کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کھانے پینے میں بے جا طور پر کوئی زیادت کیفیت یا کمیت کی مت کرو

طرح طرح کی غذاؤں کا بھی دماغی اور دلی قوتوں پر ضرور اثر ہے مثلاً ذرا غور سے دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ کبھی گوشت نہیں کھاتے رفتہ رفتہ ان کی شجاعت کی قوت کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ نہایت دل کے کمزور ہو جاتے ہیں اور ایک خداداد اور قابل تعریف قوت کو کھو بیٹھتے ہیں۔ …ہاں جو لوگ دن رات گوشت خوری پر زور دیتے ہیں اور نباتاتی غذاؤں سے بہت ہی کم حصہ رکھتے ہیں وہ بھی حلم اور انکسار کے خُلق میں کم ہو جاتے ہیں اورمیانہ روش کو اختیار کرنے والے دونوں خُلق کے وارث ہوتے ہیں۔ …یعنی گوشت بھی کھاؤ اور دوسری چیزیں بھی کھاؤ مگر کسی چیز کی حد سے زیادہ کثرت نہ کرو تااس کا اخلاقی حالت پر بد اثر نہ پڑے اور تا یہ کثرت مضر صحت بھی نہ ہو ۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ۳۲۰)

وَالرُّجْزَفَاھْجُرْ(المدثر:6)یعنی ’’ہر ایک پلیدی سے جُدا رہ‘‘ یہ احکام اِسی لئے ہیں کہ تا انسان حفظانِ صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے۔ عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتے کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کر کے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو، خلال کرو، اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ۔ اور بد بُوؤں سے دُور رہو اور مردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ۔ اِس کا جواب یہی ہے کہ قرآن نے اُس زمانہ میں عرب کے لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا اور وہ لوگ نہ صرف روحانی پہلو کے رُو سے خطرناک حالت میں تھے بلکہ جسمانی پہلو کے رُو سے بھی اُن کی صحت نہایت خطرہ میں تھی۔ سو یہ خدا تعالیٰ کا اُن پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظانِ صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔ یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا(الاعراف:۳۲) یعنی بے شک کھاؤ پیئو مگر کھانے پینے میں بے جا طور پر کوئی زیادت کیفیت یا کمیت کی مت کرو۔

(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ ۳۳۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button