اداریہ

اداریہ: فرشتوں سی روحوں کا مسکن یہاں ہے

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

(گھانا مغربی افریقہ میں مسیح محمدی کے متبعین کا صدسالہ تاریخی جلسہ اور حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ کا لائیو خطاب)

۲۲؍ فروری ۲۰۲۴ء کو شروع ہونے والے جماعت احمدیہ گھانا کے ۹۱ ویں صد سالہ جوبلی جلسہ سالانہ کا آج آخری روز ہے۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطے کے ذریعے باغِ احمد، سنٹرل ریجن گھانا میں منعقد ہونے والے اس جلسے سے براہِ راست اختتامی خطاب فرمائیں گے۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ خلیفۂ وقت اس طرح اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے خصوصی طور پر افریقہ کے کسی ملک میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ سے براہِ راست مخاطب ہوں گے۔

مغربی افریقہ میں واقع ملک گھانا میں منعقد ہونے والے اس عظیم الشان اور کامیاب جلسہ سالانہ کو دیکھ کر خاکسار نے چشمِ تصور میں اپنے آپ کو ٹھیک ایک سو تین سال قبل یعنی ۲۸؍ فروری ۱۹۲۱ء کی شام ساڑھے چار بجے گولڈ کوسٹ (جو گھانا کا پرانا نام ہے) کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پر پایا جہاں ۹؍ فروری کو لندن سے ’Abinsi‘ نامی بحری جہاز پر روانہ ہونے والے صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، مبلغ احمدیت حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کا ’Bruto‘ نامی بحری جہاز لنگر انداز ہو رہا تھا جس پر آپ فری ٹاؤن سیرالیون سے سوار ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ آپؓ فری ٹاؤن سیرالیون میں بھی کچھ روز رُکے جہاں آپؓ کو تبلیغ اسلام کے مواقع میسر آئے۔ آپؓ جس سرزمین پراحمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کا مشن لے کر اتر رہے تھے اُس وقت وہ عملاً مسیحیت کا مرکز تھا اور اس علاقے میں صرف فانٹی (Fanti)قوم مسلمان تھی جس کے موجودہ چیف کا نام Aduogyir آپاہ تھا، وہی آڈؤگیر جنہوں نے بعض روایات کے مطابق حضرت مہدی مسعودؑ کو قبول کرنے کے بعد اپنا نام تبدیل کر کے ’مہدی‘ رکھ لیا۔

اگرچہ گھانا میں اسلام کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا لیکن اس علاقے میں اس کی ابتدا انیسویں صدی کے اواخر میں ایک میتھوڈسٹ پادری جناب بنیامین سام (Benjamin Sam)کے مسلمان ہونے سے ہوا جنہوں نے ایک شخص جناب ابوبکر بن صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے بعد جلد ہی اپنے ایک قریبی دوست Aduogyir Appahکو بھی مسلمان بنالیا۔ آڈوؤگیر آپاہ وہی چیف مہدی آپاہ(Appah)تھے جو گھانا میں احمدیت کے معمارِ اوّل بنے۔ حضرت مولانا نیّر صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جس روز(۲۸؍فروری۱۹۲۱ء کو) مَیںسالٹ پانڈ پہنچاامیر مہدی بیان کرتے ہیں کہ اسی شب انہوں نے رؤیا میں دیکھا کہ رسول خداﷺ ان کے کمرے میںداخل ہوئے ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۲۱ء ص 6)

۱۹۱۵ء میں جناب بنیامین کی وفات کے بعد ان کے ساتھی مہدی آپاہ نے بنیامین کے زیرِ اثر گھانین مسلمانوں کی قیادت سنبھال لی۔ جنگ عظیم اول کے بعد چیف مہدی آپاہ کے ایک پیروکار یوسف نے خواب میں سفید رنگ کے بعض لوگوں کو اسلامی رنگ میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا۔ جب یوسف نے اپنی خواب اپنے بزرگوں اور دوسرے لوگوں کو سنائی تو انہوں نے ایسے لوگوں کا پتہ چلانے کی کوشش کی جنہیں یوسف کی خواب میں اسلامی عبادات بجالاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یوسف کے ایک دوست نے انہیں بتایا کہ اس قسم کے لوگ ہندوستان میں بھی رہتے ہیں۔ چنانچہ یوسف اور اس کے دوستوں نے ریویو آف ریلیجنز کے توسط سے ہندوستان میں جماعت احمدیہ قادیان کے ساتھ خط و کتابت شروع کی جس کے نتیجہ میں چیف مہدی آپاہ کو بتایا گیا کہ اگر کرایہ کے لیے تین سو پاؤنڈ سٹرلنگ کا انتظام کردیا جائے تو انہیں دینی تعلیم دینے کے لئے ہندوستان سے ایک مبلغ بھجوایا جا سکتا ہے کیونکہ اس وقت مرکزِ سلسلہ کے پاس بیرونِ ملک مبلغ بھجوانے کے وسائل نہ تھے۔ تین سو پاؤنڈ کی رقم ان دنوں میں معمولی رقم نہیں تھی۔ چنانچہ چیف مہدی آپاہ اور ان کے مریدوں نے اپنی زمینیں اور قیمتی اشیاء گروی رکھ کر یہ رقم جمع کرکے ہندوستان بھیجی۔ اور پھر ایک لمبے انتظار کے بعد افریقہ کے لئے پہلے مبلغ احمدیت حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ ۱۹۲۱ء میں سالٹ پانڈ کے ساحل پر اترے تو چیف مہدی آپاہ کی جانب سے بھجوائے ہوئے مقامی لوگ بھی آپؓ کے استقبال کے لیے وہاں پہنچے۔چیف مہدی آپاہ اور آپ کے پیروکاروں نے نہایت کشادہ دلی سے احمدی مبلغ کا استقبال کرکے مسیح موعود و مہدی معہودؑ کے پیغام کو قبول کیا۔

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر قریباً دو ماہ گھانا میں قیام کرنے اور جماعت کی بنیاد رکھنے کےبعد ۸؍ اپریل کو نائیجیریا کے لیے روانہ ہو گئے جبکہ حکیم فضل الرحمٰن صاحب پہلے مستقل مبلغ تھے جن کی تقرری گھانا میں ہوئی۔ آپ ۱۹۲۲ء میں وہاں تشریف لائے اور ۱۹۲۹ء تک وہاں خدمات سرانجام دیں اور ۱۹۳۳ء میں ایک مرتبہ پھر گھانا تشریف لائے۔

گولڈکوسٹ میں جہاں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے مبلغین نےعظیم قربانیاں پیش کیں تبلیغ کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ ایسے کھانے میسر آتے جن کا معیار اور ذائقہ بہت مختلف تھا۔ شوربے میں گھی یا تیل کا استعمال نہ کرتے۔ پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں تھا ۔ صرف بارش اور دریا کا پانی ملتا جس میں کیڑے ہوتے۔ اگر پانی ابال کر یا چائے بنا کر نہ پیا جاتا تو کیڑے جسم میں جانے کا اندیشہ رہتا۔ جنگل اور بارشوں کی کثرت سے ملیریا کی وبا جوبن پر ہوتی۔ روزانہ کونین استعمال نہ کرتے تو بخار کا ڈر رہتا۔ بہت مشکل سے کبھی دودھ، شکر، مکھن، بریڈ وغیرہ ولایت سے پیک شدہ ملتے جو اس قدر مہنگے تھے کہ قوتِ خرید سے باہر ۔

اس وقت جماعت احمدیہ کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ باقاعدہ بیرونی مشنز کو رقم ارسال کی جا سکے نہ ہی افریقہ کے غریب دیہاتی (نظامِ جماعت وضع نہ ہونے کی وجہ سے) اس پوزیشن میں تھے کہ مبلغ کا خرچ برداشت کر سکیں۔ طرفہ یہ کہ وہاں یعنی افریقہ کا خرچ لندن کے خرچ سے بھی زیادہ تھا۔ ان ہی امور سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیر افریقی یا غیر گھانین مبلغین کا وہاں قیام اور تبلیغ کرنا کتنا کٹھن کام تھا۔ اسی لیے مولانا نیّرؓ نے الفضل قادیان کو گھانا میں قیام کی مشکلات بیان کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’پینتالیس یوروپین پادریوں کی ہڈیاں افریقہ کے اس ساحل کی خاک میں مدفون ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان ۱۹؍ مئی ۱۹۲۱ء)

لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ کے کام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں میں برکت رکھی اور خلفائے احمدیت کی دعاؤں اور توجہ کی بدولت گولڈ کوسٹ کی قسمت بدل گئی اور آج گھانین لاکھوں کی تعداد میں خلافتِ احمدیہ کے زیرِ سایہ مسیح موعودؑ کی غلامی کا دم بھرتے ہیں۔ آج گھانا کی سرزمین پر سینکڑوں مساجد ہیں جہاں روزانہ پانچ وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا اور اس کے پیغام کی تبلیغ و ترویج کی جاتی ہے، ایک بڑی تعداد میں اسکول اور کالجز بلا تفریق رنگ و نسل گھانا کے باسیوں کو علم کی روشنی سے منور کر رہے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ کی ایک شاخ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل کی صورت میں قائم ہے جہاں پچیس سے زائد ممالک کے اڑھائی سو کے قریب طلبہ مبلغین بن رہے ہیں۔ جامعۃ المبشرین اور مدرسۃ الحفظ اس کے علاوہ ہیں۔ جماعتِ احمدیہ گھانا بھر میں بڑی تعداد میں ہسپتالوں اور کلینکس کی صورت میں بے لوث صحت کی سہولیات مہیا رہی ہے۔

دوسری طرف بغیر کسی اشتہار، غریب احمدیوں کے چندوں پر چلنے والا مسلم ٹیلیویژن احمدیہ جس کا سفر کوئی تیس سال قبل ہفتہ میں ایک مرتبہ خلیفۂ وقت کے خطبہ جمعہ کو براہِ راست ٹیلی کاسٹ کرنے سے شروع ہوا تھا چند ہی دہائیوں میں اتنی ترقی کر چکا ہے کہ کسی بھی وقت دنیا کے کسی بھی ملک کے احمدیوں سے خلیفۂ وقت کا براہِ راست رابطہ کروا سکتا ہے۔ ایک سو سال قبل جس خلیفہؓ نے مہدی آپاہ کی درخواست پر حضرتِ نیّر کو اسلام کی تبلیغ کے لیے متوکّلاً علی اللہ گھانا بھجوایا تھا اسی وجودؓ نے ۱۹۳۶ء میں پہلی مرتبہ لاؤڈ اسپیکر کے جلسہ سالانہ قادیان میں استعمال پر پیشگوئی فرمائی کہ ’’مَیں سمجھتا ہوں یہ بھی حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے کیونکہ رسولِ کریم ﷺ نے خبر دی تھی کہ مسیحِ موعود اشاعت کے ذریعے دینِ اسلام کو کامیاب کرے گا۔ اور قرآنِ کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحِ موعود کا زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نشان کی صداقت کے لیے پریس جاری کر دئیے اور پھر آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ سپیکر اور وائر لیس وغیرہ ایجاد کرائے۔ اور اب تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسا دن بھی آ سکتا ہے کہ مسجد میں وائر لیس کا سیٹ لگا ہؤا ہو اور قادیان میں جمعہ کے روز جو خطبہ پڑھا جا رہا ہو وہی تمام دنیا کے لوگ سن کر بعد میں نماز پڑھ لیا کریں۔‘‘ (روزنامہ الفضل قادیان ۲۹ دسمبر ۱۹۳۶ء)

سو آج جماعتِ احمدیہ کے لیے ایک تاریخی دن ہے کہ ایک طرف ایک سو تین سال قبل کس مپرسی کے عالم میں شروع کی جانے والی جماعت احمدیہ گھانا ترقیات کا سفر طے کرتے ہوئے شان و شوکت کے ساتھ اپنا صدسالہ جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہے تو دوسری جانب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ پیش گوئی کو پورا کرتے ہوئے مواصلاتی رابطوں کے ذریعے اسلام آباد میں بیٹھے ہزاروں میل دور منعقد ہونے والے اس جلسے سے خطاب فرمارہے ہیں جسے بلا شبہ ’’دنیا کے تمام لوگ‘‘ سنیں گے۔ گویا آج ایک مرتبہ پھر ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے ساتھ سچائی اور تائیدِالٰہی کی دو دھاری تلوار سے جماعت احمدیہ کی سچائی پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گی۔ (ان شاء اللہ العزیز)

اللہ تعالیٰ جماعتِ احمدیہ گھانا کو یہ خوش نصیب گھڑیاں مبارک فرمائے، احمدیوں کے ایمان و ایقان میں اضافہ فرمائے اور ہمارے ایسے بھائیوں کو جو ابھی تک مسیح دوراں کے سایۂ عاطفت میں نہیں آسکے غور کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بغیر یہ سب ہو سکے؎

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں

اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کردگار

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button