بچوں کا الفضل

ایسٹر

فاتح اپنی امی جان کے ساتھ مارکیٹ گیا۔ مارکیٹ میں ایسٹر کے تہوار کی مناسبت سےکافی ساری چیزیں تھیں جو چھوٹے بچوں کے لیے خاصی پُرکشش ہوتی ہیں۔ خاص طور پر مخصوص شکلوں میں تیار کردہ چاکلیٹ اور رنگ برنگے انڈے۔ فاتح میاں نے بھی ایک خرگوش کی شکل میں بنی ہوئی چاکلیٹ اور کھلونے کی ضد کی لیکن امی جان نے نہیں لے کر دی تو وہ ناراض ہوگئے۔ گھر واپس آ نے پر فارس بولا: بھئی یہ فاتح کامنہ کیوں لٹکا ہوا ہے؟

بھائی مجھ سے بات نہ کریں میں ناراض ہوں۔ امی جان نے مجھے ایسٹر بنی (bunny)والی چاکلیٹ نہیں لے کر دی۔ فاتح ناراضگی سے بولا۔

اچھا تو یہ بات ہے۔ فاتح !میرے ساتھ چلو میں امی جان سے اس کی وجہ پوچھتا ہوں۔ فارس بولا۔

فارس: امی جان یہ ایسٹر کیوں مناتے ہیں ؟

امی جان : بیٹا یہ عیسائی مذہب کا تہوار ہے جیسے ہم مسلمان رمضان کے مہینے کے بعد خوشی کے اظہار کے طور پر عید الفطر مناتے ہیں اسی طرح مسیحی حضرت عیسیٰؑ کے واقعہ صلیب کے بعد دوبارہ جی اٹھنے یا زندہ ہونے کی یاد میں عید مناتے ہیں۔ دسمبرمیں ہم نے بچوں کے الفضل میں پڑھا تھا کہ کس طرح حضرت عیسیٰؑ کو صلیب دی گئی ؟ پھر کچھ دیر میں سخت قسم کی آندھی آگئی اور آپ کو جلدی سے نیچے اتار کر ایک غار نما کمرے میں بے ہوشی کی حالت میں لٹا دیا گیا۔ اور آپ کے زخموں پر مرہم لگائی گئی اور جب تین روز بعد آپ کو ہوش آیا تو آپ نے اپنےساتھیوں سے الوداعی ملاقات کی اور اپنی والدہ کو لے کر وہاں سے ہجرت کر گئے۔ کہاں گئے تھے وہ؟

فاتح: کشمیر۔

امی جان: جی ہاں لیکن آپ کے متبعین کا ماننا ہے کہ حضرت مسیحؑ نے صلیب پر نعوذ باللہ انسانیت کے گناہوں کے کفارہ کے لیے جان دے دی تھی لیکن تین دن بعد وہ جی اٹھے اور زندہ آسمان پر چلے گئے اور دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے۔ اسی لیے یہ تہوار ایسٹر منایا جاتا ہے کہ وہ مر کر زندہ ہوگئے تھے۔

فارس: امی جان ! ہم احمدی تو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ عیسی ٰعلیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ صلیب پر سے زندہ اتارے جانے کے بعد آپ فلسطین سے اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں ہجرت کر گئے اور مشرق میں سفر کرتے ہوئے کشمیر پہنچے اور پھر وہاں اپنا مشن پورا کرنے کے بعد آپ نے طبعی موت سے وفات پائی اور سرینگر کے محلہ خانیار میں دفن ہوئے جہاں ان کا مزار آج تک موجود ہے۔

امی جان: جی بالکل! عیسائیت کے آغازمیں تو یہ عقیدہ موجود نہیں تھا مگر کہا جاتا ہے کہ اس تہوار کاکافی صدیوں کے بعد ایک رومی بادشاہ نے آغاز کیا تھا۔

فارس : پھر ایسٹر کیوں منایا جاتا ہے؟

امی جان: کہا جاتا ہے کہ ایسٹر (Eostre) موسم بہار کی Anglo-Saxonsدیوی تھی۔ اور یہ جشن دراصل بہار کا جشن ہے جو حضرت عیسیٰؑ سے قبل بھی منایا جاتا تھا اور بعد میں عیسائیت نے بطور تہوار اپنا لیا۔ ہندوستان میں یہ تہوار ہولی یا پھر بسنت کے نام سے انہی دنوں اور اسی طریقے سے منایا جاتا ہے۔ ایران میں نوروز کے نام سے 21؍مارچ کو منایا جاتا ہے۔

تو ہم ایسٹر والی چاکلیٹ نہیں کھا سکتے۔ اس لیے آپ نے منع کیا؟ فاتح دوبارہ روہانسا ہوا۔

آپ bunny والی چاکلیٹ کھائیں یا bear والی۔ چاکلیٹ تو چاکلیٹ ہے۔ اور میں نے تو آپ کو اس لیے نہیں لے کر دی کہ جانے سے پہلے آپ نے وعدہ کیا تھا کہ بازار میں آپ کسی چیز کی ضد نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو میں نہیں لے کر دوں گی۔ میں نے تو اپنا وعدہ پورا کیا اور آپ نے؟؟؟ امی جان نے شرارتاً فاتح کو دیکھا۔

فاتح: اگلی بار میں اپنا وعدہ پورا کر کے دکھاؤں گا۔ ان شاء اللہ

امی جان اور فارس نے بھی کہا: ان شاء اللہ

(درثمین احمد: جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button