متفرق مضامین

سورت قریش کا افتتاحیہ

(’ابو لطفی‘)

سورت قریش، بَسملہ کے بعد یوں شروع ہوتی ہے: لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ…یعنی قریش کو گرمائی اور سرمائی سفروں کی اُلفت دلانے کے لیے۔

اس پر نحویوں، ماہرین صرف و نحو اور مفسرین نے سوال اٹھایا ہے کہ جار مجرور (لِاِیْلٰفِ قریش) کا نحوی طور پر تعلق کیا ہے؟ یعنی قریش کو گرمائی اور سرمائی سفروں کی الفت دلانے کے لیے کیا کِیا گیا؟ یعنی بظاہر یہ جملہ مکمل نہیں۔

بعض نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ اس جار مجرور کا تعلق ما بعد سے ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ اگرخدا کی اور نعمتوں کی وجہ سے نہیں تو کم از کم اِس ظاہر و باہر نعمت کی وجہ سے اس کی عبادت کرو کہ اس نے تمہیں گرمائی اور سرمائی سفروں کی توفیق بخشی۔ اس پر بعض نے اعتراض کیا ہے کہ اس میں پھر فَلْیَعْبُدُوْا پر ’’ف‘‘ کیوں آئی ہے؟ اس کا بھی جواب دیا گیا ہے۔

ایک نحوی شِہاب سمین لکھتے ہیں کہ اِس جار مجرورکا تعلق پچھلی سورۃ الفیل کے آخر یعنی کعصفٍ ماْکولٍ سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کو خدا نے تباہ کیا تاکہ قریش اپنے گرمائی اور سرمائی تجارتی سفروں سے مانوس رہیں اور انہیں جاری و ساری رکھیں،جن پر مکہ کی آبادی کا انحصار تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے بھی لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا تعلق كَعَصۡفٍ مَّأۡكُولٍ سے قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضورؓ فرماتے ہیں: ’’اِس آیت میں جو لام کا لفظ ہے، وہ یہ بتانے کے لئے ہے کہ اِس سورۃ کا تعلق پہلی سورۃ سے ہے، یعنی ابرہہ کی تباہی کا واقعہ اس لئے ہؤا کہ مکہ کے لوگ آسانی سے اِدھر اُدھر پھر سکیں‘‘۔ (تفسیر صغیر۔ حاشیہ سورہ قریش)

اور اسی کے مطابق لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا ترجمہ بھی تفسیر صغیر میں لکھا ہے۔

شہاب سمین پر علامہ زمخشری نے اعتراض کیا ہے کہ اگلی سورت کا پچھلی سورت سے تعلق نکالنا درست نہیں کیونکہ یہ طریق صرف اشعار میں ہوتا ہےکہ پچھلے شعر کاا گلے شعر سے تعلق ہو۔

یہ بات درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر سورت کا پچھلی سورت سے مضمون کے لحاظ تعلق ہوتا ہےاور شروع سے آخر تک قرآن کریم کی ہر دو سورتوں کے درمیان یہ تعلق موجود ہے۔ اگر مضمون کا تعلق ہوتا ہے تو نحوی تعلق کیوں نہیں ہوسکتا؟ کیونکہ نحوی تعلق بھی بالآخر مضمون میں تعلق پر منتج ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں دلچسپ بات یہ ہے کہ اُبَیّ بن کعب کے مصحف میں الفیل اور قریش کو ایک ہی سورت کے طور پر دکھایا گیا ہے اور دونوں کے درمیان میں بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بھی درج نہیں۔(اِعراب القرآن الکریم و بیانہ از محی الدین الدرویش۔ زیر سورت قریش)

جوقرآن کریم ہمارے ہاتھوں میں ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا اس میں یہ دو الگ الگ سورتیں ہیں اور دونوں کے درمیان بَسملہ بھی موجود ہے۔ اس پر سوال اٹھتا ہے کہ اگر لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا تعلق کعصفٍ ماْکولٍ سے ہے تو پھر درمیان میں بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کا کیا مقام ہے؟

اِس اِشکال کا حل جو عاجز کے ذہن میں آیا، یہ ہے کہ یہاں بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں بِ کو قَسمیہ لیا جاسکتا ہے۔بِ عربی میں قَسَم کے لیے بھی مستعمل ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں بِاللہ یعنی خدا کی قَسَم۔ اس لحاظ سے ’’کعصفٍ ماْکولٍ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ…‘‘ کا ترجمہ ہوگا کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کو’ خدائے رحمٰن و رحیم کی قَسَم،اس لیے تباہ کیا تاکہ قریش اپنے گرمائی اور سرمائی سفروں کو جاری رکھ سکیں۔

پھرخاکسار نےیہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا کسی اَور نے بھی بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں بِ کو قَسَمیہ لیا ہے تو معلوم ہواکہ ہر ایک نے بَسملہ کی ب ِکو قَسمیہ قرار دینے کی نفی کی ہے۔ اور لکھا ہے کہ قَسَم تو خدا کے نام کی کھائی جاتی ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کے اسماء کی جو کہ الفاظ ہوتے ہیں۔

خاکسار کو اِس اعتراض میں کوئی وزن محسوس نہیں ہوا۔ مگر تحقیق جاری رکھی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے عقدہ کشائی فرمائی اور یہ اقتباس سامنے آیا:قال الشریف العلامہ: فإنَّ التَّیمُّن إنما یکون باسمہ لا بذاتہٖ و اسمُہ یُجعل ألۃَ الْفِعْلِ،لا ذاتُہ۔ و الیَمِیْنُ إنما یکون بہٖ لا بأسمائہ التی ھی الألفاظ۔ أقول فیہ نَظَر۔قال الفقھاء : لوقال أحدٌ بکلامِ اللّٰہ أو بالمصحفِ أو بالمکتوبِ فیہ، فَیَمِیْنٌ۔ فإنْ أراد بالمصحف أو بالمثبت فیہ الورقَ والجِلدَ فلا یمین۔ فظاھرالکلام أنہ ینعقد الیمینُ بألفاظ القراٰن۔ فإذا انعقد بھا فَلِمَ لا یجوز بأسمائہ تعالی التی ھی الألفاظ، فتأمَّلْ۔(تفسیر بیضاوی، حاشیہ از علامہ فاضل أبی الفضل القرشی الصدیقی الخطیب المشھور بالکازرونیؒ۔ زیر آیت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)

یعنی ’’علامہ شریف کہتے ہیں کہ قَسَم اللہ کے نام کی ہوتی ہے نہ کہ اللہ کی ذات کی۔ اِسی طرح اللہ کانام کام کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے نہ کہ اس کی ذات۔اور قَسَم خدا کے نام کی کھائی جاتی ہے نہ کہ اس کے اسماء کی جو الفاظ ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بات محل نَظَر ہے۔فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کوئی کہے: کلام اللہ کی قَسَم یا مصحف کی قَسَم یا جو کچھ اس میں لکھا ہے اس کی قَسَم تو یہ قَسَم ہوگی۔لیکن اگر قَسَم کھانے والے نے مصحف یا جو اس کے اندر ہے، سے مراداس کے اَوراق اور جِلد لی ہے تو یہ قَسَم نہیں۔ پس اس کلام سے ظاہر ہے کہ الفاظِ قرآن کی قَسَم درست ہے۔ اگر یہ بات ہے تو کیوں اسمائے باری تعالیٰ کی قَسَم جائز نہیں؟ پس غور کر۔‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں ’’ب‘‘ کو قَسمیہ لینا بالکل درست ہے پس كَعَصۡفٍ مَّأۡكُولٍ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ…کا ترجمہ ہوگا کہ خدائے رحمٰن و رحیم کی قَسَم ابرہہ اور اس کے لشکر کو اس لیے تباہ کیا تاکہ قریش اپنے گرمائی اور سرمائی سفروں کو بدستور جاری رکھ سکیں۔

اِن تجارتی سفروں پر مکہ کی آبادی کی فلاح و بہبودی کا انحصار تھا۔ مراد یہ تھی ابرہہ کو تباہ کیا تاکہ مکہ آباد رہے کہ عنقریب اس میں خدا کا عظیم الشان عالمی نبی پیدا ہونے والا تھا یعنی (’’محمد صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم‘‘)۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button