متفرق مضامین

عاقل کا یہاں پر کام نہیں

(سرفراز احمد۔ متعلم جامعہ احمدیہ یوکے)

عقل خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اس کے استعمال نے انسان پر ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں۔ کہیں انسان نے اپنی عقل کے ذریعہ سے آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں کھڑی کر دیں اور کہیں جدید طرز پر بنی ہوئی تیز رفتار سواریاں ایجاد کیں۔ فون، ریڈیو اور کمپیوٹر کے ذریعہ سے باہمی فاصلے مٹائے اور ساتھ ہی ایسا خطرناک اور خوفناک اسلحہ بھی تیار کر دیا جو انسانیت کی ہی تباہی کا باعث بن سکتا ہے اور کچھ حد تک بن بھی رہا ہے۔

البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی علمی اور مادی ترقیات دراصل اسی عقل کی نعمت کے تحت ہیں۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں۔ اب یہ سوال تو ضرور اٹھتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ یہ کیوں فرماتے ہیں:

عاقل کا یہاں پر کام نہیں، وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں

مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو

اول تو اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ حضورؓ نے اس بات کے ذریعہ سے انسانی عقل کو رد نہیں فرمایا بلکہ اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ دین کے کاموں میں مجرد عقل پر انحصار کرنا غلط ہے۔ قرآن کریم سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عقل حقیقی فائدہ تب ہی دیتی ہی جب وہ خدا تعالیٰ سے وصل کا وسیلہ بن جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔(آل عمران:۱۹۱)

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف میں دانشمندوں کے لئے صانع عالم کی ہستی اور قدرت پر کئی نشان ہیں۔ دانشمند وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو خدا کو بیٹھے، کھڑے اور پہلو پرپڑے ہونے کی حالت میں یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین اور آسمان اور دوسری مخلوقات کی پیدائش میں تفکر اور تدبر کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل اور زبان پر یہ مناجات جاری رہتی ہے کہ اے ہمارے خداوند تُو نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کو عبث اور بیہودہ طور پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ ہر یک چیز تیری مخلوقات میں سے عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے کہ جو تیری ذات بابرکات پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۰۵ ، ۳۰۶ ، حاشیہ نمبر ۱۱)

لہٰذا عقل کی روشنی تبھی روشنی کہلاتی ہے جب اس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ تک رسائی ہو۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ دین کا مدار ہی عقل پر ہے تو یہ بات حقیقت سے دور ہے۔ اس کا ثبوت بھی قرآن کریم اور انبیاء علیہم السلام کی مبارک زندگیوں میں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:(یعنی) وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں پس ان سے ڈرو تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا۔ اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ (آل عمران:۱۷۴)

یہ قدیم سے سنت اللہ میں شامل ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو عام لوگ انسانی ہمدردی کی بنا پر تبلیغ حق سے روکنا چاہتے ہیں چونکہ عقل انہیں چیخ چیخ کر یہ بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ کمزور سے لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ وہ اس بات پرغور کرتے ہیں کہ جو شخص اپنے آپ کو نبی بتاتا ہے اسے قوم تو مجنون کہتی ہے۔ پھر نہ اس کے ہاتھ میں کوئی پیسہ ہے، نہ کاروبار، نہ وہ کسی دنیاوی حکومت کا سربراہ ہے اور نہ اس کے بڑے بڑے لوگوں سے کوئی اچھے تعلقات ہیں اور اگر اس کے پیروکاروں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو صورتحال اور بھی گھمبیر معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اس نبی اور اس کی جماعت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہ کام چھوڑ دو۔ لیکن ایسی صورت میں انبیاء کی جماعتیں ڈرتی نہیں بلکہ ایمان اور اخلاص میں ایسے قدم بڑھاتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور ان کا ایمان پہلے کی نسبت بڑھ جاتا ہے۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین کے کاموں میں ابتدا سے ہی عقل سے زیادہ اہم کردار خدا تعالیٰ کی محبت ادا کرتی ہے جسے متصوفین اپنی اصطلاح میں عشق یعنی عشق الٰہی سے موسوم کرتے ہیں۔

ذرا تصور کیجیے وہ منظر کہ نمرود اپنی آگ بھڑکائے ہوئے ایک جم غفیر کے سامنے کھڑا ہے۔ اپنے تکبر اور عقل کے زعم میں وہ سمجھتا ہے کہ آج میں اپنے سامنے اس نبوت کے دعویدار کا خاتمہ کرنے والا ہوں۔ عقل نے تب اس کے اس فیصلہ کو کتنا سراہا ہوگا اور شاباش دی ہوگی کہ اے نمرود! آج تُووہ کمال کرنے جا رہا ہے جو کہ تیرے جیسے طاقتور بادشاہ کے شایان شان ہے۔ دوسری طرف حضرت ابراہیمؑ بڑے اطمینان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا دل خدا تعالیٰ کے عشق سے پُر اپنے سامنے موجود آگ کو جنت کا گہوارہ تصور کر رہا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ دیکھنے والوں میں سے کچھ اپنی عقل کے ذریعہ یہ سوچتے ہوں کہ یہ ابراہیمؑ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ اور دل ہی دل میں افسردہ ہوں کہ آج تو ابراہیمؑ گئے۔ لیکن آخر جب حضرت ابراہیمؑ کے عشق الٰہی نے عقل اور مصلحت اور تدبیر کے ساتھ مقابلہ کیا تو کون فتحیاب ہوا؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ہم نے کہا اے آگ! تُو ٹھنڈی پڑ جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔ (الانبیاء:۷۰)

اسی منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل

عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

عقل کو شکست فاش ہوئی۔ لوگ حیران پریشان رہ گئے اور نمرود کے تکبر کا سر ٹوٹ گیا۔ یہ قوت اور طاقت جو خداتعالیٰ کے عشق میں ہے وہ عقل میں ہرگز نہیں۔ ایسے مرحلے انبیاء اور مقربین کی پاک زندگیوں میں ضرور آتے ہیں جہاں عقل کا ٹکراؤ عشق سے ہوتا ہے اور جہاں سے فتحیاب ہو کر نکلنا صرف عاشق کے لیے ممکن ہے، عاقل کے لیے نہیں۔

آنحضورﷺ کی حیات طیبہ میں تو یہ حالات اَور بھی کثرت سے ملتے ہیں۔ آپﷺ کا مکہ میں تیرہ سال تک تکالیف اٹھانا، طائف کا سفر کرنا، عرب کے معاشرہ میں غلاموں کو آزاد کرنا، مسکینوں کو کھانا کھلانا، غریبوں سے محبت کرنا، عورتوں سے حسن سلوک کرنا، جنگوں میں اپنے دشمن کی نسبت قلیل جماعت کے ساتھ شامل ہونا اور ایسی جگہ پر خود دوران جنگ رونق افروز ہونا جس کو بڑے بڑے جرنیل اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہوں، یہ سب باتیں ایسی ہیں جنہیں عرب کے عاقل اپنی تباہی کا موجب سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ ہر لمحہ اس بات کا انتظار کرتے کہ اب نعوذباللہ رسول اللہﷺ کا خاتمہ ہوا۔ لیکن وہ کیا جانتے تھے کہ آپﷺ تو اس ذات پر عاشق ہیں جس نے وعدہ کر چھوڑا ہے کہ ہر ایک طلوع ہونے والا دن عرب کے عاقلوں کے لیے کوئی بری خبر لاتا اور اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے لیے اچھی خبر یہاں تک کہ آپﷺ نے اپنی قوت قدسی کے تحت ان عاقلوں کو بھی عاشقوں میں تبدیل کر دیا۔ وہ جو طنزا ًکہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ ربَّہٗخود عاشق ہو گئے۔

کیا آنحضورﷺ نے عقل کو پس پشت ڈال دیا؟ ہرگز نہیں۔ دوسرے انبیاء کی طرح وہی تعلیم پیش کی جسے عقل بخوبی تسلیم کرتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر انہیں نور فراست عطا فرمایا لیکن کیا مجرد عقل سے ہی کام لیا اور کیا دنیا کے نام نہاد عاقلوں کی تقلید کی؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس ذات پر عاشق ہوئے جو کہ سب عقلوں کی مالک ہے۔

آپﷺ کے بابرکت وجود نے ایک ایسا انقلاب پیدا کیا کہ آج بھی دنیا بھر کے عاقل آپ کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ فرانس کے مشہور سابق وزیر خارجہAlphonso de Lamartine (متوفی ۱۸۶۹ء) اپنی تصنیف History of the Turks میں آنحضورﷺ کے متعلق لکھتے ہیں:’’فلسفی، مقرر، نبی، قاضی، جنگجو، نظریوں کے فاتح، عقلی دلائل کو دوبارہ ترویج دینے والے… ۲۰ دنیاوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے بانی، یہ ہیں محمدﷺ۔ اگر ہم ہر ایک پیمانہ سے جس سے انسان کی عظمت ماپی جا سکتی ہے آپﷺ کی عظمت کو ماپیں تو ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا آپﷺ سے بڑا کوئی انسان گزرا ہے؟‘‘

یہ ہے نتیجہ خدا تعالیٰ کے عشق میں محو ہونے کا اور اس عشق کو دنیا داروں کی عقل پر ترجیح دینے کا!

آپﷺ نے اپنے صحابہؓ کی بھی اسی رنگ میں تربیت فرمائی۔ اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں ابو طلحہؓ کے گھر شراب ڈال رہا تھا کہ ایک آواز دینے والے کی آواز آنے لگی۔ ابو طلحہؓ نے مجھے پتا لگانے کا کہا کہ یہ کیا آواز ہے؟ میں باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اعلان کرنے والا یہ اعلان کر رہا ہے کہ شراب کی حرمت آچکی ہے اور مدینہ کی نالیوں میں شراب بہ رہا ہے۔ ابو طلحہؓ نے مجھے فورا ًحکم دیا کہ جاؤ اور یہ شراب بہا دو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔(صحیح مسلم،کتاب الاشربۃ،باب تحریم الخمر…)

غور کرنے والی بات ہے۔ شراب کے نشے کا عادی آخر کس حد تک اپنے نشے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے؟ پھر عرب جیسے ملک میں جہاں شراب نوشی کے لیے دن میں پانچ مخصوص اوقات متعین تھے اس ملک میں آنحضورﷺ کے ایک اشارے پر مسلمان ہمیشہ کے لیے شراب ترک کردیتے ہیں۔ کسی کو یہ عقل کی بات نہیں سوجھتی کہ اس طرح نشہ ترک کردینا تو ناممکنات میں سے ہے، کسی نے یہ بھی پتا کروانے کی کوشش نہ کی کہ آیا یہ اعلان کرنے والا درست اعلان کرتا ہے؟ کیوں نہ ہم رسول اللہﷺ سے خود اس بات کی تصدیق کروا لیں۔ سب نے بلا سوچے سمجھے رسول اللہﷺ کی آواز پر لبیک کہا۔

عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل

عقل سمجھی ہی نہیں معنئ پیغام ابھی

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج و آخرین منھم کی مصداق حضرت مسیح موعود ؑکی جماعت نے اپنے پہلے بزرگ انبیاء اور مقربین کی مثالوں کو دنیا میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے عشق ہی تھا جس کی بنا پر حضرت مسیح موعودؑ نے قادیان دارالامان جیسی بستی میں دنیا کے کناروں تک اپنے پیغام کو پہنچانے کا عزم اور اعلان فرمایا۔ یہ اس عشق کی تاثیرات ہی ہیں جن کے ثمرات آج ہم ایک پھلتی پھولتی جماعت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ عشق ہی تھا جو ہر مرحلہ پر آپؑ کو تسلی دیتا کہ خدا تعالیٰ آپؑ کے ساتھ ہے اور آپؑ کا مددگار ہے۔ اور آپ نے بھی آنحضرتﷺ کے بروز ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے صحابہؓ میں یہی عشق پیدا کیا۔

چنانچہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کی داستان شہادت اس بات کا کھلا ثبوت ہے۔ آپ کے دل میں خدا تعالیٰ، حضرت رسول کریمﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے لیے ایسی محبت اور ایسا عشق پیدا ہو گیا کہ خوشی سے اس راہ میں موت کو شیروں کی طرح قبول فرمایا۔ جبکہ امیر کابل آپ کو بار بار کان میں آکر کہتا کہ اس قادیانی شخص پر ایمان لانا چھوڑ دو، میں تمہیں پہلے سے بڑھ کر نوازوں گا۔ لیکن کیا حقیقی عشق کو ایسی فضول رشوت سے خریدا جا سکتا ہے؟ آپ ہمیشہ اس کی اس لاحاصل اور غلط بات کو ٹھکراتے رہے۔ آپؓ نے اس کمال سے اپنے عشق کا ثبوت دیا کہ جب آپ سے کہا گیا کہ اپنے بیوی بچوں سے مل لیں تو یہ فرماتے ہوئے انکار کر دیا کہ مجھے ان کی ملاقات کی ضرورت نہیں، میں انہیں خدا تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں۔ یہ ہے خدا تعالیٰ کی ذات سے عشق، جسے دنیا کے نام نہاد عاقل چھو بھی نہیں سکتے۔ حضرت مسیح موعودؑ آپ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کس بہر کسے سرندہد جان نفشاند

عشق است کہ ایں کار بصد صدق کناند

عشق است کہ در آتش سوزاں بنشاند

عشق است کہ بر خاک مذلّت غلطاند

بے عشق دلے پاک شود من نپذیرم

عشق است کزیں دام بیکدم برہاند

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲، صفحہ ۲۱۲)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی دین کے سچے خادم بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ عقل اور سمجھ بھی عطا فرمائے، لیکن اس سے بڑھ کر اپنا حقیقی عاشق بنائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button