متفرق مضامین

رسالہ تشحیذ الاذہان اور اس کا نوجوان ایڈیٹر اولوالعزم میرزا بشیر الدین محمود احمد

(اواب سعد حیات)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو نہایت قریب سے دیکھنے والے ایک معزز شخص کا یہ تبصرہ نہایت درست ہےکہ ’’کہتے ہیں شاعر پیدا ہوتے ہیں، بنائے نہیں جاتے۔ اس طرح یہ کہنا بھی درست ہے کہ مرزا بشیر الدین احمد جیسے فطرتی شاعر ہیں ویسے ہی فطرتی ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے کسی سے اس فن کو نہیں سیکھا۔ بلکہ قلم پر حکومت ان کو وراثتاً ملی ہے…‘‘

صاحبزادہ صاحب کی ولادت سے قبل ملنے والی پیش خبری میں ایک نشانی یہ بھی تھی کہ وہ بچہ جلد جلد بڑھے گا۔اس عظیم الشان پیش گوئی کے عین مصداق بنتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے ۱۹۰۶ء میں محض سولہ سترہ سال کی عمر میں ایک انجمن کی بنیاد رکھی جس کا نام حضرت مسیح موعودؑ نے تشحیذالاذہان عطا فرمایا اور ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ اس انجمن کے قیام کامحرک و پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب خود لکھتے ہیں کہ ’’…خدا کے فرستادہ نے کئی دفعہ کہا ہے کہ میرے دل میں بارہا یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ کوئی ایسی کوشش کی جاوے کہ احمدی جماعت کے لڑکے اور نوجوان دین کے معاملہ میں خوب آگاہ ہوں اور تحریر و تقریر میں کسی دشمن سے نہ دبیں، ہر ایک پہلو سے یہ علوم دینیہ میں مہارت رکھتے ہوں…‘‘

یکم مارچ ۱۹۰۶ء سے حضرت صاحبزادہ صاحب کی ادارت میں انجمن کے ترجمان کے طور پر ایک سہ ماہی رسالہ کا اجرا ہوا جس کا نام بھی حضور اقدسؑ نے ’’تشحیذالاذہان‘‘ عطا فرمایا۔۱۹۰۷ء میں رسالہ ماہوار کردیا گیا۔حالانکہ پہلا شمارہ شائع ہوتے ہی قارئین کی طرف سے اس مفید رسالہ کے ماہ بماہ شائع ہونے کی ضرورت کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔

تشحیذ کے پہلے شمارہ میں ایڈیٹوریل انٹروڈکشن میں اس رسالہ کا تعارف اور اس انجمن کی غرض و غایت شائع ہوئی یعنی احمدی نوجوان تحریر و تقریر اور علوم دینیہ میں مہارت حاصل کرسکیں۔لکھاکہ’’سو آؤ۔ اے بھائیو! ہم اپنی کمریں کس لیں اور جس طرح سے ہوسکے اپنے آقا کی خواہش کو پوری کر دکھلائیں۔ ہم نے اپنے آقا کی اس خواہش کے پوری کرنے کے لئے یہ تجویز کی ہے کہ ایک انجمن بنائی جاوے جس کے ماتحت تحریر میں ملکہ حاصل کرنے کے لئے کم از کم ایک سہ ماہی رسالہ نکالا جاوے جس کو حضرت مسیح موعودؑ نے بھی پسند فرمایا ہے اور خود حضورعلیہ السلام نے اس کا نام رسالہ تشحیذالاذہان رکھا ہے، اس رسالہ کے ذریعہ لکھنے میں مشق کریں اور اگر ہمارے سامنے کوئی کتنا ہی بڑا مخالف نامہ نگار چاند پر خاک ڈالنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتو ہم اس کو بزور تحریر نیچا دکھا سکیں…اس رسالہ میں عورتوں کے متعلق بھی کچھ حصہ ہوگا…حضرت مسیح موعودؑ جو گھر میں عورتوں کو وعظ اور نصیحت کرتے ہیں وہ وقتاً فوقتاً درج کئے جایا کریں گے کیونکہ آج تک ایسا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ چونکہ عورتوں تک بھی اس آواز کا پہنچانا ضروری ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح سے اس کام سے بھی سبکدوشی حاصل کرنے کی کوشش کی جاوے۔‘‘(تشحیذ الاذہان، جلد ۱ نمبر ۱۔ مارچ ۱۹۰۶ صفحہ۱۴)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ مالک مطبع انوار احمدیہ پریس سے طبع ہونے والے اس رسالہ کے مینیجر نے رسالہ کے اغراض کے ضمن میں بتایا کہ

۱)اسلام کا نورانی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا۔

۲)حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے وہ نصائح جو گھر میں کئے جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً لوگوں تک پہنچانا۔

۳)اسلام پر اور خصوصاً سلسلہ عالیہ احمدیہ پر جو جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کی تردید بہ تہذیب کرنا۔

۴)مشاہیر اسلام کی سوانح عمریاں درج کرنا۔

۵)مسائل شرعیہ درج کرنا۔ تاکہ نا واقف لوگ واقفیت حاصل کریں۔

تشحیذالاذہان کے اجراپر بعض دیگر اخبارات و رسائل کی آرابھی سامنے آئیں جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے الفاظ میں یوں ہیں:’’ہماری نسبت معاصرین کی رائے:پہلے تو میں خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر کرتا ہوں اس کے فضل و کرم سے ہم ایک حد تک اس رسالہ کے اجرا میں کامیاب ہوئے ہیں۔اور جو کچھ کہ کمزوریاں رہ گئی ہیں ان کو بھی اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ وہ رفع کر دے گا۔ اس کا کیسا فضل ہے کہ پہلا پرچہ نکل چکا ہے اور دوسرے کے لیے میں اس وقت مضمون لکھ رہا ہوں۔ اور کیا ہی شکر کرنے کا مقام ہے کہ پبلک نے اس رسالہ کو عزت کی نظروں سے دیکھا ہے۔ چنانچہ ہم چند اخباروں کے ریویو یہاں مجملاً درج کرتے ہیں تاکہ کفران نعمت نہ ہو۔

ریویو آف ریلیجنز

سب سے پہلے ہم رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی رائے کو مجملاًلکھتے ہیں کہ اس رسالہ میں جو کہ ایک مانا ہوا رسالہ ہے اور جس کے مضامین نے یورپ اور امریکہ میں ایک دھوم مچا دی ہے اور ان لوگوں پر اسلام کی سچائی کو اس طرح ثابت کر دیا ہے کہ دشمنوں کا بھی منہ نہیں رہا کہ کچھ انکار کر سکیں۔ اور جس کی قیمت اس کے مضمون اور حجم کے لحاظ سے دو روپیہ کچھ بھی زیادہ نہیں ہے۔بلکہ بہت کم ہے۔ اس میں جو کچھ اس رسالہ تشحیذ الاذہان کی بابت ریویو کیا گیا ہے۔ اس کے چند فقرات ہوبہو یہ ہیں:’’ رسالہ تشحیذالاذہان قادیان سے سہ ماہی نکلنا شروع ہوا ہے۔ جس کا پہلا نمبر یکم مارچ کو شائع کیا گیا۔ اس سلسلہ کے نوجوانوں کی ہمت کا نمونہ ہے۔خدا تعالیٰ اس میں برکت دے…اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیرالدین محمود احمد، حضرت اقدسؑ کے صاحبزادہ ہیں۔اور پہلے نمبر میں ۱۴ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کے قلم سے لکھا ہوا ہے۔ جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی۔مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتا ہوں۔جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے…۔‘‘

اخبار بدر

اب میں اخبار بدر کی رائے کو آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اخبار ہفتہ وار قادیان دارالامان سے باوجود نہایت عمدہ مضامین کے صرف تین روپے سالانہ قیمت پر جاری کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی ہمارے رسالہ کی نسبت ایک زبردست ریویو کیا گیا ہے۔ جس کے چند فقرات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:’’ اس رسالہ (تشحیذ الاذہان )کا پہلا نمبر یکم مارچ ۱۹۰۶ءکو شائع ہو گیا۔ یہ رسالہ اول سے آخر تک دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے مگر سب سے زیادہ کمیاب اور بیش قیمت حصہ اس رسالہ کا وہ ہے جو اس کے سب سے آخری صفحوں میں درج کیا گیا ہے۔ یعنی حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وہ نصائح جو آپ گھر میں عورتوں کو دیا کرتے ہیں۔ اس ڈائری کو صرف اسی رسالہ کا لائق اور قابل عزت ایڈیٹر ہی نباہ سکتا ہے اور دوسروں کا کام نہیں۔ اس رسالہ میں اگر دوسری کوئی مفید بات بھی نہ ہوتی تب بھی ان دو صفحوں کی خاطر یہ رسالہ اس قابل ہے کہ اس کو سرآنکھوں پر رکھ لیا جاوے۔لیکن اس کے سوائے دوسرے مضامین مفید اور دلچسپ ہیں…۔ رسالہ سال میں چار دفعہ نکلے گا بہتر ہوتا کہ یہ رسالہ ماہوار نکلتا۔‘‘

اخبارنیّر اعظم

یہ اخبار مراد آباد سے ہفتہ وار نکلتا ہے اور ہندوستان کے قدیم اور زبردست اخباروں میں سے ہے اس کے ایڈیٹر کی بےتعصبی بے شک داد دینے کے قابل ہے کیونکہ یہ اخبار سلسلہ عالیہ احمدیہ سے کوئی مذہبی تعلق نہیں رکھتا اس لیے اس کی رائے بہت وزن دار ہے۔ اِس رسالہ کے اغراض وغیرہ بیان کرنے کے بعد جو فقرہ لائق ایڈیٹر نے لکھا ہے وہ اس قابل ہے کہ ناظرین تک اس کو پہنچایا جائے اور وہ یہ ہے:’’ہمارے پاس اس کا پہلا نمبر پہنچا ہے جس میں سات مضامین ہیں۔ بلا مبالغہ اسلامی رسالوں میں ریویو آف ریلیجنز کے بعد اس کا شمار کرنا چاہیے۔ مذہب اسلام کو اس کے اجراء سے بہت مدد ملے گی۔ضخامت ۴۰ صفحے کی ہے قیمت ۱۲ آنے سالانہ کچھ بھی نہیں۔‘‘

اس ریویو میں ایڈیٹر صاحب ہم کو صلا ح دیتے ہیں کہ اس رسالہ کو سلسلہ عالیہ احمدیہ سے علیحدہ کیا جاوے جس سے ہم کو اتفاق نہیں ہے اور ہم اس کے متعلق آئندہ پرچہ میں انشاءاللہ کچھ لکھ سکیں گے۔

اخبار خبردار

یہ ہفت وار اخبار لاہور سے نکلتا ہے اور اس کے لائق ایڈیٹر نے بھی نہایت بے تعصبی سے ریویو کیا ہے۔ لیکن آخری فقرہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ خدا جانے اس سے ایڈیٹر کی کیا مراد ہے۔وہو ہذا:’’امید ہے کہ مرزا صاحب کے وسیع مریدوں کے حلقہ میں خوب ہر دل عزیزی حاصل کرے گا گو عوام کو اس سے دلچسپی نہ ہو۔‘‘

کیا اسلام کی سچائی کو دشمنوں پر ثابت کرنا ایک ایسا کام ہے جس سے اہل اسلام کو کچھ بھی نفرت ہے۔ بلکہ ہر ایک مسلمان کا سب سے بڑا فرض یہی ہے کہ خدائے واحد کا نام دنیا میں پھیلایا جائے۔

رسالہ البیان

یہ ایک نہایت مفید رسالہ عربی اور اردو زبان میں لکھنؤ سے نکلتا ہے۔ اس میں نہایت ہی عمدہ اسلامی مضمون چھپتے ہیں۔ ایک ماہ میں دو دفعہ شائع ہوتا ہے…اس میں تشحیذ الاذہان کی نسبت یہ ریویو کیا گیا ہے:’’تشحیذالاذہان: مارچ ۱۹۰۶ء سے یہ رسالہ قادیان ضلع گرداس پور سے ماہوار اردو زبان میں شائع ہوتا ہے۔جس غرض کے لیے رسالہ جاری ہوا ہے وہ نہایت اہم ہے۔ لیکن جس طرز پر اس کی ابتدا ہوئی ہے۔اس سے امید ہوتی ہے کہ اپنے مقصد میں ضرور اس کو کامیابی ہوگی۔ مضامین زوردار ہیں اور بڑی قابلیت سے لکھے گئے ہیں۔ اس رسالہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک پیشوائے مذہب کے گھر سے شائع ہوتا ہے اور امام وقت کے صاحبزادے اس کو ایڈٹ کرتے ہیں۔‘‘(تشحیذ الاذہان،بابت ماہ جون ۱۹۰۶ء جلد ۱، نمبر ۲)

اس نوجوان ایڈیٹر کے پاکیزہ ارادوں اور ان کی عظمت و بلندی کا کچھ اشارہ تو مذکورہ بالا آرا سے ہوجاتا ہے۔ اور بغور جائزہ بتاتاہے کہ ابتدائی شماروں سے ہی امام وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور پھر حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفة المسیح الاولؓ کی نہایت اخلاص سے خدمت و اطاعت گزاری، اُن کے مقدس مشن سے اٹوٹ تعلق، جماعت احمدیہ کے افراد کی دینی تعلیم و تربیت اور ہر مذہب و ملت کے اساسی معاملات پر گہری معلومات مہیا کرنے والے ٹھوس تحقیقی مضامین اس رسالہ کی بنیادی پہچان تھے۔

تشحیذ الاذہان کے ابتدائی شماروں سے نوجوان مضمون نگاروں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ شروع ہوگیا، مثلاً حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ مبلغ انگلستان جب ابھی اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے، ان کے تحریر کردہ مضامین بالاقساط تشحیذ میں جگہ پاتے۔

اسی طرح تشحیذ کے دوسرے شمارہ میں ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا: ’’مسیح کلمة اللہ کیوں مجرد رہے؟‘‘ اس مضمون میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف سے سگے بھائی بہنوں کے بعد آپ ؑ کی اہلیہ کے ضمن میں مواد پیش کیا گیا۔ اسی طرح تشحیذ میں ایک سلسلہ ’’عربی سیکھنے کے لئے آسان طریقے‘‘ شمارہ اول سے شائع ہونے لگا، اس عنوان کے تحت وہ عربی فقرات مع اردو ترجمہ درج کیے جاتے، جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس لئے مرتب کئے کہ جماعت احمدیہ کے لوگ انہیں یاد کریں تاکہ انہیں عربی زبان آجائے۔

اسی طرح مختلف مضامین کے علاوہ ’’مکتوبات امام الزمان‘‘ اور فقہی امور سے درست شناسا ئی دینے کے لیے ’’مسائل شرعیہ‘‘ اور ’’ڈائری حضرت اقدسؑ‘‘ کے لیے تشحیذ الاذہان میں صفحات مختص ہوئے۔ نیز نوجوانوں کے لیے مشاہیر الاسلام کی سوانح عمریاں درج کرنے کی بھی جگہ رکھی گئی۔

اس انجمن تشحیذ الاذہان کی ایک لائبریری بھی تھی، جس کے متعلق انتظامیہ کی طرف سے رسالہ میں اشتہار شائع ہوتا کہ اس لائبریری میں اڑھائی ہزار کے قریب علمی و مذہبی کتب ہیں، اور تیس کے قریب روزانہ، ہفتہ وار اخبارات اور ماہواری رسالے اس میں آتے ہیں، جو عام مطالعہ کےلئے میز پر رکھے جاتے ہیں، اس لئے قادیان آنے والے معزز مہمان اور مقامی احباب اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ‘‘(دیکھو: تشحیذ، دسمبر ۱۹۱۲ء)

آغاز مارچ ۱۹۰۶ءسے مارچ ۱۹۱۴ء تک کےمیسر ۸۴ شماروں کا جائزہ بتاتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی زیر ادارت شائع ہونے والے ان شماروں کے تین ہزار پانچ صد سے زائد صفحات بنتے ہیں جو شائع ہوئے۔ جن کے موضوعات نہایت متنوع تھے۔ رسالہ کے منظوم حصہ کا جائزہ لیں تو اس میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کا اپنا منظوم کلام بھی شائع ہوتا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا تازہ کلام بھی اس رسالہ کی زینت بنتا۔ اور جماعت کے دیگر شعراء بھی تشحیذ میں جگہ پاتے۔

مضامین کی نوعیت کے لحاظ سے یہ رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز بنا اور خلافت کا سلطان نصیر ٹھہرا، اس میں اعتراضات کے جواب بھی تھے اور تشحیذالاذہان نے یہ محاذ اس قدر مستعدی سے سنبھال رکھا تھا کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے مثلاً ۲۳؍نومبر ۱۹۱۰ء کے پرچہ’’ آگرہ مسافر‘‘میں قرآن کریم کے متعلق بعض معترضانہ جملوں کے حامل مضامین شائع ہوئے تو تشحیذالاذہان کے دسمبر ۱۹۱۰ء کے شمارہ کا پہلا مضمون انہی معترضین کے رد میں تھا جو مدلل بھی تھا اور باحوالہ بھی۔

تشحیذالاذہان کی خدمت قرآن کا یہ عالم تھا کہ ستمبر ۱۹۱۳ء کا مکمل شمارہ ’’القرآن فی الرمضان‘‘ کے عنوان کے تحت حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے فرمودہ مختصر تفسیری نوٹس پر مشتمل تھا تا احباب جماعت رمضان المبارک کی اپنی تلاوت قرآن کو علاوہ برکات سمیٹنے کے فہم قرآن میں ترقی کا باعث بناسکیں۔

قرآن کریم کے مضامین کی تفہیم اور تفسیر کے حوالہ سے متفرق مضامین کو جگہ دینے کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے تفسیری نکات اور دروس کے نوٹس تشحیذالاذہان میں شائع ہوتے رہتے تھے۔

ذکر حبیب، یاد حبیب اور سیرت المہدی کی طرزپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ سیرت و سوانح سے بھی کچھ حصہ بصورت روایات تشحیذالاذۃان کی زینت بنتا تاقارئین اپنے محسن آقا کے اسوہ سے آگاہ ہوکر ان کی دی ہوئی تعلیم و تربیت سے فیضیاب ہوتے رہیں۔

تشحیذالاذہان میں دیگر مذاہب میں عیسائیت اور ہندومت کے ساتھ نزاعی امور پر بھی مدلل اور باحوالہ مواد شائع ہوتا اور اسلام کی حسین اورآفاقی تعلیم کے مقابل پر ادیان باطلہ کا خوب خوب رد کیا جاتا، تشحیذ کے صفحات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حقیقی مقام خوب کھول کر بیان کیا جاتا، ہندو دھرم اور اس کے فرقوں اور ان کے فروعی امور پر بھی پُر از معلومات مضامین جگہ پاتے، نیز اسلام کے ضعف کی ایک وجہ فرقہ بندی کی خلیج کو پاٹنےکے لیے شیعہ سنی نزاع پر بھی تفصیلی لکھا جاتا، الغرض مسلمانوں میں صدیوں سے جاری شیعہ سنی مناقشات کو علمی اور تحقیقی پہلوؤں سے حل کرنے کے لیے آج بھی طالب علم اور علماء تشحیذ الاذہان کی فائلوں سے یکساں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

احمدیہ علم الکلام کے دلائل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشانوں اور پیش گوئیوں پر نہ صرف تعارفی مضامین آتے بلکہ جب کبھی کسی پیش گوئی پر مخالفین کی طرف سے زبان طعن دراز ہوتی، تشحیذ الاذہان فورا ًایک مستعد خادم کی طرح حق اور صداقت کو طشت از بام کردیتا مثلاً احمد بیگ کے متعلق پیش گوئی وغیرہ۔ اور جماعت کے معاند مولویوں مثلاً مولوی ابراہیم سیالکوٹی وغیرہ کا نام لے کر یا نام لیے بغیر، رد کیا جاتا اور ان مولویوں کے کتابچوں، وسوسوں اور اعتراضوں کا تشحیذ میں مدلل جواب شائع ہوتا تھا۔

نیز تشحیذ میں حسب موقع، سائنس، حالات حاضرہ، سیاست اور فقہ پر مضامین مرتب ہوکر قارئین کے لیے مہیاہوجاتے تھے۔

لیکن غیر معمولی خدمات کے باوجود انتظامی مشکلات تشحیذ کو آغاز سے ہی درپیش رہیں اور بارہا قارئین اور خریداران کو انفرادی خطوط لکھ کر اور تشحیذ میں اشتہارات شائع کرکے چندہ بروقت جمع کروانے کی درخواست کی جاتی تھی نیز رسالہ کی اعانت کرنے والوں کے اسماء کی فہرست مع زر اعانت بھی تشحیذ میں شائع ہوتی رہتی تھیں تا دیگر احباب کو بھی توجہ ہو۔ نیز رسالہ کے انتظامی امور کو بطریق احسن چلانے کے لیے کبھی کبھار کسی کاروباری ادارے کا اشتہار بھی شائع ہوجاتا تھا جیسا کہ کلکتہ کے ایک ڈاکٹر کا اشتہار، وغیرہ۔

رسالہ کے مددگاروں میں علاوہ حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کے محترم خادم حسین خادم صاحب بھیروی تھے جو شیعہ عقائد کے متعلق خدمت اسلامیہ بجالاتے تھے۔ اور اسی طرح سید صادق حسین صاحب اٹاوہ کی منقدانہ تحریر ایڈیٹر کے بمنزلہ بازو کے کام دیتی تھیں۔

یہ رسالہ نہ صرف بروقت شائع ہوتا بلکہ باوجود قلت مصارف کے اپنے خریداران کے لیے صفحات کی کمی کرنے پر رضامند نہیں ہوتا تھا اور وقت کی پابندی رسالہ کی طباعت لاہور سے ہونےکے باوجود متاثر نہ ہوئی نیز مضامین کی خوبی اور بلندی کی وجہ سے اکثر مواقع پر قارئین کی طرف سے بعض مضامین بطور علیحدہ ٹریکٹ چھپوا کر تقسیم کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی۔

۱۹۱۲ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے سفر حج کا ذکر، بصورت اعلانات اور رپورٹنگ شائع ہوتا تھا۔

تشحیذ الاذہان اور اس کے محرک کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے غیر معمولی محبت کا عکاس ایک مضمون جون ۱۹۱۲ء کے شمارہ کے آغاز میں دُرِّمکنون کے عنوان کے ماتحت لکھا گیا، جس میں بتایا کہ ’’۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۱ء کے جو خطوط امام مغفور علیہ السلام نے ایک مرحوم کے نام بھیجے، حسن اتفاق سے وہ مجھے مل گئے۔ ان کے مطالعہ سے جو روحانی سرور مجھے حاصل ہوا، وہ تو کچھ میرا ہی دل جانتا ہے لیکن اس مائدہ آسمانی پر اپنے احباب کی دعوت بھی ضروری جان کر خوانِ تشحیذ پر صلائے عام دیتا ہوں، یہ صفحات لیڈنگ آرٹیکل کے لئے مخصوص تھے، مگر ان جواہرات پر میرے ہزار آرٹیکل قربان۔‘‘

تشحیذ الاذہان کے آغاز اور پھر غیر معمولی ترقی کی ایک معاصر گواہی ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ اپنے ایک مضمون میں ’’حصول فن ایڈیٹری‘‘کے تحت لکھتے ہیں:’’کہتے ہیں شاعر پیدا ہوتے ہیں، بنائے نہیں جاتے۔ اس طرح یہ کہنا بھی درست ہے کہ مرزا بشیر الدین احمد جیسے فطرتی شاعر ہیں ویسے ہی فطرتی ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے کسی سے اس فن کو نہیں سیکھا۔ بلکہ قلم پر حکومت ان کو وراثتاً ملی ہے۔ جس طرح پر خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب آپ کے بڑے بھائی کو ملی ہے۔ مرزا بشیر الدین محمود احمد بہت ہی چھوٹے تھے۔ کوئی دس گیارہ سال کی عمر ہوگی۔ آپ نے ایک انجمن بنائی۔ اور ایک اشتہار دو شریر لڑکوں کی صحبت سے دوسر ے لڑکوں کو اجتناب کرنے کا دیا۔ جو آپ کا پہلا اشتہار تھا۔ اس انجمن کا نام تشحیذ الاذہان رکھا گیا۔ خاکسار ایڈیٹر الحکم اس کا پہلا سیکرٹری تھا۔ اب وہ انجمن قابل قدر انجمن ہے جس کے ماتحت ایک بڑا کتب خانہ ہے اور ماہوار رسالہ تشحیذ الاذہان جس کے ایڈیٹر کی حیثیت سے آپ کے حالات لکھے جارہے ہیں۔ سات سال سے شائع ہورہا ہے اور نہایت کامیابی سے شائع ہورہاہے۔ یہ رسالہ پہلے سہ ماہی تھا۔ اب ماہواری چھپتا ہے۔ اشاعت ایک ہزار سے اوپر بیان کی جاتی ہے۔‘‘

( اس مضمون کے متعلق محمود احمد عرفانی نے تعارفی نوٹ لکھاکہ ’’یہ مضمون حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی سیرت طیبہ کے متعلق حضرت عرفانی کبیر نے ۱۹۱۲ء میں کشمیری میگزین رسالہ کے لئے لکھا تھا جس کی اشاعت سلسلہ کے لٹریچر میں نہیں ہوئی۔ اس لئے الحکم کے جوبلی نمبر میں اسے شائع کرتا ہوں۔‘‘)(حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب،ایڈیٹر رسالہ تشحیذ الاذہان، الحکم، خلافت جوبلی نمبر،۲۸؍دسمبر ۱۹۳۹ء، صفحہ ۱۵)

احباب جماعت میں علمی ترقی اور کتب بینی کا شوق اجاگر کرنے کے لیے تشحیذ الاذہان میں نئی شائع ہونے والی جماعتی اور غیر جماعتی مفید علمی کتب کا ریویو باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا، مثلاً مارچ ۱۹۱۴ء کے شمارہ میں جن کتب کا ریویو پیش کیا گیا ان میں جماعتی اور بعض غیر جماعتی مصنفین کی کتب بھی ہیں(۱)سیرة الصدیق از مولانا محمد حبیب الرحمٰن خان صاحب شروانی (۲) فنون لطیفہ از خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب (۳)چمکار محمدی از منشی جھنڈے خان صاحب ساکن ہالی ضلع گورداسپور(۴) کیلنڈر۱۹۱۴ء وغیرہ۔

اسی مارچ ۱۹۱۴ء کے شمارہ کے اندرونی ٹائٹل پر ’’حضرت خلیفۃ المسیح کا وصال‘‘ کے عنوان کے تحت درج ہے کہ’’۱۳؍مارچ، جمعہ کے روز بعد از نماز ہمارے امیر المومنین مولانا نورالدینؓ نے کئی ہفتے کی مسلسل علالت کے بعد وفات پائی۔ اللّٰھم اغفر لہ و اکرم نزلہ۔ اور دوسرے روز شام کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پہلو میں مغربی طرف دفن ہوئے۔

۲: آپ کے جانشین حضرت ابن المہدی سید المومنین صاحبزادہ اولوالعزم میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ رب العالمین مقرر ہوئے۔ اللّٰھم ایدہ وانصرہ‘‘

یوں تشحیذالاذہان کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔اور اس رسالہ کے نئے مدیر، اس رسالہ کے ہی قدیمی خادم حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ مقرر ہوئے۔یہ سلسلہ جاری رہا اور بالآخر ۱۹۲۲ء میں یہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ میں مدغم کردیا گیا۔

تشحیذ الاذہان کے دور جدید کا آغاز حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری کے ذریعہ ہوا جنہوں نے احمدی بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اس رسالہ کے دوبارہ اجراکی اجازت چاہی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اسے پسند فرمایا اور یوں جون ۱۹۵۷ء سے حضرت مولوی صاحب کی ادارت میں رسالہ جاری ہوگیا۔ اجرائے نوکے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے دعا دی کہ’’اللہ تعالیٰ اس پرانے رسالے کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں شروع ہوا تھا پھر زندگی شروع کرنے کی توفیق دے۔‘‘

دسمبر ۱۹۵۷ء میں ’’تشحیذالاذہان‘‘ کا انتظام مجلس خدام الاحمدیہ کے سپرد کردیا گیا اور شعبہ اطفال کے تحت یہ نکلنا شروع ہوا۔مگر گذشتہ چند برسوں یعنی ۲۰۱۶ءسے دیگر احمدی اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ اس مفید تعلیمی و تربیتی رسالہ کی اشاعت حکومت پاکستان کے بعض صریحاً امتیازی ملکی قوانین اور ناواجب پابندیوں کے باعث بند ہے۔ لیکن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے زیر ادارت تیار ہونے والے تشحیذ الاذہان کے ابتدائی دور کے شماروں کی فائلیں آج بھی قارئین اور محققین کے لیے گراں مایہ سرمایہ سے کم نہیں۔ اور ہر ورق پکار رہا ہے کہ وہ موعود بچہ نہ صرف جلد جلد بڑھا، بلکہ سخت ذہین و فہیم اور علوم ظاہری و باطنی سے دست غیب سے پُر کیا گیا تھا۔

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button