پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

اگست۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

پولیس نے ایک اور احمدیہ مسجد کے مینارے مسمار کر دیے

چک نمبر ای آر ۳۷۳۔ضلع وہاڑی۔۸؍اگست ۲۰۲۳ء: مخالفین کی طرف سے مسجد کے میناروں کو مسمار کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن پولیس کے کہنے پر مقامی جماعت نے میناروں کو ڈھانپ دیا تھا۔۸؍اگست ۲۰۲۳ء کو پولیس نے احمدی وفد کو مذاکرات کے لیے بلایا۔ مقامی صدر جماعت بھی اس وفد کے ہمراہ تھے۔ وفد کی واپسی سے قبل ہی پولیس گاؤں میں پہنچ گئی اور مسجد کے میناروں کو مسمار کرکے ملبہ اپنے ساتھ لےگئی۔

انتظامیہ جماعت احمدیہ کی مذہبی آزادی میں مزاحم

قصور۔اگست ۲۰۲۳ء:۱۱؍اگست ۲۰۲۳ء کو مخالفین احمدیت نے بازار کے اندر احمدیہ مسجد کے سامنے سات مقامات پر احمدیت مخالف تحریرات لکھ دیں۔انہوں نے لکھا کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔وہ اپنے آپ کومسلمان نہیں کہہ سکتے۔وہ اسلامی شعائر کا استعمال نہیں کر سکتے وغیرہ۔احمدیوں نے انتظامیہ کو اس بارے اطلاع دی اور اسی رات انتظامیہ نے ان تحریرات کو مٹا دیا۔اور ساتھ ہی احمدیوں کو کہا کہ وہ مسجد سے چلے جائیں۔ اس کے ایک ہفتے بعد ۱۸؍اگست کو جب احمدی نماز جمعہ ادا کر رہے تھے تو چند سیکیورٹی اہلکار آئے اور کہا کہ ان کے پاس احکامات ہیں کہ اس مسجد کو سیل کر دیا جائے۔اس لیے نمازی فوراً یہاں سے چلے جائیں۔ اس پر انہیں یہ بھی کہا گیا کہ مقامی ایس ایچ او سے ملیں۔قصور کے احمدی انتہائی رنجیدہ اور پریشان ہیں۔

پولیس نےمسجد سے مقدس تحریرات کو ہٹا دیا

بھیرہ۔ضلع سرگودھا۔۱۲؍اگست ۲۰۲۳ء:اس سے قبل بتایا جا چکا ہے کہ یہاں پر مسجد سے ملحقہ مربی ہاؤس کی مرمت کی جارہی تھی ۔ ملائوں نے مطالبہ کیا تھا کہ مرمت کے کام کو فوراً روکا جائے اور مینارے مسمار کیے جائیں۔۲۴؍جولائی کو اسسٹنٹ کمشنر بھیرہ اور ڈی پی او نے احمدی وفد کو دعوت دی۔وہاں پر میڈیا اور مولوی بھی موجود تھے۔انتظامیہ ان کے سامنے بے بس نظر آرہی تھی۔ اس موقع پر احمدیوں کو ایک معاہدہ پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

۱۲؍اگست کو اسسٹنٹ کمشنر،ڈی ایس پی،ایس ایچ او اورسی ای او نے پولیس کے ہمراہ احمدیہ مسجد کا دورہ کیا۔ اور کمیٹی کے ملازمین کو کہا کہ وہ مسجد سے الحکم للّٰہ اور لا غالب الا اللّٰہ کی تحریرات کو مٹا دیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کےقابل ہے کہ اس سے قبل اسی مسجد سے کلمہ بھی مٹا دیا گیا تھا۔

پولیس نے یوم آزادی کے دن احمدیہ مسجد کے مینارے مسمار کر دیے

چک ۵۴۳ ای بی۔ضلع وہاڑی۔۱۴،۱۳،اگست ۲۰۲۳ء: ایس ایچ او ماچھیوال نے ۲۲؍جولائی کو جماعت احمدیہ کی مسجد کا دورہ کیا او راحمدی احباب سے کہا کہ تحریک لبیک کے کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ آپ اس مسجد کے مینارے ہٹا دیں ورنہ وہ خود ان کو مسمار کر دیں گے۔اس کے دو روز بعد پولیس پھر سے آئی اور اپنا مطالبہ دوہرایا اور ساتھ ہی خلاف ورزی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔یاد رہے پولیس کے کہنے پر ہی مقامی احمدیوں نے فائبر کی چادروں سے ان میناروں کو ڈھانپ دیا تھا۔

۱۳؍اگست کو ڈی ایس پی بورے والا اور ایس ایچ او ماچھیوال دوبارہ آئے اور مقامی سیکرٹری امور عامہ کو اپنے ساتھ تھانے لے گئے اور ان پر شدید دباؤ ڈالا کہ مینارے مسمار کریں اس موقع پر پولیس والے ان کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آئے۔اور دو ماہ تک قید کرنے کی دھمکی بھی دی۔اس کے بعد چند احمدی احباب تھانہ پہنچ گئے جن میں ایک پیشے کے لحاظ سے وکیل بھی تھے۔ پولیس ان کے سامنے اپنے اس مطالبے کا کوئی قانونی جواز پیش نہ کر سکی۔ اور آخر کار پولیس نے احمدی احباب کو تھانے سے چلے جانے کےلیے کہہ دیا۔پولیس نے خود ہی ایک تحریر لکھی اور احمدیو ں کو اس پر دستخط کرنے کےلیے دباؤ ڈالا۔ اسی رات دو بجے کے قریب پولیس والے اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر آئے اور انہوں نے مسجد کے مینارے مسمار کر دیے۔ بعد ازاں صبح سویرے ایس ایچ او ماچھیوال پولیس کے ہمراہ دوبارہ آیا اور میناروں کے بقیہ ماندہ حصوں کو بھی اپنی موجودگی میں مسمار کروا دیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ مسجد ۱۹۶۳ء میں یعنی آرڈیننس کے اجراسے بہت پہلے بنی تھی۔

جڑانوالہ کے اندوہناک واقعے کے تین روز بعد ہی ایک احمدیہ مسجد کے خلاف مفسدانہ کارروائی

سمبڑیال۔ضلع سیالکوٹ۔۱۸؍ اگست ۲۰۲۳ء: پولیس اور انتظامیہ نے تحریک لبیک کے کہنے پر احمدیہ مسجد کے محراب کو۱۸؍اگست کی رات مسمار کر دیا۔اس سے قبل ۱۴؍اگست کو تحریک لبیک کے شر پسند کارکنوں نے اس مسجد کے محراب کے خلاف انتظامیہ کو درخواست دی تھی۔اسسٹنٹ کمشنر،ڈی ایس پی اور ایس ایچ او نے جماعت کے ایک وفد سے ملاقات کی اور تحریک لبیک کے مطالبے کے مطابق محراب کو مسمار کرنے کا کہا۔ اس پر احمدی احباب نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق ۱۸؍اگست کی رات پولیس کے درجن بھر اہلکاروں نے گلی کو دونوں جانب سے بند کر دیا اور اس محراب کو مسمار کر دیا۔بعد ازاں میونسپلٹی کے ملازمین اس کا ملبہ بھی اٹھا کر لے گئے۔احمدیہ مسجد کی بے حرمتی کا یہ واقعہ جڑانوالہ کے اندوہناک واقعے کے تین روز بعد پیش آیا، وہ واقعہ جس نے دنیا بھر میں ملک کے نام پر سیاہ دھبہ لگا دیا۔نگران وزیر اعظم نے کہا کہ اس واقعہ کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ لیکن صرف کہہ دینا بہت آسان ہے۔کر نا بہت مشکل۔ ڈان اخبار کے ایک معروف دانشور عامر رانا نے اداریہ لکھا جس کا عنوان تھا کہ ارادہ عمل کا طلبگار ہے۔اپنی پہلی ہی سطر میں عامر نے لکھا کہ میانہ روی کی مجسم تصویر بننے کےلیے معاشرے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔لیکن اس تبدیلی کے لیے پہلے انسان سازی کی ضرورت ہے۔

سانگھڑ میں ایک اور احمدیہ مسجد کی تقدیر کا فیصلہ

چک۲۴۔ضلع سانگھڑ۔۲۷؍اگست ۲۰۲۳ء: سانگھڑ کے چک ۲۴ میں جماعت احمدیہ کی ایک مسجد فارم ہاؤس میں واقع ہے۔ اس مسجد میں لمبے عرصہ سے جماعت احمدیہ کے افراد نماز ادا کر رہے ہیں۔ ایک عرصے کے بعد اس مسجد کی مرمت کا کام شروع کیا گیا تو مخالفین احمدیت نے پولیس کو درخواست دی کہ اس مسجد کےمینارے اور محراب گرائے جائیں۔ ایک مفسد گروہ کی جانب سے اس مسجد کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس کے بعد ڈی پی او اور ایس ایچ او نے اس مسجد کا دورہ کیا اور باوجود اس مسجد کی تاریخی اہمیت اور جماعت سے تعلق کے علم کے انہوں نے اس مسجد کو سیل کردیا۔ ۴؍جولائی کو مخالفین کی جانب سے دواحمدی بھائیوں کے خلاف توہین کے مقدمات درج کروا دیے گئے۔ لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہ آئی۔انتظامیہ اور مخالفین کے شدید دباؤ کے دوران مخالفین کے ایک گروہ کے سامنے ہار مان لی۔ چنانچہ مخالفین کے ایک گروہ نے ۲۷؍اگست ۲۰۲۳ء کو مسجد پر حملہ کر کے محراب کو مسمار کر دیا۔

ریاستی انتظامیہ کی جانب سے احمدیہ مسجد کے ایک حصہ کو مسمار کر دیا گیا

شیخوپورہ۔ ۲۸؍اگست ۲۰۲۳ء: تحریک لبیک کے تقریباً ایک ہزار سے زائد مذہبی جنونی شیخوپورہ میں ڈی پی او کے دفتر کے سامنے جمع ہو گئے اور احمدیہ مسجد کےخلاف مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ ضلع بھر میں موجود تمام احمدیہ مساجد کے مینار مسمار کیے جائیں۔انہوں نے اردگرد کے اضلاع سے تحریک لبیک کے شرپسند ملائوں کو بھی اکٹھا کر رکھا تھا۔مظاہرے کے دوران انہوں نے حافظ آباد،گجرات اور جہلم وغیرہ میں احمدیہ مساجد کو مسمار کرنے کے اپنے ’کارناموں‘کا ذکر کیا۔شام کے قریب یہ ہجوم منتشر ہو گیا اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر گیارہ ربیع الاول تک مسجد سے مینارے نہ ہٹائے گئے تو پھر وہ خود یہ کام سر انجام دیں گے۔اس کے بعد سیکیورٹی چیف نے مسجد میں آکر احمدی بزرگان سے ملاقات کی۔ احمدی احباب نے اسے بتایا کہ شہر میں پولیس نے احمدیوں کے لیے اچھے حفاظتی انتظامات کیے ہوئے ہیں اور احمدی چاہتے ہیں کہ ریاستی قانون کے مطابق یہ حفاظتی انتظامات اسی طرح جاری رہیں لیکن پولیس چیف اس معاملے میں زیادہ پر امید نظر نہیں آرہا تھا۔۳۰؍اگست کی شام کو پولیس چیف نے احمدیوں کو کہا کہ وہ مسجد کے مینارے ہٹا دیں۔ لیکن احمدی احباب نے خود مینارے ہٹانے سے انکار کر دیا۔ اس پر رات گیارہ بجے پولیس کی نفر ی وہاں پہنچ گئی اور اس علاقے کی بجلی منقطع کر دی گئی۔اس کے بعد پولیس نے مسجد کے میناروں کو مسمار کر دیا۔دو روز بعد پولیس نے نواں کوٹ چک ۷۹ میں بھی احمدیہ مسجد کے مینارے مسمار کر دیے۔

احمدیہ مسجد میں کلمے پر سیاہی پھیر دی گئی

شادیوال۔ضلع گجرات۔۲۹؍اگست ۲۰۲۳ء:شادیوال کی احمدیہ مسجد ۱۹۸۳ءمیں تعمیر کی گئی تھی۔ ایک مخالف احمدیت نے مسجد کے صحن والی دیوار پر لکھے ہوئے کلمے کی تصویر بنائی اور تھانہ کنجاہ میں اس کو مٹانے کے لیے درخواست دائر کر دی۔ ایک جماعتی وفد ایس ایچ او کنجاہ کو ملنے کے لیے گیا۔ ایس ایچ او نے مطالبہ کیا کہ کلمہ کو مٹا دیا جائے۔ اس پر مقامی جماعت نے کلمہ اور دیگر مقدس الفاظ کو فائبر کی چادر سے ڈھانپ دیا۔ لیکن ایس ایچ او اس سے مطمئن نہ ہوا۔ اور دوبارہ اپنا مطالبہ دوہرایا۔ اس پر احباب جماعت نے کہا کہ کسی بھی عام شہری کو کلمہ مٹانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۲۹؍اگست کو دوپہر کے وقت پولیس اور سپیشل برانچ کے افسران آئے اور ان کو بتایا گیا کہ اب فائبر کی چادر کی وجہ سے باہر سے کوئی بھی کلمہ کو نہیں دیکھ سکتا۔لیکن انہوں نے قریب ہی تعمیراتی کام کرنے والے ایک شخص کو بلایا اور کلمہ پر سیاہی پھیر دی۔

پولیس کی جانب سے مقدس تحریرات کی بے حرمتی

چوکناوالی ۔ضلع گجرات۔۲۹؍اگست ۲۰۲۳:چوکناوالی کی مسجد ۱۹۶۰ء میں تعمیر کی گئی تھی۔اس گاؤں میں گیارہ احمدی خاندان آباد ہیں اور باقی تمام لوگ احمدیوں کی خوشی غمی میں برابر شریک ہوتے ہیں۔ یہاں پر باہر سے ایک شخص کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے آیا۔ اس نے جب احمدیہ مسجد کی دیوار پر کلمہ لکھا دیکھا تو تحریک لبیک والوں کے ساتھ مل کر کنجاہ تھانے میں اس کے خلاف درخواست دائر کر دی۔ اسسٹنٹ کمشنر نے مقامی صدر صاحب کے بیٹے کو بلایا اور کلمہ مٹانے کو کہا۔ جس پر اس نوجوان نے انکار کر دیا۔اس پر اسسٹنٹ کمشنر نے اس کو دھمکی دی کہ اگر تحریک لبیک والے آئے تو پھر نقصان زیادہ ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود احمدی نوجوان نہ مانا۔بعد ازاں رات گیارہ بجے پولیس والوں نے آکے خود ہی کلمہ کے اوپر سیاہی پھیر دی۔۳۰؍اگست کو دوپہر ایک بجے پولیس کی نفری دوبارہ آئی اور مقدس تحریرات کو ہتھوڑوں کی ضربوں سے مسمار کر دیا اور ملبہ اپنے ساتھ لے گئے۔اس کے بعد تحریک لبیک کے مفسدوں نے چوکناوالی اور شادیوال کی مساجد کے مینارے مسمار کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا۔ اور تھانہ کنجاہ کے ایس ایچ او شفقت بٹ نے ان مذہبی غنڈوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مکمل تائید کی یقین دہانی بھی کروائی۔

(مرتبہ: مہر محمد داؤد )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button