وہ حُسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا (قسط اوّل)
غیب کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، جیسا کہ سورۃ الحشر میں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَالشَّہَادَۃِ ۚ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ(الحشر:۲۳) وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ غیب کا جاننے والا ہے اور حاضر کا بھی۔ وہی ہے جو بِن مانگے دینے والا، بے انتہا رحم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اور اسی بنا پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے کہ وہ جس غیبی خبر کو چاہے ظاہر کرے اور جتنا چاہے ظاہر کرے۔اور اس کا اظہار سورت جنّ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا(الجن :۲۷)وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو غیب کی بےشمار خبریں بصورت الہامات و پیش خبریاں عطا فرمائیں۔ان میں ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے، جس کے ابتدائی حصہ کا اعلان ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کو ہوشیارپور سے فرمایا تھا۔(مجموعۂ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۹۵ تا ۹۷)
اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی حضورؑ (اور اُمّتِ مسلمہ) کے لیے ایک رحمت کے نشان کے طور پر ظاہر فرمائی تھی اور اس کے مندرجہ ذیل سات اغراض تھے:
۱۔جو زندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں۔
۲۔تا دینِ اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔
۳۔تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔
۴۔تا لوگ سمجھیں کہ خدا قادر ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
۵۔اور تا وہ یقین لائیں کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے۔
۶۔اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اُس کے دین اور اُس کی کتاب اور اُس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے۔
۷۔اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔
(الموعود، انوارالعلوم جلد ۱۷ صفحہ ۴۹۵ تا ۴۹۶)
اس پیشگوئی میں عظیم الشان صفات سے متّصف ایک اولوالعزم خادمِ دین بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی۔یہ پیشگوئی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی صورت میں پوری ہوئی اور آپؓ جماعت میں ’’مصلح موعود‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔پسرِ موعود کے بارےمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مختلف پیشگوئیوں کو یکجائی طور پر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’مصلح موعود‘‘ کی پہچان کے لیے اللہ تعالیٰ نے باون۵۲ علامات بیان فرمائیں۔(الموعود، انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ ۵۲۹)
اس مضمون میں خاکسار ان علامات میں سے صرف ایک علامت کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے سینتالیسویں نمبر پر بیان فرمائی ہے۔ (الموعود، انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ ۵۳۱)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت مصلح موعودؓ کے بارےمیں یہ بھی خبر دی تھی کہ وہ حُسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۴۲)
سب سے پہلے خاکسار ’’حُسن و احسان‘‘ کے باہمی تعلق کے بارےمیں کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔یہ دونوں الفاظ یعنی حُسن اور احسان آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں اور یہ تعلق عبادت الٰہی، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔
آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی نمازوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہؓ نے لفظ ’’حُسن‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اُن کے حُسن اور لمبائی کا کیا کہنا۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الایمان)
اور لفظ ’’احسان‘‘ کا استعمال آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے عبادت کے تعلق میں ان الفاظ میں فرمایا کہ ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الایمان)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ان دونوں الفاظ کا باہم تعلق ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ’’دوسرا وسیلہ خدا تعالیٰ کے اس حُسن و جمال پر اطلاع پانا ہے جو باعتبار کمال تام کے اس میں پایا جاتا ہے۔کیونکہ حُسن ایک ایسی چیز ہے جو بالطبع دل اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کے مشاہدہ سے طبعاً محبت پیدا ہوتی ہے۔تو حُسن باری تعالیٰ اس کی واحدانیت اور اس کی عظمت اور بزرگی اور صفات ہیں جیسا کہ قرآن شریف نے یہ فرمایا ہے۔ قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔اَللّٰہُ الصَّمَدٌ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَلَمۡ یُوۡلَدۡ وَلَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔(الاخلاص:۲تا۵) یعنی خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔سب اس کے حاجت مند ہیں۔ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے۔وہ کل چیزوں کے لیے مبدء فیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں۔وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں۔قرآن نے بار بار خدا کا کمال پیش کرکے اور اس کی عظمتیں دکھلا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کا مرغوب ہے نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور کم قدرت۔
تیسرا وسیلہ جو مقصود حقیقی تک پہنچنے کے لیے دوسرے درجہ کا زینہ ہے۔خدا تعالیٰ کے احسان پر اطلاع پانا ہے۔کیونکہ محبت کی محرک دو ہی چیزیں ہیں حُسن یا احسان اور خدا تعالیٰ کی احسانی صفات کا خلاصہ سورۂ فاتحہ میں پایا جاتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ۔ (الفاتحہ:۲تا۴) کیونکہ ظاہر ہے کہ احسان کامل اِس میں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو محض نابود سے پیدا کرے اور پھر ہمیشہ اس کی ربوبیت ان کے شامل حال ہو اور وہی ہر ایک چیز کا آپ سہارا ہو اور پھر اس کی تمام قسم کی رحمتیں اس کے بندوں کے لیے ظہور میں آئی ہوں اور اس کا احسان بے انتہا ہو۔ جس کا کوئی شمار نہ کرسکے۔سو ایسے احسانوں کو خداتعالیٰ نے بار بار جتلایا ہے جیسا کہ ایک اور جگہ فرماتا ہے۔ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا یعنی اگر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہرگز گن نہ سکوگے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ۴۱۷-۴۱۸)
اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہایت لطیف پیرایہ میں یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ’’چونکہ خدا سے محبت کرنا اور اس کی محبت میں اعلیٰ مقام قرب تک پہنچنا ایک ایسا امر ہے جو کسی غیر کو اُس پر اطلاع نہیں ہو سکتی اس لیے خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال ظاہر کیے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درحقیقت تمام چیزوں پر خدا کو اختیارکر لیا تھا اور آپ کے ذرہ ذرہ اوررگ اور ریشہ میں خدا کی محبت اور خدا کی عظمت ایسے رچی ہوئی تھی کہ گویا آپ کا وجود خدا کی تجلّیات کے پورے مشاہدہ کے لیے ایک آئینہ کی طرح تھا۔ خدا کی محبت کاملہ کے آثار جس قدر عقل سوچ سکتی ہے وہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک شخص جو کسی دوسرے شخص سے محبت کرتا ہے وہ یا تواس کے کسی احسان کی وجہ سے اُس سے محبت کرتاہے اور یا اُس کے حسن کی وجہ سے کیونکہ جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے اُس وقت سے آج تک تمام بنی آدم کا متفق علیہ یہ تجربہ ہے کہ احسان محبت کی تحریک کرتا ہے اور باوجود اس کے کہ بنی آدم اپنی طبائع میں بہت سا اختلاف رکھتے ہیں تاہم جمیع افراد انسانی کے اندر یہ خاصیّت پائی جاتی ہے کہ وہ احسان سے ضرور بقدراپنی استعداد کے متاثر ہو کر مُحسن کی محبت دل میں پیدا کر لیتے ہیں یہاں تک کہ نہایت خسیس اور سنگدل اور کمینہ فرقہ انسانوں کاجو چور اور ڈاکو اور دیگر جرائم پیشہ لوگ ہیں جو بذریعہ مختلف قسم کے جرائم کے وجہ معاش پیدا کرتے ہیں وہ بھی احسان سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک چور جس کا نقب زنی کام ہے اگر اس کو رات کے وقت دو گھروں میں نقب لگانے کا موقع ملے اور ان دونوں میں سے ایک ایسا شخص ہو جو کبھی اس نے اس کے ساتھ نیکی کی تھی اور دوسرا محض اجنبی ہو تو اس چور کی فطرت باوجود سخت ناپاک ہونے کے ہرگز اس بات کو پسند نہیں کرے گی کہ نقب کے وقت اجنبی کے گھرکو تو عمداً چھوڑ دے اور اپنے اس دوست کے گھر میں نقب لگاوے بلکہ انسان تو انسان حیوانات اور درندوں میں بھی یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ احسان کرنے والے پر حملہ نہیں کرتے چنانچہ اس بارہ میں کتے کی سیرت اور خصلت اکثر انسانوں کے تجربہ میں آ چکی ہے کہ کس قدر وہ اپنے محسن کی اطاعت اختیار کرتا ہے پس اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ احسان موجب محبت ہے ایسا ہی حسن کا موجب محبت ہونا بھی ظاہر ہے کیونکہ حسن کے مشاہدہ میں ایک لذت ہے اور انسان ایسی چیز کی طرف طبعاً میل کرتا ہے جس سے اس کو لذت پیدا ہوتی ہے اورحسن سے مراد صرف جسمانی نقوش نہیں ہیں کہ آنکھ ایسی ہو اور ناک ایسا ہو اور پیشانی ایسی ہو اور رنگ ایسا ہو بلکہ اس سے مراد ایک ذاتی خوبی اور ذاتی کمال اور ذاتی لطافت ہے جو کمال اعتدال اوربے نظیری سے ایسے مرتبہ پر واقع ہو جو اس میں ایک کشش پیدا ہو جائے پس تمام وہ خوبیاں جن کو انسانی فطرت تعریف میں داخل کرتی ہے حسن میں داخل ہیں اور انسان کا دل ان کی طرف کھنچا جاتا ہے مثلاً ایک شخص ایک ایسا پہلوان بہادر سرآمدروزگار نکلا ہے کہ کوئی شخص کُشتی میں اُس کے ساتھ برابری نہیں کر سکتا اور نہ صرف اسی قدر بلکہ وہ شیروں کو بھی ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے اور میدان جنگ میں اپنی شجاعت اور طاقت سے ہزار آدمی کو بھی شکست دے سکتا ہے اور ہزاروں دشمنوں کے محاصرہ میں آ کر جان بچا کر نکل جاتا ہے تو ایسا شخص بالطبع دلوں کو اپنی طرف کھینچے گا اور لوگ ضرور اُس سے محبت کریں گے اور گو لوگوں کو اس کی اس بے مثل پہلوانی اور شجاعت سے کچھ بھی فائدہ نہ ہو بلکہ وہ کسی دور دراز ملک کا رہنے والا ہو جس کو دیکھا بھی نہ ہو یا اس زمانہ سے وہ پہلے گزر چکا ہو مگر تاہم لوگ اس کے قصوں کو محبت سے سنیں گے اور اس کے ان کمالات کی وجہ سے اس سے محبت کریں گے سو اس محبت کی کیا وجہ ہے؟!!کیا اس نے کسی پر احسان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ احسان تو اس نے کسی پر نہیں کیا پس بجز حسن کے اس کی کوئی اور وجہ نہیں پس کچھ شک نہیں کہ یہ تمام روحانی خوبیاں حسن میں داخل ہیں اور اُن کا نام حسنِ اخلاق اور حسنِ صفات ہے جو حسنِ اعضا کے مقابل پر واقع ہے اور احسان میں اور حسن اخلاق اور حسن صفات میں یہ فرق ہے کہ کسی شخص کے نیک خُلق یا نیک صفت کو اُس وقت اور اُس شخص کی نسبت احسان کے نام سے موسوم کیا جائے گا جبکہ ایک شخص اس نیک خلق یا نیک صفت کے اثر سے متمتع ہو جائے اور اس سے کوئی فائدہ اٹھا لے پس وہ شخص جو اس نیک خلق یا نیک صفت سے فائدہ اٹھائے گا۔ اس کی نسبت وہ نیک خلق اور نیک صفت احسان ہو گا جس کا ذکر بطور مدح اور شکر کے وہ کرے گا لیکن دوسرے لوگوں کی نسبت وہ نیک خلق اس کا حسن میں داخل ہو گا۔ مثلاً صفت فیاضی اور سخاوت اس شخص کے حق میں احسان ہے جو فیضیاب ہوا مگردوسروں کی نظر میں حسن صفات سمجھا جائے گا۔‘‘(عصمتِ انبیاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۶۶ تا ۶۶۸)
حُسن و احسان کی نہایت لطیف تفسیر اور ان کے باہمی تعلق کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں پڑھنے سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا الہاماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ’’مصلح موعود‘‘ کے بارےمیں یہ فرمانا کہ ’’وہ حُسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘ بہت وسیع اور گہرے معنی اپنے اندر رکھتا ہے۔
یہ الہام ایک دعوتِ فکر دیتا ہے کہ جو شخص بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کرے گا، اس کو ایسے بہت سے واقعات مل جائیں گے جو اس الہام کی صداقت کا کھلا کھلا ثبوت ہوں گے۔
یہ مضمون اپنی ذات میں نہایت دلچسپ اور بہت وسیع ہے اور اس پر کئی پہلوؤں سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔خاکسار نے اس مضمون میں چند واقعات کو اکٹھا کردیا ہے جو اس الہام کی صداقت پر ایک خاص پہلو سے روشنی ڈالتے ہیں اور وہ یہ کہ اس مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ سے متعلق صرف اُن واقعات کا انتخاب کیا ہے جو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ نے بیان کیے ہیں۔حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو ایک لمبا عرصہ تک حضرت مصلح موعودؓ کی زوجیت میں رہ کر بڑے قریب سے حضورؓ کی سیرتِ طیبہ کا مشاہدہ کرنے کی توفیق ملی اور مزید یہ کہ حضورؓ کی زیرِ تربیت رہ کر آپؒ کو احمدی خواتین کی خدمت کی لمبا عرصہ توفیق ملی۔
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں تحریر کرتی ہیں کہ’’آپؓ خود حُسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظیر تھے اور اپنی ساری زندگی آپ نے اُس مشن کو پورا کرنے میں خرچ کی جس کی داغ بیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی تھی۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۳۱)اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت کے اُن پہلوؤں پر روشنی ڈالی جو صرف بہت ہی قریبی رشتہ داروں کی نظر میں آسکتے تھے۔یہ تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام:وہ حُسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔کی صداقت پر ایک بیّن شہادت کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ یہ تحریرات ایک ایسے انسان کے قلم سے نکلی ہیں جس نے حضرت مصلح موعودؓ کو بہت ہی قریب سے دیکھا تھا اور جو حضورؓ کا محرمِ راز بھی تھا۔
اب خاکسار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس الہام کی صداقت کے بارےمیں بعض واقعات کو مختلف عناوین کے تحت پیش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ پر توکّل
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق باللہ پر تو علیحدہ سے کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ تحریر کرتے ہیں کہ’’بارہا قسم کھا کر فرمایا ہے کہ ہم ہر ایک شے سے محض خدا تعالیٰ کے لیے پیار کرتے ہیں۔بیوی ہو، بچے ہوں، دوست ہوں، سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کےلیے ہے۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ صفحہ ۴۶)
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں کہ’’اپنے سب سے بڑھ کر محبوب ذاتِ باری تعالیٰ کا عشق بھی جو آپ کے روح و تن کے ذرہ ذرہ میں موجزن تھا، آپ کے ہر قول و فعل سے ہر وقت نمایاں نظر آتا تھا۔مَیں نے بغیر اوقاتِ نماز کے بھی آپ کو اپنے ربِّ کریم کو تڑپ تڑپ کو پکارتے سنا ہے۔میرے پیارے اللہ میرے پیارے اللہ کی آواز گویا اس وقت بھی سن رہی ہوں۔اور آپ کے آنسو بہتے دیکھ رہی ہوں۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۲۲۳ تا ۲۲۴)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’آپ کی باون سالہ دورِ خلافت کا ایک ایک دن شاہد ہے، زمین اور آسمان گواہ ہیں کہ مخالفتوں کی آندھیاں چلیں، فتنے اٹھے، جماعت کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں کی گئیں۔آپؓ کی جان پر حملہ کیا گیا مگر آپ کو اللہ تعالیٰ پر کامل توکّل رہا اور اللہ تعالیٰ کا سایہ ہر آن آپ پر رہا جب تک کہ نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھائے جانےکا وقت نہ آگیا۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۲۳)
حکومتی اور عدالتی مخالفت کے مواقع پر توکل علی اللہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی اللہ تعالیٰ کی محبت اور توکل علی اللہ سے بھرپور ہے۔اس عنوان کے تحت حضور علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ میں متعدد واقعات ملتے ہیں۔حکومتی اور عدالتی مخالفت کے مواقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ پر توکل کا نہایت اعلیٰ اور قابل تقلید نمونہ پیش فرمایا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہوگئے یار نہاں میں
پنڈت لیکھرام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق قتل کیا گیا تو اس کے قتل کا الزام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر لگایا گیا۔باوجود تحقیق کے قاتل کا سراغ نہ مل سکا۔اس پر ہندوؤں نے کوشش کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اقدامِ قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔اس واقعہ کو مکرم شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگرمل)نے اپنی کتاب ’’حیاتِ طیبہ‘‘ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے:’’جب ہندوؤں کی کوئی تدبیر بھی کارگر نہ ثابت ہوئی تو انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ آپ کے خلاف اقدامِ قتل کا مقدمہ چلایا جاوے۔چنانچہ گورنمنٹ کے مشہور اور ماہر سراغ رساں اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے مقرر ہوئے۔لاہور اور امرتسر کے معزز مسلمانوں کی تلاشیاں لی گئیں۔۸؍اپریل ۱۸۹۷ء کو مسٹر لیمارچنڈ ایس-پی گورداسپور اور میاں محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر متعینہ بٹالہ نے پولیس کی ایک مختصر سی جمعیت کے ساتھ آپ کے گھر کی تلاشی لی۔مگر نتیجہ یہی نکلا کہ آپ یا آپ کی جماعت کو اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (حیاتِ طیبہ صفحہ ۱۶۸ – ۱۶۹)
اس تلاشی کے دوران حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے نہایت اعلیٰ ظرفی کا نمونہ اپنی جماعت کے لیے پیش فرمایا اور ذرہ برابر بھی پریشانی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرۂ مبارک سے عیاں نہ ہوتی تھی۔
مولوی کرم دین والے مقدمہ میں ہندو مجسٹریٹ کے ارادے ٹھیک نہ تھے اور اس کی نیت تھی کہ کسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گرفتار کرلیا جائے۔اُس موقع پر بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے توکّل علی اللہ کا غیرمعمولی اظہار ہوا۔اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ یوں بیان کرتے ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی اِس محبت اور معیت اور اِس غیرت پر ناز تھا۔چنانچہ جب آپ علیہ السلام کو۵؍۱۹۰۴ء میں مولوی کرم دین والے مقدّمہ میں یہ اطلاع ملی کہ ہندو مجسٹریٹ کی نیت ٹھیک نہیں اور وہ آپ کو قید کرنے کی داغ بیل ڈال رہا ہے تو آپ اُس وقت ناسازئ طبع کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے۔یہ الفاظ سنتے ہی جوش کے ساتھ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے!
چنانچہ اپنے ایک شعر میں بھی آپؑ فرماتے ہیں کہ
جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے رُوبۂ زار و نزار
(سیرت طیبہ صفحہ ۱۹)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’۱۹۵۳ء میں جب پنجاب میں فسادات رونما ہوئے،احمدیت کی شدید مخالفت کی گئی،احمدیوں کے گھروں کو آگیں لگائی گئیں اور اس قسم کی افواہیں سننےمیں آئیں کہ کہیں آپ پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جائےاور گرفتار نہ کرلیا جائے۔چنانچہ ان دنوں میں قصرِخلافت کی تلاشی بھی لی گئی لیکن آپ کی طبیعت میں ذرہ بھر بھی گھبراہٹ نہ تھی سکون سے اپنےکام جاری تھے۔جو لوگ آپ سے محبت کرتے تھے انہوں نےمشورہ دیا کہ آپ چند روز کے لئےباہر چلے جائیں بلکہ گھبرا کر کراچی کے بعض ذمہ دار دوست آپ کولینے کے لئےبھی آگئے کہ آپ وہاں چلے چلیں چند دن میں یہ شورش ختم ہوجائے گی۔آپ نے ان دوستوں کا ہمدردانہ مشورہ سنا تھوڑی دیر کے لئےاندر آئے اور آکر دعا شروع کردی۔دعا ختم کر کےباہر تشریف لے گئے اور جاکر اُن دوستوں سے کہا کہ مَیں ہرگز جانے کے لئےتیار نہیں جو خدا وہاں ہے وہی یہیں ہے۔اللہ تعالیٰ میری یہیں حفاظت کرے گا۔اور جو مجھ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا وہ خداتعالیٰ کے عذاب اور گرفت سے ڈرے۔چنانچہ چند ہی دن میں ملک میں انقلاب آگیا۔جو مخالفت میں اُٹھےتھےجھاگ کی طرح بیٹھ گئےاور جو اُن کے سرکردہ تھے وہ الٰہی گرفت میں آئے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۲۴)
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ پڑھنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت اماں جانؓ روایت فرماتی ہیں کہ’’آپ اسے یعنی سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ بہت کثرت سے پڑھتے تھے حتٰی کہ رات کو بستر پر کروٹ بدلتے ہوئے بھی یہی کلمہ آپ کی زبان پر ہوتا تھا۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۳ روایت نمبر ۱)حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’ذکر کرنے کی اتنی عادت تھی کہ رات کو سوتے ہوئے جب کروٹ بدلتے اور ہلکی سی آنکھ کھلتی تو ہمیشہ مَیں نے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِکہتے سنا ہے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۵۱)
آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عشق
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے جو عشق تھا، وہ سب احمدیوں پر اظہر من الشمس ہے۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؒ بیان کرتے ہیں کہ’’ایک بات میں نے خاص طور پر دیکھی ہے کہ حضرت صاحب (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کے متعلق والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں ذرا سی بات بھی کہتا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہوجاتا تھا اور آنکھیں متغیر ہوجاتی تھیں۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۲۰۱ روایت نمبر ۱۹۶)
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں کہ’’ہمیں تو بغیر سکھائے بتائے جہاں سے ہوش کا زمانہ یاد ہے یقین تھا کہ آپ خداتعالیٰ کے فرستادہ اور خاص بندے ہیں اور آپ خداتعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے عاشق ہیں اور بہت ہی زیادہ آپؑ کا دل اپنے ربّ کے عشق سے اور اپنے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے عشق سے بھرا ہوا ہے۔مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ذکر کررہے ہوں اور آپ کی آنکھیں اشک آلود نہ ہوگئی ہوں۔بات کرتے جاتے اور انگلی سے گوشہ ہائے چشم سے ٹپکتے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۲۲۱ تا ۲۲۲)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے بےانتہا عشق تھا۔مجھےکبھی نہیں یاد کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا اور آپؓ کی آواز میں لرزش اور آپ کی آنکھوں میں آنسو نہ آگئے ہوں۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۲۶)
آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی محبت میں عربی شعر پڑھنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ نے روایت کی ہےکہ حضورؑ حضرت حسان بن ثابتؓ کا مندرجہ ذیل عربی شعر گنگنایا کرتے تھے اور اُس وقت حضورؑ کی آنکھیں آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی محبت میں آنسو بہایا کرتی تھیں۔
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرُ
مَنْ شَاءَ بَعَدَکَ فَلْیَمُتْ
فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ
(سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۳۰۵ تا ۳۰۷ روایت نمبر ۳۳۴)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں (سعدی شیرازی کے) مشہورِ زمانہ اشعار آپ کو بہت محبوب تھےجنہیں آپ اکثر گنگنایا کرتے تھے
بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ
کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِہٖ
حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ
صَلُّوْا عَلَیْہِ وَآلِہٖ
(گلہائے محبت صفحہ ۷۸)
قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر تدبّر کی عادت
حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؒ کی روایت ہے کہ ’’والد صاحب تین کتابیں بہت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، یعنی قرآن مجید، مثنوی رومی اور دلائل الخیرات۔اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے تھے۔اور قرآن شریف بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۱۹۹ روایت نمبر ۱۹۰)
ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پالکی میں بیٹھ کر بٹالہ تشریف لے گئے۔مکرم فخر الدین ملتانی صاحب کی روایت ہے کہ’’قادیان سے نکلتے ہی حضرت صاحبؑ نے قرآن شریف کھول کر اپنے سامنے رکھ لیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع فرمائی اور میں غور کے ساتھ دیکھتا گیا کہ بٹالہ تک حضرت صاحب سورۃ فاتحہ ہی پڑھتے چلے گئے اور دوسرا ورق نہیں الٹا۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۳۹۵ روایت نمبر ۴۳۸)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہ تھا جب بھی وقت ملا تلاوت کرلی۔یہ نہیں کہ دن میں صرف ایک بار یا دو بار۔عموماً یہ ہوتا تھا کہ صبح اُٹھ کر ناشتہ سے فارغ ہو کر ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی آپ انتظار میں ٹہل رہے ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے لوگ ملنے آگئے قرآن مجید رکھ دیا، مل کر چلے گئے۔پڑھنا شروع کر دیا۔تین تین چار چار دن میں عموماً مَیں نےختم کرتے دیکھا ہے۔ہاں جب کام زیادہ ہوتا تھا تو زیادہ دن میں بھی۔لیکن ایسا بھی ہوتا تھاکہ صبح سے قرآن مجید ہاتھ میں ہےٹہل رہے ہیں اور ایک ورق بھی نہیں الٹا۔دوسرے دن دیکھا تو پھر وہی صفحہ مَیں نےکہنا کہ آپ کے ہاتھ میں قرآن مجید ہے لیکن آپ پڑھ نہیں رہے؟ تو فرماتے ’ایک آیت پر اٹک گیا ہوں جب تک اس کےمطالب حل نہیں ہوتےآگےکس طرح چلوں‘۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۲۸ تا ۲۹)
نماز باجماعت کا طریق
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نماز باجماعت کا حال حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’مرحوم مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ کی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل اتفاقاً ایک دفعہ مسجد مبارک میں عاجز راقم کو امامتِ نماز کا موقع ہوا۔جب نماز ختم ہوئی تو مولوی عبداللہ صاحب ہنستے ہوئے آگے بڑھے اور فرمانے لگے۔حضرت صاحب بھی نماز ایسی ہی مختصر پڑھاتے تھے، جیسی آپ نے پڑھائی۔یہ ذکر نماز میں امامت کا تھا۔ورنہ جو نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بطور خود علیحدگی میں پڑھتے تھے انہیں بہت لمبا کرتے تھے۔‘‘ (ذکر حبیب صفحہ ۱۳۱)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’امام کو چاہئے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھے۔‘‘ (ذکر حبیب صفحہ ۱۳۱)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جب نماز باجماعت پڑھاتے تھے تو عموماً جلدی ختم کروا دیتے تھے کہ پیچھے نماز پڑھنے والوں میں بوڑھے اور کمزور بھی شامل ہوتے ہیں۔بیماری کے باعث کبھی خود نماز کو نہ جا سکتے تو نماز یا خطبہ دینے والے کو بھی حضورؓ کا یہی ارشاد ہوا کرتا تھا کہ چھوٹا خطبہ دیں اور نماز بہت لمبی نہ پڑھائیں۔لیکن علیحدگی میں جب آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو آپ کو عبادت الٰہی میں اتنا انہماک ہوتا تھا کہ پاس بیٹھنے والا محسوس کرتا تھاکہ یہ شخص اس دنیا میں نہیں ہے۔مَیں نے آپ کواس طرح روتے کہ پاس بیٹھنے والا آواز سنے بہت کم دیکھا ہے لیکن آنکھوں سے رواں آنسو ہمیشہ نماز پڑھتے میں دیکھے۔چہرہ کے جذبات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ گویا اپنی جان اور اپنا دل ہتھیلی پر رکھے اللہ تعالیٰ کی نذر کر رہے ہیں اور اس وقت دنیا کا بڑے سے بڑا حادثہ اور بڑے سے بڑا واقعہ بھی آپ کی توجہ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف سے ہٹا نہیں سکے گا۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۵۱)
گھر میں نماز باجماعت کی ادائیگی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ’’حضرت مسیح موعودؑ کو میں نے بارہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت اُمّ المؤمنینؓ کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے…میں نے حضرت اُمّ المؤمنینؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۶۳۶ تا ۶۳۷ روایت نمبر ۶۹۶)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’نماز باجماعت کا اتنا خیال تھا کہ جب بیمار ہوتے اور مسجد نہ جاسکتے تو گھر میں ہی اپنے ساتھ عموماً مجھے کھڑا کرلیا کرتے اور جماعت سے نماز پڑھادیتے تاکہ جماعت سے نماز کی ادائیگی ہوجائے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۵۱)
نمازِ تہجد کی ادائیگی
حضرت اماں جانؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نوافل کے ذکر میں روایت فرماتی ہیں کہ’’نمازِ تہجد (آٹھ رکعت)جو آپؑ ہمیشہ پڑھتے تھے۔سوائے اس کے کہ آپ زیادہ بیمار ہوں۔لیکن ایسی صورت میں بھی آپ تہجد کے وقت بستر پر لیٹے لیٹے ہی دعا مانگ لیتے تھے۔اور آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عموماً بیٹھ کر تہجد ادا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت و سوانح حضرت اماں جان صفحہ ۴۱۰)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارےمیں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ایک دفعہ رمضان شریف میں تہجد پڑھنے کے متعلق حضورؑ سے کسی نے سوال کیا یا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تہجد کے لیے اوّل وقت اٹھنا چاہئے نہ کہ عین نماز سے ذرا قبل۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۶۷۱ روایت نمبر ۷۳۹)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’تہجد کی نماز بعض دفعہ اتنی لمبی ہو جاتی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ اتنا لمبا وقت آپ کھڑے کس طرح رہتے ہیں۔مَیں نے سجدہ کی نسبت قیام میں آپ کو زیادہ دعائیں کرتے دیکھا ہے۔بعض دفعہ ایک ایک رکعت میں ڈیڑھ دو گھنٹے کھڑے رہتے ہیں۔تہجد میں آپ کا عموماً یہ طریق تھا کہ ایسے وقت میں تہجد پڑھتے کہ تہجد کی نماز ختم ہونے اور صبح کی نماز میں خاصاوقت ہوتا۔تہجد پڑھ کر لیٹ جاتے اور تھوڑا سا سو بھی لیتے اور پھر اُٹھ کر صبح کی نماز پڑھتے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۵۱)
اسلام اور قرآن مجید کے فضائل کا بیان
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہینِ احمدیہ میں قرآن کریم کی تین سو خوبیاں بیان کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ’’آپ کے سب کاموں کو تفصیل سے لکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد سے بھی بڑھ جائیں گے اور میرے خیال میں اگر کوئی شخص انہیں کتاب کی صورت میں جمع کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ منشا پورا ہوسکتا ہے جو آپ نے براہین احمدیہ میں ظاہر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اِس کتاب میں اسلام کی تین سو خوبیاں بیان کی جائیں گی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےیہ وعدہ اپنی مختلف کتابوں کے ذریعہ پورا کر دیا۔آپ نے اپنی کتابوں میں تین سو سے بھی زائد خو بیاں بیان فرما دیں اور میں یہ ثابت کرنے کے لئےتیار ہوں۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑکے کارنامے۔انوارالعلوم جلد ۱۰صفحہ۲۰۳)
حضرت مصلح موعود ؓنے بھی قرآن کریم کے فضائل بیان کرنے کے لیے خاص کوشش کی۔حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےبھی اس خواہش کے مدِّنظر ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۶ء تک یہ تقریریں اسی سلسلہ میں کیں جو فضائل القرآن کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ان تقاریر سے بھی حضور کا منشا تھا کہ قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےجو تین سو دلائل دینےکا براہین احمدیہ میں وعدہ فرمایا تھا اُسے ظاہری طور پر پورا فرماویں۔مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت یہ تقاریر نا تمام رہیں اور بعض اَور قرآنی مضامین کے متعلق حضور تقاریر فرماتے رہے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۳۱ تا ۳۲)۔
(باقی آئندہ)