حضرت مصلح موعود ؓ

مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں (قسط دوم)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۸؍جنوری ۱۹۴۴ء)

(گذشتہ سے پیوستہ)تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہؤا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے۔ چنانچہ مَیں عربی میں بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کررہا ہوں۔ رؤیا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے۔ مگر مَیں محسوس کرتا ہوں کہ گو ان کی زبان کوئی اَور ہے مگر یہ میری باتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مَیں اسی طرح ان کے سامنے عربی میں تقریر کررہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے ان کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بُت اس پانی میں غرق کیے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی۔ ابھی مَیں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اسی کشتی نما بت والا جس پر میں سوار ہوں یا اس کے ساتھ کے بت والا بت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحّد ہو گیاہے۔ اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہؤا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا، مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اتنے میں ہم جھیل پار کرکے دوسری طرف پہنچ گئے۔ جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تومَیں ان کو حکم دیتا ہوں کہ ان بتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا، پانی میں غرق کردیا جائے۔

اس پر جو لوگ موحّد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موحّد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں

اور مَیں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے۔ یہ اس آسانی سے جھیل کی تہہ میں کس طرح چلے گئے۔ صرف پُجاری پکڑ کر ان کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد مَیں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا۔ کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی ابھی ایمان نہیں لائی تھی اس لیے میں نے ان کو تبلیغ کرنی شروع کردی۔ یہ تبلیغ میں ان کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں۔ جب میں انہیں تبلیغ کررہا ہوں تاکہ باقی لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب مَیں نہیں رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جا رہی ہیں۔ جیسے خطبہ الہامیہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہؤا۔ غرض

میرا کلام اُس وقت بند ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے۔

بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا، غالباً کا لفظ مَیں نے اس لیے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہو۔ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے بااثر اور مفید وجود تھا، بہرحال مَیں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور مَیں نے اس کا اسلامی نام عبدالشکور رکھا ہے۔میں اس کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے مَیں اب آگے جاؤں گا اس لیے اے عبدالشکور! تجھ کو میں اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں۔ تیرا فرض ہوگا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹا دے اور تیرا فرض ہوگا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے۔ میں واپس آ کر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کے لیے مقرر کیا ہے ان کو تُو نے کہاں تک ادا کیا ہے۔ اس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے بندہ اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اسے حکم دیتا ہوں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لانے کی اور آپؑ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں۔جس وقت میں یہ تقریر کررہا ہوں (جو خود الہامی ہے)

یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے

اور آپ فرماتے ہیں اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا الْمَسِیْحُ المَوْعُوْدُ۔ اس کے بعد مَیں ان کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ چنانچہ

اُس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہؤا وہ یہ ہے اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور اس کا خلیفہ ہوں۔

تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہوجاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہؤا اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں۔ اُس وقت معاً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مَثِیْلُہٗ میں اس کا نظیر ہوں وَخَلِیْفَتُہٗ اوراس کا خلیفہ ہوں۔یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ ’’وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘(تذکرہ صفحہ ۱۶۴ ایڈیشن چہارم) اِس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لیے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہؤا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں مَیں بھی مسیح موعود ہی ہوں۔ کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا وہ ایک رنگ میں اُس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا۔ پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں

میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں

اور جب مَیں کہتا ہوں ’’میں وہ ہوں جس کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں‘‘۔تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں جو سات یا نو ہیں جن کے لباس صاف ستھرے ہیں، دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں، مجھے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہتی اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لیے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ہاں ہاں! ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انیس سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں‘‘۔اس کے بعد مَیں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ

میں وہ ہوں جسے علوم ِاسلام اور علومِ عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئےتھے۔

رؤیا میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی اس میں یہ بھی خبر تھی کہ جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک جھیل ہو گی اور جب وہ اس جھیل کو پار کرکے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہو گی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہوجائے گی۔ تب وہ دشمن، جس سے وہ موعود بھاگے گا اس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ مگر وہ قوم انکار کردے گی اور کہے گی ہم لڑ کر مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے کر دو۔ اُس وقت مَیں خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے۔ مگر وہ قوم باوجود اِس کے کہ ابھی ایک حصہ اُس کا ایمان نہیں لایا بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم لڑ کر فنا ہو جائیں گے مگرتمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تب مَیں کہتا ہوں دیکھو! وہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔اس کے بعد میں پھر ان کو ہدایتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کرکے آگے کسی اَور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں۔اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اَور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے مَیں اس شخص سے جسے مَیں نے اس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوں جب مَیں واپس آؤں گا تو اے عبدالشکور! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے؟ موحّد ہو چکی ہے؟ اور اسلام کے تمام احکام پر کار بند ہو چکی ہے؟

یہ رؤیا ہے جو مَیں نے جنوری ۱۹۴۴ء مطابق صلح ۱۹۲۳ہش دیکھی اور جو غالباً پانچ اور چھ کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میری نیند بالکل اُڑ گئی اور مجھے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ کیونکہ آنکھ کھلنے پر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا مَیں اردو بالکل بھول چکا ہوں اور صرف عربی ہی جانتا ہوں۔ چنانچہ کوئی گھنٹہ بھر تک میں اس رؤیا پر غور کرتا اور سوچتا رہا۔ مگر

میں نے دیکھا کہ مَیں عربی میں ہی غور کرتا تھا اور اسی میں سوال و جواب میرے دل میں آتے تھے۔

اس رؤیا میں تین پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایک پیشگوئی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا مَیں نے ہی کی ہے یا کسی سابق غیرمعروف نبی نے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس نبی کی پیشگوئی ہے اور آیا دنیا کے سامنے اس رنگ میں یہ پیشگوئی پیش بھی ہو چکی ہے یا نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ دو اَور پیشگوئیوں کی طرف بھی اس میں اشارہ کیا گیا ہے۔ پہلی پیشگوئی جس میں یہ ذکر ہے کہ اُنیس سو سال سے کنواریاں میرا انتظار کر رہی تھیں وہ درحقیقت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ایک پیشگوئی ہے جس کا انجیل میں ذکر آتا ہے۔ حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں جب میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا تو بعض قومیں مجھے مان لیں گی اور بعض قومیں انکار کریں گی۔ آپ ان اقوام کا تمثیلی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کچھ کنواریاں اپنی اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں۔ وہ دولہا کے انتظار میں بیٹھی رہیں، بیٹھی رہیں اور بیٹھی رہیں۔ مگر دولہا نے آنے میں بہت دیر لگائی۔ جو عقلمند تھیں، انہوں نے تو اپنی مشعلوں کے ساتھ تیل بھی لے لیاتھا۔ مگر جو بیوقوف تھیں انہوں نے مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا۔ جب دولہا نے بہت دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں۔ تب وہ، جو بے احتیاط عورتیں تھیں انہوں نے معلوم کیا کہ ان کا تیل ختم ہو رہا ہے اور انہوں نے دوسری عورتوں سے کہا اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دوکیونکہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا ہم تمہیں تیل نہیں دے سکتیں۔ اگر دے دیں تو شاید ہمارا تیل بھی ختم ہوجائے۔ تم بازار میں جاؤ شاید تمہیں وہاں سے تیل مل جائے۔ جب وہ مول لینے کے لیے بازار گئیں تو پیچھے سے دولہا آ پہنچا اور وہ جو تیار تھیں اُس کو ساتھ لے کر قلعہ میں چلی گئیں اور دروازہ بند کردیا گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ بے احتیاط عورتیں بھی آئیں اور دروازے کو کھٹکھٹا کر کہنے لگیں ہمارے لیے بھی دروازہ کھولا جائے ہم اندر آنا چاہتی ہیں۔مگر دولہا نے جواب دیا تم نے میرا انتظار نہ کیا،تم نے پوری طرح احتیاط نہ برتی۔اس لیے اب صرف اُنہی کو حصہ ملے گاجو چوکس تھیں تمہارے لیے دروازہ نہیں کھولا جاسکتا۔(متی باب۲۵ آیات ۱تا ۱۳) یہ درحقیقت حضرت مسیح ناصری کی اپنی بعثتِ ثانیہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی جو انجیل میں پائی جاتی ہے۔ پس رؤیا میں مَیں نے جو یہ کہا کہ ’’مَیں وہ ہوں جس کے لیے اُنیس سوسال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں‘‘اس سے مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے زمانہ میں یا میری تبلیغ سے یا ان علوم کے ذریعہ سے جو اللہ تعالیٰ نے میری زبان اور قلم سے ظاہر فرمائے ہیں اُن قوموں کو جن کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لانا مقدر ہے اور جو حضرت مسیح ناصریؑ کی زبان میں کنواریاں قرار دی گئی ہیں ہدایت عطا فرمائے گا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ میرے ہی ذریعہ سے ایمان لانے والی سمجھی جائیں گی۔ اور یہ جو فرمایا کہ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ اس خدائی الہام نے وہ بات جو ہمیشہ میرے سامنے پیش کی جاتی تھی اور جس کا جواب دینے سے ہمیشہ میری طبیعت انقباض محسوس کیا کرتی تھی آج میرے لیے بالکل حل کردی ہے۔ یعنی اس الہامِ الٰہی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیشگوئی جو مصلح موعود کے متعلق تھی خدا تعالیٰ نے میری ہی ذات کے لیے مقدر کی ہوئی تھی۔ لوگوں نے کہا اور بار بار کہا کہ آپ کی ان پیشگوئیوں کے بارہ میں کیا رائے ہے مگر میری یہ حالت تھی کہ میں نے کبھی سنجیدگی سے ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ اس خیال سے کہ میرا نفس مجھے کوئی دھوکا نہ دے اور مَیں اپنے متعلق کوئی ایسا خیال نہ کرلوں جو واقعہ کے خلاف ہو۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button