اداریہ: خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس
(اصحاب احمدؑ کے قبول احمدیت کے ایمان افروز واقعات)
(سید احسان احمد۔ قائمقام مدیر روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تکمیل اشاعت ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔من جملہ دیگر نشانیوں کے خدا تعالیٰ کے مامور کی سچائی کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ اس پر ایمان لانے والے ہر طریق سے سچائی کو قبول کرتے ہیں۔بعض مخلصین کتب کا مطالعہ کر کے، دلائل کو سمجھ کراورمخالفین کے دلائل سے موازنہ کرکے زیورِ ایمان سے آراستہ ہوتے ہیں جبکہ بعض فدائی ایسے بھی ہیں جو زیادہ علمی بحثوں میں نہیں پڑتے لیکن محض خدا تعالیٰ کے فرستادے کے چہرے کو دیکھ کر ہی اس پر ایمان لے آتےہیں۔آج کے اداریہ میںدونوں طرز کے قبول احمدیت کے واقعات ہدیہ قارئین کیے جاتےہیں۔
پہلا واقعہ حضرت چودھری سکندر خاں صاحبؓ سکنہ رجوعہ تحصیل پھالیہ ضلع گجرات کا ہے۔ آپ بالکل اَن پڑھ تھے۔ ان کی بیعت کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے بیعت کی تو ابھی یہ نوعمر ہی تھے مگر چونکہ حضرت مولوی صاحبؓ کاخاندان اس نواح میں بہت مشہور تھا اس لیے اردگرد کے تمام علاقے میں شہرت ہوگئی۔
اس علاقہ میں ایک مشہور مولوی شیخ احمد صاحب تھے۔ لوگوں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ سے مباحثہ کریں۔ چنانچہ ایک بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں مباحثہ شروع ہوا۔ابھی دو چار باتیں ہی ہوئی تھیں کہ مولوی شیخ احمد صاحب نے عاجز آکر کہا کہ مرزا غلام احمد بھی کافر اور جو اسے مانے وہ بھی کافر۔نعوذ باللہ من ذالک۔
اس پر سامعین میں سے ایک شریف النفس دوست حافظ غلام حسین صاحب کوغیرت آگئی۔گو یہ شخص احمد ی تو نہیں تھے مگر انہوں نے مولوی شیخ احمد صاحب کو بہت کوسا کہ تم کو مباحثہ کے لیے بلایا ہے یا کفر بکنے کے لیے؟اس پر وہ مولوی صاحب ناراض ہوگئے اور مجلس مباحثہ چھوڑ کر چلے گئے۔
اس مباحثہ کی خبر حضرت چودھری سکندر خاں صاحبؓ کو بھی پہنچی۔ وہ مولوی شیخ احمد صاحب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ ہم اَن پڑھ لوگ ہیں۔سننے میں آیا ہے کہ مرزا صاحب نے اما م مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ہم صرف حلیہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ مہربانی کرکے بتائیں کہ امام مہدی کا حلیہ کتابوں میں کیا لکھا ہے؟ اس پر مولوی شیخ احمد صاحب نے حلیہ بتایا۔چنانچہ حضرت چودھری سکندر خاں صاحبؓ نے قادیان جانے کے ارادے سے ٹکٹ لیا۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ قادیان پہنچ کرحضورؑکاحلیہ دیکھتےہی ان کو یقین ہو گیا کہ آپؑ سچےہیں۔ مگر ابھی تک حضورؑکو چلتے نہیں دیکھا تھا۔اس لیے عرض کی کہ حضور! اَور باتوں سے تو میں نے اندازہ لگا لیا ہے مگر ابھی تک حضور کو چلتے نہیں دیکھا۔ حضور ذرا چل کر دکھائیں۔ حضرت صاحبؑ تھوڑی دُور چلے۔یہ دیکھ کر آپؓ نےبیعت کرلی۔(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر ۱۰صفحہ۱۶،۱۵۔روایات میاں شرف الدین صاحب سکنہ راجیکی)
قارئین کرام!ایسی بے شمارمثالیں روایات میںملتی ہیں جہاں حضور ؑکے زندگی بخش کلمات کا مطالعہ کر کے سچائی اور حق کو شناخت کیاگیا۔ان میں سے ایک بطور نمونہ پیش ہے۔
گجرات سےہی تعلق رکھنے والے ایک اَورصحابی حضرت ملک برکت علی صاحبؓ اپنی بیعت کا واقعہ یوںبیان فرماتے ہیں کہ ’’میں…لاہور میں ملازم ہو گیا۔ وہاں جو دفتر کے کلرک تھے انہوں نے پیر جماعت علی شاہ کی بیعت کی اور مجھے بھی تحریک کی۔ میں نے بھی ان کے کہنے سے پیر صاحب کی بیعت کر لی اور ہر روز صبح و شام دفتر کے وقت کے علاوہ ان کی صحبت میں رہنے لگا۔ جب عرصہ گزر گیا اور میری طبیعت پر کوئی اثر پیدا نہ ہوا اور نہ ہی میں نے کوئی روحانی ترقی حاصل کی تو پیر صاحب سے سوال کیا کہ مجھے بیعت کئے ہوئے اس قدر عرصہ گزر گیا ہے مگر میری حالت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ پیر صاحب نے کہا کہ آپ مجاہدات کریں اور اس حد تک میرا تصور کریں کہ میرا نقش ہر وقت آپ کے سامنے رہے پھر آپ کو بارگاہ الٰہی میں رسائی حاصل ہو گی۔ میں عرصہ تک ان کا تصور بھی کرتا رہا۔ مجاہدات بھی بڑے کئے مگر کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔
اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں ایک شخص میاں شرف الدین صاحب ہوا کرتے تھے وہ احمدی تو نہ تھے مگر حضرت صاحب کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کو پیر صاحب کی بیعت کئے ہوئے اتنا عرصہ گزرگیا ہے مگر آپ کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں تو ہر روز پیر صاحب کو یہی کہتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ میری حالت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ اگر میں آپ کو کوئی کتاب دوں تو کیا آپ پڑھیں گے؟ میں نے کہا ضرور، آپ دیں میں انشاء اللہ ضرور پڑھوں گا۔ اس پر انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک کتاب مطالعہ کے لئے دی۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا پھر انہوں نے دوسری دی یہاں تک کہ چار کتابیں میں نے پڑھ لیں۔ اس کے بعد ایک دن میں نے پیر صاحب کی خدمت میں حضرت صاحب کا ذکر کیا اور پوچھا کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ مجھے پیر صاحب نے کہا کہ نہ ہم ان کو اچھا کہتے ہیں نہ برا۔ میں اس جواب پر بہت متعجب ہوا مگر اس وقت خاموش ہو گیا۔ ایک روز پھر میں نے یہی سوال کر دیا۔ پیر صاحب نے پھر وہی جواب دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ ’’مگر نہ ان کی کوئی کتاب پڑھو اور نہ وعظ سنو۔ ‘‘ میں حیران ہوا کہ ایک طرف ان پر تواچھا یا برا ہونے کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں لگاتے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ نہ ان کی کتابیں پڑھو اور نہ وعظ سنو۔ میں نے کہا کہ کیا آپ نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے؟ اس پر پیر صاحب جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم ان کی کتابیں پڑھیں۔ علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ جو لگا دیا ہے۔ ان کا یہ جواب سن کر میرے ذہن میں حضرت اقدس کی تحریرات کا نقشہ کِھنچ گیا جن میں حضور نے مخالف علما ء کے کفر کے فتویٰ کا ذکر کر کے فرمایا تھا کہ یہ لوگ نہ میری کتابیں پڑھتے ہیں اور نہ میرے خیالات کو انہیں سننے کا موقع ملا ہے مگر محض مولوی محمد حسین کے کہنے پر یک طرفہ فتویٰ لگا دیا ہے۔
میں نے دل میں کہا کہ پیر صاحب کی بھی یہی حالت ہے کہ بالکل یک طرفہ فتویٰ لگا رہے ہیں۔ یہ باتیں سن کر مَیں پیر صاحب سے بدظن ہو گیا اور واپس آکر تحقیقات میں مشغول ہو گیا۔
ان ایام میں عبداللہ آتھم کے متعلق حضور کے اشتہارات نکل رہے تھے اور عیسائیت کی طرف سے بھی اشتہارات نکلا کرتے تھے۔میں فریقین کے اشتہارات کو ایک فائل کی صورت میں محفوظ کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس کی پیشگوئی آتھم کے بارہ میں بالکل صحیح پوری ہو گئی ہے۔ اس کے بعد لیکھرام کے متعلق حضور کے اشتہارات اور تحریرات نکلنا شروع ہو گئیں۔ ان کو بھی میں فائل میں محفوظ کرتا گیا۔ اس پر دو واقعات کے گزرنے کے بعد مجھے حضرت اقدس کی صداقت کے متعلق اطمینان ہو گیا اور میں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ پھر قریباً ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء میں قادیان جا کر دستی بیعت کی۔‘‘(رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر۱۰صفحہ۳۴،۳۳۔روایات حضرت ملک برکت علی صاحبؓ)
قارئین کرام! یہ واقعات جہاں ہمارے ایمان کو تقویت دیتے ہیں وہاں ہمارے لیے اور ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ان میں سبق بھی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی طرح ہمیشہ احمدیت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھیں اور اس کے ساتھ چمٹ جائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں: ’’صادقوں کے ساتھ ہونے سے وہ تاثیرات اور انوار دل پر پڑتے ہیں جو پاکیزگی بخش اور نجات کے چشمہ تک پہنچانے والے ہوتے ہیں۔دنیا میں یہی قاعدہ ہے کہ صادقوں کی کشش اپنا اثر کرتی ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود کیسا با برکت تھا کہ صحابہ میں آپ کی تاثیر ہوئی۔ اسی طرح اب بھی خدا نے تاثیر کا ایک سلسلہ رکھا ہے یہ قانون قدرت ہے حصول فضل کا جو نجات کا موجب ہوتا ہے۔‘‘(الحکم جلد ۶مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۲ءصفحہ ۷بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد۴صفحہ ۳۲۶)