خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ احد میں حضرت حمزہ ؓکی شہادت اور انصاری خواتین کا نوحہ، حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت پر آنحضرتؐ کی دعا ،نیز صحابیاتِؓ رسول ؐکا مثالی کردار:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ۲۰۲۴ء

٭…غزو ۂ احد میں خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا

٭…بعض مسلم خواتین نیزے اور تلوار کے ساتھ کفار سے دوبدو جنگ بھی کرتی رہیں جن میں حضرت ام عمارہؓ سرِ فہرست ہیں

٭…حضرت ام عمارہ ؓکہتی ہیں کہ جنگِ احد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض گنتی کے صحابہ رہ گئے تو مَیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھاگ کر پہنچی

٭…مکرم غسان خالد النقیب صاحب،مکرمہ نوشابہ مبارک اہلیہ مکرم جلیس احمد مربی سلسلہ،مکرمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالحمید خان صاحب،مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب،مکرم رشید احمد چودھری صاحب آف ناروےکا ذکر خیر اور نمازہ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم مارچ۲۰۲۴ء بمطابق یکم امان ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ یکم مارچ ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جنگِ احد کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمیوں اور شہیدوں کو جمع کیا۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی اور شہداء کو دفنانے کا انتظام کیا گیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ کفار نے بعض صحابہ کو صرف شہید نہیں کیا بلکہ ان کے ناک کان بھی کاٹ دیے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دکھ ہوا۔ ان شہداء میں آپ کے چچا حضرت حمزہؓ بھی شامل تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفار نے خود اپنے عمل سے اپنے لیے اس بدلے کو جائز بنادیا ہے جس کو ہم ناجائز سمجھتے تھے۔

اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ کفار جو کچھ کرتے ہیں انہیں کرنے دو۔ تم رحم اور انصاف کا دامن ہمیشہ تھامے رکھو۔

حضرت حمزہ ؓکی تدفین کے متعلق مذکور ہے کہ آپ کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیا گیا۔ جب آپ کا سر ڈھانکا جاتا تو کپڑا پاؤں سے ہٹ جاتا اور جب پاؤں ڈھانکے جاتے تو چہرے سے کپڑا سَرک جاتا۔ اس پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کا چہرہ ڈھانک دیا جائے اور پاؤں کو گھاس سے ڈھک دیا جائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے واپس لوٹے تو معلوم ہوا کہ انصاری عورتیں انصاری شہداء کے لیے رو رہی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا حمزہ ؓپر رونے والا کوئی نہیں؟ انصار خواتین کو علم ہوا تو وہ جمع ہوگئیں اور حمزہؓ کے لیے رونا شروع کیا اور بین کرنے لگیں۔ اس دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ لگ گئی۔

جب آپ بیدار ہوئے تو فرمایا کہ انہیں کہو کہ اب گھروں کو چلی جائیں اور آئندہ کسی مرنے والے کا ماتم اور بین نہ کریں۔

حضرت مصعبؓ  کی تدفین کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب بن عمیرؓ کی نعش کے پاس پہنچے تو وہ اوندھے منہ پڑے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر یہ آیت پڑھی کہ مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا اسے سچا کر دکھایا۔پس ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی منت کو پورا کردیا اور ان میں وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے۔ یہ آیت پڑھ کر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بھی خدا کے حضور شہداءہو۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓکو ہدایت فرمائی کہ ان کی زیارت کرلو اور ان پر سلام بھیجو۔

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روزِ قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا وہ اس کے سلام کا جواب دیں گے۔

اُحد کے دن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کی تدفین کے بعد سب لوگوں کو اکٹھا کرکے یہ دعا کی کہ اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ اے اللہ! جس چیز کو تُو کشادہ کردے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو تُو قبض کرلے تو اس کو کوئی کشادہ نہیں کرسکتا اور جس کو تُو گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جس کو تُو ہدایت دے دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جو چیز تُو روک لے اس کا کوئی عطا کرنے والا نہیں اور جو تو عطا کرے اس سے کوئی اور روکنے والا نہیں اورجس کو تُو دُور کردے اس کو کوئی قریب کرنے والا نہیں ہے اور جس کو تُو قریب کردے اس کو کوئی دُور کرنے والا نہیں ہے…

اے اللہ! ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ کر

اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ اس طرح لاحق کردے کہ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ فتنے میں پڑیں۔ اے اللہ اے معبود حق! اُن کافروں کو ہلاک کردے جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے راستے سے روکتے ہیں اور ان پر اپنی سزا اور عذاب نازل کر۔ اے اللہ اہلِ کتاب کافروں کو ہلاک کر۔آمین

غزوہِ احد میں خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ حضرت ام سلمؓہ کے جنگِ احد میں شرکت کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح راوی کہتے ہیں کہ اُحد کے دن مَیں نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلیم ؓکو دیکھا کہ وہ مشک میں پانی بھر کر لاتیں اور پیاسوں کو پلاتی تھیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی والدہ اور حضرت ام عطیؓہ کے متعلق بھی یہی ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح بعض مسلم خواتین نیزے اور تلوار کے ساتھ کفار سے دوبدو جنگ بھی کرتی رہیں جن میں حضرت ام عمارہؓ سرِ فہرست ہیں۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم دھونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت عائشہؓ جنگِ احد کی خبر لینے بعض دوسری عورتوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں تو ان کی ملاقات راستے میں ہند بنت عمروؓ سے ہوئی۔ ہند،عبداللہ بن عمرؓو کی بہن تھیں۔ آپ اپنی اونٹنی کو ہانک رہی تھیں اور اس اونٹنی پر حضرت ہندؓ کے خاوند، بیٹے اور بھائی کی نعشیں تھیں۔ حضرت عائشؓہ نے ان سے میدان جنگ کا حال پوچھا تو

حضرت ہند ؓنے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں اور آپؐ کے ہوتے ہوئے ہر مشکل آسان ہے۔

حضرت ام عمارہ ؓکہتی ہیں کہ جنگِ احد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض گنتی کے صحابہ رہ گئے تو مَیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھاگ کر پہنچی اور تلوار کے ذریعے کفار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے سے روکنے لگی ساتھ ہی کمان سے تیر بھی چلائے یہاں تک کہ خود بھی زخمی ہوگئی۔ حضرت ام ایمنؓ زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں کہ ایک مشرک نے ان کی طرف تیر چلایا جو آپ رضی اللہ عنہا کے دامن میں جا لگا یہ دیکھ کر وہ کافر ہنسنے لگا۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو ایک تیر دیا جس کا پھل نہ تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے وہ تیر چلایا۔ وہ تیر اس کافر کو لگا اور وہ پیچھے جا گرا جس سے اس کا ننگ ظاہر ہوگیا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر مسکرا اٹھے کہ

خدا نے اس کافر کو ایسے تیر سے راستے سے ہٹایا جس کا پھل بھی نہیں تھا گویا سیدھی سی ایک سوٹی تھی، اس نے ہی اس کافر کو مار دیا۔

عتبہ بن ابی وقاص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر کھینچ کر مارا جس سے آپ کا دانت ٹوٹ گیااور ہونٹ پھٹ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کے لیے یہ دعا کی کہ اے اللہ! ایک سال سے پہلے ہی عتبہ کو کافر ہونے کی حالت میں موت دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول کی اور وہ اسی روز ہلاک ہوگیا۔

خطبے کے دوسرے حصے میں حضور انور نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر فرمایا اور ان کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا۔

۱۔ مکرم غسان خالد النقیب صاحب آف سیریا۔ گذشتہ دنوں ۷۸ برس کی عمر میں ان کی وفات ہوگئی۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّاإِلَيْهِ رَاجِعُوْنَرحوم نے خلافت رابعہ میں ازخود بیعت کی تھی۔ مرحوم صوم و صلوٰۃ کے پابند، تہجد گزار، دینی علوم کا ذوق رکھنے والے، عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔ تفسیرِ کبیر کا بڑا گہرا مطالعہ تھا۔ خطبہ جمعہ کے ترجمے کی نظرثانی کا کام بھی کیا کرتے تھے۔

۲۔ مکرمہ نوشابہ مبارک اہلیہ مکرم جلیس احمد مربی سلسلہ شعبہ آرکائیو و الحکم۔ مرحومہ گذشتہ دنوں پاکستان گئی ہوئی تھیں جہاں ربوہ اور لاہور کے درمیان ایک حادثے میں وفات پاگئیں۔إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّاإِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ مرحومہ واقفِ زندگی خاوند کا ساتھ نبھانے والی، نیک، محنتی اور جماعتی خدمت کو اعزاز سمجھنے والی، خلافت سے محبت رکھنے والی خاتون تھیں۔

۳۔ مکرمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالحمید خان صاحب مرحوم آف ربوہ۔ مرحومہ عبدالقیوم پاشا صاحب مشنری انچارج آئیوری کوسٹ کی والدہ تھیں۔ گذشتہ دنوں وفات پاگئیں إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّاإِلَيْهِ رَاجِعُوْنَمرحومہ چودھری حمید اللہ صاحب مرحوم کی بڑی ہمشیرہ تھیں۔ آپ جماعتی لٹریچر کا گہرا مطالعہ رکھنے والی، خدمتِ دین کا شوق رکھنے والی، چندوں کی ادائیگی کی بڑی پابند تھیں۔

۴۔ مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب آف لاہور۔ مرحومہ محمد نعیم اظہر صاحب مبلغ انچارج سیرالیون کی والدہ تھیں۔ گذشتہ دنوں آپ وفات پاگئیں۔إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّاإِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحومہ نے ۱۹۶۴ءمیں ازخود بیعت کی تھی۔ مرحومہ دعاگو، صوم و صلوٰۃ کی پابند، بہادر، مالی قربانی کرنے والی، ضرورت مندوں کا خیال رکھنے والی، بزرگ خاتون تھیں۔

۵۔ مکرم رشید احمد چودھری صاحب آف ناروے۔ آپ لمبا عرصہ بیمار رہنے کے بعد ۸۲ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّاإِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔آپ کے والد چودھری غلام حسین صاحب اوور سیئر نے ۱۹۲۶ءمیں قادیان جاکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مرحوم کو اپنے والد کے ساتھ ربوہ کے ابتدائی دنوں میں بہت کام کرنے کا موقع ملا۔ جماعتی عمارتوں، قصرِ خلافت وغیرہ میں بطور الیکٹریشن بہت کام کیا۔ ۱۹۷۰ء میں ناروے چلے گئے تھے۔ بےلوث خدمت کرنے والے، خلافت سے گہرا تعلق رکھنے والے بزرگ شخص تھے۔

حضورِ انور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button