حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

شہد کی مکھی پر وحی سے روحانی راہنمائی بھی ملتی ہے

…. شہد کی مکھی کے حوالے سے شفاء کا ذکر کیا تھا اور وہ جسمانی بیماریوں سے شفاء ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو اس شہد کی مکھی کے ذریعہ روحانی شفاؤں کے راستوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب شہد کی مکھی کا ذکر فرمایا تووَاَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ(النحل: 69) اور تیرے ربّ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ جس کے نتیجہ میں پھر آگے ذکر ہے کہ اس نے اونچی جگہ چھتے بنائے اور پھولوں کا رس چوس کر مختلف دوروں سے گزر کر شہد بنایا۔ جس کے بارہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ(النحل: 70) کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے اور اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ(النحل: 70) یقیناً اس میں غور فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بہت بڑا نشان ہے۔ کس غور کی طرف یہاں اشارہ ہے؟ یہ اس بات کے غور کی طرف اشارہ ہے کہ ایک معمولی مکھی کو اللہ تعالیٰ نے وحی کرکے وہ راستہ دکھا دیا جس سے ایسی چیز پیدا ہوئی جو لوگوں کے لئے شفاء بن گئی۔ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم، سب اس چیز کو تسلیم کرتے ہیں کہ شہد میں شفاء ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر کام کے لئے وحی الٰہی کی ضرورت ہے۔ اس لئے اے لوگو ! تم میں سے بعض جو خداتعالیٰ کی وحی کے انکاری بن جاتے ہیں اس بات پر غور کرو کہ شہد بنانے کا سارا عمل، پھولوں کا رس چوسنے سے لے کر شہد بننے تک، اللہ تعالیٰ کی وحی کی وجہ سے مکمل ہوا ہے۔ بلکہ معمولی جانور بھی اپنے کاموں کے لئے وحی کے محتاج ہیں، جن کو اپنے کاموں سے متعلق راہنمائی ملتی ہے۔ اور جانوروں، کیڑوں مکوڑوں میں اس کی اعلیٰ ترین مثال شہد کی مکھی کی وحی ہے۔ تو انسان کس طرح کہہ سکتا ہے؟ کہ وہ خود ہی ہدایت پا جائے گا یا اس کو کسی ہدایت کی ضرورت نہیں، سب کام خود بخود ہو رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں فرمایا کہ: ایک دنیادار انسان سمجھتا ہے کہ اس کی کوشش سے وہ اپنے مقصد حاصل کر لیتا ہے، اپنی کوشش سے اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ جبکہ اس کی کوشش بھی دعا ہی کی ایک قسم ہے اور اس کے نتیجہ میں جو تدبیر اس کے ذہن میں آتی ہے وہ بھی وحی کی ایک قسم ہے۔ پس انسان کو شہد کی مکھی کے عمل سے یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کسی چیز کا اعلیٰ حصول ممکن ہی نہیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍دسمبر ۲۰۰۸ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍جنوری ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button