اداریہ

اداریہ: رمضان سے حقیقی فیض کس طرح اٹھایاجا سکتا ہے؟

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

(رمضان المبارک کے بارے میں مذکور بعض مشہور احادیث نبویؐ کی پُر معارف تشریح)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج برطانیہ میں رمضان کا پہلا روزہ ہے۔ ایک دو روز کے فرق سے دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی اس بابرکت مہینے کا آغاز ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک کے بارے میں مختلف روایات آتی ہیں جن میں اس مہینے کے دوران جنت کے دروازے کھول دیے جانے، شیطان کے جکڑ دیے جانے، انسان کے گذشتہ گناہوں کے معاف ہونے وغیرہ کی خوش خبریاں موجود ہیں۔ امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍جولائی ۲۰۱۲ء میں بہت مختصر مگر جامع اور آسان فہم الفاظ میں ایسی بعض روایات کی پُرمعارف تشریح بیان فرمائی ہے۔

حضورِانور فرماتے ہیں: ’’خوش قسمت ہیں وہ جو اس بابرکت [رمضان]سے فائدہ اُٹھائیں گے اور یہ برکتیں روزے کی حقیقت کو جاننے اور اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانے سے ملتی ہیں۔ بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد برحق ہے کہ رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل شہر رمضان حدیث نمبر 2495)

لیکن کیا ہر ایک کے لئے یہ دروازے کھول دئیے جاتے ہیں؟ کیا ہر ایک کے شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے؟ کیا ہر ایک کے لئے دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں؟ یقیناً ہر ایک کے لئے تو ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ یہاں مومنین کو مخاطب کیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ظاہری ایمان لانے سے، مسلمان ہونے سے اور روزہ رکھنے سے یہ فیض انسان حاصل کر لے گا اور کیاصرف اتنا ہی ہے۔ اگر صرف اتنا ہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بار بار ایمان لانے کے ساتھ اعمالِ صالحہ بجا لانے کی طرف بہت زیادہ توجہ دلائی ہے، بہت زیادہ تلقین کی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو کسی بھی انسان کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، اگر وہ نیک اعمال بجا لانے والا ہے تو نیک جزا کا بتایا ہے۔

پس یقیناً صرف روزے رکھنا یا رمضان کے مہینہ میں سے گزرنا انسان کو جنت کا وارث نہیں بنا دیتا بلکہ اس کے ساتھ کچھ لوازمات بھی ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ کچھ شرائط بھی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اعمالِ صالحہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے جنہیں بجا لانا ایک مومن کا فرض بھی ہے۔ ورنہ صبح کھانا کھا کر پھر شام تک کچھ نہ کھانا، ایسے لوگ تو بہت سارے دنیا میں ہیں جو صبح کھاتے ہیں اور شام کو کھاتے ہیں، بلکہ بعض نام نہاد فقیر جو ہیں وہ اپنے آپ کوایسی عادت ڈالتے ہیں، مجاہدہ کرتے ہیں کہ کئی کئی دن کا فاقہ کر لیتے ہیں لیکن عبادت اور نیکی اُن میں کوئی نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے بھی دنیا میں ہیں جو بعض دفعہ مجبوری کی وجہ سے نہیں کھا سکتے۔ بعض کے حالات ایسے ہیں اُنہیں مشکل سے ایک دفعہ کی روٹی ملتی ہے۔ کچھ کو ڈاکٹر بعض خاص قسم کے پرہیز کی ہدایت کرتے ہیں اور سارا دن تقریباً نہ کھانے والی حالت ہی ہوتی ہے۔ اور بعض لوگ، خاص طور پر عورتیں، ڈائٹنگ کے شوق میں بھی سارا سارا دن نہیں کھاتیں۔ ابھی دو دن پہلے میرے پاس ایک ماں آئی کہ میری بیٹی نے جوانی میں قدم رکھا ہے تو یہ دماغ میں آ گیا ہے، اس کو Craze ہو گیا ہے کہ مَیں نے دُبلا ہونا ہے اور وزن کم کرنا ہے کیونکہ آج کل یہ بہت رَو چلی ہوئی ہے اس لئے اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور مجھے پریشان کیا ہوا ہے اور ایک وقت کھاتی ہے اور وہ بھی بہت تھوڑا سا، اور مہینہ میں یا کم و بیش ایک ڈیڑھ مہینہ میں چودہ پندرہ پاؤنڈ اُس نے وزن کم کر لیا ہے۔ تو یہ ماں کی فکر تھی اور شاید وہ لڑکی اب سمجھے کہ رمضان کا مہینہ آ گیا ہے، اگر میں اَٹھ پہرے روزے رکھ لوں تو نیکی بھی ہو جائے گی اور رمضان کا مہینہ ہے، شیطان تو جکڑا ہوا ہے، ثواب بھی مل جائے گا اور دونوں کام میرے بھگت جائیں گے۔ بعض ایسے بھی میرے علم میں ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور پھر سارا دن اور کوئی کام نہیں ہے۔ سوئے رہتے ہیں کہ روزہ نہ لگے اور سمجھ لیا کہ نیکی کا ثواب مل گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ روزہ رکھو، رمضان آیا، شیطان جکڑا گیا، جنت کے دروازے کھول دئیے گئے، دوزخ کے دروازے بند کر دئیے گئے تو یہ بھی ہے کہ تم نے نیک اعمال بھی کرنے ہیں۔ بیشک تمہارا یہ عمل ہے کہ تم صبح سحری کھاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کھاؤ اور شام کو افطاری کر لیتے ہو۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بعض اَٹھ پہرے روزے بھی رکھ لیتے ہیں۔ اگر مجبوری ہو تو بعض اٹھ پہرے روزے بھی رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھو کہ تمہیں روزے کا ثواب مل گیا یا تمہارا شیطان جکڑا گیا یا جنت کے دروازے تم پر کھول دئیے گئے اور دوزخ حرام ہوگئی۔ روزے کے مہینے میں اس سے وہی فیضیاب ہو گا جو اعمالِ صالحہ بھی بجا لائے گا۔ جو اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیّت دل میں رکھتے ہوئے روزے رکھے اور اس کے ساتھ اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاکہ جو ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے روزے رکھے گا اُس کا روزہ قبول ہو گا۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب من صام رمضان ایماناً واحتساباً ونیۃ حدیث 1901)اُس کے لئے جنت قریب کی جائے گی، اُس کا شیطان جکڑا جائے گا۔پس یہ چیزیں یا روزہ رکھنا جہاں نیکیوں کے کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دلانے والا ہو گا۔ وہاں اپنی برائیاں ترک کرنے کے لئے بھی ایک مومن کو توجہ دلائے گا اور اس کے لئے وہ مجاہدہ کرے گا۔ ایک مومن اپنی عبادات کے معیار بھی بلند کرنے کی کوشش کرے گا۔ صرف فرائض کی طرف توجہ نہیں دے گا، اُن کے ادا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ نوافل کی طرف بھی توجہ ہو گی اور ایک مومن پھراُن کی ادائیگی کا بھی بھرپور حق ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ غریبوں کا حق ادا کرنے کی طرف بھی بھرپور کوشش ہو گی تو تبھی ماہِ صیام سے صحیح فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔

مالی قربانی کے ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ آپ تو رمضان کے علاوہ بھی سارا سال بے انتہا صدقہ اور خیرات کرتے تھے، قربانی دیتے تھے۔ اور یہ قربانی اور دوسروں کی یہ مدد آپؐ اس طرح فرماتے تھے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن رمضان کے مہینہ میں تو لگتا تھا کہ اس طرح صدقہ و خیرات ہو رہا ہے جس طرح تیز آندھی چل رہی ہو۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب اجود ما کان النبیﷺ یکون فی رمضان حدیث نمبر 1902)عبادات کے معیار اپنی انتہاؤں سے بھی اوپر نکل جاتے تھے۔ ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کی کوئی انتہا نہیں لیکن رمضان میں وہ اُن انتہاؤں سے بھی اوپر چلے جاتے تھے۔ پس آپ نے ہمیں یہ فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ رمضان آیا اور بغیر کچھ کئے صرف اس بات پر کہ تم نے روزہ رکھ لیا، سب کچھ مل گیا۔ آپؐ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ تم اس سے حقیقی فیض کس طرح اُٹھا سکتے ہو؟ ایک بات تو مَیں نے پہلے بتائی ہے کہ ایمان کی حالت میں ہو اور اپنا محاسبہ کرنے والا ہو، اور اس بات کی طرف بھی خاص طور پر مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ پھرایک روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے نہیں رُکتا، اللہ تعالیٰ کو اُس کا بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی ایسا روزہ پھر بے کار ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم حدیث نمبر 1903)

پس ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ شیطان جکڑا گیا بلکہ روزوں کے معیار بلند کرنےکی بھی ضرورت ہے۔ روزوں کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جھوٹ بولنے سے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے جو نہیں رُکتا اُس کا روزہ نہیں۔ ان الفاظ میں چھوٹی سے چھوٹی برائی سے لے کر بڑی سے بڑی برائی تک کی طرف توجہ دلا دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنے کا کہہ کر اُسے اُس کی تمام کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں سے پاک کروا دیا۔ یہ بھی مثالیں ملتی ہیں کہ جس کو یہ کہا کہ تم نے سچائی پر قائم رہنا ہے اس شخص کی تمام اخلاقی اور روحانی کمزوریاں سچائی پر قائم رہنے کے عہد سے دورہو گئیں۔ ‘‘(التفسیر الکبیر لامام رازیؒ جلد8جزو 16 صفحہ 176 تفسیر سورۃ التوبۃ زیر آیت نمبر 119 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل کے ساتھ ہمیں رمضان کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button