یادِ رفتگاں

چودھری نور احمد ناصر صاحب

(منصور احمد ناصر۔ واقف زندگی لائبیریا)

میرے پیارے ابو جان چودھری نور احمد ناصر صاحب محترم چودھری محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان کے ہاں ۱۰؍دسمبر ۱۹۳۸ء کو ان کی بڑی اہلیہ فتح بی بی صاحبہ کے بطن سےملتان میں پیداہوئے۔آپ کے خاندان میں احمدیت کا آغاز آپ کے دادا جان چودھری نور محمد صاحب سفید پوش کے ذریعے ہوا جنہوں نے حضرت خلیفةالمسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔

ابو جان اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور ان کی تدفین بہشتی مقبرہ نصیر آباد ربوہ میں عمل میں آئی۔آپ نے نسبتاًبڑی عمر میں نظام وصیت میں شمولیت اختیار کی۔ اس حوالے سے آپ ایک پرانی خواب سنایا کرتے تھے جبکہ ابھی وصیت نہیں کی تھی۔ ابوجان بتاتے تھے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میری وفات ہو گئی ہے اور میرا جنازہ لوگ عام قبرستان میں تدفین کےلیے لےکر جارہے ہیں۔ مگر منصور ( یعنی خاکسار) اس کا رخ بہشتی مقبرہ کی طرف موڑ دیتا ہے تاکہ وہاں تدفین ہو جائے۔

اس کے بعد خاکسار ایک مرتبہ رخصت پر پاکستان گیا تو میں نے ابو جان کے وصیت فارم پُر کر کے ان کی طرف سے درخواست بھیج دی۔پھر۲۰۲۰ءمیں جب رخصت پر پاکستان گیا تو میں نے ابوجان کی طرف سے تشخیص جائیداد کی درخواست دےدی۔ میرا قیام پاکستان میں بوجوہ لمبا ہو گیا۔ اس دوران ابو جان کی جائیداد کی تشخیص ہو گئی اور ہم نے ادائیگی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین اقساط میں ایک خطیر رقم کی ادائیگی کی توفیق ملی جس کا بڑا حصہ ابو جان کی پینشن میں سے ہی ادا کیا گیا اور کچھ رقم ہمارے آبائی گاؤں میں ایک پلاٹ فروخت کر کے ادا کی گئی۔ آخری قسط میرے لائبیریا واپس آنے سے چند روز پہلے جنوری ۲۰۲۱ء کے پہلے ہفتے میں ادا ہو کر جائیداد کا سرٹیفکیٹ بھی مل گیا۔ ۱۲؍جنوری ۲۰۲۱ءکو ہم لائبیریا واپسی کےلیے پاکستان سے رخصت ہوئے اور ۲۲؍مارچ کو میرے ابو جان اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اور ان کی تدفین اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہشتی مقبرہ میں ہوئی اور یوں ان کی پرانی خواب پوری ہوگئی، الحمدللہ علی ذالک۔

میرے ابو جان گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔ بچپن میں ہی والدہ کی وفات اور والد صاحب کی حفاظت مرکز کی غرض سے قادیان ہجرت کی وجہ سے والدین کے سہارے سے محروم ہو گئے۔اس محرومی کا احساس انہیں آخری عمر تک رہا۔ اپنے چار بیٹوں میں سے تین کو وقف کر کے خدمت دین کےلیے پیش کر دیا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ بچپن میں مجھے اسماعیلی قربانی کی توفیق ملی اور اب ابراہیمی قربانی کی توفیق مل رہی ہے۔ مگر شکوہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی ان قربانیوں پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔

وفات سےدو سال قبل سے بیڈ پر تھے اور یاد داشت بھی تقریباً ختم ہو گئی تھی۔جب میں واپسی کے لیے ان سے رخصت ہوتے وقت گلے لگ کر مل رہا تھا تو مجھے یہ احساس تھا کہ یہ میری ان سے آخری ملاقات ہے۔تمام تر ضبط کے باوجود ان سے گلے ملتے وقت اپنے سینے کی بے تحاشا دھڑکن کو نہیں دبا سکا جسے محسوس کر کے وہ میری کمر پر ہاتھ پھیر کر مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہنے لگے’’نہیں ایسے نہیں …نہیں ایسے نہیں ‘‘۔

اس سے پہلے جب وہ اپنے مکمل ہوش و حواس میں تھے تو ہمیشہ ہمیں مسکراتے ہوئے رخصت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اپنے بچوں کو دین کی راہ میں جہاد کےلیے بھیج رہا ہوں، اس لیے رو دھو کر اپنے ثواب میں کمی نہیں کرنا چاہتا۔ ان کا یہ عزم ہمارا حوصلہ بڑھانے اور بشاشت اور خوش دلی سے میدان عمل میں جانے کا موجب بن جاتا، الحمدللہ۔

میرے ابو جان اور امی جان سیدہ مریم صدیقہ ناصر صاحبہ مرحومہ کی ایک نمایاں صفت مہمان نوازی تھی جس کا ہر شخص نے ہم سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے بطور خاص ذکر کیا اور ان کی اس خوبی کو خوب سراہا۔ہم خود اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارا گھر ہمیشہ مہمانوں کی آمد و رفت کا مرکز بنا رہا اور جس محبت اور اخلاص سے ہم نے اپنے ابو جان اور امی جان کو مہمانوں کی خدمت کرتے اور ان کا اکرام کرتے دیکھا ہے، یہ حسین نظارے ہمارے دل و دماغ پر نقش ہو گئے ہیں۔ ہمارے ابو امی نے قادیان سے دیار مسیح کی اینٹ ہمارے دادا جان محترم چودھری محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان کے ذریعے منگوا کر اپنے مکان میں اس غرض سے لگائی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے ہمارا گھر بھی مہمانوں کی کثرت سے بھرا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اس جذبے اور خلوص کو شرف قبولیت بخشا اور ہمارا گھر ہمیشہ مہمانوں کی آمد سے بارونق رہا، الحمدللہ۔

احمدیت کےلیے سچا جوش اور اس کی خاطر عواقب سے بےپرواہ ہو کر ہر قربانی کےلیے ہر دم تیار رہنا بھی ابو جان کا وہ وصف تھا جو ان کی شخصیت کی پہچان تھی۔سنت نگر لاہور میں انہوں نے اپنے گھر کا نیچے والا حصہ بطور نماز سنٹر وقف کر رکھا تھا اور ہمارے حلقہ میں جب تک مسجد نہیں بنی، تمام جماعتی پروگرام اسی نماز سنٹر میں ہوتے رہے۔ہال کاکمرہ نمازوں اور دیگرجماعتی پروگراموں کے لیے استعمال ہوتا جبکہ مستورات کےلیے اس سے اوپر والی منزل میں ایک گیلری بطور خاص بنوائی تھی۔ برسبیل تذکرہ یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ محلہ دار اکثر شادی بیاہ کےلیے یہ ہال بلا معاوضہ استعمال کرتے اور کسی کو کبھی بھی انکار نہیںکیا گیا۔

ہماری تعلیم و تربیت میں اس نماز سنٹر کا بہت اہم کردار ہے۔جماعت کے بزرگان اکثر یہاں آتے رہتے اور ایسے پروگرام ہماری تربیت اور ازدیاد ایمان کا باعث بنتے۔

نماز سنٹر اور دیگر جماعتی پروگراموں کا مرکز ہونے کی بنا پرہمارا گھر بعض اوقات مخالفت کا نشانہ بھی بنتا مگر ابو جان نے کبھی بھی کسی ڈر خوف یا کمزوری کا اظہار نہیں کیا اور ڈٹ کر مومنانہ شان سے ہر مخالفت کا مقابلہ کیا۔

۲۰۱۲ء میں پہلی مرتبہ پولیس ہمیں گائے کی قربانی سے روکنے کےلیے آئی۔پھر۲۰۱۴ء میں پولیس اور مولویوں نے مل کر سنگ مرمر کی پلیٹ اکھاڑ دی جس پر کلمہ طیبہ اور دیگر اسلامی عبارتیں کندہ تھیں۔اس واقعے سے چند روز پہلے مولویوں کا ایک وفد ابو جان کے پاس آیا کہ کلمہ طیبہ والی یہ پلیٹ اتار دیں ورنہ ہم قانونی چارہ جوئی کریںگے۔میرے ابو جان نے کہا کہ میں نے یہ پلیٹ اتارنے کےلیے نہیں لگائی اور اپنے ہاتھ سے تو میں ہر گز اسے نہیں اتاروں گا۔

ہر ایک کی مدد کرنا اور کسی کی تکلیف کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ابو جان کی ایک ایسی خوبی تھی جس کی وجہ سے معاشرے میں وہ بہت عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور اپنوں، بیگانوں میں یکساں مقبول تھے۔ابو جان ایک محنتی، دیانت دار اور انتہائی قابل ٹیچر تھے۔انہوں نے بہت سے غریب طلبہ کو مفت تعلیم دی اور محلے کا کوئی گھر شاید ہی ان کے فیض سے محروم رہا ہو گا۔

اپنے درویش والد محترم کی اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی خدمت اپنی محدود آمد کے باوجود اپنی استطاعت سے بڑھ کر کرتے رہے اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی شادیاں بھی اکثر خودہی کیں تاکہ ان کے کثیر العیال درویش باپ کا بوجھ ہلکا ہو سکے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میری امی جان کا تعلق بہار سے تھا۔بچپن میں ہی آپ یتیم ہو گئی تھیں۔ان کی پرورش قادیان میں میرے دادا جان نے اپنی بیٹی بنا کر کی۔بعد ازاں میرے ابو جان سے ان کی شادی کروا دی۔امی جان نے بھی اس احسان کا خوب حق ادا کیا اور ہمیشہ سب سے حسن سلوک کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔

میرے ابو جان ایک دعا گو، عبادت گزار وجود اور سچے احمدی تھے جنہیں خلافت کے ساتھ عشق کی حد تک محبت تھی۔سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام، خلفائے کرام اور جماعت کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کےلیے تیار نہ تھے اور احمدیت کے دفاع میں ایک ننگی تلوار تھے۔مربیان کرام اور واقفین زندگی کا بہت احترام کرنے والے تھے۔ اور اپنے واقفین زندگی بچوں کو اپنا اثاثہ سمجھتے تھے اور ہمیشہ ہماری مدد کرتے رہتے تھے۔ ہم نے اگر کوئی مالی خدمت کی کوشش کی تو لینے سے انکار کر دیتے کہ میں نے آپ کو دین کی راہ میں وقف کیا ہے نہ کہ آپ سے کوئی مالی نفع حاصل کرنے کےلیے آپ کو پڑھایا لکھایا ہے۔ہمارے بےحد اصرار پر اگر ہماری دلجوئی کے لیے کچھ لے بھی لیتے تو اسے خرچ نہ کرتے بلکہ امانتاً رکھوا دیتے کہ کل کو ان کے بچوں کے کام آجائےگا۔

ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو اچانک کہنے لگے کہ بس اب تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔میں نے پوچھا کہ ابو جی کس بات کو تھوڑے دن رہ گئے ہیں؟ تو کہنے لگے کہ اللہ میاں کے پاس جانے کو۔میں نے پوچھا کون اللہ میاں کے پاس جانے والا ہے ؟ تو کہنے لگے کہ میں۔واقعی اس کے بعد تھوڑے دن میں ہی اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔

بلانے والا ہے سب سے پیارااسی پہ اے دل تُو جاں فدا کر

آپ کے چھوٹے بیٹے عزیزم شکور احمد ناصر بیان کرتے ہیںکہ والد صاحب نے گھر میں فری ہومیوپیتھک ڈسپنسری کا قیام کیا جو نماز سنٹر کے ساتھ ہی ایک چھوٹے سے حصے میں قائم تھی۔بہت سے محلہ دار اور اہل علاقہ اس سے مستفید ہوتے اور شفا پاتے۔ کئی غیر از جماعت نے انہیں ہومیوپیتھک ڈسپنسری کو آمدن بنانے کا مشورہ بھی دیا لیکن آپ یہی کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ہا تھ میں شفا ہی اس وجہ سے رکھی ہے کہ میں اس کے بندوں کی بلامعاوضہ مدد کروں۔

یتیموں کی کفالت کا خاص خیال رکھتے۔ایک مرتبہ محلہ کے ایک رکشہ ڈرائیور جب وفات پا گئے تو ان کے بچوں کا بہت فکر کرتے اور کوشش کرتے کہ ان کی ہر ممکن مدد ہو۔جب پتا چلتا کہ خاکسار کے کسی دوست کے والد کا انتقال ہو گیا ہے تو تلقین کرتے کہ اس کا پہلے سے بڑھ کر خیال کرنا اور اسے کچھ چاہیے ہو تو مجھے بتانا۔

تلاوت قرآن کریم کا بے حد شوق تھا۔خاکسار کو بھی اونچی آواز میں تلاوت کی تلقین کرتے۔ رمضان میں قرآن کریم کے تین ادوار مکمل کرتے۔آخری عمر میں جب نظر ساتھ نہ دیتی تو سخت پریشان رہنے لگے کہ تلاوت کیسے کروں گا؟ خاکسار کو یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں تلاوت کرتے وقت اگر کوئی غلطی کر دیتا تو بنا دیکھے بتا دیتے کہ غلطی کی ہے غور سے تلفظ دیکھو۔

آپ گریڈ ۱۹؍میں بطور سینئر ہیڈماسٹر گورنمنٹ سلیم ماڈل ہائی سکول لاہور سے ریٹائر ہوئے اور ۸۲؍سال کی عمر میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔

ابو جان نے اپنے پیچھے بیوہ (زوجہ ثانی)، چار بیٹے خاکسارمنصور احمد ناصر واقف زندگی لائبیریا، منور احمد ناصر نیویارک امریکہ،مسرور احمد مظفر مبلغ سلسلہ غانا اور عزیزم شکور احمد ناصر اور متعدد پوتے پوتیاں یادگار چھوڑے ہیں۔

آپ کا سب سے بڑا پوتا عزیزم عبدالحئی ناصر جامعہ احمدیہ گھانا میں درجہ رابعہ کا طالبعلم ہے۔آپ کے ایک چھوٹے بھائی محمد نورالدین ناصر صاحب قادیان میں بطور صدر عمومی خدمات کی توفیق پارہےہیں۔اسی طرح آپ کے ایک بھانجے عزیزم سید احسان احمد صاحب(مبلغ سلسلہ) روزنامہ الفضل انٹرنیشنل میں خدمات کی توفیق پارہے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت خطبہ جمعہ فرمودہ۲۱؍مئی۲۰۲۱ءمیں آپ کا ذکر خیر فرمایا اوربعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔حضور انور نے فرمایا:’’اگلا ذکر محترم چودھری نور احمدناصر صاحب کا ہے جو گذشتہ دنوں بیاسی سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔یہ چودھری محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے دو بیٹے اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقف زندگی ہیں۔ ایک تو منصور احمدناصر ہیں جو ہمارے لائبیریا کے سکول میں پرنسپل ہیں اور دوسرے مسرور احمد مظفر گھانا میں بطور مبلغ خدمت سلسلہ کی توفیق پا رہے ہیں اور یہ دونوں بیٹے میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے باپ کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍جون۲۰۲۱ءصفحہ۱۰)

اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے ابو جان کو اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے اور جنت الفردوس میں انہیں اپنے پیاروں کے ساتھ ملا دے اور اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے اور ان کی خوبیاں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button