سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

آنحضرتﷺنے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھاہے؟خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کے تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے

براہین احمدیہ،عنداللہ قبولیت اور الٰہی بشارت

قبل اس کے کہ ہم اس معرکہ آراکتاب کی دیگرتفاصیل کاذکر کریں سب سے پہلے یہ ذکر ضروری ہے کہ حضرت اقدسؑ کی بیس پچیس سالہ محنت اوربیت الذکر اوربیت الفکر میں کی جانے والی شبانہ روزدعائیں ہی تھیں جنہیں بالآخر خدائے ذوالعرش المجیدکے حضور قبولیت کا شرف ایسے شیریں پھل کی صورت میں عطاہواکہ جس سے لاکھوں مُردے زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ اورآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور ایک دفعہ پھر دُنیا میں انقلاب برپاہوگیا …ایک ایسا انقلاب کہ جو چودہ سوسال تک دنیا کی کسی آنکھ نے نہ دیکھاتھا اورمذاہب کی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا اس کی تفصیل ابھی بیان کی جائے گی پہلے وہ لطیف کشف بیان کیاجاتاہے۔جو دراصل پہلے سے براہین احمدؐیہ کی بابت ایک الٰہی بشارت تھی۔

حضرت اقدسؑ براہین احمدیہ کی بابت اپنے ایک کشفی نظارے کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس احقر نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء عیسوی میں یعنی اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھا۔جناب خاتم الانبیاءﷺ کو خواب میں دیکھا اور اُس وقت اِس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔آنحضرتﷺنے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھاہے؟خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کے تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے۔ غرض آنحضرتﷺ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبویؐ کے ہاتھ میں آئی تو آنجنابؐ کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا۔مگر بقدرِ تربوز تھا۔آنحضرتؐ نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کےلئےقاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اُس میں سے شہد نکلا کہ آنجنابؐ کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے بھر گیا۔تب ایک مرد ہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت ؐکے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔اور یہ عاجز آنحضرتؐ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مُستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرتؐ بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔

پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرتﷺ نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں۔ اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھا لی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھاکہ آنحضرتﷺ کی کرسیٔ مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہو گئی۔ اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرتﷺ کی پیشانیٔ مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دینِ اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی۔تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی۔ والحمد لله علی ذالک ‘‘ (براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۸،۲۴۹،روحانی خزائن جلد اول صفحہ۲۷۴تا۲۷۶ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر۱)

یہ رؤیا آئینہ کمالات اسلام میں زیادہ تفصیل کے ساتھ آپؑ نے لکھی ہے۔چنانچہ اس میں آپؑ فرماتے ہیں:’’رَأَیْتُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَّ اَنَا غُلَامٌ حَدِیْثُ السِّنِّ کَاَنِّیْ فِیْ بَیْتٍ لَطِیفٍ نَّظِیْفٍ یُذْکَرُ فِیْھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَقُلْتُ اَیُّھَاالنَّاسُ اَیْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم۔فَاَشَارُوْا اِلٰی حُجْرَۃٍ۔ فَدَخَلْتُ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ۔ فَبَشَّ بِیْ حِیْنَ وَافَیْتُہٗ۔ وَحَیَّانِیْ بِاَحْسَنِ مَاحَیَّیْتُہٗ۔ وَمَااَنْسٰی حُسْنَہٗ وَجَمَالَہٗ وَمَلَاحَتَہٗ وَ تَحَنُّنَہٗ اِلٰی یَوْمِیْ ھٰذَا۔ شَغَفَنِیْ حُبًّا وَّجَذَبَنِیْ بِوَجْہٍ حَسِیْنٍ۔ قَالَ مَاھٰذَا بِیَمِیْنِکَ یَااَحْمَدُ۔ فَنَظَرْتُ فَاِذَا کِتَابٌ بِیَدِی الْیُمْنٰی وَخَطَرَ بِقَلْبِیْ اَنَّہٗ مِنْ مُّصَنَّفَاتِیْ۔ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ کِتَابٌ مِّنْ مُّصَنَّفَاتِیْ۔ قَالَ مَااسْمُ کِتابِکَ فَنَظَرْتُ اِلَی الْکِتَابِ مَرَّۃً اُخْرٰی وَاَنَا کَالْمُتَحَیِّرِیْنَ۔ فَوَجَدْتُّہٗ یُشَابِہُ کِتَابًا کَانَ فِیْ دَارِ کُتُبِیْ وَاسْمُہٗ ’’قُطْبِیٌّ‘‘ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِسْمُہٗ قُطْبِیٌّ۔ قَالَ اَرِنِیْ کِتَابَکَ الْقُطْبِیَّ فَلَمَّا اَخَذَہٗ وَمَسَّتْہُ یَدُہٗ فَاِذَا ھِیَ ثَمَرَۃٌ لَّطِیْفَۃٌ تَسُرُّالنَّاظِرِیْنَ۔ فَشَقَّقَھَا کَمَایُشَقَّقُ الثَّمَرُ فَخَرَجَ مِنْھَاعَسَلٌ مُّصَفًّی کَمَآءٍ مُّعِیْنٍ۔ وَرَاَیْتُ بِلَّۃَ الْعَسَلِ عَلٰی یَدِہِ الْیُمْنٰی مِنَ الْبَنَانِ اِلَی الْمِرْ فَقِ کَانَ الْعَسَلُ یَتَقَاطَرُمِنْھَا۔ وَکَاَنَّہٗ یُرِیْنِیْ اِیَّاہُ لِیَجْعَلَنِیْ مِنَ الْمُتَعَجِّبِیْنَ۔ ثُمَّ اُلْقِیَ فِیْ قَلْبِی اَنَّ عِنْدَ اُسْکُفَّۃِ الْبَیْتِ مَیِّتٌ قَدَّرَاللّٰہُ اِحْیَاءَہٗ بِھٰذِہِ الثَّمَرَۃِ وَقَدَّرَ اَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُحْیِیْنَ۔ فَبَیْنَمَا اَنَا فِیْ ذٰلِکَ الْخَیَالِ فَاِذَاالْمَیِّتُ جَآءَنِیْ حَیًّا وَّھُوَیَسْعٰی وَقَامَ وَرَآءَ ظَھْرِیْ وَفِیْہِ ضُعْفٌ کَاَنَّہٗ مِنَ الْجَآئِعِیْنَ۔ فَنَظَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیَّ مُتَبَسِّمًاوَّ جَعَلَ الثّمَرَۃَ قِطْعَاتٍ وَّاَکَلَ قِطْعَۃً مِّنْھَاوَاٰتَانِیْ کُلَّ مَابَقِیَ وَالْعَسَلُ یَجْرِیْ مِنَ الْقِطْعَاتِ کُلِّھَاوَقَالَ یَااَحْمَدُ اَعْطِہٖ قِطْعَۃً مِّنْ ھٰذِہٖ لِیَاْکُلَ وَیَتَقَوّٰی فَاَعْطَیْتُہٗ فَاَخَذَیَاکُلُ عَلٰی مَقَامِہٖ کَالْحَرِیْصِیْنَ۔ ثُمَّ رَاَیْتُ اَنَّ کُرْسِیَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رُفِعَ حَتّٰی قَرُبَ مِنَ السَّقْفِ وَرَاَیْتُہٗ فَاِذَاوَجْھُہٗ یَتَلَأْلَاُ۔ کَاَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ذَرَّتَاعَلَیْہِ وَکُنْتُ اَنْظُرُ اِلَیْہِ وَعَبَرَاتِیْ جَارِیَۃٌ ذَوْقًا وَّ وَجْدًا۔ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ وَاَنَامِنَ الْبَاکِیْنَ۔ فَاَلْقَی اللّٰہُ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ الْمَیِّتَ ھُوَالْاِسْلَامُ۔ وَسَیُحْیِیْہِ اللّٰہُ عَلٰی یَدِیْ بِفُیُوْضٍ رُوْحَانِیَّۃٍ مِّنْ رُّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَایُدْرِیْکُمْ لَعَلَّ الْوَقْتَ قَرِیْبٌ فَکُوْنُوْامِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ وَفِیْ ھٰذِہِ الرُّؤْیَا رَبَّانِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہٖ وَکَلَامِہٖ وَاَنْوَارِہٖ وَھَدِیَّۃِ اَثْمَارِہٖ۔‘‘ (تذکرہ صفحہ ۱ تا ۳ ایڈیشن ۲۰۰۴ء)

(ترجمہ از مرتب) اوائل ایامِ جوانی میں ایک رات میں نے (رؤیا میں) دیکھا کہ میں ایک عالی شان مکان میں ہوں۔ جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرتﷺ کا ذکر اور چرچا ہورہا ہے۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضورﷺ کہاں تشریف فرما ہیں۔ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اُس کے اندر چلا گیا۔ اور جب میں حضورﷺ کی خدمت میں پہنچا تو حضورﷺبہت خوش ہوئے اور آپؐ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپؐ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپؐ کی پُر شفقت و پُر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے۔ اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپؐ کی محبت نے مجھے فریفتہ کرلیا۔ اور آپؐ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس وقت آپؐ نے مجھے فرمایا۔ اے احمد! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے۔ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھےاپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی۔ میں نے عرض کیا۔ حضور ؐیہ میری ایک تصنیف ہے۔ آپﷺ نے پوچھا۔اس کتاب کا کیا نام ہے۔ تب میں نے حیران ہوکر کتاب کو دوبارہ دیکھا تو اسے اس کتاب کے مشابہ پایا جو میرے کتب خانہ میں تھی اور جس کا نام قطبی ہے۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ اس کا نام قطبی ہے۔ فرمایا اپنی یہ کتاب قطبی مجھے دکھا۔جب حضورﷺ نے اسے لیا تو حضو رﷺ کا مبارک ہاتھ لگتے ہی وہ ایک لطیف پھل بن گیا۔جو دیکھنے والوں کے لیے پسندیدہ تھا۔جب حضورﷺنے اسے چیرا۔ جیسے پھلوں کو چیرتے ہیں تو اس سے بہتے پانی کی طرح مصفَّا شہد نکلا۔ اور میں نے شہد کی طراوت آنحضرتﷺ کے داہنے ہاتھ پر انگلیوں سے کہنیوں تک دیکھی اور شہد حضورﷺ کے ہاتھ سے ٹپک رہا تھا۔ اور آنحضرتﷺ گویا مجھے اس لئے وہ دکھا رہے ہیں تا مجھے تعجب میں ڈالیں۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ دروازے کی چوکھٹ کے پاس ایک مردہ پڑا ہے جس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ نے اس پھل کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور یہی مقدر ہے کہ نبی کریمﷺ اس کو زندگی عطا کریں۔ میں اسی خیال میں تھا کہ دیکھا کہ اچانک وہ مُردہ زندہ ہوکر دوڑتا ہوا میرے پاس آگیا اور میرے پیچھے کھڑا ہوگیا مگر اس میں کچھ کمزوری تھی گویا وہ بھوکا تھا تب نبی کریمﷺ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس پھل کے ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑا ان میں سے حضورﷺنے خود کھایا اور باقی سب مجھے دے دیے ان سب ٹکڑوں سے شہد بہہ رہا تھا۔ اور فرمایا۔ اے احمد! اس مُردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اسے کھا کر قوت پائے۔ میں نے دیا تو اس نے حریصوں کی طرح اسی جگہ ہی اسے کھانا شروع کردیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آنحضرتﷺکی کرسی اونچی ہوگئی ہےحتیٰ کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپﷺ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج اور چاند کی شعاعیں پڑرہی ہیں۔ میں آپﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور ذوق اور وجد کی و جہ سے میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر میں بیدار ہوگیا۔ اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مُردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا۔ اور تمہیں کیا پتہ شاید یہ وقت قریب ہو اس لئے تم اس کے منتظر رہو۔ اور اس رؤیامیں آنحضرتﷺ نے اپنے دست ِ مبارک سےاپنے پاک کلام سے اپنے انوار سے اور اپنے (باغِ قدس کے) پھلوں کے ہدیہ سے میری تربیت فرمائی تھی۔

ضروری نوٹ:اس رؤیا میں حضرت اقدسؑ نے رؤیاکاسنہ ۱۸۶۴ء رقم فرمایاہے اس پرمرتب تذکرہ کی طرف سے ایک نوٹ دیاگیاہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ تاریخ غالباً سرسری طورپر ایک موٹے اندازہ کی بنا پر لکھی گئی ہے کیونکہ یہ رؤیا حضور کے زمانہ آغازِ جوانی کا ہے جبکہ آپ ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھے جس کے بعد کچھ عرصہ آپ سیالکوٹ تشریف فرمارہے۔ اورتریاق القلوب صفحہ ۵۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ تیجاسنگھ صاحب کی وفات (جو ۱۸۶۲ء میں ہوئی تھی۔ دیکھئے کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب)کا واقعہ انہی ایام کا ہے جب حضور سیالکوٹ میں رہتے تھے۔ پس یہ رؤیا دراصل ۱۸۶۴ء سے کئی سال قبل کا ہے۔ واللہ اعلم بالصّواب۔ (مرتّب)‘‘ (تذکرہ صفحہ۳ حاشیہ ایڈیشن ۲۰۰۴ء)

براہین احمدیہ میں حضورعلیہ السلام اس رؤیاکودرج کرنے کے بعد تحریرفرماتے ہیں: ’’یہ وہ خواب ہے کہ تقریباً دو سو آدمی کو انہیں دنوں میں سنائی گئی تھی جن میں سے پچاس یا کم و بیش ہندو بھی ہیں کہ جو اکثر ان میں سے ابھی تک صحیح و سلامت ہیں اور وہ تمام لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں براہین احمدیہ کی تالیف کا ابھی نام و نشان نہ تھا اور نہ یہ مرکوز خاطر تھا کہ کوئی دینی کتاب بناکر اس کے استحکام اور سچائی ظاہر کرنے کے لئے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب وہ باتیں جن پر خواب دلالت کرتی ہے کسی قدر پوری ہوگئیں اور جس قطبیت کے اسم سے اُس وقت کی خواب میں کتاب کو موسوم کیا گیا تھا۔ اسی قطبیت کو اب مخالفوں کے مقابلے پر بوعدہ انعام کثیر پیش کرکے حجت اسلام ان پر پوری کی گئی ہے۔ اور جس قدر اجزا اس خواب کے ابھی تک ظہور میں نہیں آئے ان کے ظہور کا سب کو منتظر رہنا چاہئے کہ آسمانی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔‘‘ (براہین احمدیہ صفحہ۲۴۹-۲۵۰ حاشیہ درحاشیہ نمبر۱،روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۲۷۶ حاشیہ درحاشیہ نمبر۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button