائیں گے۔

ایک نقطہ جوخاص توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے وہ ہے پرائمری سکولوں کے انگریزی اور ریاضی کے نصاب کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کے لیے ایک ماہر گروپ کا کامیاب قیام۔ یاد رہے کہ موجودہ تعلیمی تبدیلیاں لانے میں کئی سال لگ گئے تھے۔ اب ان تبدیلیوں کو واپس موڑنے یا نئے طریقہ کار لانے میں پھر مزید وقت لگے گا۔ حکومت نے کہا ہے کہ ہر سکول انگلش ریڈنگ اور ریاضی سیکھنے کے لیے کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ لگائے گا تا کہ طلبہ کے معیار میں بہتری لائی جا سکے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ ان پر کلاس سائز اور پیپر ورک کا پہلے سے ہی جو بوجھ ہے اس میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سکولوں میں سمارٹ فونز پر پابندی لگانے اور بچوں کو حکومت جو لنچ مہیا کرتی تھی اس کو بند کرنے سے تعلیمی معیار میں کیا بہتری آئے گی۔

جن لوگوں نے اس حکومت کو منتخب کیا ہے وہ اس قسم کے سرپرائز نہیں چاہتے اور وہ عمل چاہتے ہیں۔ ۱۰۰ دن کا منصوبہ صوابدیدی ہے ؟ ہاں، لیکن حکومت کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ووٹروں کو وہی مل رہا ہے جو انہوں نے مانگا تھا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اس میں ناکام ہو رہی ہے۔

آئینی ماہر ایڈورڈ ولس نے کہا کہ یہ عمل ’’ایک سیاسی چال‘‘ ہے۔ صرف فہرست بنا لینے میں تو چند منٹ لگتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بیٹھ کر اس فہرست میں شامل آئٹمز کے دُور رس اثرات پر غور کیا جاتا۔ سابقہ حکومت نے عوام کے مطالبہ اور اشد ضرورت کے تحت جو منصوبے تشکیل دیے تھے ا ن کو محض مالی وجوہات پر کینسل نہیں کرنا چاہیے۔ منصوبہ بنیادی طور پر کرنے کی فہرست ہے۔ اس لیے پہلے ہر وہ چیز لکھیں جو آپ حقیقت پسندانہ طور پر کریں گے۔ چند چیلنجنگ آئٹمز شامل کریں۔ وعدے کے مطابق، ہمارے پاس اب متنازعہ تھری واٹر، کلین کار ڈسکاؤنٹ (Electric car discount)آکلینڈ فیول ٹیکس، یا آکلینڈ لائٹ ریل نہیں ہے۔ ان کو ختم کرنے سے ملک کو کافی نقصان ہو سکتا ہے۔

دیگر چیلنجز بشمول بنیادی ڈھانچے کی فنڈنگ پر مقامی حکومت یعنی کونسلوں کے ساتھ بڑھتا ہوا تنازعہ، بیک آفس پبلک سروس میں کٹوتیوں کے اثرات۔ اس ہفتے کار کی رجسٹریشن فیس اور پٹرول کے ٹیکسوں میں اضافے کے اعلان کے ساتھ زندگی گزارنے کی لاگت کو کم کرنے کے بارے میں لکسن کو اپنے بیانیے کا صحیح جواز پیش کرنے میں کافی مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔

سوال یہ ہوگا کہ کیا لکسن سب سے پہلے برابری کے طور پر حکومت کر سکتا ہے، جیسا کہ عام طور پر پارلیمانی جمہوریتوں میں ہوتا ہے، یا سیمور اور ونسٹن پیٹرز کی طرف سے کسی ایسی چیز پر مجبور کیا جاسکتا ہے جو ان تینوں میں مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ لکسن پہلے ہی ترجیحی وزیر اعظم کا درجہ کھو رہا ہے۔

پچھلے ہفتہ لکسن کو میڈیا نے کافی شرمندہ کیا جب اس سے کہا گیا کہ آپ لیبر حکومت پر مالی بوجھ پر تنقید کرتے ہیں لیکن آپ خود اپنے فلیٹ میں رہ کر $۱۰۰۰ فی ہفتہ وصول کر رہے ہیں۔ پہلے تو وزیر اعظم نے کہا کہ یہ الاؤنس میرا حق ہے لیکن پبلک کی تنقید پر یو ٹرن لیا اور کہا کہ میں یہ رقم لینا بند کر دوں گا اور لی ہوئی رقم واپس کر دوں گا۔ اس سے لکسن کی ساکھ پر بر ا اثر پڑا ہے۔

کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری اب تک برقرار ہے۔ لیکن وزیر اعظم کی اتھارٹی اور ان کی اتحادی انتظامیہ کے اندرونی استحکام کے لیے مستقبل میں درپیش چیلنجوں کا اندازہ لگانا غیر معقول نہیں ہے۔

درمیانی اور نچلے طبقے کے لوگ مالی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ کہاں کچھ ماہ قبل کاروباری حضرات ملازمین کی کمی کی شکایت کر رہے تھے اور اب وہ اپنے ورکرز کو ملازمت سے نکال رہے ہیں۔ حکومت نے خود کئی ڈیپارٹمنٹس سے سینکڑوں لوگوں کو اضافی کہہ کر نکال دیا ہے۔ اب مئی میں حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کرے گی۔ وزیر خزانہ نکولا ولس (Nicola Willis)کو یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہوگی کہ ان کی حکومت کے انتخابی وعدوں کی ادائیگی کیسے کی جائے گی ۔ اور وہ کس طرح بہتر بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جسے لکسن نے قوم کی ’’نازک‘‘ حالت قرار دیا ہے۔

امید ہے کہ حکومت کے اتحادی نقصانات کی پرواہ کیے بغیر سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اپنے ایجنڈے کو ترجیح نہیں دیں گے ورنہ حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اور حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button