انسانی زندگی کی تخلیق
انسانی زندگی کی تخلیق سے اللہ تعالیٰ کی پہچان ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے انسانی زندگی کے تخلیقی نظام کا علم ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اس بارےمیں مبہم اور نامکمل خیالات پائے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں نبوت کا نظام جاری فرمایا تو جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبوت کے مقام پر فائز کیا جس کا ہمیں علم ہے اس کے بارے میں بعض یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہی پہلا انسان تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں نبی کا ذکر فرمایا ہے تو وہاں آدم کہا ہےاس لیے پہلے نبی کو ہی پہلا انسان خیال کیا گیا۔ حالانکہ کلام پاک کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہےکیونکہ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً(سورۃ البقرۃ:۳۱)میں جَاعِلٌ یعنی بنانے والا، مقرر کرنے والا کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ خَالِقٌ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
انسانی زندگی کا آغازاز بائبل
بائبل میں آتا ہے:’’تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بنائیں کہ وہ سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں اور مویشیوں پر اور تمام زمین پر اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتےہیں سرداری کریں اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا نرو ناری ان کو پیدا کیا۔اور خدا نےانہیں برکت دی خدا نے انہیں کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور… خداوند خدا نے عدن میں پورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا… اور خداوند نے کہا اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے میں اس کے لیے ایک ساتھی اس کی مانند بناؤں گا… اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلہ گوشت بھر دیا اور خداوندخدا نے اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کےآدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ایک ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ ناٹ سے نکالی گئی ہے۔‘‘(پیدائش باب ۱-۲)
انسانی زندگی کا آغاز از ہندوازم
ہندوؤں نے پیدائش انسانی کی حقیقت اس طرح بیان کی ہے۔ رگ وید میں لکھاہے:’’کون یقیناً جانتا ہے اور کون بیان کر سکتا ہے کہ یہ کائنات کہاں سے آ پیدا ہوئی اور کس طرح اس کی تخلیق ہوئی کیونکہ دیوتا اس کے بعد کےہیں پھر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کہاں سے نمودار ہوئی۔ یہ خلقت کہاں سے آموجود ہوئی۔ اے پیارے آکاش میں جو اس کا منتظم ہے وہ بھی اس کو جانتا ہے یا وہ بھی نہیں جانتا۔ ‘‘(رگ وید منڈل ۱۰ سُوکت ۱۲۹۔ از تفسیر کبیرایڈیشن ۲۰۲۳ءجلد ۱ صفحہ ۴۱۹)
اس عدم علم کے اظہار کے بعد رگ وید نے خود ہی پیدائش عالم اور پیدائش انسانی کی یوں تشریح کی ہے۔
’’اس یگیہ سے کہ جس میں سب نے ہون کیا۔ دہی اور گھی پیدا ہوا۔ اور ان حیوانوں کو پیدا کیا جو ہوا کے سہارے ہیں اور جنگل اور آبادی میں رہنے والے ہیں۔ اس یگیہ سے کہ جس میں سب نے ہون کیا رچا(رگ وید) سام ویدچھند (بحر) اور یجروید پیدا ہوئے۔ جب وراٹ پرش کو تقسیم کیا گیا توکتنی طرح سے اس کا خیال کیا گیا۔ کون اس کا منہ قرار دیاگیا۔ کس سے بازو کس سے رانیں اور کس سے پاؤں۔ اس کامنہ کیا ہے بازوکون ہیں رانیں کیا ہیں اورپاؤں کون؟ براہمن اس کے منہ سے پیدا ہوا کھشتری اس کے بازو سےا ورشو در اس کے پاؤں سے مَنْ سے چاند پیدا ہوا۔ آنکھ سے سورج پیدا ہوا۔ منہ سے اندر اور اگنی اور پران سے ہوا پیدا ہوئی۔(رگ وید منڈل ۱۰ سُوکت ۱۲۹ از تفسیر کبیرایڈیشن ۲۰۲۳ءجلد ۱ صفحہ ۴۱۸)
انسانی زندگی کا آغاز از قرآن کریم
مَا لَکُمۡ لَا تَرۡجُوۡنَ لِلّٰہِ وَقَارًا۔وَقَدۡ خَلَقَکُمۡ اَطۡوَارًا۔اَلَمۡ تَرَوۡا کَیۡفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔وَّجَعَلَ الۡقَمَرَ فِیۡہِنَّ نُوۡرًا وَّجَعَلَ الشَّمۡسَ سِرَاجًا۔وَاللّٰہُ اَنۡۢبَتَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ نَبَاتًا۔ثُمَّ یُعِیۡدُکُمۡ فِیۡہَا وَیُخۡرِجُکُمۡ اِخۡرَاجًا۔ (سورۃ نوح:۱۴تا۱۹)ترجمہ: تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ سے کسی وقار کی توقّع نہیں رکھتے؟حالانکہ اُس نے تمہیں مختلف طریقوں پر پیدا کیا۔کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کیسے سات آسمانوں کو طبقہ بر طبقہ پیدا کیا؟اور اُس نے ان میں چاند کو ایک نُور بنایا اور سُورج کو ایک روشن چراغ۔اور اللہ نے تمہیں زمین سے نبات کی طرح اُگایا۔پھر وہ تمہیں اس میں واپس کردے گا اور تمہیں ایک نئے رنگ میں نکالے گا۔
ان آیات کی تفسیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’آیات ۱۴ تا ۱۹ میں انسان کے درجہ بدرجہ مختلف ارتقائی ادوار سے گزر کر پیدا ہونے کا ذکر ہے۔ اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دم سب کچھ اسی طرح پیدا کر دیا، وہ اللہ تعالیٰ کے صاحبِ وقار ہونے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ ایک صاحبِ وقار ہستی کو کوئی افراتفری نہیں ہوتی۔ وہ ہر چیز کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر بلند کرتا ہے۔اسی طرح خدا تعالیٰ نے آسمانوں کو بھی طبقہ در طبقہ پیدا کیا ہے۔‘(ترجمۃ القرآن صفحہ ۱۰۸۱)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم توریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیدا ہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا اور خدا گویا معطل تھا اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اسی آخری آدم کی نسل ہے۔ ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد دہم، ایڈیشن ۱۹۸۴ء صفحہ۴۳۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اس ضمن میں فرماتے ہیں: ’’غرض اِس زمین کے تمام مقدّس فرشتوں کے مقدّس گروہ نے آدم علیہ السّلام سے پہلی قوموں کی بَداطواری اور کافروں، ڈشوں، ویسیوں، شیطانوں اور آمروں کے بُرے کام اور بَد چلنی دیکھی ہوئی تھی۔…غلطی سے سمجھ بیٹھے کہ یہ آدم بھی آدم ہے۔ پہلی قوموں کی طرح فساد، قتل اور سفکِ دِماء نہ کرے۔… اور امام الائمہ حضرت سیّدنا امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے جیسے تفسیر کبیر میں لکھا ہے اس آدم علیہ السّلام سے پہلے ہزار در ہزار آدم گذر چکے ہیں۔‘‘(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۷)
حضرت مصلح موعود ؓ تفسیر کبیر میں اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:‘‘قرآن کریم میں جو آدم کاواقعہ بیان ہوا ہے اس میں کہیں بھی اس امر کا اظہار نہیں کیا گیا کہ آدم علیہ السلام سے نسل انسانی کی ابتدا ہوئی ہے یا یہ کہ ان کے زمانہ میں اَور کوئی بشر نہ تھا۔ قرآن کریم میں آدم ؑکا نام لے کر ان کے واقعہ کو مندرجہ ذیل مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ اول تو اسی آیت میں جس کی تفسیرمیں اس وقت لکھ رہا ہوں[اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً۔(سورۃ البقرۃ:۳۱)] اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس میں انسانی پیدائش کا کوئی ذکر نہیں صرف یہ فرماتا ہے کہ یاد کر وجب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں اور یہ فقرہ اپنی بناوٹ سے ہی ظاہر کرتا ہے کہ آدم اور ان کے کچھ ہم جنس پہلے ہی موجود تھے۔ان کے بنانے کا اس وقت سوال نہ تھا بلکہ سوال صرف بشر میں سے ایک خلیفہ بنانے کا تھا اور ظاہر ہے کہ خلیفہ بنانے سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس سے پہلے کوئی انسان نہ تھا بلکہ صرف یہ نتیجہ نکلتا کہ اس وقت خلیفۃ اللہ نہ تھا۔‘‘(تفسیر کبیرجلد۱صفحہ۴۲۷ ایڈیشن ۲۰۲۳ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نےپیدائش انسانی کی مزید وضاحت یوں کی ہے:’یہ محض محاورہ نہیں بلکہ درحقیقت انسانی پیدائش کو ایک ایسے دور میں سے گزرنا پڑا ہے کہ وہ محض نباتات کی صورت میں تھی۔ اور دوسری آیات میں اس منظر کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُوْرًا۔ (الدهر :۲ ) یعنی انسان اپنی پیدائش میں ایسی منزل سے بھی گزرا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا۔اس میں لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جب انسانی تخلیق نباتاتی دور میں سے گزر رہی تھی تو اس میں آواز نکالنے یا آواز سننے کے حواس پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اُس نبا تاتی زندگی پرمکمل خاموشی طاری تھی۔‘(ترجمۃ القرآن صفحہ ۱۰۸۱)