اداریہ

اداریہ: خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

(حضرت مولوی عبداللہ صاحب بوتالوی رضی اللہ عنہ کا قبولِ احمدیت)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت ہونے والے انتشارِ روحانی کے باعث خدا تعالیٰ کی نیک اور سعید روحیں کشاں کشاں خدا کے پیارے کی طرف کھنچی چلی آئیں۔ ضلع گوجرانوالہ کے ایک مقام بوتالہ جھنڈا سنگھ میں۲۰؍ مئی ۱۸۸۱ء کو پیدا ہونے والے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت مولوی عبداللہ صاحب بوتالوی رضی اللہ عنہ کی قبولیتِ احمدیت میں بھی کچھ ایسے ہی الٰہی اشارے نظر آتے ہیں۔ آپ صداقتِ احمدیت کے متعلق اپنی ایک رؤیا اور اس کے نتیجے میں شرفِ بیعت پانے کا ذکر کرتے ہیں۔ ماہ نومبر ۱۸۹۵ء کے شروع میں جبکہ آپؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کے متعلق تحقیقات کر رہے تھے اور بیعت کرنے کی طرف بھی کچھ کچھ راغب ہو چکے تھے آپؓ کو بوتالہ جھنڈا سنگھ میں ایک نہایت معنی خیز اور پُر معارف رؤیا دکھایا گیا جو انہوں نے ان ہی دنوں اپنی ایک ڈائری میں قلم بند کر دیا۔ یاد رہے کہ جس وقت یہ خواب دیکھا گیا اس وقت تک آپؓ قادیان نہیں گئے تھے ، گویا قادیان کے گلی کوچوں سے بالکل ناآشنا تھے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے دیکھا کہ مَیں قادیان میں گیا ہوں۔ وہاں ایک مسجد اس قدر اونچی جگہ پر بنی ہوئی ہے کہ گویا وہ مکانوں کی چھت پر بنی ہوئی ہے۔ میں سیڑھیوں کے ذریعہ جو اس مسجد کی شمالی جانب ہیں چڑھ کر مسجد میں پہنچ گیا ہوں۔ اس وقت ایسا معلوم ہورہا ہے کہ رات کا وقت ہے۔ چاند کی چاندنی ہے۔ بہت سے لوگ جمع ہیں۔ حضرت مرزا صاحب کھڑے ہو کر قرآن شریف ہاتھ میں لے کر وعظ فرما رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وعظ ختم ہو گیا اور لوگ سیڑھیوں کے راستے نیچے اترنے لگ گئے۔ جب حضرت مرزا صاحب بھی اترنے کے لئے سیڑھیوں کے قریب آئے تو اس وقت میں نے انہیں السلام علیکم کہا۔ حضور نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو۔ میں نے جواب عرض کیا۔ …پھر حضرت ممدوح کے ساتھ ہی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر باہر آ گیا، اور ایک بازار میں جو شرقاً غرباً ہے مشرق کے رخ حضور کے ہمراہ چلنے لگ گیا۔ چلتے وقت حضورؑ نے میرے پنجے میں پنجہ ڈالا ہوا ہے اور چلے جا رہے ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! میں نے بیعت کرنی ہے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ کون سی بیعت کرنی ہے۔ اس سوال کو سن کر میں متحیر سا ہو گیا کہ کیا جواب دوں۔ آخر میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا کہ ’’محمدی بیعت‘‘ کرنی ہے کیونکہ ہم سب امتِ محمدی ہیں اور یہ بیعت بھی سنتِ محمدی ہے اور آپؑ بھی خلیفہ محمدی ہیں۔

میرے اس جواب پر حضور علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور خوشی کے رنگ میں میرا وہ پنجہ جو حضور کے ہاتھ میں تھا قدرے دبایا۔ چلتے چلتے آگے ایک اور اونچی جگہ پر ہم جا چڑھے جو بیٹھک کی شکل پر معلوم ہوتی ہے۔ اس کی جانب جنوب تین دریچے ہیں۔ وہ وقت دن کا معلوم ہوتا ہے۔ …حضورعلیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ …مجھ پر یہ امر واضح فرمایا ہے کہ میرے ہاتھ پر بیعت کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیعت کرنا ہے۔‘‘

مولوی صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ ’’اس رؤیا کے دیکھنے کے وقت میں نے قادیان کو دیکھا نہ ہوا تھا اور نہ ہی مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کی شکل اور ہیئت اور جائے وقوع سے آشنا تھا بلکہ اس کے پانچ سال بعد جب کہ خاکسار نے دستی بیعت کا شرف خود قادیان میں آ کر حاصل کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ پہلی مسجد جو کہ چھت کے قریب اونچی جگہ پر تعمیر شدہ دیکھی تھی اور جس کے صحن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وعظ کرتے ہوئے دیکھا تھا وہ مسجد اقصیٰ تھی جس کا نقشہ مجھے پانچ سال قبل دکھایا گیااور وہ دوسری جگہ جو بیٹھک کے طور پر تھی جس کے جانب جنوب تین دریچے دیکھے گئے تھے اور جس میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کی بیعت لی تھی اور بیعت کی حقیقت مجھے سمجھائی تھی وہ دراصل مسجد مبارک کا نقشہ تھا جو اس زمانے میں بیٹھک کے اندازہ کے برابر ہی تھی اور خاکسار کو دستی بیعت خدا کے فضل و کرم سے اکیلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اسی مسجد مبارک میں… نصیب ہوئی تھی۔ غرضیکہ وہ نقشہ مقامات کا قریباً وہی تھا جو خاکسار کو بذریعہ رؤیا پہلے دکھایا گیا تھا۔‘‘

الغرض جس طرح دیگر خوابوں اور قرائن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس درویش وجود کو امام الزماں علیہ السلام کے در پر لے آیا اسی طرح مذکورہ بالا سچے خواب کے پورا ہونے سے ان کے ایمان کو کس قدر تقویت ملی ہو گی یہ بالکل واضح ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سورۃ القدر کی ایک لطیف تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب آسمان سے مقرر ہو کر ایک نبی یا رسول آتا ہے تو اُس نبی کی برکت سے عام طور پر ایک نور حسبِ مراتب استعدادات آسمان سے نازل ہوتا ہے اور انتشارِ روحانیت ظہور میں آتا ہے تب ہر ایک شخص خوابوں کے دیکھنے میں ترقی کرتا ہے اور الہام کی استعداد رکھنے والے الہام پاتے ہیں اور روحانی امور میں عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ جب بارش ہوتی ہے ہر ایک زمین کچھ نہ کچھ اس سے حصّہ لیتی ہے ایسا اُسوقت ہوتا ہے جب رسول کے بھیجنے سے بہار کا زمانہ آتا ہے تب اُن ساری برکتوں کا موجب دراصل وہ رسول ہوتا ہے اور جس روز لوگوں کو خوابیں یا الہام ہوتے ہیں دراصل اُن کے کھلنے کادروازہ وہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور آسمان سے عام طور پر ایک روشنی اُترتی ہے جس سے ہر ایک شخص حسبِ استعداد حصّہ لیتا ہے وہی روشنی خواب اور الہام کا موجب ہو جاتی ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ میرے ہنر سے ایسا ہوا ہےمگر وہ چشمہ الہام اور خواب کا صرف اس نبی کی برکت سے دُنیا پر کھولا جاتا ہے اور اُس کا زمانہ ایک لیلۃ القدر کا زمانہ ہوتا ہے جس میں فرشتے اُترتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍٍ سَلٰمٌ۔ جب سے خدا نے دُنیا پیدا کی ہے یہی قانون قدرت ہے۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ69حاشیہ)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مسیح پاکؑ کے اس بابرکت دور میں جسے ہم نے آپؑ کی خلافت کی شکل میں پایاآسمان سے نازل ہونے والے فیوض و برکات کو سمیٹنے اوراپنے ایمانوں میں پختگی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button