اداریہ

اداریہ: خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس (مولوی کے قسمیہ جھوٹ کی تصدیق کے لیے قادیان کا سفر اختیارکرنے والے مسیح موعودؑ کی سچائی کے مُصَدِّق بن گئے)

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی مخالفت اگر للہ ہو، یعنی نیک نیتی پر مبنی ہو اور انسان خدائے ہادی سے سچے دل سے ہدایت کا طلب گار بنے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نیک نیت کو ضائع نہیں کرتا اور کسی نہ کسی طرح اُس کی ہدایت کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔اور بعض اوقات تو بدنیّت مخالف کی مخالفت نیک نیّت شخص کی ہدایت کا موجب بن جاتی ہے۔

جہلم کے محلہ ملاحاں کے رہائشی حضرت نظام دین صاحبؓ ٹیلر ماسٹر صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایت ہے کہ مَیں حیران ہوں کہ یہ نعمتِ عظمیٰ یعنی احمدیت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے نصیب ہوئی۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ جس حالت میں مَیں تھا، اگر کئی برس بھی اسی حالت میں رہتا تو شاید احمدیت کے نزدیک بھی نہ آتا۔ مگر میرے پیدا کرنے والے نے مجھ پر اتنا احسان کیا کہ وہ راستہ جو برسوں میں مجھ سے طے نہ ہوتا اس نے اپنے فضل سے ایک رات میں احسان کر کے مجھ کو طے کرا دیا۔ اور وہ اس طرح کہ اپنے مولویوں کے مطابق مَیں ہمیشہ احمدیوں سے جب گفتگو کرتا تو مجھے ہمیشہ یقین ہوتا کہ ہمارے مولوی دین کے ستون ہیں اور ہمیں شرک، بدعت سے بچانے کے لیے محض للہ پوری کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اہلحدیث اپنے آپ کو متقی اور ہر ایک حرام اور جھوٹ سے پرہیز کرنے والا خیال کرتے تھے۔ ایک دفعہ مارچ کا مہینہ تھا، غالباً ۱۹۰۲ء کا ذکر ہے، ہم چند اہلحدیث جہلم سے لاہور اس غرض سے روانہ ہوئے کہ چل کر انجمن حمایتِ اسلام لاہور کا جلسہ دیکھیں جو سال کے سال ہوا کرتا تھا۔ ہم لاہور پہنچ کر جلسہ گاہ جا رہے تھے کہ پنڈال کے باہر دیوار کے ساتھ ایک مولوی صاحب کھڑے ہوئے وعظ فرما رہے تھے۔ ایک ہاتھ میں قرآنِ مجید تھا، دوسرے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے اشتہارات بانٹ رہے تھے۔ اور منہ سے یہ کہتے جاتے تھے کہ مرزا نعوذباللہ کوڑھی ہو گیا ہے اس لیے کہ نبیوں کی ہتک کرتا تھا اور خود کو عیسیٰ کہتا تھا اور ساتھ ہی خداتعالیٰ کی قسم اٹھا کر یہی الفاظ مذکورہ بالا دہراتا جاتا تھا۔ ہم سن کر حیران ہو گئے اور اپنے دل میں کبھی وہم بھی نہ گزرا تھا کہ کوئی شخص اس قدر بھی جرأت کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جھوٹ بولتا ہے اور قرآنِ مجید اٹھا کر جھوٹ بولتا ہے۔ ہم تین آدمی تھے۔ مَیں نے اس سے اشتہار لے لیا اور ہم سب اسے پڑھنے لگے۔ اس پر بھی یہی مضمون تھا کہ نعوذ باللہ مرزا کوڑھی ہو گیا ہے، نبیوں کی ہتکِ عزت کرتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ مَیں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ چلو قادیان چلیں اور مرزا صاحب کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے شہر کے مرزائیوں کو کہیں گے جو ہر روز ہمارے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا بیان تو چشم دیدہ ہو گا، ہم ان کو یعنی احمدیوں کوخوب جھوٹا کریں گے۔

پہلے تو انہوں نے انکار کیا مگر میرے اصرار پر تیار ہو گئے۔ ہم تینوں لاہور سے سوار ہو کر بٹالہ اترے۔ بٹالہ سے ایک روپیہ میں یکّہ لیا اور شام اور عصر کے درمیان قادیان مہمان خانے میں پہنچ گئے۔ شام کا وقت تھا، یعنی مغرب کی نماز کا وقت قریب ہی تھا۔ مَیں نے کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب جہاں نماز پڑھتے ہیں وہ جگہ ہم کو بتاوٴ کہ ہم ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک شخص شاید وہی تھا جس سے ہم نے پوچھا تھا، میرے ساتھ ہو لیا اور وہ جگہ بتائی جہاں حضورؑ کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ چونکہ وقت قریب ہی تھا مَیں وہیں بیٹھ گیا جہاں حضور نے میرے ساتھ داہنے ہاتھ آ کر کھڑا ہونا تھا۔ باقی دونوں دوست میرے داہنے ہاتھ کی طرف بیٹھ گئے۔ یہ مسجد حضور کے گھر کے ساتھ ہی تھی جس کو اب مسجد مبارک کہتے ہیں۔ یہ اس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ بمشکل اس میں چھ یا سات صفیں لمبائی میں کھڑی ہو سکتی ہوں گی۔ اور ایک صف میں قریباً چھ آدمیوں سے زیادہ نہیں کھڑے ہو سکتے ہوں گے۔ چند منٹ کے بعد مغرب کی اذان ہوئی تو شاید دو تین منٹ کے بعد حضرت اقدسؑ تشریف لے آئے۔ ہمارے قریب ہی دروازہ تھا، اس میں سے حضور نکل کر میرے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جناب مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آگے کھڑے ہو گئے۔ موٴذّن نے تکبیر شروع کر دی۔ تکبیر کے ختم ہونے تک مَیں نے حضور کے پاوٴں سے لے کر سر تک سب اعضاء کو دیکھا حتیٰ کے سرِمبارک کے بالوں اور ریش مبارک کے بالوں پر بھی جب میری نگاہ پڑی تو میرے دل کی کیفیت اَور ہو گئی۔ مَیں نے دل میں کہا کہ الٰہی اس شکل اور صورت کا انسان مَیں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا۔ بال کیا تھے جیسے سونے کی تاریں تھیں۔ اور آنکھیں خوابیدہ، گویا ایک مکمل حیا کا نمونہ پیش کر رہی تھیں۔ ہاتھ اور پیروں کی خوبصورتی دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اسی عالم میں محو تھا کہ الٰہی! یہ وہی انسان ہے کہ جس کو ہمارے مولوی جھوٹا اور نبیوں کی ہتک کرنے والا بتاتے ہیں! مَیں اسی خیال میں غرق تھا کہ امام نے اللہ اکبر کہا اور نماز شروع ہو گئی۔ گومَیں نماز میں تھا مگر جب تک سلام پھیرا مَیں اس حیرانی میں رہا کہ الٰہی وہ ہمارا مولوی جس کی داڑھی بڑھی ہوئی اور شرعی طور پر لبیں تراشی ہوئیں قرآنِ مجید کو ہاتھ میں لیے ہوئے قسمیں کھا رہا ہے اور سخت توہین آمیز الفاظ میں حضور کا نام لے لے کر کہہ رہا ہے کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہو گیا۔ اسی خیال نے میرے دل پر شبہ اور شکوک کا دریا پیدا کر دیا۔ کبھی تو دل کہتا کہ قرآن اٹھا کر اور خدا کی قسم کھا کر بیان کرنے والا بھلا کبھی جھوٹا ہو سکتا ہے؟ شاید یہ شخص جو نماز میں کھڑا کیا ہے مرزا نہ ہو کوئی اَور ہو، نئے آدمیوں کو دھوکہ دینے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ اور پھر حضور کی صاف اور سادہ نورانی شکل سامنے آتی تو دل کہتا کہ کہیں وہ قسم اٹھانے والا دشمنی کی وجہ سے جھوٹ نہ بول رہا ہو کہ لوگ سن کر قادیان کی طرف نہ جائیں۔

خیر نماز ہو گئی، حضور شاہ نشین پر بیٹھ گئے۔ اوّل تو آواز دی کہ مفتی صاحب ہیں تو آگے آجاویں۔ جب مفتی صاحب آگئے تو پھر حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب کہاں ہیں؟ مَیں نے دیکھا کہ مولوی صاحب، حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نورالدین صاحبؓ سب سے آخری صف میں سے اٹھ کر تشریف لائے۔ حضورؑ نے باتیں شروع کر دیں جو طاعون کے بارے میں تھیں۔ فرمایا ہم نے پہلے ہی لوگوں کو بتا دیا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو پنجاب میں سیاہ رنگ کے پودے لگاتے دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو آئندہ موسم میں پنجاب میں ظاہر ہونے والی ہے۔ مگر لوگوں نے اس پر تمسخر کیا اور کہا کہ طاعون ہمیشہ سمندر کے کناروں تک رہتی ہے۔ اندر ملک میں وہ کبھی نہیں آئی۔ مگر اب دیکھو کہ وہ پنجاب کے بعض شہروں میں پھوٹ پڑی ہے۔ غرض عشاء تک حضور باتیں کرتے رہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے۔ ہم بھی آ کر سو رہے۔ آپس میں باتیں کرتے رہے کہ یہ کیا بھید ہے؟ ہمارا مولوی قرآن اٹھا کر اور خدا کی قسمیں کھا کر کہتا تھا اور یہاں معاملہ برعکس نکلا۔ خیر صبح ہم لوگ اٹھے اور ارادہ یہ ہوا کہ مولوی نور الدین صاحب سچ بولیں گے ان سے دریافت کرتے ہیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں یا کوئی اَور؟ جب ان کے مطب میں گئے تو ایک مولوی صاحب نے خلیفہ اوّل کے سامنے اعتراض پیش کیا کہ مولوی صاحبؓ! پہلے جتنے نبی ولی گزرے ہیں وہ تو کئی کئی فاقوں کے بعد بالکل سادہ غذا کھاتے تھے اور مرزا صاحب سنا ہے کہ پلاوٴ اور زردہ بھی کھاتے ہیں؟ مولوی صاحب نے ان کو جواباً کہا کہ مولوی صاحب! مَیں نے قرآن مجید میں زردہ اور پلاوٴ حلال ہی پڑھا ہے۔ اگر آپ نے کہیں دیکھا ہے کہ حرام ہے تو بتائیں۔ اور اس مولوی نے تھوڑی دیر سکوت جو کیا تو مَیں نے جھٹ وہ اشتہار نکال کر مولوی نورالدین صاحب کے آگے رکھا کہ ایک ہمارا مولوی قسم بھی قرآن اٹھا کر کھاتا تھا کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہوئے ہیں۔ اور ہم کو جو بتایا گیا ہے کہ یہی مرزا صاحب ہیں، وہ تو تندرست ہیں۔ آپ بتائیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں جن کو ہم نے نماز میں دیکھا ہے یا کوئی اَور؟ مولوی صاحبؓ نے جھٹ جیب میں ہاتھ ڈال کر وہی اشتہار نکال کر بتلایا کہ دیکھو ہم کو تمہارے مولویوں نے یہ اشتہار روانہ کیا ہے۔ اب یہ مرزا ہے اور وہ تمہارے مولوی جس نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر جھوٹ بولا۔ جس کو چاہو سچا مان لو۔ بس پھر کیا تھا میرے آنسو نکل گئے۔ مَیں نے دل میں کہا کہ کمبخت اب بھی تُو بیعت نہ کرے گا؟ واقعی یہ مولوی زمانے کے دجال ہیں۔ ہم تینوں نے ظہر کے وقت حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم کوبیعت میں لے لیں۔ حضورؑ نے کہا جلدی مت کرو، کچھ دن ٹھہرو۔ ایسا نہ ہو کہ پھر مولوی تم کو پھسلاویں اور تم زیادہ گنہگار ہو جاوٴ۔ مَیں نے رو رو کر عرض کی کہ حضور! مَیں تو اب کبھی پھسلنے کا نہیں۔ خیر دوسرے روز ہم تینوں نے بیعت کر لی اور گھر واپس آگئے۔(ماخوذ از خطبہ جمعہ ۱۶؍ جولائی ۲۰۱۰ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۳۰؍ جولائی تا ۱۲؍ اگست ۲۰۱۰ء )

آج بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بےدریغ جھوٹ بولنا کارِ خیر سمجھا جاتا ہے اور آج بھی نیک نیتی کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اوپر لگائے جانے والے خود تراشیدہ الزامات کی تحقیق کرنے والے افراد احمدیت کی سچائی کے مُصَدِّق بن جاتے ہیں!

یاد رہے کہ بانی جماعتِ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نبی اکرمﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق تشریف لانے والے امتی نبی ہیں جن پر ایمان لائے بغیر ایمان ثریا سے نیچے نہیں آسکتا اور اس وقت امت مسلمہ کی جو حالت ہے ایمان کے بغیر یہ امت درندوں کے حصار سے باہر نہیں نکل سکتی۔ اس لیے جس شخص تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچے اسے دوسروں کی باتوں پر اندھا دھند اعتماد کرنے کی بجائے نیک نیتی کے ساتھ تحقیق اور دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی طلب کرنی چاہیے کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور ہر کسی کو اپنا حساب دینا ہو گا، کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھا سکے گا۔

اللہ تعالیٰ تمام احمدیوں کو خلافت کے زیرِسایہ احمدیت کی لازوال نعمت کے ذریعے دنیاو آخرت کی حسنات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو لوگ ابھی اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم ہیں انہیں خلافت کے گھنے سائے میں آنے کی توفیق بخشے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button