متفرق مضامین

مسئلہ فلسطین پر حضرت مصلح موعودؓ کی راہنمائی

(ابو نائل)

آج کل ایک مرتبہ پھر فلسطین خون میں نہا رہا ہے۔غزہ کا مختصر رقبہ مسلسل حملوں کا نشانہ بن رہا ہے۔اس سانحے نے ایک دن میں جنم نہیں لیا۔ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔شروع میں دنیا کے بہت سے زیرک لیڈر اور مدبرین بھی یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ یہ مسئلہ اتنے طویل عرصہ تک خون خرابے اور جنگوں کا باعث بنے گا۔اس مضمون میں اس امر کامختصر جائزہ پیش کیا جائے گا کہ جب اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا، اس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے کن خطرات کی نشاندہی فرمائی تھی۔ اور اس انتباہ کے بعد سے اب تک دنیا نے جو واقعات مشاہدہ کیے کیا وہ اس نشاندہی کی تصدیق کرتے ہیں ؟

اسرائیل کا نظریہ کس نے پیش کیا؟

حضرت مصلح موعود ؓکے ارشادات پیش کرنے سے قبل چند تاریخی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ کون سی تنظیم تھی جس نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست بنانے کا نظریہ پیش کیا۔اس تحریک کا نقطہ آغاز کیا تھا ؟ یہ مختصر تاریخی حقائق ہمیں اس خطہ کی سوا سو سال کی تاریخ سمجھنے میں مدد دیں گے۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آخر تک دنیا کی یہودی آبادی خاص طور پر یورپ کے مختلف ممالک میں بکھری ہوئی تھی اور ان ممالک میں انہیں امتیازی سلوک اور مظالم کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور کئی مقامات میں انہیں شہر سے علیحدہ پسماندہ آبادیوں میں رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ان بستیوں کے لیے Ghettoکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اس نفرت کی بنیاد صرف مذہبی اختلاف نہیں تھا کیونکہ اگر کوئی یہودی مذہب تبدیل کر کے مسیحی مذہب بھی اختیار کر لیتا تو بھی اس سلوک میں کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔

اس پس منظر میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل (Theodore Herzl)نے ایک علیحدہ یہودی ریاست کا پرچار شروع کیا۔تھیوڈر ہرزل ہنگری میں پیدا ہوئے اور پھر ان کے گھرانے نے وی آنا میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور صحافت کو بطور پیشہ اپنایا اور وی آنا کے ایک اخبار کے نمائندہ کے طور پر پیرس میں کام شروع کیا۔

۱۸۹۶ءمیں ہرزل نے اپنی کتاب ’ایک یہودی ریاست‘ (A Jewish State)شائع کی۔اس کتاب میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ دنیا میں یہودیوں پر ہونے والے سلوک کا اور ان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ دنیا میں یہودیوں کی ایک علیحدہ ریاست قائم کی جائے۔اس کتاب میں اس بات کا ماتم کیا گیا کہ روس میں یہودی آبادیوں پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، رومانیہ میں ان میں سے بعض کو قتل کیا جا رہا ہے، جرمنی میں حسب ضرورت ان کی اچھی طرح پٹائی کی جا رہی ہے، آسٹریا میں یہودیوں کی مخالفت معاشرے کے ہر حصہ پر حاوی ہے، اور پیرس میں سوشل حلقوں اور کلبوں سے انہیں باہر رکھا جاتا ہے۔آخر اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہرزل نے لکھا کہ اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ یہودیوں کو ایک علاقہ پر جو ایک ریاست کے قیام کے لیے کافی بڑا ہو خود مختاری دی جائے۔ اور اگر وہ حکومتیں جو کہ یہودیوں کی نفرت میں مبتلا ہیں اس مطالبہ کی حمایت کریں تو یہ ان کے اپنے ہی مفاد میں ہو گا۔اور لکھا کہ اگر بڑی طاقتیں اس نظریہ کی حمایت کریں تو ان سے اس غرض کے لیے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔

ارجنٹائن یا فلسطین ؟

ہرزل نے لکھا کہ اس غرض کے لیے دو مقامات پر غور کیا جا رہا ہے ایک ارجنٹائن اور دوسرا فلسطین۔اور دونوں مقامات پر رفتہ رفتہ داخل ہونے کے تجربات کیے گئے ہیں لیکن ایسے تجربات ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں کیونکہ کچھ عرصہ بعد مقامی آبادی میں اس کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے اور مقامی لوگ حکومت سے مطالبہ کر کے یہودیوں کی آمد کورکوانا شروع کر دیتے ہیں۔اس کا حل پیش کرتے ہوئے ہرزل نے اس کتاب کے باب ’پلان‘میں لکھا :

Immigration is consequently futile unless based on an assured supremacy. (The Jewish State by Theodor Herzl, published by New York Federation of American Zionist 1917, p 11)

ترجمہ : نقل مکانی کرنا اس وقت تک بے سود ہے جب تک بالا دستی کی یقین دہانی نہ ہو۔

اس سے ظاہر ہے کہ یہ تصور پیش کیا جارہا تھا کہ جس خطہ زمین پر قبضہ کیا جائے گا وہاں پر مکمل بالادستی حاصل کی جائے گی اور جو آبادی وہاں پر پہلے سے بس رہی تھی، اس کا کیا ہو گا؟ اس کتاب میں اس بارے میں کوئی واضح منصوبہ نہیں رکھا گیا لیکن ہرزل کی اس کتاب کے باب ’پلان ‘کا یہ اقتباس قابل توجہ ہے :

Supposing, for example, we were obliged to clear a country of wild beasts, we should not set about the business in the fashion of Europeans of the fifth century. We should not take spear and lance and go out singly in pursuit of bears; we should organize a large and active hunting party, drive the animals together, and throw a melinite bomb into their midst.(The Jewish State by Theodor Herzl, published by New York Federation of American Zionist 1917, p 11)

ترجمہ: فرض کریں کہ ہم نے ایک ملک کو جنگلی جانوروں سے صاف کرنے کا کام سرانجام دینا ہے۔ ہمیں پانچویں صدی کے یورپیوں کی طرح یہ کام سرانجام نہیں دینا چاہیے۔ ہمیں نیزے بھالے لے کر ایک ایک ریچھ کا پیچھا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایک شکاری پارٹی کا انتظام کرنا چاہیے جو کہ جانوروں کو ہانک کر ایک مقام پر جمع کرے اور ایک بارودی بم کو ان کے درمیان پھینک دے۔

ہرزل نے لکھا کہ فلسطین ہمارا قدیمی وطن ہے اور یہودیوں کے لیے یہ ملک ایک کشش رکھتا ہے۔اس وقت فلسطین بہت سے عرب علاقوں کی طرح ترکی کے سلطان کے ماتحت تھا۔اس کتاب میں یہ خیال پیش کیا گیا کہ اگر ترکی کے سلطان فلسطین کا علاقہ یہودیوں کو دے دیں تو یہود ان کی سلطنت کے مالی معاملات کو ٹھیک کرنے کا عہد کر سکتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ یہودیوں پر یورپ کے ممالک میں مظالم ہو رہے تھے۔ لیکن ہرزل کے منصوبہ میں ظلم کرنے والوں سے ٹکر لینے یا ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔بلکہ وہ یہ اصرار کر رہے تھے کہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہوگا جس میں ان ممالک کو بھی بہت فائدہ پہنچایا جائے گا جو اس وقت یہودیوں پر ظلم کر رہے تھے۔ اس کا مقصد واضح تھا۔ ایک ایسا منصوبہ جس کا ساتھ دینے پر یہ طاقتیں آمادہ ہو سکیں۔کیونکہ اس وقت عالمی طاقت کا مرکزیورپ تھا اور نصف سے زائد کرہ ارض پر ان کی حکومت تھی۔بلکہ ہرزل نے اس وقت ان یورپی عناصر کو جو یورپ کے یہودیوں کے خلاف زہریلی مہم چلا رہے تھے، ان الفاظ میں اشتراک عمل کی دعوت دی:

I have already mentioned that honest Anti-Semites will combine with our officials in controlling the transfer of our estates… we offer indirectly by leaving in the country business which we have built up by means of Jewish shrewdness and Jewish industry, by letting our Christian fellow citizens move into our evacuated positions, and by thus facilitating the rise of numbers of people to greater prosperity in a manner so peaceable as has never been known before. (The Jewish State by Theodor Herzl, published by New York Federation of American Zionist 1917, p 11)

ترجمہ: میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ جو یہودیوں کے خلاف مہم چلانے والے دیانتداری سے یہ مہم چلا رہے ہیں ہمارے عہدیداروں سے ہمارے اثاثوں کی منتقلی کے بارے میں تعاون کریں گے…ہم بالواسطہ طور پر ملک میں وہ کاروبار چھوڑنے کی پیشکش کرتے ہیں جو یہودیوں نے اپنی ذہانت اور محنت سے بنائے ہیں۔اس طریق پر کہ ہم اپنے مسیحی ہم وطنوں کو اپنے متروک اثاثوں کا مالک بننے دیں اور اس طرح بہت سے لوگ ایسے پر امن طریق پر خوشحال ہو جائیں گے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

خلاصہ یہ ہے کہ یورپ میں اپنے مخالفین کو یہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ تم ہمیں فلسطین میں ایک اپنی ریاست بنانے میں مدد کرو۔ اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ یورپ کے اکثر یہودی اپنے کاروبار تمہارے لوگوں کے حوالے کر کے اپنے نئے ملک منتقل ہو جائیں گے۔ اس سے تمہیں مالی فائدہ بھی حاصل ہو گا اور تمہارے مقاصد پورے ہو جائیں گے۔اس پہلو پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا کہ ہم جس خطہ میں جا کر قابض ہوں گے، اس کے اصل شہریوں کے حقوق کا کیا بنے گا ؟ ان کی سیاسی آزادی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اگلے سال ہی بیسل میں پہلی صیہونی کانگریس منعقد ہوئی۔ اس میں ہرزل کو اس تنظیم کا صدر منتخب کیا گیا اور فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا منصوبہ بننا شروع ہو گیا۔

اقوام متحدہ کی قرارداد

بہر حال یہ تو نقطہ آغاز تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد برطانیہ کی زیر سرپرستی بڑے پیمانے پر دنیا کے مختلف ممالک سے نقل مکانی کر کے یہودی فلسطین میں آباد ہونا شروع ہوئے۔پچاس سال کے سفر کے بعد نومبر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودی اور عرب علاقوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ منظور کیا۔اور یہ طے کیا کہ فلسطین کے چھ ٹکڑے کر دیے جائیں گے۔ ان میں سے تین ٹکڑے یہودیوں کے ہوں گے جو آپس میں متصل نہیں ہوں گے۔ اور تین ٹکڑے عرب آبادی کے ہوں گے جو کہ آپس میں غیر متصل ہوں گے۔ اس کے علاوہ یروشلم اقوام متحدہ کے زیر انتظام رہے گا۔اور اس وقت دنیا کی آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ امریکہ اور سوویت یونین کی بڑی طاقتیں جو ایک دوسرے کی رقیب تھیں، ا س موقع پر متحد ہوکر اسرائیل کے قیام کی حمایت کر رہی تھیں۔اس وقت حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب ؓاقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کی حیثیت سے موجود تھے۔ انہوں نے۲۸؍نومبر ۱۹۴۷ءکو جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں ان الفاظ میں اس عجیب الخلقت تقسیم کا خلاصہ بیان کیا :’’ہم فلسطین کو آزاد اور خود مختار کہیں گے لیکن عملاً یہ ہماری ملکیت ہو گا۔ پہلے ہم فلسطین کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے۔ تین ٹکڑے یہودی ٹکڑے ہوں گے اور تین ٹکڑے عرب ٹکڑے ہوں گے۔ پھر ہم جافا کے حصے کو کاٹ کر علیحدہ کریں گے۔ اور فلسطین کا دل، یروشلم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک بین الاقوامی شہر رہے گا۔ یہ آغاز ہے اس صورت کا جو فلسطین کو دی جائے گی۔ جب فلسطین کے جسم کو اس طرز پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا تو پھر ہم اس جسم کو جس سے خون رس رہا ہو گا ہمیشہ کے لیے صلیب پر کھینچ دیں گے۔ اور یہ عارضی نہیں ہو گا۔ یہ صورت حال مستقل رہے گی۔ فلسطین کبھی بھی اپنے باشندوں کی ملکیت نہیں بن سکے گا۔ یہ ہمیشہ کے لیے مصلوب رہے گا۔

اب ہمیں ایک لمحے کے لیے متعین سرحدوں کا جائزہ لینے دیں۔ یہودیوں کی آبادی ۳۳ فیصد اور عربوں کی آبادی ۶۷ فیصد ہے مگر فلسطین کا ۶۰ فیصد رقبہ یہودیوں کی ریاست میں شامل کیا جائے گا۔ اس علاقے کی کیفیت کیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے ہم صحرا کو جس کا ذکر میں بعد میں کروں گا، نظر انداز کرتے ہیں۔ قابل کاشت اراضی میں سے عمومی انداز میں میدانی علاقہ یہودیوں کو اور پہاڑی علاقہ عربوں کو دیا گیا ہے۔

برطانیہ کے نمائندے کی طرف سے نمائندگان کمیٹی کوایک دستاویز بھجوائی گئی تھی۔ اس کے مطابق جس زمین کو پانی مہیا ہے اور جو قابل کاشت ہے اس کا ۸۴ فیصد یہودیوں کی ریاست کو جائے گا اور ۱۶ فیصد عربوں کی ریاست کو جائے گا۔ کیا ہی منصفانہ تقسیم ہے! ایک تہائی آبادی کو ۸۴ فیصد رقبہ ملے گا اور دو تہائی آبادی کو ۱۶ فیصد رقبہ ملے گا۔

قرارداد پر حضرت مصلح موعود ؓکا انتباہ اور اسرائیل کا قیام

اس صورت حال میں ۱۱؍دسمبر ۱۹۴۷ء کے الفضل میں حضرت مصلح موعود ؓکا ایک مضمون ’فلسطین کا فیصلہ ‘شائع ہوا۔حضرت مصلح موعود ؓنے اسی وقت تین اہم امور کی نشاندہی فرمادی تھی۔ ایک تو یہ کہ اس تقسیم کی بنا پر کوئی پائیدار حکومت نہیں قائم ہو سکتی اور یہ کوئی پائیدار حل ہو ہی نہیں سکتا۔ اور دوسرے یہ کہ یہودیوں اور بڑی طاقتوں کے خفیہ معاہدے ہو چکے ہیں، جنہیں ابھی ظاہر نہیں کیا گیا اور اب بڑی تعداد میں مزید یہودیوں کو فلسطین میں داخل کیا جائے گا۔تیسرے یہ کہ برطانوی حکومت ان معین تاریخوں کا اعلان کر رہی ہے جن تاریخوں کو وہ اپنی فوجیں یہودی علاقوں سے نکالیں گے لیکن ان معین تاریخوں کا اعلان نہیں کر رہی جن تاریخوں کو وہ اپنی فوجیں عرب علاقوں سے نکالیں گے۔ اس کا مقصد یہی لگتا تھا کہ یہودی تنظیم کو تیاری کا موقع دیا جا رہا ہے۔

مگر ابھی کچھ مہینوں کے لیے یہ علاقہ برطانوی مینڈیٹ کے تحت تھا۔ ظاہر ہے کہ عرب ممالک نے اس منصوبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ فلسطین کو باقی ممالک کی طرح ایک ملک کی صورت آزاد ہونا چاہیے۔اور اس وقت متحدہ فلسطین میں دو تہائی عرب تھے۔۱۴؍مئی ۱۹۴۸ءکو برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہوتے ہی اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا اور فوری طور پر امریکہ نے نئی ریاست کو تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا آغاز ہو گیا۔بد قسمتی سے اس جنگ کے آغاز میں عربوں نے اپنی جنگی تیاری کا غلط اندازہ لگایا تھا۔جنگ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے اور یہودیوں کی ایجنسی نے پہلے سے تیاری کی ہوئی تھی اور انہوں مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ میں بسنے والے یہودیوں کی مالی مدد سے ہتھیاروں کے معاملہ میں واضح برتری حاصل کر لی۔

عسکری صورت حال پر حضورؓ کی راہنمائی

جب مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس وقت ہی حضور ؓنے اس بات کی نشاندہی فرمادی تھی کہ ان کے پاس ایسے وسائل اور مددگار موجود ہیں کہ وہ جدیدہتھیاروں کا توازن اپنے حق میں کر کے عرب ممالک کو بے بس کر سکتے ہیں۔حضور نے مشہور مضمون ’الکفر ملۃ واحدہ ‘ میں تحریر فرمایا :’’امریکہ کا روپیہ اور روس کے منصوبے اور ہتھکنڈے دونوں ہی غریب عربوں کے مقابل جمع ہیں۔ جن طاقتوں کامقابلہ جرمنی نہیں کر سکا عرب قبائل کیا کر سکتے ہیں ہمارے لئے یہ سوچنے کا موقع آ گیا ہے کیا ہم کو الگ الگ باری باری مرنا چاہیے یا اکٹھے ہو کر فتح کے لئے کافی جد وجہد کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ وقت آ گیا ہے جب مسلمانوں کو یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ یا تو وہ ایک آخری جد و جہد میں فنا ہو جائیں گےیا کلی طور پر اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کر دینگے۔ مصر عراق اور شام کا ہوائی بیڑہ سو ہوائی جہازوں سے زیادہ نہیں لیکن یہودی اس سے دس گنا بیڑہ نہایت آسانی سے جمع کر سکتے ہیں۔شاید روس تو اپنا بیڑہ نذر کے طور پر بھی پیش کردے۔‘‘ (الفضل ۲۱؍مئی۱۹۴۸ءصفحہ۳)

اس کے بعد حضور ؓنے اسی مضمون میں تحریر فرمایا: ’’امریکہ یہودیوں کے ووٹ کی خاطر یہودیوں کی مدد کر رہا ہے۔ اور روس عرب ممالک میں اپنا اڈا جمانے کے لئے یہودیوں کی مدد کر رہا ہے۔رویہ ایک ہے مگر بواعث مختلف ہیں۔ اور یقیناََ روس کے عمل کا محرک امریکہ کے عمل کے محرک سے زیادہ خطرناک ہے۔لیکن چونکہ عمل دونوں کا ایک ہے۔اس لئے بہرحال عالم اسلام کو روس اور امریکہ دونوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔مگر عقل اور تدبیر سے۔اتحاد اور یک جہتی سے۔‘‘

سازش سارے مسلمان ممالک کے خلاف ہے

فلسطین کے مسئلہ کے بارے میں حضرت مصلح موعود ؓ نے کئی مرتبہ راہنمائی فرمائی تھی اور یہ تفصیلات جماعت کے لٹریچر میں بار بار بیان کی گئی ہیں۔ایک مضمون میں ان تفصیلات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس مضمون میں چند نکات بیان کیے جائیں گے۔ یہ خطبہ جمعہ آپ نے اس جنگ کے دوران ۱۰؍ ستمبر ۱۹۴۸ءکو رتن باغ لاہور میں ارشاد فرمایا تھا۔اس خطبہ جمعہ میں حضور نے ان تمام مشکلات کا خلاصہ بیان فرما دیا تھا جو کہ آئندہ مسلمان ممالک کو پیش آنے والی تھیں۔یہ تجزیہ صرف فلسطین کے علاقہ تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں عالمی سطح پر مسائل کا ایک خوبصورت خلاصہ بیان کیا گیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا :’’اب تو ایک ہی چارہ ہے کہ مسلمان متحد ہوجائیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے وہی لے کر دنیا کا مقابلہ کریں۔جب بعد میں بھی یہی ہونا ہے تو کیوں نہ ابھی سے اس پر عمل کیا جائے۔ ہندوستان کے مسلمان مصیبت میں گرفتار ہیں، انڈونیشیا کے مسلمان محفوظ نہیں، مصر کے مسلمان محفوظ نہیں، شام کے مسلمان محفوظ نہیں، ٹرانس جورڈن کے مسلمان محفوظ نہیں، سعودی عرب کے مسلمان امن میں نہیں اور لبنان میں بھی مسلمان خطرہ سے خالی نہیں۔غرض کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کو خطرہ لاحق نہ ہو رہا ہو۔صرف فلسطین کا ہی مسئلہ درپیش نہیں بلکہ سب مسلمان خطرہ کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔‘‘

اس وقت سے اب تک یہی تاریخ بار بار دہرائی گئی ہے۔ آج بھی مسلمان ہر طرف سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اور آج بھی ان کے مسائل کا حل یہی ہے کہ متحد ہو کر مشترکہ مسائل کا سامنا کریں لیکن اتحاد تو درکنار ان کے آپس کے جھگڑے اور خون خرابہ ہی ختم نہیں ہوتا۔موجودہ حالات کی مثال لے لیں۔ ایک طرف تو غزہ کی تباہی جاری تھی اور دوسری طرف ایران اور پاکستان ایک دوسرے پر میزائل داغ رہے تھے۔اب حضرت مصلح موعودؓ کا وہ ارشاد پیش کرتے ہیں جس میں حضور نے نہ صرف مستقبل قریب میں بلکہ مستقبل بعید میں بھی رونما ہونے والے المیوں سے خبردار کیا تھا۔اسی خطبہ جمعہ میں حضور ؓنے ارشاد فرمایا :’’حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کی لمبی تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہودیوں کے عربوں کے خلاف منصوبے بہت خطرناک ہیں۔ یہود فلسطین کے صرف اس حصہ کو نہیں لینا چاہتے جس پر انہوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ اگر صرف یہی سوال ہوتا تو عرب کبھی کے اس پر راضی ہوجاتے۔ وہ صرف اس حصہ کو ہی نہیں لینا چاہتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ حصہ لے لیا تو پھر وہ آسانی کے ساتھ باقی حصہ کو فتح کر لیں گے اور اس کے بعد سارے عرب کو فتح کر لیں گے۔ یہودیوں کی دولت اور تعداد ایسی نہیں کہ وہ دس ہزار مربع میل میں سما سکیں۔ یہودیوں کی تعداد دو کروڑ کی ہے اور وہ ہر قوم کے دو کروڑ سے زیادہ مالدار ہیں۔یہودیوں کے دو کروڑ آدمی یورو پین لوگوں کے دو کروڑ سے زیادہ مالدار ہیں۔دو کروڑ یہودیوں کی دولت دو کروڑ امریکنوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے یہودی اپنے دو کروڑ باشندوں کو دس ہزار مربع میل میں ترقی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے محسوس کر لیا ہے کہ سینکڑوں سال سے ان پر جو ظلم ہو تے آ رہے ہیں اور دشمن ان کو ذبح کرتا آ رہا ہے اس کے لئے جب تک وہ ایک زبردست حکومت قائم نہ کر لیں وہ عزت کی زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ اور اپنے ان باشندوں کے جان اور مال کی حفاظت نہیں کر سکتے جو سلطنت قائم ہو جانے کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بس رہے ہوں گے۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک زبردست یہودی سلطنت قائم کی جائے جہاں ان کی آبادی کا بیشتر حصہ بس سکے، جہاں وہ مزید دولت کما سکیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ یہ باتیں اس تنگ علاقہ میں نہیں ہو سکتیں اس لیے انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ پہلے فلسطین کے ایک حصہ پر قبضہ کر لو۔ پھر آہستہ آہستہ باقی فلسطین پر قبضہ کر لیا جائے گا۔پھر ٹرانس جارڈن پر قبضہ کر لیا جائے گا کیونکہ وہ بھی فلسطین کا ایک حصہ ہے۔پھر شام اور لبنان پر قبضہ کر لیا جائے گا۔ اس لئے کہ اسرائیلی ایک لمبے دور میں ان پر قابض رہے۔پھر عرب پر قبضہ کرلیا جائے گا اس لیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت یمن کے کناروں تک تھی۔ پھر مصر پر قبضہ کر لیا جائے گا اس لیے کہ وہ وہاں پر آباد تھے اور انہیں جبراََ وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ان کی اس تجویز کے مطابق حکومت اسرائیل آئندہ، شام، لبنان، ٹرانس جارڈن، عرب، یمن اور عراق پر مشتمل ہو گی۔

پھر ان سب ملکوں میں بھی وہ ڈیڑھ کروڑ کے قریب یہودیوں کو اس وقت ہی بسا سکتے ہیں جبکہ وہاں کے رہنے والے عربوں کو مار دیں ورنہ وہ ان کی زمینوں پر قبضہ نہیں کر سکتے، ان کے مکانوں پر قبضہ نہیں کر سکتے، ان کی صنعتوں پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ ان کو یہاں بسانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا جائے۔‘‘(یہ خطبہ جمعہ الفضل ۲۸؍ستمبر ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا۔)

سوویت یونین کا کردار

اب ان ارشادات کو ۷۵ سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے۔ اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کسی انتباہ کے متعلق حقائق خود بخود سامنے آتے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں چند امور کے بارے میں ظاہر ہونے والے تاریخی حقائق پیش کیے جائیں گے۔ سب سے پہلے اس مرحلہ پر روس (جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا ) کے رویہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ آج کل کے حالات کے پس منظر میں کئی لوگوں کو شاید یہ بات عجیب معلوم ہو کہ اس وقت سوویت یونین پوری طرح اسرائیل کے قیام کی مدد کر رہا تھا کیونکہ چند سالوں کے بعد سوویت یونین کی پالیسی کافی حد تک تبدیل ہو گئی تھی اور اسرائیل کا مکمل جھکائو امریکہ کی طرف ہو گیا تھا۔ لیکن اس وقت اپنے مضمون ’الکفر ملۃ واحدۃ‘میں حضورؓ نے اس حقیقت کی نشاندہی فرمائی تھی کہ سوویت یونین اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ اسرائیل کی نو زائیدہ ریاست کو اپنے زیر اثر لا کر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔بعد میں محققین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حقیقت یہی تھی۔ ایک فلسطینی مصنف راشد خالدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

Notwithstanding these similarities, the support of two superpowers for Israel was different in motives, duration, and nature. Stalin and his colleagues in the Soviet leadership soon soured on a state that they had assumed would be Soviet protégé of the USSR. They had expected that Israel would serve as progressive counterweight to what Moscow saw as Britan‘s pawns… By 1950, however when Israel chose neutrality during the Korean war, while moving closer to the United States, it became clear that this would not happen.(Rashid Khalidi: The hundred years war on Palestine. Metropolitan Books, New York 2020. P 78)

ترجمہ: ان مماثلتوں کے باوجود دونوں بڑی طاقتوں کی اسرائیل کی حمایت اپنی وجہ، مدت اور نوعیت کے لحاظ سے بالکل مختلف تھی۔سٹالن اور سوویت قیادت میں ان کے ساتھی جلد ہی اس ریاست کے خلاف ہو گئے جس کے متعلق وہ گمان کیے بیٹھے تھے کہ یہ ریاست سوویت یونین کے زیر اثر ہو گی۔ وہ یہ گمان کیے بیٹھے تھے کہ اسرائیل ان ممالک کا تریاق ہو گا جن کے متعلق سوویت یونین کا خیال تھا کہ وہ برطانوی مہرے ہیں…البتہ جب ۱۹۵۰ءمیں کورین جنگ کے دوران اسرائیل نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قریب ہو گیا تو یہ واضح ہو گیا کہ ایسا نہیں ہوگا۔

فضائی طاقت کا توازن

جیسا کہ پہلے حوالہ درج کیا جا چکا ہے کہ اسرائیل کے قیام کے وقت مئی ۱۹۴۸ءمیں ہی حضور نے ارشاد فرما دیا تھا کہ اگر چہ عرب ممالک کی فضائیہ کے پاس سو۱۰۰ہوائی جہاز ہیں لیکن جلد ہی اسرائیل ان سے زیادہ طیاروں کی فضائیہ قائم کر کے اس میدان میں برتری حاصل کر لے گا اور شاید سوویت یونین اس معاملہ میں ان کی کافی مدد کرے۔اگر چہ نومبر ۱۹۴۸ء میں ہی فلسطین میں یہودیوں کی تنظیم نے دس کے قریب چھوٹےہوائی جہاز خرید لیے تھے لیکن ان کی نوعیت ایسی تھی کہ ان سے رابطہ اور بہت محدود جنگی مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔جب اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا اور عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو یہودیوں کی تنظیم نے بہت سی جعلی کمپنیاں قائم کیں جنہوں نے دنیا بھر سے مطلوبہ جہاز خریدنے شروع کیے اور دنیا بھر سے پائلٹ جمع کرنے شروع کیے جو انہیں چلا سکیں۔ انہیں دوسری جنگ عظیم میں فضائی جنگ کا تجربہ ہو چکا تھا۔ ان میں ایسے پائلٹ بھی تھے جو کہ یہودی نہیں تھے جن کی خدمات معاوضہ دے کر حاصل کی گئی تھیں۔ ان میں امریکی پائلٹ بھی شامل تھے۔اور ان جہازوں نے عرب ممالک کے فضائی حملوں کو روکنے کے علاوہ عرب افواج کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

فروری ۱۹۴۸ء میں چیکوسلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی نے ملک کی حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔اور اس طرح یہ ملک سوویت یونین کے حلقہ اثر میں آ گیا تھا۔ اس مرحلہ پر چیکوسلواکیہ نے اسرائیل کی فضائیہ کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پہلے اس ملک نے اسرائیل کو کچھ B-17 ہوائی جہاز مہیا کیے جنہوں نے اسرائیل پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں مصر پر بمباری شروع کر دی۔اس کے بعد چیکوسلواکیہ نے اسرائیل کوMesserscmittsجہاز مہیا کیے۔اس وقت مصر کی افواج اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سے صرف بیس میل دور تھیں۔ ان ہوائی جہازوں کی بمباری نے وقتی طور پر ان افواج کا راستہ روک دیا۔(https://www.jewishvirtuallibrary.org/israel-air-force-in-the-war-of-independence, accessed on 1st Feb. 2024)

اسی طرح اسرائیل کی طرف سے ایک Operation Velvettaشروع کیا گیا۔انہوں نے چیکوسلواکیہ سے تئیس ہزار ڈالر فی جہاز کی قیمت پر Spitfire نام کے جہاز خرید کر اسرائیل منتقل کرنے شروع کیے۔ اس آپریشن کا آغاز ۲۴؍ستمبر کو ہو چکا تھا اور اس وقت اس آپریشن کو نہایت خفیہ رکھا گیا تھا۔اس طرح اسرائیل کی فضائیہ کے لیے ان جہازوں کی بڑی تعداد حاصل کر لی گئی۔اس طرح حضور نے ’الکفر ملۃ واحدۃ‘ میں جو انتباہ فرمایا تھا کہ اسرائیل بہت آسانی سے اپنی فضائیہ کھڑی کر لے گا ایک حقیقت بن کر سامنے آگیا۔

مزید علاقہ پر قبضہ کیا جاتا ہے

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی جو تقسیم کی تھی اس میں فلسطین کے اصل باشندوں کے لیے بہت کم رقبہ مختص کیا گیا تھا۔لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے ۱۰؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو یہ انتباہ فرمادیا تھا کہ اصل منصوبہ یہی ہے کہ پہلے فلسطین کے ایک حصہ پر قبضہ کیا جائے اور پھر باقی فلسطین پر قبضہ کر لیا جائے اور اس قبضہ کے مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک وہاں سے عرب آبادی کو نکال نہ دیا جائے۔اس وقت تک تو جنگ جاری تھی اور صورت حال واضح نہیں تھی لیکن ۱۹۴۹ءکے آغاز پر یہ خدشات حقیقت بن کر سامنے آ گئے۔اقوام متحدہ کی تقسیم میں فلسطینیوں کے لیے تین حصے مختص کیے گئے تھے جوآپس میں متصل نہیں تھے۔ ایک حصہ فلسطین کے شمال میں تھا جو کہ لبنان کی سرحد کے ساتھ تھا۔ دوسرا حصہ فلسطین کے مشرق میں یروشلم کے ارد گرد اور اردن کی سرحد کے ساتھ تھا اور تیسرا حصہ فلسطین کے مغرب میں مصر کی سرحد کے ساتھ تھا اور اس میں غزہ کی پٹی بھی شامل تھی۔جب جنگ بندی ہوئی تو اسرائیل شمالی حصہ پر مکمل طور پر قابض ہو چکا تھا۔ جو حصہ مغرب میں مصر کی سرحد کے ساتھ تھا اس پر بھی تقریباََ مکمل طور پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور صرف غزہ کی پٹی پر مصر کی افواج نے قبضہ کیا۔ جو حصہ یروشلم کے ارد گرد اردن کے ساتھ تھا، اس کے اکثر حصہ پر اردن کی افواج نے قبضہ کر لیا اور باقی حصہ پر اسرائیل نے اپنا تسلط قائم کرلیا۔

عرب آبادی کا انخلاء

یہ صرف جغرافیائی قبضہ کا معاملہ نہیں تھا۔ ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ فلسطین کی عرب آبادی کے ایک بڑے حصہ کو اپنے وطن سے نکل کر ہمسایہ ممالک کے کیمپوں میں منتقل ہونا پڑا یا انہیں نکال کر ان کے علاقے خالی کر الیے گئے۔۱۹۴۸ء میں باوجود اس کے کہ دوسرے ممالک سے بڑی تعداد میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرایا جا چکا تھا، فلسطین کی کل انیس لاکھ کی آبادی میں سےدو تہائی سے زائد عرب تھے اور اسرائیل کے قیام کے اعلان سے بھی قبل جب خانہ جنگی کی کیفیت تھی تو تین لاکھ فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔جب اسرائیل کے قیام کے بعد عرب ممالک نے اعلان جنگ کیا تو چند ماہ کے بعد عرب ممالک کو شکست ہوگئی اور اس کے بعد مزید چار لاکھ فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اس طرح فلسطینیوں کی اکثریت کو نقل مکانی کرنا پڑی۔(Rashid Khalidi: The hundred years war on Palestine. Metropolitan Books, New York 2020. P 74- 75)

جیسا کہ حضورؓ نے فرمایا تھا یہ سلسلہ صرف فلسطین کے ان چند علاقوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دوسرے ممالک پر بھی قبضہ کیا جا ئے گا، ۱۹۶۷ء کی جنگ میں یہ خدشات بھی ایک حقیقت بن کر سامنے آ گئے۔اس جنگ میں اسرائیل نے پہل کرتے ہوئے ہوائی حملہ کر کےمصر اور اردن اور شام کی فضائیہ کے اکثر جہازوں کو اڑنے سے قبل ہی تباہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور مصر کے صحرائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا (سینا کا علاقہ طویل عرصہ کے بعد ایک معاہدہ کر کے مصر کو واپس کیا گیا۔) اور یروشلم سمیت مغربی کنارہ بھی اردن کے ہاتھ سے نکل کر اسرائیل کے قبضہ میں چلا گیا۔ شام کے ہاتھ سے گولان کا علاقہ نکل کر اسرائیل کے تسلط میں چلا گیا۔یہ صرف ماضی کا قصہ نہیں ہے۔ چند روز قبل اسرائیل کے کئی وزراء اور ان کی پارلیمنٹ کے کئی ممبران نے اسرائیل کی فتح کی کانفرنس میں شرکت کی اور یہ مطالبہ کیا کہ فلسطینی رضاکارانہ طور پر غزہ کی پٹی خالی کر کے کہیں اور چلے جائیں اور ان کی جگہ وہاں پر یہودیوں کو آباد کیا جائے۔(Guardian 29 January 2024)

اب جس طرح ایک ایک کر کے مصر، شام، لبنان، اور یمن جیسے عرب ممالک خانہ جنگیوں اور دوسرے بحرانوں کی وجہ غیر مستحکم ہوچکے ہیں اور غزہ کی پٹی مسلسل بربریت کا شکار ہے، مستقبل میں انہی خدشات کے ہیولے منڈلا رہے ہیں، جن کا اظہار آج سے ۷۵ سال قبل حضورؓ نے فرمایا تھا۔

اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور مسلمان ممالک کو متحد ہو کر عقل اور شعور کے ساتھ حضرت مصلح موعود ؓکی راہنمائی کے مطابق ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اگر اب بھی انہوں نے آپس کے اختلافات اور کفر کے فتووں کو بھلا کر متحد ہو کر ان مصائب کا مقابلہ نہ کیا تو کوئی بھی مسلمان ملک محفوظ نہیں رہے گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button