تعارف کتاب

تعارف کتاب: سفرِیورپ ۱۹۲۴ء

(محمود احمد ملک)

ایک حدیث مبارکہ میں آنحضورﷺ نے سفر کو عذاب کا ٹکڑا فرمایا ہے لیکن جس سفر کی مشقّت اور صعوبت خدا اور اُس کے دین کی خاطر اختیار کی جائے اس سفر میں ایسی برکت عطا کی جاتی ہے کہ جو صدیوں تک اپنی باثمر تاریخ دہراتی چلی جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اُس مبارک سفر کی بھی تھی جو سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے آج سے ٹھیک ایک صدی قبل ۱۹۲۴ء میں اختیار فرمایا۔

اس سفر کا پس منظر یہ ہے کہ انگلستان کی مشہور عالمی ویمبلے (Wembley) نمائش کے موقع پر سوشلسٹ لیڈر Mr. William Loftus Hare کی تجویز پر ایک مذاہب کانفرنس کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا جس میں مذہب اسلام کے متعلق نقطۂ نگاہ پیش کرنے کے لیے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں شرکت کی درخواست کی گئی۔ حضورؓ نے احباب جماعت سے مشورہ کے بعد اس کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ فرمایا اور اس غرض سے قافلہ کے ہمراہ ۱۲؍جولائی ۱۹۲۴ء کو آپؓ قادیان سے روانہ ہوکر مختلف ممالک میں مختصر قیام فرماتے ہوئے انگلستان تشریف لے گئے۔ وہاں سے ۲۲؍نومبر کو قادیان میں مراجعت فرمائی۔ اس سفر کے آغاز سے اختتام تک حضرت بھائی عبدالرحمٰن قادیانیؓ ڈائری کی صورت میں رپورٹ تیار کرکے قادیان بھجواتے رہے۔ اس ڈائری کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر بعدازاں اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ یہی کتاب آج ہمارے زیرنظر ہے۔پانچ صد سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب نہ صرف اہم تاریخی حقائق، قیمتی تاثرات اور حضرت مصلح موعودؓ کے گراں قدر ارشادات کو محفوظ کرنے کا ذریعہ بنی بلکہ یہ اُن بےشمار برکات پر بھی گواہ ٹھہری جو اس سفر کے نتیجے میں آج بھی جاری ہیں جن میں سے ایک مسجد فضل لندن بھی ہے۔

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ کا انداز بیان اتنا پُرلطف اور بےساختہ ہے کہ شروع سے آخر تک ایک تجسّس کے ساتھ قاری صفحات میں سے گزرتا چلا جاتا ہے اور تحریر کی صورت میں گزرنے والے واقعات و شخصیات اُس کے ذہن کے پردے پر تصویری فلم کی صورت میں چلتے چلے جاتے ہیں۔ اس ڈائری سے حضرت مصلح موعودؓ کی شخصیت اور آپؓ کے اخلاق فاضلہ کے بےشمار پہلو عیاں ہوتے ہیں اور پڑھنے والا ان کی تاثیر کو محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ دیارغیر میں اپنے آقا کی زیارت سے فیضیاب ہونے کی سعادت پانے والے احمدیوں میں زندگی کی نئی لہر کا پیدا ہوجانا تو طبعی امر تھا ہی، غیروں نے بھی جس طرح سیّدنا مصلح موعودؓ کی پذیرائی کی اور آپؓ کے روحانی اثر سے جو پُرلذّت کیفیات انہیں میسّر آئیں اُن کے بارے میں پڑھتے ہوئے روح وجد میں آنے لگتی ہے اور غیرمعمولی جذبۂ ایمانی قلب میں موجزن ہجاتاہے۔

کتاب کے مطالعہ سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس سارے سفر میں حضورؓ نے کس قدر مشقّت اٹھائی۔ حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحبؓ نے قادیان سے موٹر کے ذریعے بٹالہ تک پہنچنے کی ہی جو روداد بیان کی ہے اُس کو ہی دیکھ لیں کہ یہ مختصر سا سفر بھی کیسا مشقّت بھرا تھا۔ اتنے مختصر سے سفر کے دوران کبھی موٹر کے ٹائر سے ہوا نکل جاتی ہے۔ کچھ دُور چل کر پنکچر ہوجاتا ہے اور ٹیوب تبدیل کی جاتی ہے۔ ایک جگہ پہنچ کر پٹرول ختم ہوجاتا ہے جو ساتھ لائے گئے ٹینک سے موٹر میں بھرا جاتا ہے۔ کچے راستے پر ایسا ریتلا مقام بھی آتا ہے جہاں موٹر کو دھکیل کر گزارنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ الغرض بڑی مشکل سے اور تاخیر سے بٹالہ ریلوے سٹیشن پر پہنچ پاتے ہیں جہاں سینکڑوں احمدی پریشانی کے عالم میں اپنے آقا کے منتظر تھے۔ حضورؓ کی آمد کے ساتھ ہی ریزرو بوگی کو گاڑی کے ساتھ لگایا جاتا ہے اور چند منٹ میں گاڑی روانہ ہوکر چند مقامات پر رکتی ہوئی امرتسر پہنچتی ہے۔ ہر سٹیشن پر احمدی اپنے آقا کی زیارت کے لیے چشم براہ تھے۔ امرتسر میں تو لاہور اور دیگرشہروں سے بھی احباب کثرت سے جمع تھے۔ پھر یہ ریزرو بوگی دوسری گاڑی کے ذریعے دہلی پہنچائی گئی جہاں سے پھر گاڑی تبدیل کرنے کے بعد یہ قافلہ کئی شہروں سے ہوتا ہوا اور کئی سٹیشنوں پر رُکتا ہوا اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن رہا۔ راستے میں ہر سٹیشن پر احمدیوں کی کثیر تعداد اپنے محبوب امام کی زیارت کے لیے موجود ہوتی۔ عیدالاضحی کی نماز بھی حضورؓ نے ایک ریلوے سٹیشن پر پڑھائی اور مختصر خطبہ ارشاد فرمایا۔ اگلے سٹیشن پر تاخیر سے پہنچنے کے سبب ایک تیزرفتار گاڑی بھی چھوٹ گئی۔ الغرض بڑی تکلیف اٹھاکر قافلہ اپنے مقررہ وقت سے بہت تاخیر سے شام گئے بمبئی پہنچا تو جن اشیاء کی خریداری بمبئی سے کی جانی تھی، وقت کی کمی کے سبب وہ بھی ممکن نہ ہوسکی۔ نہ کمبل اور کپڑے خریدے جاسکے نہ ہی پھل اور دیگر خوراک کا خاطرخواہ انتظام ہوسکا۔ بحری جہاز کی روانگی چند ہی گھنٹے بعد یعنی اگلی صبح ۱۵؍جولائی ۱۹۲۴ءکو چھ بجے طے تھی۔ اور بقول حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحبؓ : ہماری یہ حالت تھی کہ ایک لمبے سفر کی بےآرامی،گذشتہ رات بھر جاگنے اور دیگر پریشانیوں کی وجہ سے ہر شخص کی طبیعت بوجھل تھی۔

مشکلات کی ایک لمبی داستان ہے جو اس کتاب کے ابتدائی صفحات کا مطالعہ کرتے ہوئے سامنے آتی ہے اور اس امر پر حیران بھی کردیتی ہے کہ ہر پریشانی کے ساتھ خداتعالیٰ کے فضل اور تائید کا ایسا ہاتھ بھی نظر آتا ہے جو ہر تکلیف کو امن اور سلامتی میں بدلتا چلاجاتا ہے۔

بمبئی سے روانہ ہونے سے قبل حضورؓ نے بذریعہ تاربرقی حضرت مولانا شیرعلی صاحبؓ کو اپنی غیرحاضری میں امیرمقامی قادیان مقرر فرمایا۔ احباب بکثرت بندرگارہ پر اپنے آقا کو دعاؤں کے ساتھ الوداع کہنے کے لیے حاضر تھے۔ جہاز روانہ ہوا تو حضورؓ اُس وقت تک عرشے پر کھڑے رہے بلکہ جہاز کے مڑنے تک عرشے پر چلتے ہوئے اُس مقام پر رہے جہاں حضورؓ اپنے خدام کو دیکھ سکتے تھے۔ حضورؓ نے ایک سے زیادہ بار اجتماعی دعا بھی کروائی۔ اس دوران حضورؓ کے کپڑے گیلے ہوگئے لیکن جب تک ساحل سمندر پر کھڑے خدام نظر آتے رہے، حضورؓ مسلسل محبت سے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے دعاؤں میں مصروف رہے۔

بحری جہاز S. S. Africa بمبئی کی بندرگاہ سے روانہ ہوا تو سفر کے آغاز سے ہی اہل قافلہ کی طبیعت بوجھل تھی اور اگلے روز تو اکثر احباب Sea Sickness میں مبتلا ہوکر صاحب فراش ہوگئے۔ سمندری طوفان اتنا شدید تھا کہ لہریں جہاز کی بالائی منزل تک پہنچ رہی تھیں اور کسی کسی وقت تو جہاز کی غرقابی کا خطرہ پیدا ہونے لگتا۔ تین چار دن ایسی کیفیت میں گزرے کہ کچھ بھی کھانا پینا مشکل تھا۔ حضرت بھائی صاحبؓ لکھتے ہیں کہ باوجود کمزور طبیعت ہونے کے خداتعالیٰ نے مجھے Sea Sickness سے محفوظ رکھا جس کی وجہ غور کرنے پر مجھے یہی سمجھ آئی کہ بچپن میں مجھے جھولا جھولنے کی عادت تھی۔

جب سمندر پُرسکون ہوگیا تو دورانِ سفر حسب توفیق جہاز کے عملے اور بعض دیگر اہم افراد کے ساتھ حضورؓ کی تبلیغی گفتگو بھی ہوتی رہی۔ جہاز کا ڈاکٹر حضورؓ کو اپنے احباب کے جلو میں بیٹھے دیکھتا تو کہتا کہ ’مسیح اپنے بارہ حواریوں میں بیٹھے ہیں۔‘ اس ڈاکٹر نے درخواست کرکے حضورؓ کی اکیلے میں اور قافلہ کے ساتھ بھی تصاویر اتاریں۔ حضورؓ اپنے دوستوں کی مجلس میں قادیان کے حوالے سے نظمیں بھی سنتے اور مختلف موضوعات پر علم و عرفان کے دریا بھی بہاتے۔ بارہا جہاز کے غیرمسلم مسافر بھی سوال کرتے اور اطمینان بخش جوابات سے محظوظ ہوتے۔ ایک موقع پر حضورؓ نے یورپ میں تبلیغ کے حوالے سے فرمایا: یورپ کے متعلق مجھے اس بات کا خطرہ اور فکر نہیں ہے کہ ان کا مذہب کیوں کر فتح کیا جائے گا۔ مذہب کے متعلق تو مجھے یقین ہے کہ عیسائیت اسلام کے سامنے جلدتر سرنگوں ہوگی۔ مجھے اگر فکر ہے تو صرف یہ کہ یورپ کے تمدّن اور یورپ کی ترقی کا کیوں کر مقابلہ کیا جاوے۔ ان اقوام کا یہ اصول ہے کہ تمام وہ چیزیں جو ترقی کرنے والی قوم کے راستہ میں روک ہیں ان کو ہٹادیا جاوے اور اس واسطے سے انہوں نے سینکڑوں نہیں بلکہ بعض اوقات ہزاروں جانوں کو بھی ضائع کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ اگر جنگلی جھاڑیوں کو کاٹ کر ان کی بجائے پھل اور پھول پیدا کرنے والے درخت لگادیے جائیں تو کیا حرج ہے؟

بہرحال لمبے اور بہت ہی تکلیف دہ سفر کے بعد حضورؓ مع قافلہ براستہ عدن ۲۸؍جولائی کو پورٹ سعید (مصر) پہنچے۔ ۳۱؍جولائی کی رات قاہرہ سے بیت المقدس اور دمشق کے لیے بذریعہ ریل گاڑی روانہ ہوئے۔ بیت المقدس میں حضرت ابراہیمؑ اور بعض دیگر انبیائے کرام کی قبور کی زیارت اور دعا کے لیے تشریف لے گئے، دیگر مقدّس مقامات بھی دیکھے۔ دیوار گریہ کا بھی نظارہ کیا۔ یکم اگست کو بیت المقدس میں بہت سے سرکردہ احباب نے حضور سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ پریذیڈنٹ سپریم کونسل فلسطین نے حضور کی دعوت کی۔ سرکلیٹن (Sir Clayton) نے جو فلسطین کے ہائی کمشنر تھے حضور کو ۳؍ اگست کو دعوت پر بلایا جس میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل پر خصوصیت سے گفتگو ہوئی۔ اسی روز قُدس سے روانہ ہوئے اور اگلے روز براستہ حیفا دمشق روانہ ہوئے جہاں ایک ہفتہ قیام فرمایا۔ گو وہاں کے اکثر مسلمان علماء نے حضور کی شدید مخالفت کی لیکن اخباری نمائندوں نے حضورؓ کے اس سفر پہ خصوصی ریویو لکھے اور جماعت کی پبلسٹی توقع سے بہت زیادہ ہوئی۔ چنانچہ حضورؓ کی وہاں سے روانگی کے وقت تک کئی صد افراد حضورؓ سے ملنے آتے رہے۔ حضور نے دمشق میں متعدّد مجالس سوال و جواب میں نہایت پُرحکمت جواب ارشاد فرمائے چنانچہ اہل علم خصوصیت سے حضورؓ کی سحرانگیز شخصیت سے متاثر ہوکر حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔

ایک مجلس میں حضورؓ سے ملاقات کرنے والے ایک عالم نے سختی سے سوالات کرتے ہوئے جب یہ پوچھا کہ نبی اور رسول کی آمد کی کیا ضرورت پڑی ہے، کیا کوئی فساد ہمارے کپڑوں اور لباس میں نظر آتا ہے یا اعمال اور کاروبار سے ظاہر ہوتا ہے؟ تو حضورؓ نے فرمایا:ظاہر نہیں بلکہ مسلمانوں کے دل بگڑ گئے ہیں، عقائد بگڑ گئے ہیں، شعائراللہ کی عزت اور احترام باقی نہیں، نماز کی پابندی نہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں اور اسلام صرف نام و رسم کا باقی ہے۔ اس پر اُس شخص نے کہا کہ صرف دمشق کے ایک شہر میں ہم لوگ اتنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں کہ پچھتر لاکھ روپیہ سالانہ جمع ہوجاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ تم اپنی خوشی سے نہیں دیتے، وہ تو چھین کر تم سے لیا جاتا ہے اور اوّل تو مَیں یقین ہی نہیں کرتا کہ صرف ایک شہر میں اس قدر روپیہ جمع ہوتا ہو۔ اگر ایسا ہے تو پھر غربت کیسی؟ وہ روپیہ ہے کہاں؟ اس پر وہاں بیٹھے ہوئے اُن صاحب کے ساتھیوں نے اُن کو سمجھایا کہ حضورؓ کی بات بالکل درست ہے۔ اتنی رقم تو سارے ٹیکس اور محصول وغیرہ ڈال کر ہی بن سکتی ہے۔ دوسروں کے سمجھانے پر وہ شخص نرم ہوگیا اور ادب سے بات کرنے لگا۔ کئی لوگوں نے مبلغ بھجوانے کی درخواست کی تو حضورؓ نے فرمایا کہ جلد ہی یہاں مبلغ بھیجا جائے گا اور ان شاءاللہ جرائد وغیرہ بھی جاری کردیے جائیں گے۔

حضورؓ سے ملاقات کے لیے آنے والوں میں مولوی عبدالقادر نہایت جوشیلے اور نیچری خیالات کا آدمی تھا۔ بہت سے سوالات کے جواب پاکر بھی وہ کہنے لگا کہ ہم لوگ عرب ہیں، اہل زبان ہیں، قرآن کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم سے بڑھ کر کون قرآن کو سمجھے گا وغیرہ۔ اس پر حضورؓ نے کسی قدر سختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ تم شامی لوگ لغتِ قرآن کو بالکل نہیں جانتے۔ تمہاری زبان قرآن کی زبان نہیں۔ تم لوگ بھی اسی طرح سے لغت کے محتاج ہو جس طرح سے ہم ہیں۔ ہمیں خدا نے قرآن سکھایا اور سمجھایا ہے۔ ہماری زبان باوجودیکہ ہم لوگ اردو میں گفتگو کرنے کا محاورہ رکھتے ہیں اور عربی میں بولنے کا ہمیں موقع نہیں ملتا مگر تم سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے۔ حضورؓ نے بڑے جوش سے عربی میں ایسی فصیح گفتگو فرمائی کہ وہاں بیٹھے ہوئے حضرت سیّد عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میں سے ایک بزرگ بھی مولوی عبدالقادر کو کہنے لگے کہ واقعی ان کی زبان ہم لوگوں سے زیادہ فصیح ہے۔ اس پر مولوی عبدالقادر نے کچھ نرمی اختیار کی اور ادب سے گفتگو کرنے لگا۔ جب ختم نبوت پر بات کرتے ہوئے حضورؓ نے قرآن کریم کی آیات پیش فرمائیں تو کہنے لگا کہ قرآن سے بھی کوئی مسئلہ حل ہوسکتا ہے!کوئی تفسیر تو ہو۔ اس پر حضورؓ نے اُس کو ایسا جواب دیا کہ وہ بےچارگی کی تصویر بن کر رہ گیا۔ اُس نے یہ بھی اعتراض کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں میں زبان کی غلطیاں ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ تم میں اگر کچھ طاقت ہے تو ان اغلاط کا اعلان کردو یا اُن کتب کا جواب لکھ کر شائع کردو مگر یاد رکھو کہ تم ہرگز نہ کرسکوگے۔ اگر قلم اٹھاؤگے تو تمہاری طاقتِ تحریر سلب کرلی جاوے گی۔ تجربہ کرکے دیکھ لو۔ اس پر اُس نے منّت سماجت شروع کردی کہ آپ اپنے دعویٰ کو یہاں نہ پھیلائیں، اس سے اختلاف بڑھتا ہے، صرف لآ اِلٰہ الَّااللّٰہ پر لوگوں کو جمع کریں اور آپ صرف نصاریٰ اور کفار میں تبلیغ کریں۔ حضورؓ نے پُرشوکت لہجہ میں ان باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ منصوبہ ہمارا ہوتا تو ہم چھوڑ دیتے مگر یہ خدا کا حکم ہے اس میں ہمارا اور سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دخل نہیں۔ خدا کا یہ حکم ہم پہنچائیں گے اور ضروری پہنچائیں گے۔ لَنْ نَبْرَحَ الْاَرْضَ کا قول ہمارا بھی قول ہے۔ ہم مشکلات، مصائب اور مخالفت سے خوف نہیں کھاتے خواہ قتل بھی کیے جائیں۔ کابل نے آخر ہمارے آدمی قتل کیے مگر ہم نے تبلیغ نہیں چھوڑی اور نہ چھوڑیں گے۔

بعض نے سوال کیا کہ کیا آپ پر بھی وحی نازل ہوتی ہے؟ حضورؓ نے فرمایا کہ ہاں بعض بعض دن، مگر مَیں نبی نہیں ہوں۔ مجھ پر بشارت کے طور پر وحی نازل ہوتی ہے۔

ایک شخص نے اصرار کرکے کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا تقاضا کیا اور لے کر بہت ہی خوش ہوا۔ پھر ادب سے عرض کیا کہ حضور! مَیں نے آپ کو دین کا خادم پایا ہے اور جو غیرت اور حمیّت آپ میں اسلام کے واسطے ہے مَیں نے آج تک دنیا میں کسی میں نہیں دیکھی۔

اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹرز، تعلیم یافتہ طبقہ اور خواص نے اتنی محبت سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تو حضورؓ نے دمشق میں اپنا قیام دو روز کے لیے بڑھادیا۔

حضورؓ جامعہ امویہ کی زیارت کو بھی تشریف لے گئے۔ مسجد کے وسط میں ایک حجرے کے اندر ایک قبر کی طرف اشارہ کرکے ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت یحییٰؑ کی قبر ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ وہ تو القدس میں فوت ہوئے اور وہیں اُن کی قبر ہے۔ پھر حضورؓ نے مسجد کی وسعت کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ وہ مسجد ہے جہاں یقیناً صحابہؓ نے نمازیں پڑھی ہیں۔ مسجد کی عمارت اور وسعت سے پتا لگ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں کس قدر لوگ نماز کے پابند تھے۔ حضورؓ نے اندازہ کرایا تو معلوم ہوا کہ چھ سات ہزار آدمی مسجد کے اندر اور اسی قدر صحن میں بھی نمازی آسکتا ہے۔ مسجد کے دو مینار ہیں جو سرخی مائل ہیں۔ ایک پر اذان کہی جاتی ہے اور دوسرا بالکل بند پڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کو حضرت مسیحؑ کے نازل ہونے کے واسطے ریزرو رکھا ہوا ہے۔

دمشق میں منارہ بیضا کے بالکل قریب ہوٹل سنترال میں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ کے ماتحت حضرت مصلح موعودؓ کو ٹھہرایا۔ اگرچہ کسی بہترین ہوٹل کا انتخاب کرنے کے لیے بہت کوشش کی گئی لیکن کہیں جگہ نہ ملی۔قیام کی اگلی صبح حضورؓ نے جب نماز فجر پڑھائی تو دو خدام (حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ اور حضرت خان صاحب ذوالفقارعلی صاحبؓ) بطور مقتدی شامل ہوئے۔ جب حضورؓ نے دائیں طرف سلام پھیرا تو مسجد کے ایک سفید منارہ پر نظر پڑی۔ معاً اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ یہی وہ منارۃالبیضا ہے جس کے متعلق وارد ہے کہ مسیح عند منارۃالبیضاء نازل ہوگا۔ سو حضرت مسیح موعودؑ کے خلیفہ، حضورؑ کے لخت جگر اور حسن و احسان میں آپؑ کے نظیر کا اس مقام پر نزول گویا خود حضورعلیہ السلام ہی کا نزول تھا۔

حضورؓ کے ساتھ بعض دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے علاوہ شام کے گورنر سے بھی ملاقات کا وقت طے تھا۔ گورنر سے ملاقات کے وقت ان کے پاس بہت سے علماء اور رؤساء موجود تھے۔ حضورؓ نے گورنر سے پوچھا کہ اگر ہم اپنے مبشرین یہاں بھجوائیں تو کیا کوئی سرکاری روک تو نہیں اور کیا گورنر کی طرف سے اُن کی صرف اخلاقی مدد کی جاسکے گی۔ اس پر وہاں موجود علماء نے شور مچادیا اور شدید مخالفت کی۔ لیکن جلیل القدر عہدے پر مامور ایک صاحب نے علماءکو مخاطب کرکے بڑے جوش سے کہا کہ تم لوگ عیسائیوں اور بابیوں کو تو آنے دو مگر نہ آنے دو تو ایک ایسی جماعت کو جو جان اور مال سے خدمتِ اسلام کی غرض سے گھروں سے نکلی ہے اور کسی سے کچھ نہیں مانگتی۔ اس بزرگ کی جوشیلی تقریر پر مخالفین خاموش ہوگئے اور گورنر نے بھی اُن کی تائید کرتے ہوئے حضورؓ سے عرض کیا کہ آپ بےشک مبلغین اسلام یہاں بھیجیں۔ ہم ان کی حتّی المقدور مدد کریں گے۔ البتہ اگر مخالفین کا فتنہ اتنا بڑھ جائے کہ ہماری طاقت سے اس کا رُکنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ سے کہہ دیں گے کہ اپنا انتظام کرلیں۔

ایک چھوٹے گورنر حقی بے سے بھی ملاقات ہوئی تو انہوں نے اشتیاق سے خود لٹریچر مانگا۔ جب انہوں نے حضورؓ کی زبانی ’’تحفۂ شہزادہ ویلز‘‘ کا پس منظر سنا تو یہ کتاب بھی مانگی۔ جب اُن کو بتایا گیا کہ یہ انگریزی میں ہے تو بہت افسوس کیا لیکن کہا کہ کتاب بھیج دیں، میری لڑکی انگریزی جانتی ہے مَیں اس کو دوں گا۔ اسی طرح فرانسیسی اعلیٰ حکّام سے ملاقات بھی بہت کامیاب رہی۔ ترجمان نے دورانِ گفتگو جب حضورؓ کا ذکر کیا تو حاکم نے اُس کو سختی سے ڈانٹا اور کہا کہ وہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے پرنس ہیں اور مذہبی پیشوا ہیں اور مشہور ریفارمر ہیں، ان کا نام ادب اور احترام سے لینا اور ان کے مرتبہ اور درجہ کا خیال رکھنا۔

دمشق میں حضورؓ کی آمد اور حضورؓ کے پیغام کا وسیع پیمانے پر چرچا ہوا۔ گو علماء نے اور جامعہ اموی کے خطیب نے خطبہ جمعہ میں احمدیت کی مخالفت بھی کی لیکن یہ بھی ایک اشتہار ہی سمجھا گیا چنانچہ بہت سے علماء، اخباری مدیران اور نمائندگان اور تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے نامور لوگ کثرت سے ہوٹل آنے لگے۔ اتنا رش تھا کہ کثیر تعداد میں لوگوں کو کھڑے ہوکر حضورؓ کی گفتگو سننی پڑی۔ اکثر نے ہمارے خیالات کی تائید کی۔ کئی معزّزین نے غور کرنے اور بعض نے احمدی ہونے کا عندیہ بھی دیا۔ بعض نے شدید مخالفت بھی کی جن کے اعتراضات کا جواب حضورؓ نے نہایت حوصلہ، تحمّل اور جرأت سے دیا۔ کئی معزّزین نے مخالف علماء کو شرمندہ کیا کہ وہ تہذیب سے باری باری بات نہیں کرتے بلکہ چاروں طرف سے بولتے اور شور مچاتے ہیں۔ کئی علماء اپنی کتابیں اور لغات لاتے اور بحث کرتے لیکن حضورؓ کے جوابات سے ایسے بےبس دکھائی دیتے کہ ۸؍اگست کے اخبار ’الف با‘ نے لکھا کہ وہ (حضورؓ) میدان میں ایک کامیاب جرنیل یا شیربہادر کی طرح چاروں طرف کے حملوں کا جواب دے رہا تھا۔ اخبار نے حضورؓ کی فصیح زبان عربی میں کلام کی بھی تعریف کی۔

اخبار ’المقسم‘ کے ایڈیٹر بھی تین دیگر ایڈیٹروں کے ساتھ آئے اور تخلیہ میں ملاقات کی۔ تفصیل سے انٹرویو لیا اور سیاست سمیت ہر قسم کے حالات پر خیالات معلوم کرکے عرض کیا کہ حضورؓ خود اپنے ذاتی حالات لکھ دیں تاکہ وہ بھی شائع کیے جائیں۔ الغرض یہ پڑھالکھا طبقہ علماء کی مجلس میں بیٹھ کر بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ حضورؓ اللہ کے فضلوں کی بارش پر خوش ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس علاقے میں سے کامیابی کی خوشبو آتی ہے۔ سینکڑوں آنے والے کہتے ہیں کہ اگر گفتگو کا موقع نہیں مل سکتا تو کم از کم حضورؓ کی زیارت ہی کروادی جائے۔ ایک معترض نے آکر بلند آواز سے کہا کہ آپ لوگ تارک الصلوٰۃ ہیں کیونکہ کل آپ مسجد اموی آئے تھے لیکن نماز ادا کیے بغیر وہاں سے چلے آئے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ تم بتاؤ کہ کیا صحابہ اس طرح سے نماز پڑھا کرتے تھے جس طرح تم پڑھتے ہو؟ تم نے چار مصلّے بچھا رکھے ہیں اور مختلف فرقے الگ الگ جماعت کرواتے ہیں۔ چنانچہ اُس نے اقرار کیا کہ واقعی یہ خطا ہے۔

آخری روز ایک ہجوم ملاقات کے اشتیاق میں ہوٹل کے باہر جمع تھا لیکن ہوٹل کے مالک نے سرکاری حکام سے یہ حکم دلوادیا کہ ہوٹل میں بحث نہ کی جائے۔ اس پر کئی معزّزین اور علمی طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے بحث کرنے والے علماء کو کوسا اور جہلاء قرار دیا۔ ’حلب‘کے مدیر نے بھی بحث کرنے والوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ پولیس نے آکر حضورؓ کو بتایا کہ ہم آپؓ کی حفاظت کے لیے آئے ہیں کیونکہ باہر گلی میں ہجوم آگیا ہے جو مخالف علماء نے بھجوایا ہے۔ اس پر حضورؓ نے ہوٹل کی بالائی منزل کی گیلری سے نیچے دیکھا اور ہجوم کو السلام علیکم کہا۔ اُن لوگوں نے وعلیکم السلام عرض کیا اور کسی نے کوئی نازیبا حرکت نہیں کی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ لوگ صرف حضورؓ کی زیارت کرنے اور باتیں سننے کے لیے آئے ہیں لیکن پولیس والے خود اپنی ذمہ داری سے خوفزدہ تھے اس لیے حضورؓ کے قافلے والوں کو بھی باہر نہ نکلنے کی تاکید کررہے تھے۔ ہوٹل والے نے علاوہ کرائے کے زائد اخراجات کا بِل بھجوایا ہے کہ کثرت اژدہام سے اُس کا دروازہ ٹوٹ گیا ہے اور کرسیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ نیز پولیس کے آنے اور ہجوم کے اکٹھا ہونے سے اُس کا کھانا بِک نہیں سکا چنانچہ کھانے کا سارا خرچ بھی ہم سے مانگا ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اس کے نقصانات کو دیکھ لیا جاوے اگر واقعی ہوئے ہیں تو ادا کردیے جائیں۔

اگلے روز کئی ایڈیٹر صاحبان نے آکر حضورؓ کے انٹرویو اور فوٹو لیے۔ بعض حکّام بھی آئے اور تسلّی دی کہ مخالفت پر کسی قسم کا اندیشہ نہ کریں۔ اب بھی آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے لیکن اب اُن کو پولیس سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ مختلف کالجوں کے طلبہ بھی آئے جو کہتے تھے کہ حضورؓ نے اُن سوالوں کا جواب بھی دیا ہے جن کا دوسرے علماء نہیں دے سکتے۔ اخبارات میں حضورؓ کے حوالے سے مضامین کثرت سے شائع ہورہے ہیں۔ اخبارات ہاتھوں ہاتھ بِک رہے ہیں کہ بعض پرچے اہل قافلہ کو تلاش کرنے پر بھی نہ مل سکے۔

جس صبح بیروت کے لیے روانہ ہونا تھا اُس سے پہلی رات گیارہ بج گئے لیکن وفود بیٹھے ہیں۔ کھانا شام سے رکھا ہے لیکن فرصت ہو تو کھائیں۔ ہوٹل والے بھی حیران ہیں کہ یہ کیسا انسان ہے دن اور رات بولتا ہے اور تھکتا نہیں۔ آخر پونے بارہ بجے حضورؓ نے فرمایا کہ نماز کا وقت جاتا ہے۔ اس پر نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ روانہ ہونے لگے۔ ایک مقناطیسی جذب ہے جس کا بیان کرنا بھی مشکل ہے۔

جب صبح کے وقت بیروت روانہ ہونے لگے تو بھی ہجوم ہوگیا اور بہت محبت سے وہ دیکھتے تھے۔ روانگی کے وقت بڑے شوق اور محبت سے مع السلام، مع السلام کہتے تھے۔ سٹیشن پر بھی غیرمعمولی ہجوم ہوگیا جو الوداع کہنے کو آیا تھا۔ پولیس کا سپاہی بھی ڈیوٹی پر ساتھ رہا اور گاڑی جس سٹیشن پر بھی رکتی وہاں بھی کثرت سے لوگ آتے جن کو کسی نہ کسی ذریعے سے حضورؓ کی آمد کا علم ہوچکا تھا۔ حضورؓ کا روحانی جذب بہت بڑھا ہوا ہے ورنہ اس طرح تو لوگ شاید بادشاہوں کو بھی دیکھنے نہ آتے ہوں گے۔

صبح روانہ ہونے سے قبل بھی ملاقاتی اور ایک اخبار کے مدیر آگئے جو تصویر بھی لینا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے حضورؓ ناشتہ بھی نہ کرسکے تھے۔ آٹھ گھنٹے کے گاڑی کے سفر میں بھی مسلسل مصروفیت رہی۔ بیروت پہنچے تو حضورؓ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ رات کو بخار بھی ہوگیا۔ اگلی صبح طبیعت کچھ بہتر ہونے لگی۔ دوپہر کو حضورؓ بیروت کی سیر کے لیے کار میں تشریف لے گئے اور اسی روز بذریعہ کار حیفا کو روانہ ہوگئے۔ راستے میں محمد علی بہائی سے بھی ملاقات کے لیے رُکے۔ وہ اُسی مکان میں مقیم ہیں جس میں ان کے والد بہاءاللہ رہتے تھے۔ وہ فارسی اور عربی جانتے تھے اور بہت خوشخط تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بابؔ کا مزار حیفا میں ہے اور تحقیق یہی ہے کہ ان کا جسم مزار میں مدفون ہے، البتہ بہاءاللہ کا مزار یہاں ہی ہے جو بہاءاللہ کے ایک نواسےکے قبضے میں ہے جسے آپ چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے اپنا نوکر بھیجا تو مزار کے موالیوں نے انکار کردیا کہ وہ رات کو مزار نہیں کھولیں گے۔

رات کو حضورؓ حیفا پہنچے اور اگلی صبح پورٹ سعید کی طرف روانہ ہوئے۔ رات گیارہ بجے گاڑی پورٹ سعید پہنچی۔ اگلے روز وہاں سے بذریعہ بحری جہاز روانہ ہوئے۔ دوران سفر حضورؓ کی طبیعت مختلف عوارض کی وجہ سے کافی خراب رہی۔ اس دوران حضورؓ نے قادیان سے آئی ہوئی ڈاک ملاحظہ فرمائی، کچھ پیغامات بھجوائے اور ایک نظم بھی کہی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

اہلِ پیغام! یہ معلوم ہوا ہے مجھ کو

بعض احبابِ وفاکیش کی تحریروں سے

میرے آتے ہی اِدھر تم پہ کھُلا ہے یہ راز

تم بھی میدانِ دلائل کے ہو رَن بِیروں سے

تم میں وہ زور وہ طاقت ہے اگر چاہو تو

چھلنی کر سکتے ہو تم پشتِ عَدُو تِیروں سے

آزمائش کے لیے تم نے چُنا ہے مجھ کو

پشت پر ٹوٹ پڑے ہو مری شمشیروں سے

حق تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں مَیں یاد رہے

وہ بچائے گا مجھے سارے خطا گیروں سے

پھیر لو جتنی جماعت ہے مری بیعت میں

باندھ لو ساروں کو تم مکروں کی زنجیروں سے

پھر بھی مغلوب رہو گے مرے تا یومُ البَعْث

ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں سے

جن کی تائید میں مولیٰ ہو انہیں کس کا ڈر

کبھی صیاد بھی ڈر سکتے ہیں نخچیروں سے

۱۶؍اگست کو حضورکا جہاز اٹلی کی بندرگار برنڈزی پہنچا۔ وہاں سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوکر اگلے روز روم پہنچے۔ یہاں حضورؓ نے رومیوں کے پرانے حمام، اصحاب الکہف کے کھنڈرات نیز دیگر مشہور تاریخی مقامات دیکھے۔ روم میں حضورؓ سے ایک اخباری نمائندے نے انٹرویو کرتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ عالمگیر صلح کس طرح ممکن ہے؟ حضورؓ نے تفصیلی جواب میں فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا نام اللہ تعالیٰ نے امن و صلح کا شاہزادہ رکھا ہے۔ اور آئندہ دنیا کا امن آپؑ کی ذات سے ہی وابستہ ہے۔

روم میں اٹلی کے حکمران میسو لینی نے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا جبکہ پوپ کے مکان کی مرمّت کے باعث اُن کی طرف سے ملاقات سے معذرت کی گئی۔

روم سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوکر فرانس کی بندرگاہ Calais پہنچے۔ جہاں سے بذریعہ جہاز سمندر عبور کیا اور ڈوور پہنچ کر پھر ٹرین کے ذریعے ۲۲؍اگست کی شام کو مع قافلہ لندن پہنچے۔ جب حضور کی گاڑی وکٹوریہ سٹیشن پر پہنچی توحضور نے پلیٹ فارم پر دعاکروائی۔ اس کے بعد سٹیشن سے باہر نکل کر لندن کے سینٹ پال کے گرجا کے صحن میں اسلام کی فتح اور کسرِصلیب کے لیے لمبی دعا کی۔لند ن میں حضور کا قیامChesham Place میں ایک کرایہ کے مکان میں تھا۔

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیّر نے لندن میں ۲۸؍اگست کو اخباری نمائندوں کی کانفرنس بلائی جس میں دیگر معززین کے علاوہ کرنل ینگ ہسبنڈ جو انگلستان کی جیوگرافیکل سوسائٹی کے صدر اور مذاہب کا نفرنس کی انتظامیہ میں شامل تھے اور مسز شارپلز (Sharples)جو مذاہب کانفرنس کی سیکرٹری تھیں، بھی شریک ہوئیں۔ اس کانفرنس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ایک پیغام حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے پڑھ کر سنایا۔یہ پیغام کانفرنس سے معاً پہلے حضورنے اردو میں تحریر فرمایاتھا اور حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے اُسے دیکھ کر مو قعہ پر ہی انگریزی میں ترجمہ سُنایا۔ حضورؓ نے اس پیغام میں فرمایا: ’’میں اُس محبت اور اخلاص کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے رکھتا ہوں اور جو میں سمجھتا ہوں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی محبت اور اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے، انگلستان آیا ہوں … میں اہل انگلستان سے امید کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے اُس شخص کے دعویٰ پر غور کریں گے جو یہ کہتا تھا کہ خداتعالیٰ اُس سے اس طرح بولتا تھا جس طرح وہ پہلے نبیوں سے بولا۔ اور مَیں اُن کو یقین دلاتا ہوںکہ اگر وہ اُس کی طرف توجہ کریں گے تووہ اُسی طرح خدا کا جلال اپنے اندر پائیں گے، اور اُس کا کلام سنیں گے جس طرح کہ پہلے نبیوں کے حواریوں نے محسوس کیا اور سُنا۔‘‘

جمعہ ۲۹؍اگست کو حضورؓ برائٹن (Brighton) کارپوریشن کی دعوت پر برائٹن تشریف لے گئے۔ یہ جگہ مسجد فضل لندن سے قریباً ۵۰ میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہاں جنگ عظیم اول میں زخمی ہونے والے ہندوستانی فوجیوں کے علاج کے لیے ایک شاہی ایوان کو ہسپتال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور جو سپاہی فوت ہوئے تھے ان کی یادگار کے طور پر ایک بلند مقام پر سنگ مرمر کی چھتری تعمیر کی گئی تھی۔ حضور اس جگہ تشریف لے گئے اور خدام سمیت لمبی دعا کروائی۔ حضور نے دعاسے پہلے فرمایا:’’یہ نشان ہندوستان کی ان قوموں کی متحدہ یادگا ر ہے جنہوں نے جنگ عظیم میں اپنے بادشاہ کی خدمت کی تھی… اور اس میں انہوں نے جان دی۔ یہ یادگار چھوٹے سے رنگ میں دنیا کو ایک مقصد کے لیے جمع کرنے کا ایک نشان ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ دنیا کو دین واحد پر جمع کرنے کے لئے آئے تھے اور یہ عظیم الشان مقصد ہے ۔ یہی ایک مقصد کے لئے جمع کرنے کی یادگار ہمارے مقصدِ عظیم کا ایک چھوٹا سا نشان ہے… اس لئے میرا ارادہ ہے کہ میں اس مقام پر ایک دعا کروں اور وہ دعا اس رنگ میں ہوگی کہ جس طرح پر یہ ایک نشان ہے ان لوگوں کا جو دنیا کی ایک غرض کے لیے باہم متحد ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ اُس عظیم الشان چھتری کو جو مسیح موعودؑ کی چھتری ہے، قائم کردے۔ اور مشرقی اور مغربی لوگ اس حقیقی چھتری کے نیچے جمع ہو جاویں۔‘‘

حضورؓ نے قریب ہی واقع ایڈورڈ فورتھ کا ہال دیکھا جس میں دو جگہ لَاغَالِب اِلَّااللّٰہ اور متعدّد مقامات پر چاند ستارے کا نشان بھی موجود ہے۔ شام کو برائٹن سے واپسی ہوئی۔ اگلے روز کے اخبارات نے حضورؓ کی شخصیت، روحانیت اور ایڈریس کے مضمون کی خوبیوں کو بہت نمایاں شائع کیا۔ اسی طرح حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کے ترجمہ کی زبان دانی اور پڑھنے کے طریق کی بہت تعریف کی۔ دو اخبارات نے تو مکمل ایڈریس شائع کیا۔

اگلے روز انگلش مسلم ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ملاقات کے لیے آئے۔ ہمارے مولوی نیّر صاحب نے اُس سے کسی معاملہ میں لجاجت سے کوئی درخواستِ امداد کسی رنگ میں کی جس کو حضورؓ نے بہت ہی ناپسند فرمایا اور فرمایا کہ یہ تو وقار کو صدمہ پہنچانے والا طریق ہے جو ہمیں قطعاً پسند نہیں۔

۳۱؍اگست کو دو خواتین مسز ڈین اور اُن کی بہن نے حاضر ہوکر بیعت کی۔ حضورؓ کا خیال ہے کہ ان ممالک میں اسلام عورتوں کے ذریعہ سے ان شاءاللہ جلدی پھیلے گا۔ اگر دو چار عورتیں بھی پکّی اور راسخ الایمان ہمیں میسر آجائیں تو پھر ان شاءاللہ جاگ لگتی جائے گی۔

ایک دہریہ عورت بھی اپنی بیٹی کے ساتھ آئی جس کے خیالات اور صاف گوئی کی صفت دیکھ کر حضورؓ نے فرمایا کہ ان کی صاف گوئی بھی ایک صفت ہے مگر اگر ان کو سمجھ آجائے کہ حقیقتاً کوئی خدا ہے تو پھر ان شاءاللہ خدا کو بھی اسی صفائی اور پختگی سے مانیں گی اور دل سے مسلمان ہوں گی۔

حضورؓ سے ملاقات کے لیے اکثر اخباری نمائندے اور دیگر معزّزین تشریف لاتے رہے۔ حضورؓ نے اپنی ایک رؤیا بھی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کام کو اپنے فضل سے بڑھائےگا، نہ کہ ہماری کوشش اس میں ہوگی۔ حضورؓ کئی روز سے بیمار بھی ہیں لیکن متواتر سخت محنت فرماتے ہیں۔ مضمون جو کانفرنس میں پڑھا جائے گا اُس کو مکمل کرکے اب حضرت چودھری صاحبؓ ترجمہ کررہے ہیں۔ اسی دوران قادیان سے بذریعہ تار یہ اطلاع ملی کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحبؓ کو کابل میں ظالمانہ طور پر سنگسار کرکے شہید کردیا گیا ہے۔ حضورؓ کو بہت ہی صدمہ ہوا اور چند دوستوں کو مختلف اخباروں کے دفاتر میں رپورٹ کرنے کے لیے بھجوایا اور پھر کمرہ بند کرکے دعا میں مصروف رہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ حکومتِ کابل نے غداری کی ہے۔ مذہبی آزادی کا اعلان کرکے اور ہمارے لوگوں کو خود بلواکر یہ دغا کی ہے۔ ان وحشیانہ مظالم کی لندن میں ہرممکن تشہیر کی جائے اور تمام مہذّب ممالک کی حکومتوں کو تاریں دی جائیں۔ تار کا مضمون حضورؓ نے بیان فرمایا۔

۵؍ستمبر کو نماز جمعہ کے لیے حضورؓ مسجد پٹنی (بعدازاں یہاں مسجد فضل تعمیر ہوئی) تشریف لائے۔ پھر اتوار کو یہاں مہمانوں کو مدعو کرکے لیکچر بھی دیا گیا۔ قریباً ایک سو مہمان آئے تھے۔ ترک سفیر بھی اپنے نائب کے ساتھ تشریف لائے جن سے حضورؓ نے عربی میں باتیں کیں۔ حضورؓ کے ایڈریس کا انگریزی ترجمہ حضرت چودھری صاحبؓ نے پڑھا۔ بعدازاں مہمانوں سے لمبا وقت ملاقاتیں جاری رہیں۔ حضورؓ انگریزی میں بات چیت کرتے رہے۔ چند بہائی انگریز عورتیں بھی آئیں۔ ایک نے تعدّد ازدواج پر اعتراض کیا تو حضورؓ نے تفصیلی جواب میں یہ بھی فرمایا کہ خود تمہارے بہاءاللہ کی دو بیویاں تھیں۔ کچھ دیر بحث کے بعد وہ کہنے لگی کہ ہم تو اُس کو مسلمان سمجھ کر اس کی پیروی کرتی ہیں لیکن اگر وہ مسلمان نہیں ہے تو پھر ہمارا اُس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ حضورؓ نے انہیں فرمایا کہ دراصل تمہیں اپنے عقائد کا بھی علم نہیں ہے۔

حضورؓ نے ۹؍ستمبر ۱۹۲۴ء کی شب ایسٹ اور ویسٹ یونین کے اجلاس میں یونین کے صدر مسٹر داس گپتا (Mr. Das Gupta) کی درخواست پر شرکت فرمائی۔ جو مختصر لیکچر حضور نے اس تقریب کے لئے تحریر فرمایا تھا ( اور محترم چودھری محمد ظفراللہ خانصاب نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا) وہ لیکچر حضورنے بنفس نفیس پڑھ کر سنایا ۔ حضور کا انگلستا ن میں یہ پہلا خطاب تھا جو حضور نے خود انگریزی زبان میں ارشاد فرمایا۔ حضور نے یہ خطاب گلڈ ہائوس میں فرمایا۔ حضور نے اپنے لیکچر میں سوسائٹی کے اغراض و مقاصد کی تعریف کی یعنی مشرق و مغرب کے درمیان اتفاق اور محبت قائم کرنا۔ نیز فرمایا:

’’دین کا امن دنیا کے لوگوں کے ذریعہ نہیں ہوسکتا کیونکہ صلح کرانے والایا مغربی ہوگا یا مشرقی اس وجہ سے ایک یا دوسری قوم اُس کو شک کی نگاہوں سے دیکھے گی۔ صلح اُس ہستی کی طرف سے ہوسکتی ہے جو نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی بلکہ سب جہتوں سے پاک ہے اُس ذات کی طرف قدم بڑھانے سے ہم درحقیقت ایک دوسرے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور جو اُس کی طرف سے آئے وہی ہم کو جمع کرسکتا ہے کیونکہ وہ جو آسمان کی طرف سے آتا ہے وہ مشرقی یا مغربی نہیں کہلا سکتا بلکہ جو اُس سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی مشرقی اور مغربی کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں…

بہنو اور بھائیو ! آئو ہم اپنی نظر کو اونچا کریں اور دیکھیں کہ ہم اس دنیا کے ساتھ، جو سورج کے گر د زمین کی گردش کی وجہ سے مشرق و مغرب میں منقسم ہے، تعلق نہیں رکھتے بلکہ ہماری جگہ بہت وسیع ہے ہم اس خدا سے تعلق رکھتے ہیںجو تمام عالم کا پیدا کرنے والا ہے ۔ پس ہمارا مقام سورج سے بھی اونچا ہے اور مشرق و مغر ب ہمارے غلام ہیں۔ ہم سمجھ دار ہو کر ان باتوں سے کیوں متاثر ہوں جو نسبتی اور وہمی ہیں۔ مشرق ومغرب کا سوال لوگوں کے امن کو برباد کر رہا ہے۔… آئو ہم اپنے آپ کو ان وہموں سے اونچا ثابت کریں اور اُس مرکز خلق کی طرف توجہ کریں جو سب کو جمع کرنے والا ہے۔‘‘

۱۴؍ستمبر کو حضورؓ پورٹ سمتھ تشریف لے گئے جہاں ایک گرجے میں حضورؓ نے ایک لیکچر انگریزی زبان میں دیا جس میں قریباً ستّر افراد شریک ہوئے۔ پادری نے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ نہایت خوش قسمتی ہے کہ ایک ایسا پاک انسان آج ہم میں آیا ہے جس کے والد بزرگوار اس زمانے کے نبی اور ریفارمر تھے اسی طرح جس طرح کہ لارڈ حضرت محمدؐ اور لارڈ مسیحؑ نبی تھے۔ پورٹ سمتھ میں چھ انگریز احمدی ہیں۔ تقریب کے بعد حضورؓ نے ہوٹل میں اُن کی دعوت کی اور چند گھنٹے انگریزی میں اُن سے بات چیت فرماتے رہے۔

۱۷؍ستمبر کو حضرت نعمت اللہ شہید افغانستان کی شہادت پر احتجاج کے لیے بھی ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ حضورؓ کے خطاب کے بعد چند مہمانوں نے اظہارِ خیال کیا اور اس ظلم کے خلاف چند قراردادیں منظور کی گئیں۔

۲۳؍ ستمبر۱۹۲۴ء کادن سرزمین انگلستان کا وہ سنہری دن ہے جب امپیریل انسٹی ٹیوٹ لندن میں منعقدہ کانفرنس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے رقم فرمودہ مضمون کا انگریزی ترجمہ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے پڑھ کر سُنایا۔ اجلاس سر تھیو ڈور ماریسن (Sir Theodore Morison) کی صدارت میں ہوا۔ اگرچہ حضور کے مقالہ کا وقت پانچ بجے شام مقرر کیا گیا تھا اور سامعین اس سے قبل اڑھائی گھنٹے تک اسلام کے بارہ میں چند لیکچرز سن بھی چکے تھے لیکن حضور کا وقت شروع ہونے پر نہ صرف یہ کہ موجود سامعین اپنی جگہ سے نہ ہلے بلکہ بہت سے نئے لوگ ہال میں آگئے اور ہال کھچاکھچ بھر گیا۔ حضور مع خدام سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ صاحب صدر کی طرف سے دعوتِ خطاب پر حضور نے کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ حضور کا مضمون حضور کے مرید چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بارایٹ لاء پڑھ کر سنائیں گے اور ازراہ شفقت حضور نے محترم چودھری صاحب کے کان میں فرمایا: ’’گھبرانا نہیں۔ مَیں دُعا کروں گا۔‘‘

حضرت چودھری صاحبؓ نے نہایت عمدہ لہجہ میں اور بہت روانی کے ساتھ مضمون پڑھا جس سے حاضرین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی مضمون میں مختلف پہلوئوں سے اسلامی تعلیمات ، غلامی، سود، تعددازدواج وغیرہ امور پر نہایت مؤثر رنگ میں روشنی ڈالی گئی تھی، تمام مردوں اور خواتین نے نہایت محویت کے عالم میں مضمون سنا اور مضمون ختم ہونے پر ہرایک نے لمبے وقت تک دادو تحسین کا اظہار کیا حتیٰ کہ صاحب صدر کو اپنی صدارتی تقریر شروع کرنے میں دیر لگ گئی۔ مسٹر تھیو ڈور ماریسن صدر اجلاس نے شاندار الفاظ میں حضورؓکو مضمون کی نہایت اعلیٰ کامیابی پر مبارک باد دی اور اقرار کیا کہ حضور کا مضمون بہترین مضمون تھا۔

اس کانفرنس میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کا تصوّف کے بارے میں مضمون حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ نے پڑھ کر سنایا۔ اس مضمون کی بھی بےانتہا تعریف کی گئی اور بےحد دلچسپی سے سنا گیا۔ دراصل یہ مضمون بھی حضورؓ کی ہدایات اور ارشادات کی روشنی میں ہی لکھا گیا تھا۔

کانفرنس میں دیگر فرقوں کے کئی لیکچر ہوئے جن کا خلاصہ اور جلسہ کی کارروائی کی رپورٹ بھی حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ نے اپنی ڈائری میں رقم فرمائی ہے۔

اس کے بعد بھی حضورؓ نے کئی ایسی پبلک میٹنگز سے خطاب فرمایا جن میں قومی سطح کے معزّزین بھی شامل تھے۔ خطبات جمعہ بھی ارشاد فرمائے۔ خدام کے ساتھ مجالس عرفان منعقد ہوئیں اور مہمانوں کے ساتھ مجالس سوال و جواب کا انعقاد ہوا۔ مختلف مواقع پر بعض حوالوں سے نہایت قیمتی نصائح بھی ارشاد فرمائیں۔ غرض حضورؓ کے شب و روز کا کسی قدر احوال اس ڈائری کا حصہ ہے۔ حضرت بھائی صاحبؓ کا انداز بیان نہایت رواں، سادہ و سلیس اور شستہ ہے۔ نیز تصنّع سے پاک اور مبنی برحقیقت ہونے کی وجہ سے دل و دماغ میں روحانی ارتعاش کے ساتھ ساتھ وہ تصویرکشی کردیتا ہے کہ قاری خود کو اُنہی پاکیزہ مجالس کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔

ابھی تک نصف سے کچھ زائد کتاب میں بیان کردہ ڈائری سے کچھ پیش کیا جاچکا ہے۔ دیگر اہم واقعات میں کرنل ڈگلس کی حضورؓ سے ملاقات بھی شامل ہے جو ۲۱؍ستمبر۱۹۲۴ء کوہوئی۔ کرنل ڈگلس تشریف لائے تو باربار اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ یہ میرے ایک بہت دیرینہ دوست کے صاحبزادہ ہیں۔ انہوں نے حضورؓ سے اردو میں کہا کہ یقین جانیے، آپ کا شریف النفس باپ میر اہردلعزیز دوست تھا۔

پھر لندن میں پہلی مسجد یعنی مسجد فضل کے سنگ بنیاد کی تقریب کا احوال بھی بیان ہے جو ۱۹؍اکتوبر کو منعقد ہوئی۔

اسی طرح یورپ کے دو دیگر ممالک یعنی فرانس اور اٹلی کے سفر کی کچھ تفصیل بھی بیان ہوئی ہے۔ حضورؓ نے پیرس سے اٹلی تک کا سفر بذریعہ ٹرین فرمایا تھا۔ اور اس دوران بہت سی تبلیغی مصروفیات بھی جاری رہیں۔ بلکہ تبلیغی نشستیں سمندری سفر کے دوران بھی جاری رہیں۔ اٹلی سے بحری جہاز میں واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس سفر میں پُرلطف مجالس عرفان جاری رہیں۔ ایک ایسی ہی مجلس میں سب نے کوئی نہ کوئی نظم سنائی۔ حضورؓ نے بھی غالبؔ کے چند اشعار

’’اے تازہ واردان بساط ہوائے دل‘‘

ایسے لہجے میں پڑھے کہ دل سے درد اٹھتا تھا۔

ایک موقع پر مبلغین کے مخصوص لباس کا ذکر ہوا تو حضورؓ نے فرمایا کہ ہمارے مبلغ خاص پرسنیلٹی کے ہوتے ہیں جبھی تو اُن کو ایک ایسے اہم ذمہ داری کے کام پر لگایا جاتا ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو ایسا بناکر رکھیں کہ اُن پر کوئی اعتراض نہ آئے اور نہ کسی کو جرأت ہو۔ اُن کو خدا نے ہر قسم کے علوم کا ذخیرہ دے کر ترقی کرنے اور اعلیٰ مدارج پر پہنچنے کے سامان پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ چاہیں تو علم، اخلاق میں، تربیت میںا ور کیریکٹر میں اپنی پوزیشن کو ایسا بناسکتے ہیں کہ تمام لوگ ان کا اعزاز کریں، اُن کا اکرام کریں۔

۱۸؍نومبر کو جہاز بمبئی پہنچا۔ کئی شہروں سے احمدی اپنے آقا کا استقبال کرنے کے لیے بندرگاہ پر آئے ہوئے تھے۔ حضورؓ نے ایک لمبی دعا کے ساتھ سرزمین ہند پر قدم رکھا۔ بعض فوٹوگرافر اور اخبارات کے نمائندے بھی موجود تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے جماعت کی طرف سے ایڈریس پیش کیا جس کا حضورؓ نے جواب دیا۔ پھر کئی دیگر شہروں کی طرف سے ایڈریس پیش کیے جاتے رہے۔ جن کے جوابات دیتے ہوئے حضورؓ نے جو گراں قدر نصائح جماعت کو فرمائیں وہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

محترم قارئین! اب تک حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحبؓ کی ڈائری کے حوالے سے ہی مختصراً عرض کیا گیا ہے لیکن دراصل یہ ایسا عظیم الشان سفر تھا جس میں انگلستان کی روحانی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ اس عظیم الشان تاریخی سفر میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس کو ’تاریخ احمدیت‘ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جاتا رہے گا۔ یہ پُرحکمت واقعہ انگلستان میں مقیم ہر احمدی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعے کا پس منظر یہ تھا کہ ۱۰۶۶ء میں ولیم ڈیوک آف نارمنڈی نے جو بعد میں ’’فاتح ولیم‘‘ (William the Conqueror) کے نام سے مشہور ہوا، نارمن لشکر کی مدد سے انگلستان پر حملہ کر دیا اور اسے فتح کرلیا۔ ولیم جب انگلستان کے ساحل پر اُترا تو نرم ریت پر پاؤں پڑنے کی وجہ سے اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کے سہارے آگے کی طر ف گرگیا۔ یہ واقعہ اُس کے لیے نیز اس کے لشکر کے لیے اچھا شگون نہیں تھا کیونکہ اس کی وجہ سے لشکر کے اندر بد دلی کی کیفیت پیدا ہوسکتی تھی۔ اس نازک موقعہ پر اُ س نے اپنے حواس قائم رکھے اور جب وہ اُٹھا تو اس کے ہاتھوں کی مٹھیوں میں ریت پکڑی ہوئی تھی۔ اُس نے اپنی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز سے کہا: ’’دیکھو! انگلستان کی زمین میرے ہاتھوں میں ہے۔‘‘

اس نوعیت کا ایک واقعہ اسلامی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کی بات ہے ، مسلمانوں اور ایرانیوں میں جنگ قادسیہ ہونے والی تھی۔ اسلامی لشکر کے سردار حضرت سعد بِن ابی وقاصؓ تھے۔ خلیفہ وقت کی ہدایت کے مطابق حضرت سعدؓ نے ایک مختصر سا وفد حضرت مغیرہ بن زرارہ کی قیادت میں شاہ ایران کسریٰ یزد جرد کے پاس مصالحت کے لیے بھجوایا۔ بادشاہ ان کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آیا اور اسلامی لشکر کے افسران کو اور ہر ایک سپاہی کو اِس شرط پر کچھ رقم دینے کی پیشکش کی کہ وہ بغیر جنگ کے واپس لَوٹ جائیں۔ وفد نے یہ پیشکش مکمل طور پر ٹھکرا دی جِس پر بادشاہ طیش میں آگیا۔ اُس نے مٹی کا ایک بورا منگوایا اور وفد کے سردار کے کندھے پر رکھواتے ہوئے کہا کہ اب تمہیں اِس خاک کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ وفد کے سردارنے بڑے اطمینان کے ساتھ مٹی کا وہ بورا اپنے کندھوں پر رکھوالیا اور بلند آواز کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ چلو! بادشاہ نے خود اپنے ہاتھوں سے ایران کی زمین ہمارے حوالے کردی ہے‘‘۔ بادشاہ مشرک تھا اور مشرک وہمی ہوتا ہے اس لیے وہ گھبرا گیا اور وفد کو روکنے کی کوشش کی تاکہ وہ مٹی کا بورا اُن سے واپس چھین لے لیکن وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگاتے ہوئے اس کی دسترس سے باہر نکل گئے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک رؤیا میں اپنے آپ کو انگلستان کے ساحل پر فوجی لباس میں دیکھا تھا۔ آپؓ نے دیکھا کہ حضور ؓ ایک فاتح جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر دوڑا رہے ہیں کہ اتنے میں ایک آواز آئی ’’ولیم دی کانکرر‘‘ (William the Conqueror) ۔ حضور ؓ فرماتے ہیں کہ اُس وقت مَیں یوں محسوس کرتا ہوں جیسے یہ آواز اور میری روح ایک ہی وجود ہیں۔ اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ جِس طرح ولیم نے انگلستان پر مادی فتح حاصل کی تھی اسی طرح جماعت احمدیہ اسلامیہ اس پر روحانی فتح حاصل کرے گی۔ اِن شاء اللہ العزیز

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ خلفائے احمدیت میں وہ پہلے بابرکت وجود تھے جنہوں نے بنفس نفیس تشریف لاکر سرزمین انگلستان کو برکت بخشی۔ اس عظیم الشان واقعے پر ایک صدی گزرنے کو ہے۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس سفر کو انگلستان کی روحانی فتح کی بنیاد قرار دیا تھا۔ چنانچہ حضورؓ اس حوالے سے فرماتے ہیں:

’’خداتعالیٰ کے فضل سے انگلستان کی روحانی فتح شروع ہوچکی ہے۔ … جو کچھ مَیں کہتا ہوں وہ ایک روحانی امر ہے جس کو صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جن کی روحانی آنکھیں ہوں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس بادشاہ نے جس کے قبضہ میں تمام عالم کی باگ ہے۔ مجھے رؤیا میں بتایا ہے کہ میں انگلستان گیا ہوں اور ایک فاتح جرنیل کی طرح اُس میں داخل ہوا ہوں اور اُس وقت میرا نام ’’ولیم فاتح‘‘ رکھاگیا … مَیں اس خواب کی بِنا پر یقین رکھتا تھا کہ انگلستان کی روحانی فتح صرف میرے انگلستان جانے سے وابستہ ہے۔ اور اب میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے آسماں پر اُس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہوجائے گا۔ … انگلستان فتح ہوچکا۔ خدا کا وعدہ پورا ہوگیا اُس کی فتح کی شرط آسمان پر یہ تقدیر تھی کہ مَیں انگلستان آؤں ۔ سومَیں خدا کے فضل سے انگلستان پہنچ گیا ہوں ۔ اب اس کارروائی کی ابتداء انشاءاللہ شروع ہوجائے گی اور اپنے وقت پردوسرے لوگ بھی انشاء اللہ دیکھ لیں گے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان بتاریخ ۴؍اکتوبر۱۹۲۴ء)

یہ امرواقعہ ہے کہ حضورؓ کے اس پہلے سفرِ انگلستان کے دوران کئی جہتوں سے جماعت احمدیہ کی ترقیات کی بنیاد رکھ دی گئی تھی اور آئندہ آنے والی نسلوں کو نہایت پُرحکمت پیغام دیتے ہوئے اُن کی راہ عمل بھی طے کردی گئی تھی۔ چنانچہ یہ واقعہ پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں ولولہ اور اُن کی روحوں میں ہمیشہ ارتعاش پیدا کرتا چلاجائے گا کہ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ ۲؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ’’ولیم فاتح ‘‘ والا اپنا رؤیا پورا کرنے کی نیت سے خلیج پیونسی (Bay of Pevensey) تشریف لے گئے اور وہاں سے ایک کشتی کے ذریعہ اُس تاریخی مقام پر پہنچے جہاں ’’ولیم دی کنکرر‘‘ اتراتھا۔ حضورؓ نے ایک فاتح جرنیل کی طرح چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ، حضرت مولانا دردؔ صاحب اور مسٹر خالد شیلڈرک حضور کے ہمراہ تھے۔حضرت بھائی جیؓ بیان فرماتے ہیں:’’اُس وقت آپ کے چہرہ پر جلال اور شوکت تھی مگر اس کے ساتھ ایک ربودگی ملی ہوئی تھی۔ اس کے بعد خاموشی کے ساتھ آپ نے دعا کی اس مقام کے ساتھ ہی ویلٹائین نام ایک بُرج سا ہے جس پر ایک توپ رکھی ہوئی ہے پھرآپ نے نماز قصر کرکے پڑھی اور اُس میں لمبی دعا کی ۔ اور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر پتھر کے سنگریزوں کی مٹھیاں بھریں اور فرمایا کسریٰ کے دربار میں ایک صحابی کو مٹی دی گئی تو صحابی نے مبارک فال لیا کہ کسریٰ کاملک مل گیا اور لے کررخصت ہوا۔… اور خدا نے وہ سرزمین صحابہ ؓکو دے دی اس مبارک فال پر۔ بھائی جی اور درد صاحب نے ان سنگریزوں کی دو دو مٹھیاں بھر کر جیب میں ڈال لیں۔‘‘(اخبار الفضل قادیان بتاریخ ۲۰؍ نومبر ۱۹۲۴ء)

قارئین محترم! انگلستان کی سرزمین پر رقم ہونے والی یہ پاکیزہ داستان چند سال پہلے کی بات نہیں ہے، نہ ہی دو چار دہائیوں کا قصہ ہے۔ بلکہ قریباً ایک صدی پہلے وہ گھڑی آئی تھی جب آسمانی بادشاہت کے مقدس نمائندے نے یہ اعلان کیا تھا کہ آسمان پر انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہوجائے گا۔ پس ہمارے لیے یہ بہت سوچنے، غوروفکر کرنے اور اپنے کردار کا دیانتداری سے جائزہ لینے کا مقام ہے کہ آج قریباً ایک صدی گزرجانے کے بعد، اگر آج تیسری چوتھی نسل کے ایک نئے موڑ پر ہم تاریخ کے اوراق میں درج خوشخبریوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرپارہے، اگر ابھی تک ہم نے اپنے مقدّس خلفاء کی آواز مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ پر لبّیک کہتے ہوئے نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ کی صدا بلند نہیں کی، اگر ابھی تک ہم نے اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بار بار یاددہانیوں کے باوجود اپنے عہد بیعت کو نبھانے کے لیے، دعوت الی اللہ کے اس عظیم الشان کام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفائے عظام کا مددگار بننے کے لیے، اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے میدان عمل میں اُترنے کا قصد نہیں کیا، تو کیا ہم حقیقی احمدی کہلانے کے حقدار ہیں؟

انگلستان میں رہنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ حضورؓ کے رؤیا کی عملی تعبیر کے لیے ایک عزم صمیم کے ساتھ کوشش کرے اور دعوت الی اللہ کے لیے ہرممکن جدوجہد کرتا چلاجائے یہاں تک کہ دیارمغرب کے ہر باسی تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔

پیارے دوستو! اپنی زندگی کا باقی ماندہ عرصہ گزرجانے سے پہلے کچھ دیر کے لیے اعتکاف کیجیے اور اپنے مقصدِ حیات کا تعین کرنے کی سعی کیجیے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب تک ہم میں سے ہر شخص خلافتِ حقّہ کی مسند پر فائز اپنے امام ہمام، اُس بابرکت وجود کی آواز پر کماحقّہ لبیک نہیں کہے گا اور ایک عزم صمیم کے ساتھ اپنے اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا جو خداتعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے ہم اپنے ہر عہد بیعت کے موقع پر دہراتے چلے جاتے ہیں، تب تک دعوت الی اللہ کی راہ میں نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ کہنے کا حق ہم سے ادا نہیں ہوسکتا۔

خداتعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم حقیقی معنوں میں دین اسلام کی سربلندی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں اور سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ روح جس عالمی روحانی نقشے کو اپنی چشم تصوّر میں بساکر ہم سے رخصت ہوئی تھی، ہم بھی اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کرنے سے پہلے خلفائے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس روحانی جہاد میں اپنا عاجزانہ عمل پیش کرکے اپنے ربّ کے حضور سرخرو ہوجائیں۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی قلبی کیفیات کا ترجمان یہ شعر ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ

محمودؔ کرکے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار

رُوئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button