حضرت مصلح موعود ؓ

مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں (قسط سوم۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۸؍جنوری ۱۹۴۴ء)

حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک دفعہ مجھے ایک خط دیا اور فرمایا میاں! یہ خط ہے جو تمہاری پیدائش کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مجھے لکھا اس خط کو تشحیذ الاذہان میں چھاپ دو یہ بڑے کام کی چیز ہے۔ مَیں نے اُس وقت اُن کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ خط لے لیا اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُسے تشحیذ میں شائع کرا دیا۔ مگر اللہ بہتر جانتا ہے مَیں نے اُس وقت بھی اس خط کو غور سے نہیں پڑھا۔ صرف سرسری طور پر پڑھا اور اشاعت کے لیے دے دیا۔ لوگوں نے اُس وقت بھی کئی قسم کی باتیں کیں مگر مَیں خاموش رہا۔ اس کے بعد بھی بار بار یہ سوال میرے سامنے لایا گیا مگر ہمیشہ مَیں نے یہی جواب دیا کہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ خبریں ہیں اُسے بتایا بھی جائے کہ یہ تمہارے متعلق خبریں ہیں یا ہرگز یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ پیشگوئیاں ہیں وہ دعوٰی بھی کرے کہ مَیں ان پیشگوئیوں کا مصداق ہوں۔ بلکہ مثال کے طور پر مَیں نے بعض دفعہ بیان کیا ہے کہ ریل کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔(کنزالاعمال۔کتاب القیامۃ باب خروج الدجال) ماننے والے مانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی کیونکہ وہ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اب یہ ضروری نہیں کہ ریل خود دعوٰی بھی کرے کہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فلاں پیشگوئی کی مصداق ہوں۔ ہماری جماعت کے دوستوں نے یہ اور اسی قسم کی دوسری پیشگوئیاں بارہا میرے سامنے رکھیں اور اصرار کیا کہ مَیں اُن کا اپنے آپ کو مصداق ظاہر کروں۔ مگر

مَیں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا کہ پیشگوئی اپنے مصداق کو آپ ظاہر کیا کرتی ہے۔

اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں تو زمانہ خودبخود گواہی دے دے گا کہ ان پیشگوئیوں کا مَیں مصداق ہوں اور اگر میرے متعلق نہیں تو زمانہ کی گواہی میرے خلاف ہوگی۔دونوں صورتوں میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق نہیں تو مَیں یہ کہہ کر کیوں گنہگار بنوں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں اور اگر میرے ہی متعلق ہیں تو مجھے جلد بازی کی کیا ضرورت ہے وقت خودبخود حقیقت ظاہر کردے گا۔ غرض جیسے الہامِ الٰہی میں کہا گیا تھا ’’انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہیں تکیں‘‘۔(تذکرہ صفحہ ۱۴۴ طبع چہارم)دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا، اتنی دفعہ کیا کہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ اس لمبے عرصہ کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات میں خبر موجود ہے۔ مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ تُو اسی طرح یوسف کی باتیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہوجائے گا یا ہلاک ہوجائے گا۔(یوسف:۸۶)۔ اور یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔(تذکرہ صفحہ۱۶۳ طبع چہارم) اسی طرح یہ الہام ہونا کہ یوسف کی خوشبو مجھے آ رہی ہے(تذکرہ صفحہ۶۲۲ طبع چہارم) بتاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت یہ چیز ایک لمبے عرصہ کے بعد ظاہر ہوگی۔

مَیں اب بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر ان پیشگوئیوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کے قریب وقت تک یہ علم نہ دیا جاتا کہ یہ میرے متعلق ہیں بلکہ موت تک مجھے علم نہ دیا جاتا اور واقعات خودبخود ظاہر کر دیتے کہ چونکہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانہ میں اور میرے ہاتھ سے پوری ہوئی ہیں اس لیے مَیں ہی ان کا مصداق ہوں تو اس میں کوئی حرج نہ تھا۔ کسی کشف یا الہام کا تائیدی طور پر ہونا ایک زائد امر ہوتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اِس امر کو ظاہر کردیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔ چنانچہ آج مَیں نے پہلی دفعہ وہ تمام پیشگوئیاں منگوا کر اِس نیت کے ساتھ دیکھیں کہ مَیں ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھوں اور دیکھوں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں کیا کچھ بیان فرمایا ہے۔ ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف ان پیشگوئیوں کو منسوب کیا کرتے تھے اس لیے مَیں ہمیشہ ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھنے سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ کوئی غلط خیال قائم نہ ہوجائے۔ مگر آج پہلی دفعہ مَیں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد

مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے۔

میں اس کے متعلق اِس وقت تفصیل سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر یہ جو آتا ہے کہ ’’وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا‘‘۔(اشتہار۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء تذکرہ صفحہ ۱۳۹ طبع چہام) اس کے متعلق ہمیشہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ اسی طرح ’’دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ‘‘ (اشتہار۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء تذکرہ صفحہ ۱۳۹ طبع چہام) کے متعلق سوال کیا جاتا ہے۔ سو یہ جو الہام ہے کہ وہ ’’تین کو چار کرنے والا ہوگا‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہوگا۔ یعنی وہ چوتھا بیٹا ہوگا۔ اگر یہ مفہوم لے لیا جائے تو چوتھے بیٹے کے لحاظ سے بھی بات بالکل صاف ہے۔ مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب، مرزا فضل احمد صاحب اور مرزا بشیر احمد (اول) پیدا ہوئے اور چوتھا مَیں ہوا…اسی طرح میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے۔ اس لحاظ سے بھی مَیں تین کو چار کرنے والا ہؤا۔ پھر میری خلافت کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے مرزا سلطان احمد صاحب کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق دی۔ اِس طرح بھی مَیں تین کو چار کرنے والا ہؤا۔ گویا تین کو چار کرنے والا مَیں تین طرح ہوں۔ اول و دوم اس طرح۔

مرزا سلطان احمد(۱)، مرزا فضل احمد(۲)، بشیر اول (۳)، مرزا محمود احمد (۴)، مرزا بشیر احمد(۳)، مرزا شریف احمد(۲)، مرزا مبارک احمد(۱)

سوم اس طرح:

سلطان احمد ۱، مرزا بشیر احمد ۲، مرزا شریف احمد۳، مرزا محموداحمد۴۔ اس طرح میں نے تین کو چار کردیا۔ لیکن میرا ذہن خدا تعالیٰ نے اس طرف بھی منتقل کیا ہے کہ الہامی طور پر یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہوگا۔ الہام میں صرف یہ بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔

پس میرے نزدیک یہ اس کی پیدائش کی تاریخ بتائی گئی ہے۔ یہ پیشگوئی ابتدا ۱۸۸۶ء میں کی گئی تھی۔پس ۱۸۸۶ء، ۱۸۸۷ء ، ۱۸۸۸ء تین سال ہوئے۔ اِن تین سالوں کو چار کونسا سال کرتا ہے؟ ۱۸۸۹ء کرتا ہے اور یہی میری پیدائش کا سال ہے۔ پس تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اس کی پیدائش چوتھے سال میں ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

اور یہ جو آتا ہے ’’دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ‘‘اس کے اَورمعنے بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس کی ایک واضح تشریح یہ ہے کہ دو شنبہ ہفتے کا تیسرا دن ہوتا ہے؛ شنبہ پہلا، یکشنبہ دوسرا اور دو شنبہ تیسرا۔ دوسری طرف روحانی سلسلوں میں انبیاء اور ان کے خلفاء کا الگ الگ دَور ہوتا ہے اور جس طرح نبی کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اسی طرح خلیفہ کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔اس لحاظ سے غور کرکے دیکھو پہلا دَور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا تھا۔ دوسرا دَور حضرت خلیفہ اول کا تھا اور تیسرا دَور میرا ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کا ایک اَور الہام اس تشریح کی تصدیق کررہا ہے اور وہ الہام ہے ’’فضل عمر‘‘۔(تذکرہ صفحہ ۱۶۵ طبع چہارم) حضرت عمرؓ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیسرے مقام پر ہی خلیفہ تھے۔ پس ’’دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ‘‘سے یہ مراد نہیں کہ کوئی خاص دن خاص برکات کا موجب ہوگا بلکہ مراد یہ ہے کہ اس موعود کے زمانہ کی مثال احمدیت کے دَور میں ایسی ہی ہوگی جیسے دو شنبہ کی ہوتی ہے۔ یعنی

اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدمتِ دین کے لیے جو آدمی کھڑے کیے جائیں گے ان میں وہ تیسرے نمبر پر ہوگا۔

’’فضل عمر‘‘کے الہامی نام میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ گویا کلامُ اللہ میں یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا کے مطابق ’’فضل عمر‘‘کے لفظ نے ’’دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ‘‘کی تفسیر کردی۔

مگر اس الہام میں ایک اَور خبر بھی ہے اور خدا تعالیٰ مبارک دو شنبہ اب ایک ایسے ذریعہ سے بھی لانے والا ہے جو میرے اختیار میں نہیں تھا اور کوئی انسا ن نہیں کہہ سکتا کہ مَیں نے اپنے ارادہ سے اور جان بوجھ کر اس کا اجراء کیا۔میں نے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کو ایسے حالات میں جاری کیا جو ہرگز میرے اختیار میں نہیں تھے۔ گورنمنٹ کے ایک فعل اور احرار کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس تحریک کا القاء فرمایا اوراس تحریک کے پہلے دَور کی تکمیل کے لیے مَیں نے دس سال میعاد مقرر کی۔ ہر انسان جب کوئی قربانی کرتا ہے تو اس قربانی کے بعد اس پر ایک عید کا دن آتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو رمضان کے مہینہ میں لوگ روزے رکھتے اور تکلیف برداشت کرتے ہیں مگر جب رمضان گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ مومنوں کے لیے ایک عید کا دن لاتا ہے۔

اسی طرح ہماری دس سالہ تحریک جدید جب ختم ہوگی تو اس سے اگلا سال ہمارے لیے عید کا سال ہوگا۔

دوست جانتے ہیں تحریک جدید کا پہلا دس سالہ دَور اسی سال یعنی ۱۹۴۴ء میں ختم ہوتا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ سن ۱۹۴۵ء جو ہمارے لیے عید کا سال ہے، پیر کے دن سے شروع ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ خبر بھی دی تھی کہ ایک زمانہ میں اسلام کی نہایت کمزور حالت میں اس کی اشاعت کے لیے ایک اہم تبلیغی ادارہ کی بنیاد رکھی جائے گی اور جب اس کا پہلادَور کامیابی سے ختم ہوگا تو یہ جماعت کے لیے ایک مبارک وقت ہوگا۔ اس لیے وہ سال جب مومن اس عہد و قربانی کو پورا کر چکیں گے جو وہ اپنے ذمہ لیں گے تو ایک مبارک بنیاد ہو گی اور اس سے اگلے سال سے خدا تعالیٰ ان کے لیے برکت کا بیج بوئے گا اور خوشی کا دن ان کو دکھائے گا۔ اور جس سال میں یہ وقوع میں آئے گا اُس کا پہلا دن پیر یا دو شنبہ ہوگا۔ پس وہ سال بھی مبارک اور وہ دن بھی مبارک۔ پس ’’دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ‘‘۔

مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ مصلح موعود اس سلسلہ کی تیسری کڑی ہوگا۔بعض دفعہ ایک چیز کی کسی اور چیز سے مشابہت دے دی جاتی ہے مگر ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے مراد وہی ہو۔ پس میرے نزدیک اس کے معنے بالکل واضح ہیں اور ’’فضل عمر‘‘جو الہامی نام ہے وہ ان معنوں کی تائید کرتا ہے۔

میں اس امر کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ جب رؤیا کے بعد میری آنکھ کھلی تو مَیں اس مسئلہ پر سوچتا رہا اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے عربی میں ہی سوچتا رہا۔ سوچتے سوچتے میرے دماغ میں جو الفاظ آئے اور مَیں جس نتیجہ پر پہنچا وہ یہ تھا کہ اب تو خدا نے بالکل فیصلہ کردیا ہے جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۔(بنی اسرائیل :۸۲) اور عجیب بات یہ ہے کہ آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا اشتہار پڑھ رہا تھا تو اس میں مجھے یہی الفاظ نظر آئے کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ گیا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا۔(تذکرہ صفحہ ۱۳۷) پس اللہ تعالیٰ نے میرے لیے (میں یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کے لیے بھی۔ کیونکہ دوسرا شخص کسی غیر مامور کے کشف یا الہام کو ماننے کا مکّلف نہیں لیکن میرے لیے خدا تعالیٰ نے) حقیقت کو کھول دیا ہے اور اب مَیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے ایک ایسی بنیاد تحریک جدید کے ذریعہ سے رکھ دی ہے جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصریؑ کی وہ پیشگوئی کہ کنواریاں دولہا کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوں گی، ایک دن بہت بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوگی۔ مثیل مسیحؑ ان کنواریوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور لے جائے گا اور وہ قومیں جو اُس سے برکت پائیں گی خوشی سے پکار اٹھیں گی کہ ھو شعنا، ھو شعنا۔(تذکرہ صفحہ ۱۰۲ طبع چہارم )اُس وقت انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہوگا اور اُسی وقت انہیں حقیقی رنگ میں مسیح اولؑ پر سچا ایمان نصیب ہوگا۔ اب تو وہ قومیں انہیں خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر درحقیقت گالیاں دے رہی ہیں لیکن مقدر یہی ہے کہ میرے بوئے ہوئے بیج سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہوگا کہ یہی عیسائی اقوام مثیل مسیحؑ سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کے نیچے بسیرا کریں گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہو جائیں گی اور جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے ویسےہی زمین پر آجائے گی۔(الفضل یکم فروری ۱۹۴۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button