حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ واقعات کی روشنی میں اخبار الفضل کی افادیت،اہمیت و ضرورت
اخبار الفضل کا اجرا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی برکات کا سلسلہ اخبار کی پہلی اشاعت سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ اس کا مشاہدہ ہر پڑھنے والا آئے روز خود کر تا رہتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے متعدد مواقع پر اخبار کی افادیت اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے متنوع پیرایوں میں انتہائی دلکش اور خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔قارئین الفضل کے لیے بانیٔ الفضل کے بیان فرمودہ ان پُر اثر واقعات میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں:
زہر دے دیا تریاق پسند نہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک احمدی طالب علم نے مجھے ایک دفعہ لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام اخبار الفضل جاری نہیں کراتے۔ ان کی دو بیویاں تھیں اور پہلی کے ساتھ اُن کے تعلقات کشیدہ تھے۔مَیں نے خیال کیا کہ یہ بیٹا اُس بیوی سے ہوگا مگر جب مَیں نے ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ان کی دوسری بیوی سے ہے۔ جب مَیں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ اس کے نام الفضل کیوں جاری نہیں کراتے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے بارہ میں اِس کی رائے آزاد رہے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ نے اسے دُنیوی تعلیم کے لئے کالج میں بھیجا ہوا ہے جہاں فلسفہ کی کتابیں اس پر اثر ڈالتی ہیں جو وہ پڑھتا ہے، جہاں اُس کے استاد اور دوست اثر ڈالتے ہیں۔ آپ کا یہ خیال ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے مذہبی خیالات پر گمراہ کن اثر نہیں ڈالتا؟ آپ نے اس کے لئے زہر کا انتظام تو کر رکھا ہے مگر تریاق آپ کو پسند نہیں۔ وہ جن کا کوئی حق نہ تھا کہ اسے مذہب کے بارہ میں کچھ سکھاتے وہ تو سکھا رہے ہیں مگر آپ جن کا فرض تھا اِس سے غافل ہیں۔ (خطابات شوریٰ جلد ۲صفحہ۵۹۲-۵۹۳)
اخبار تبلیغ کا کامیاب ذریعہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے یاد ہے میاں شیر محمد صاحب جو بنگہ کے رہنے والے تھے انہوں نے بہت سے احمدی کئے۔ ایک دفعہ جب میں ان کے علاقہ میں گیا تو دوستوں نے مجھے بتایا کہ ان کے ذریعہ کئی آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ میں نے جب ان سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ بالکل سیدھے سادے آدمی ہیں اور عمدگی سے بات تک بھی نہیں کر سکتے۔ آخر میں نے دریافت کیا کہ یہ کس طرح تبلیغ کرتے ہیں تو دوستوں نے مجھے بتایا کہ یہ یکّہ بان ہیں اور الحکم باقاعدہ منگواتے ہیں۔ جب کوئی مسافر ان کے یکّہ میں بیٹھ جاتا ہے اور یہ شکل صورت سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ لڑاکا اور بدمزاج نہیں تو اسے کہتے ہیں ایک اخبار میرے نام آیا ہے مَیں پڑھا ہوا نہیں آپ مہربانی فرما کر مجھے پڑھ کر سنا دیں۔ اس پر انہوں نے الحکم نکال کر اس کے سامنے رکھ دینا اور اس نے سنانا شروع کر دینا۔ یہ ہاں ہاں ہُوں ہُوں کرتے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ کئی لوگ یکّہ سے اُترتے اُتر تے کہتے کہ یہ اخبار کہاں سے نکلتا ہے اس میں جس مدعی ٔ مأموریت کی باتیں لکھی ہیں اس کا پتہ ہمیں بھی بتاؤ تا کہ ہم اس سے ملیں اور اس طرح کئی آدمی ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو گئے۔
اب وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے مگر انہوں نے اس لئے اخبار منگوانا ترک نہیں کیا کہ جب میں نہیں پڑھ سکتا تو اخبار منگوانے کا کیا فائدہ ہے بلکہ وہ برابر اخبار منگواتے رہے اور انہوں نے سمجھا کہ پڑھے ہوئے تو اخبار کے ذریعہ اپنا گھر پورا کر لیتے ہیں۔ میں اگر پڑھا ہوا نہیں تو اسی طرح ثواب میں شامل ہو سکتا ہوں کہ اخبار منگواؤںاور غیر احمدیوں کو پڑھنے کیلئے دے دوں۔ (مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر۔انوارالعلوم جلد ۱۴ صفحہ ۳)
نیز فرمایا:میں نےکئی دفعہ سنایا ہے کہ ہمارے ایک دوست شیر محمد یکّہ بان ہوتے تھے۔وہ کاٹھ گڑھ کے رہنے والے تھے۔انہوں نے ایک سو سے زیادہ احمدی کیا تھا۔ان کی تبلیغ کا یہ طریق تھا کہ وہ الحکم منگوایا کرتے تھے وہ اَن پڑھ تھے لیکن الحکم جیب میں ڈالے رکھتے تھے اور جو آدمی پڑھا لکھا یکّہ میں بیٹھتا اُسے کہتے بھائی جی ! مجھے یہ اخبار پڑھ کر سنائیں۔ وہ شخص الحکم پڑھنا شروع کرتا اور اُس پر اثر ہو نا شروع ہوجاتا۔اور یا تو وہ سخت مخالف ہوتا تھا اور یا پھر گھر پہنچ کر لکھتا مجھے پتا لکھو ا دو میں نے بھی یہ اخبار منگوانا ہے اس میں بہت اچھی باتیں ہیں۔ وہ پھر تھوڑے دنوں کے بعد آتا اور کہتا میری بیعت کا خط لکھ دو۔ اس طرح انہوں نے سو سے زیادہ احمدی کئے۔( متفرق امور۔ خطاب فرمودہ جلسہ سالانہ ۲۷؍دسمبر۔ ۱۹۵۸ ء بمقام ربوہ۔ انوار العلوم جلد نمبر ۲۶ صفحہ۳۹۹)
علم کی ایک بات بھی اخبار سے مل جائے تو سمجھو قیمت ادا ہو گئی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہمارے ہاں ایک جاہل شخص ہو ا کرتا تھا۔ حضرت خلیفہ اوّل اس کے بہت پیچھے پڑے رہتے تھے کہ تُو نمازیں پڑھا کر اور آپ چاہتے تھے کہ اسے کچھ نہ کچھ دین کی واقفیت ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک بہت پرانا خادم تھا اس کا وہ بھتیجا تھا۔ ایک دفعہ وہ بازار سے آٹھ آنے کا گھی لایا جو بِلّا کھا گیا اسے پتہ لگا تو اس پر جنون سوار ہو گیا اور وہ لٹھ لیکر بِلّے کے پیچھے پیچھے بھاگا یہاں تک کہ اس لٹھ سے اس نے بِلّے کو مارا اور چُھری سے پیٹ چاک کر کے اس کی انتڑیوں سے گھی نچوڑ کر رکھ لیا۔ کسی نے پوچھا کہ سناؤ گھی مل گیا وہ کہنے لگا۔ آدھ سیر کی بجائے دس چھٹانک گھی نکلا ہے۔ ہمارے یہ دوست بھی اخبارات سے دس چھٹانک گھی ہی نکالنا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ایک آنہ خرچ کر کے انہیں پانچ پیسے کی خبریں مل جایا کریں حالانکہ اگر کسی کو علم کی ایک بات بھی اخبار سے مل جاتی ہے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اسکی قیمت اسے وصول ہو گئی۔ بلکہ ایک بات کیا اگر کام کی اسے ایک سطر بھی مل جاتی ہے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ ایک آنہ کی اس کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے۔(بانی سلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے۔انوارالعلوم جلد۱۵صفحہ۳)
اخبار کا مطالعہ اور سفر کرنا ترقی یافتہ قوموں کا طریق ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قوم کی ترقی کا اگر کسی شخص نے اندازہ لگانا ہو تو وہ دو چیزیں دیکھ لے کہ وہ قوم کتنا سفر کرتی ہے اور اخبار کے ساتھ اس کو کتنی دلچسپی ہے۔ میں جب فلسطین میں گیا تو اُس وقت یہودی سارے ملک کی آبادی کا دسواں حصہ تھے اور دسواں حصہ عیسائی تھے اور اسّی فیصدی مسلمان تھے لیکن ریلوں میں مَیں نے سفر کر کے دیکھا تو یہودی ہوتا تھا قریباً ستّر فیصدی اور عیسائی ہوتا تھا کوئی پندرہ بیس فیصدی اور مسلمان ہوتا تھا دس فیصدی۔ میرے پاس ایک سفر میں ایک یہودی آیا وہ ریلوے کا افسر تھا۔ میں تو اُس کا واقف نہیں تھا نہ پہلے کبھی ملا۔ معلوم ہوتا ہے یہودیوں نے ہماری بھی ٹوہ رکھی تھی۔ وہ آیا اور اس نے کہا کہ میں نے آپ سے ملنا ہے۔ وہیں کمرہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ کہنے لگا کہ میں ریلوے کا افسر ہوں اور شام وغیرہ جاتے وقت بارڈر کی نگرانی میرے سپرد ہے۔ میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہو۔ کہنے لگا میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے کیوں مخالف ہیں؟ میں نے کہا تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں مخالف ہوں؟ کہنے لگا میں سن رہا ہوں کہ آپ ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں مخالفت کروں یا کچھ کروں (اُس وقت میں نے یہی بات کہی کہ) میری مخالفت تم جانے دو میں نے یہاں تو یہ نظارہ دیکھا ہے چنانچہ ریل پر دیکھ لو ابھی چلو اس وقت اگلے اسٹیشن پر (اُس وقت گاڑی چل چکی تھی) جب اگلا اسٹیشن آئے گا اُس وقت دیکھ لینا کہ ریل میں ستّر فیصدی یہودی بیٹھا ہوا ہے، پندرہ بیس فیصدی عیسائی بیٹھا ہوا ہے باقی دس فیصدی اسّی فیصدی کا نمائندہ بیٹھا ہوا ہے۔ تو میں مخالفت کروں یا کوئی کرے جب تک مسلمان اپنا نظریہ نہیں بدلیں گے، اپنے حالات نہیں بدلیں گے، اپنا طریقہ نہیں بدلیں گے جیتنا تم نے ہی ہے انہوں نے تو جیتنا نہیں۔ گھبراتے کس بات سے ہو؟ اور پھر یہی ہوا۔ آخر اُس قوم میں جو باہر نکلتی ہے اور بھاگی پھرتی ہے کوئی نہ کوئی بےکلی کی وجہ ہوتی ہے یونہی تو نہیں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوتے۔ ان کے اندر ایک جوش ہوتا ہے، ایک ارج (URGE) ہوتی ہے پیچھے سے کہ چلو چلو چلو۔ اور وہ چلو چلو کی ارج (URGE) کے ماتحت چل پڑتے ہیں اور پھر ان کا بچہ بڑا ہر ایک اس میں کام کرتا ہے۔
امریکنوں کو دیکھ لو ساری دنیا کا سفر کرتے پھریں گے۔ پہلے انگلستان والے کرتے تھے اور اب ان میں کمی آ گئی ہے اب امریکن ہیں کہ ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔ کسی زمانہ میں عرب میں یہ رواج تھا بلکہ اب بھی یہ بات حجاز کے لوگوں میں کسی قدر پائی جاتی ہے، اب بھی وہ دنیا کے سارے اسلامی ملکوں کے باشندوں سے زیادہ غیرملکوں میں پھرتے ہوئے نظر آ جائیں گے۔ کیونکہ وہ دھکّا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا اور گاڑی چلائی تھی وہ گاڑی اب بھی رینگتی چلی جاتی ہے۔ چودہ پندرہ سو سال ہو گئے مگر اس گاڑی کی حرکت ساکن نہیں ہوئی۔ تو اخبار ایک دلیل ہوتا ہے اِس بات کی کہ قوم کے اندر کتنی بیداری ہے، کتنا اضطراب ہے اور انقلاب کی کتنی خواہش ہے۔ اگر کوئی قوم اخباروں کی طرف توجہ نہیں کرتی تو یقیناً وہ اپنی ترقی کی پوری طرح خواہش نہیں رکھتی۔ پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ پورے زور سے الفضل کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ (سیر روحانی ۸ فرمودہ ۲۸دسمبر۱۹۵۴ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ۔ انوار العلوم جلد ۲۵ صفحہ ۷-۸)
’’الفضل‘‘مجھے باقاعدہ ملتا رہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ا لفضل جب میں نے جاری کیا تھا اُس وقت یہ پہلے ہفت روزہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے اِس طرح چلانے کی توفیق دی کہ باوجود اِس کے کہ ہماری سخت مخالفت تھی اور لوگ کہتے تھے یہ نہیں چلے گا۔ ابھی پانچ سات ہفتے ہی گزرے تھے کہ مجھے سندھ سے ایک غیر احمدی کی چٹھی آئی۔ کسی نے اُسے مل کر تحریک کی کہ تم خریدار ہو جاؤ اور وہ خریدار ہوگیا۔ کسی وقت ڈاک میں اُس کا اخبار لیٹ ہو گیا تو اُس کی مجھے چٹھی آئی کہ میں نوجوان آدمی ہوں، میں نے ’’الفضل‘‘خریدنا شروع کیا ہے اورمجھے جو اس سے محبت اورپیار ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ تین ہفتے ہوئے میری شادی ہوئی ہے اور مجھے اپنی بیوی بہت پیاری ہے۔مگر اس دفعہ اخبار نہیں پہنچااور میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ اگر میری بیوی مرجاتی تو مجھے زیادہ صدمہ ہو تا یا الفضل نہیں پہنچاتو اس سے زیادہ صدمہ ہوا ہے۔ تم اس سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ کس قدر اُس کو لگاؤ تھا۔یہ توایک عام آدمی تھا۔ کہہ دو گے کہ شاید اُس کو زیادہ واقفیت نہیں ہوگی مگر اب ملک کے ایک چوٹی کے آدمی کا واقعہ سن لو۔ابوالکلام صاحب آزاد اُنہی دنوں میں قید ہوئے۔ اُن کے پاس یہ اخبار جاتا تھا۔ اُن کے سیکرٹری کی مجھے چٹھی آئی کہ ابو الکلام صاحب آزاد کو گورنمنٹ نے نظر بند کر دیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ہم آپ کو ایک اخبار کی اجازت دیتے ہیں تو انہو ں نے صرف ’’الفضل‘‘کی اجازت مانگی ہے اور کہا ہے کہ ’’الفضل‘‘مجھے باقاعدہ ملتا رہے۔ تو اَب دیکھو دوسرے لوگوں کے اوپراِس کا کس قدر اثر تھا۔ (سیر روحانی ۸ فرمودہ ۲۸؍دسمبر۱۹۵۴ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ۔ انوار العلوم جلد ۲۵ صفحہ ۹-۱۰)