متفرق مضامین

رسول کریمﷺ اور تکریم انسانیت

(عبدالسمیع خان)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا اور اس کو احسن تقویم یعنی بہترین اور موزوں ترین صورت میں پیدا کرنے کی خبردی۔ مذاہب عالم میں قرآن کریم واحد کتاب ہے جو انسان کو بحیثیت انسان عزت اور تکریم عطا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَقَدۡکَرَّمۡنَابَنِیۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنْ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا (بنی اسرائیل:۷۱) یعنی یقیناً ہم نے ابنائے آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواری عطا کی اور انہیں پاکیزہ چیز وں میں سے رزق دیا اور اکثر چیزوں پر جو ہم نے پیدا کیں انہیں بہت فضیلت بخشی۔

ہمارے آقا و مولیٰ حضرت رسول کریمﷺکی بعثت سے قبل انسانیت مختلف ذاتوں، نسلوں، خاندانوں، رنگوں اور علاقوں میں بٹی ہوئی تھی اور بالادست طبقات کمزور انسانوں کو ہزاروں سالوں سے ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے کہ انسانیت کا نجات دہندہ آگیا۔

ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ نے تکریم انسانیت کے لیے جو عظیم الشان تاریخی قدم اٹھائے ان میں سے اہم ترین اعلان یہ تھا کہ اے ابنائے آدم سنو! تمہارا خدا ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے یاد رکھو کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ یہ حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کا حصہ ہے جس میں آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری عزتوں اور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں کو اسی طرح حرمت عطا کی ہے جس طرح اس شہر مکہ،اس مہینہ ذوالحجہ اور اس دن یوم عرفہ کو حرمت عطا کی ہےسنو! کیا میں نے تمہیں خدا کا پیغام پہنچا دیا ہے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہاں یارسول اللہ ؐ!آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے۔فرمایا: غیر موجود لوگوں کو بھی یہ پیغام پہنچاتے جاؤ۔ إِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَرَّمَ بَيْنَكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَ أَعْرَاضَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا، فِي شَهْرِكُمْ هٰذَا، فِي بَلَدِكُمْ هٰذَا أَبَلَّغْتُ، قَالُوْا: بَلَّغَ رَسُولُ اللّٰهِ، قَالَ: لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ(صحیح بخاری، کتاب الحج، باب الخطبہ ایام منیٰ حدیث نمبر ۱۷۴۱)

اس طرح آپ نے صرف مٹی اور پتھر اور لکڑی کے بت ہی پاش پاش نہیں کیے بلکہ جھوٹے غرور اور طاقت اور رنگت کے تمام بت بھی ریزہ ریزہ کر دیے اور تمام انسانوں کو بحیثیت انسان ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔پھر آپؐ نے ایک اور تاریخ ساز اعلان فرماکر انسانیت کا مرتبہ بلند ترین سطح پر پہنچا دیا۔ فرمایا:قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌمِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ (کہف:۱۱۱)تو کہہ دے کہ میں تو محض تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ (فرق صرف یہ ہے کہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے۔

پھر آپؐ نے فرمایا:میں بھی ایک انسان ہوں۔ جب میں تمہارے دین میں سے کسی چیز کا حکم دوں تو اسے اختیار کرو اور اگر میں اپنی رائے سے تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو میں محض ایک بشر ہوں۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب وجوب امتثال ماقالہ شرعا حدیث نمبر ۴۳۵۷)یعنی مقصود کائنات اور وجہ تخلیق دوعالم جب یہ کہتا ہے کہ میں تمہارے جیسا بشر ہوں تو اس کا مرتبہ تو کم نہیں ہوتا دوسرے انسانوں کا مرتبہ حسب توفیق بلند ہو جاتا ہے جو اس کے رنگ میں جتنا رنگین ہوگا وہ اس سے فیض پائے گا۔پھر فرمایا: میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں بھول جاؤں تو مجھے یاد کرادیا کرو۔اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ اَنْسَی کَمَا تَنْسَوْنَ فَاِذَا نَسِیْتُ فَذَکِّرُوْنِی۔ (صحیح بخاری ،کتاب الصلوٰة، باب التوجہ نحو القبلہ… حدیث نمبر۳۸۶)

اس محسن انسانیتؐ نے احترام مخلوق کا درس دیا انسان کے ہر طبقے کے حقوق پہلی دفعہ نہ صرف قائم فرمائے ان کو ان کے حقوق کا شعور عطا فرمایا بلکہ ان کو دلوائے بھی۔آیئے اس کی چند مثالیں ملاحظہ کریں۔

رسول اللہﷺنے ان انسانوں کے لیے حقوق قائم کیے اور قائم کرکے دکھائے جو خود کو انسان سمجھنے کے احساس سے عاری تھے۔اس زمانے کے ان مجبور اور مقہور انسانوں کی قطار میں مجھے وہ زاہر بن حرام ؓ بھی نظر آتا ہے جو گاؤں سے سبزی لا کر مدینہ میں بیچتا تھا مگر بدصورت ہونے کی وجہ سے لوگ کم ہی اس کے پاس آتے تھے۔ ایک دن دوپہر کو وہ پسینے سے شرابور بازار میں موجود تھا کہ رسول کریمﷺ اس طرف سے گزرے اور پیچھے سے آکر بڑے پیار سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے اور پوچھا کہ بتلاؤ میں کون ہوں؟ … زاہر نے دل کی آنکھوں سے دیکھا کہ اس پر پیار کا چشمہ لنڈھا دینے والا وجود سوائے محمدﷺ کے اور کوئی نہیں ہوسکتا اور اس نے جوش محبت میں رسول اللہﷺکے ساتھ اپنا جسم ملنا شروع کر دیا۔ رسول اللہؐ کے جذبۂ شفقت نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور فرمایا میرا ایک غلام ہے اسے کون خریدتا ہے؟ اس نے عرض کیا یارسول اللہؐ !مجھے کون خریدے گا؟فرمایا:ایسا مت کہو! عرش کا خدا تمہارا خریدار ہے۔ (شمائل الترمذی، باب فی صفة مزاح رسول اللہؐ)

ہاں ہاں ہمارا آقا ہی وہ طائر قدس ہے جس کی پرواز ہفت آسمان سے اوپر ہے اور وہ اس مُشت خاک کو صاحب عرش عظیم سے ملا دیتا ہے کسی صاحب دل نے نہایت سچ کہا ہے۔

کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا

کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا

کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درّ یتیم

اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا

اسی محمد مصطفیﷺکے غلام بلال ؓ کو حضرت عمر ؓجیسا صاحب جبروت خلیفہ سیدنا بلال کہہ کر پکارتا تھا۔ (اسدالغابہ)

عورت اس زمانہ میں بھی بے حیثیت تھی اور آج بھی اس کی حالت زیادہ مختلف نہیں۔ بھارت میں ہر سال پانچ لاکھ بچیاں پیدائش کے حق سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ (پاکستان میگزین ۱۶؍اپریل ۲۰۰۷ء) اور غیرت کے نام پر زندہ درگور کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ یورپ میں ہر چند منٹ بعد ایک عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ مگر ہمارے آقاؐ نے عورت کو نہایت عزت اور احترام دے کر سربلند کر دیا اور اس سے حسن معاشرت کو ایمان کا معیار ٹھہرایا ہے۔فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے اور میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ہوں۔ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النسا٫۔ حدیث نمبر ۱۹۷۷) اور جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ۔ ( مسند الشہاب القضاعی جلد ۱ صفحہ ۱۰۲ حدیث نمبر ۱۱۹)

مجھے مدینہ کی وہ دھتکاری ہوئی لونڈی بھی نظر آتی ہے جسے آج کی اصطلاح میں Mental Caseکہا جاتا ہے وہ رسول اللہﷺکی مجلس میں آئی اور کہا مجھے آپ سے کچھ کام ہے علیحدگی میں بات سنیں۔ رسول اللہؐ اٹھ کھڑے ہوئے وہ عورت رسول اللہﷺ کو ایک راستہ پر لے گئی۔ رسول اللہﷺاس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اس کی بات سن کر اس کا اطمینان نہ کردیا رسول اللہ وہیں بیٹھے رہے۔ (الشفاء، قاضی عیاض، باب تواضعہ )

اتنے مصروف اور نفیس الطبع انسان کا ایک مخبوط الحواس عورت کے لیے اتنا وقت عطا کرنا انسانیت نوازی کی لاثانی مثال ہے۔ رسول اللہﷺ کا یہ طرز عمل کوئی وقتی اور لمحاتی نہ تھا۔ آپ کی سیرت کا مستقل اور پائیدار حصہ تھا۔

عدی بن حاتم ؓقبیلہ طے کے رئیس اور مشہور سخی حاتم طائی کے فرزند تھے۔ فتح مکہ کے بعد ان کی بہن رسول اللہﷺ کے عفو و کرم سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئیں تو انہوں نے عدی سے کہا جس قدر جلد ممکن ہو دربار محمدی میں حاضری دو وہ پیغمبر ہوں یا بادشاہ ہر حال میں ان کے پاس جانا مفید ہے۔عدی دربار رسولؐ میں حاضر ہوئے۔ صحابہؓ کی رسول اللہﷺسے بے پناہ محبت اور والہانہ عقیدت دیکھ کر سوچ میں پڑ گئے کہ یہ پیغمبر ہیں یا بادشاہ؟ رسول اللہﷺ تھوڑی دیر بعد ان کو لے کر گھر کی طرف چلے کہ اسی اثنا میں ایک بڑھیا آگئی اور رسول اللہﷺ کو روک لیا۔

آج کئی علاقوں میں غیرملکی سربراہوں کے استقبال کے لیے سڑکوں پر زبردستی کھڑے کیے جانے والے بچے بھوک اور پیاس سے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ وزیر اور مشیر شاہراہوں سے گزریں تو ٹریفک بند کر دی جاتی ہے اور ہٹو بچو کا شور بلند ہوتا ہے اورساری خلقت ایک عذاب کا شکار ہو جاتی ہے۔

ایسے لوگوں کو میں بتاتا ہوں کہ رسول کریمﷺ قبیلہ طے کے رئیس کی موجودگی میں دیر تک اس بڑھیا سے گفتگو کرتے رہے عدی بن حاتم شام میں رومیوں کے درباروں سے خوب واقف تھے ان کو حیرت ہوتی ہے کہ لاکھوں انسانوں کا محبوب پیشواایک بڑھیا کے ساتھ اس قدر حسن سلوک سے پیش آتا ہے ظاہری جاہ و جلال کے لبادہ میں عجز اور خاکساری اور تواضع کی روح دیکھ کر عدی کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص بادشاہ نہیں، شان نبوت سے متصف ہے۔ فوراً گلے سے صلیب اتاری اور محمد رسول اللہﷺ کا حلقہ اطاعت اپنی گردن میں ڈال لیا۔ (سیرة ابن ہشام، امر عدی بن حاتم)

کسی مذہب کی سب سے مقدس جگہ معبد ہوا کرتی ہے اور اس میں انسان کسی ایسے وجود کا داخلہ برداشت نہیں کرسکتا جو اس کو ناپاک کرنے آئے یا خود ناپاک ہو۔ مگر اس سلسلہ میں بھی رسول اللہﷺانسان کی عزت اور حرمت کو مقدم قرار دیتے ہیں۔ایک اعرابی نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا۔ صحابہؓ اس کو مارنے کے لیے دوڑے تو فرمایا: اسے کچھ نہ کہو اور مسجد کو صاف کردو۔ (ترمذی، ابواب الصلوٰة، باب فی البول یصیب الارض)

آج کسی دوسرے فرقہ کی مسجد میں جانے سے مسجد ناپاک ہو جاتی ہے۔ مگر آپﷺ ہی تھے جنہوں نے عیسائیوں کو مسجد نبوی میں اتارا اور ان کو اپنے طریق پر اپنے قبلہ کی طرف رخ کرکے عبادت کی اجازت دی۔ (اسباب النزول صفحہ۵۳)

آپﷺنے مشرکین کو بھی مسجد میں قیام کے لیے جگہ دی اور جب صحابہؓ نے عرض کیا کہ قرآن تو مشرکوں کو نجس قرار دیتا ہے تو فرمایا: اس میں دل کی ناپاکی اور عقائد کی گندگی کا ذکر ہے انسان تو پاک ہے۔ (احکام القرآن جلد۳ صفحہ۱۰۹)

یہ وہ نفس مطہر تھا جس نے زندہ انسانوں ہی کے نہیں بلکہ مُردوں اور لاشوں کے بھی حقوق مقرر فرمائے کیونکہ ان کے ساتھ زندوں کا قلبی اور جذباتی تعلق ہوتا ہے۔

آج جبراً غیرمسلم قرار دیے جانے والوں کی نعشوں کی بے حرمتی کر کے خوشی منائی جاتی ہے مگر آنحضرتﷺ کے پاس سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو صحابہ سمیت آپ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے کسی نے عرض کیا یارسول اللہؐ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ فرمایا: کیا یہ انسان نہیں ہے؟ (بخاری، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة یہودی)شرف انسانی کا قیام تو اس طرح ہوتا ہے۔

صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت سہل بن حنیفؓ اور قیس بن سعدؓ قادسیہ کے شہر میں تھے ان کے قریب سے کسی غیرمسلم کا جنازہ گزرا تو دونوں کھڑے ہو گئے کسی نے یاد دلایا کہ یہ تو غیرمسلم تھا فرمایا کہ ہمارے رسول اکرمﷺ کا یہی اسوہ ہے۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة یہودی)

آج لاشوں کو قبروں سے اکھیڑ کر مکروہ شوق پورے کیے جاتے ہیں مگر سنو!جنگ احزاب میں ایک کافر سردار عمر وبن عبدود خندق میں گر کر ہلاک ہو گیا اور نعش مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی کفار جنگ احد میں مسلمانوں کی نعشوں کی بے حرمتی کر چکے تھے اور حضرت حمزہ ؓ کی نعش کے ناک اور کان کاٹ کر ہار بنائے اور جگر چبایا گیا۔ انہیں خطرہ تھا کہ جوابی کارروائی نہ ہو اس لیے انہوں نے پیغام بھیجا کہ ہم دس ہزار درہم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں یہ لاش ہمیں واپس کر دیں۔ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا ہم مردہ فروش نہیں اور لاش صحیح سلامت واپس کر دی۔ (شرح المواہب جلد۲ صفحہ۱۹۴۔دلائل النبوۃ البیہقی جلد ۳ صفحہ ۴۳۷۔ابن ہشام جلد ۳ صفحہ۲۷۳۔طبری جلد ۲ صفحہ ۵۷۴ )

آج جبری غیرمسلموں کی لاشوں کی تدفین میں رکاوٹ ڈالنا باعث فخر سمجھا جاتا ہے مگر آنحضرتؐ کے چچا حضرت ابوطالب کلمہ توحید کا اقرار کیے بغیر فوت ہو گئے تو رسول اللہﷺ نے ان کے مسلمان بیٹے اور اپنے چچازاد بھائی حضرت علی کو بھیجا کہ جاؤ اور ان کو عزت و احترام سے دفن کر کے آؤ۔ (السیرة الحلبیہ جلد۱۰ صفحہ۳۸۹)صحابہؓ بتاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا یہ معمول تھا کہ جنگ کے بعد کسی لاش کو خواہ وہ مسلم کی ہو یا غیرمسلم کی تدفین کے بغیر نہیں رہنے دیتے تھے۔اور کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلم ہے یا کافر۔ (السیرة الحلبیہ جلد۲ صفحہ۱۹۰) بدر میں ہلاک ہونے والے مشرک سرداروں کو آپ نے خود میدان بدر میں ایک گڑھے میں دفن کروایا۔(بخاری، کتاب المغازی غزوہ بدر)

آج مسلم اور غیرمسلم قبرستانوں میں تمیز کی جاتی ہے مگر رسول اللہﷺ نے ایسا کوئی امتیاز پیدا نہیں کیا۔ محدثین بتاتے ہیں کہ حضرت خدیجہ ؓمکہ کے اس قبرستان میں مدفون ہوئیں جو قدیم سے مشرکین مکہ کا قبرستان چلا آتا ہے۔ (الرحلہ الحجاز یہ صفحہ۵۵) رسول اللہﷺ کے زمانہ سے آج تک مدینہ کے مسلمان مدینہ کے قدیم قبرستان میں دفن ہوتے رہے ہیں جو بقیع مقام پر تھا اور آج جنت البقیع کہلاتا ہے۔

قارئین کرام! انسانی حقوق کے منشور تو بہت سے بنے ہیں مگر کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھی سوائے اس بیل کے جو دست قدرت نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دل میں لگائی تھی۔ وہ بارآور ہوئی اور پھلدار بنی اور ہر قوم نے اس کا رس پایا۔ ہر وہ شخص جس نے انسان کی حیثیت سے رسول کریمﷺ کے احسانات کا مشاہدہ کیا وہ پکار اٹھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہیں۔ ایک ہندو شاعر کہتا ہے۔

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں

اور یہ سچ ہے کیونکہ محمدﷺ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں تمام عالمین کے لیے رحمت اور برکت کا خزانہ تھے۔بدھ مذہب کے پیشوائے اعظم مانگ تونگ صاحب کہتے ہیں۔حضرت محمدؐ کا ظہور بنی نوع انسان پر خدا کی ایک رحمت تھا۔ لوگ کتنا ہی انکار کریں مگر آپ کی اصلاحات عظیمہ سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ ہم بدھی لوگ حضرت محمد سے محبت کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ (عرض الانوار صفحہ۲۲۵)

مغرب کے مفکر ایس پی سکاٹ لکھتے ہیں:محمد کی آمد سے پہلے اور ان کے بعد کی دنیا ایک بدلی ہوئی دنیا ہے۔ یہ پوری دنیا جو مشرف بہ اسلام نہیں ہوئی اس کے باوجود محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے عظیم احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے انسانی وجود کو جو مقام حاصل ہوا وہ محمد کی تعلیمات سے پہلے کبھی بنی نوع انسان کو حاصل نہ ہوسکا تھا … انسان کو اگر اپنی دنیا کو واقعی امن کا گہوارہ بنانا ہے تو پھر اسے خدا کے فرستادہ نبی کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا جس کا نام محمدﷺ تھا۔ (History of Moorish Empire in Europe)

یہ تھا ہمارا آقا رحیم اور مہربان کہ جس نے وحشیوں کو انسان بنایا وہ مربی اور نفع رساں جو بھولی ہوئی خلقت کو پھر راہ راست پر لایا۔ وہ حسن اور صاحب احسان … جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھڑایا، وہ ابو الوقت اور صاحب زمان جس نے مشرق اور مغرب اور اسود و احمر کا فرق مٹایا، وہ نور اور نور افشاں … جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلایا وہ حکیم اور معالج زماں … جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا، وہ کریم اور کرامت نشاں جس نے مُردوں کو زندگی کا پانی پلایا، وہ شجاع اور پہلوان جو سسکتی ہوئی انسانیت کو موت کے منہ سے نکال کر لایا، وہ حلیم اور بے نفس انسان جس نے ہر شخص کا غم کھایا اور درد اٹھایا وہ کامل اور بحر عرفان جس نے قیامت تک آنے والی دنیا کو اپنے اسوہ سے منور فرمایا۔(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۱۷)

اس پاک وجود پر ہزاروں ہزار درود اور سلام، حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ اس پاک وجود کے حق میں یوں نغمہ سرا ہیں۔

چارہ گروں کے غم کا چارہ، دکھیوں کا امدادی آیا

راہ نما بے رہرووں کا راہبروں کا ہادی آیا

عارف کو عرفان سکھانے،متقیوں کو راہ دکھانے

جس کے گیت زبور نے گائے،وہ سردار منادی آیا

وہ جس کی رحمت کے سائےیکساں ہر عالم پر چھائے

وہ جس کو اللہ نے خوداپنی رحمت کی ردا دی، آیا

صدیوں کے مردوں کا محیی، صل علیہ کیف یُحْیٖ

موت کے چنگل سے انسان کو دلوانے آزادی

جس کی دعا ہر زخم کا مرہم صلی اللہ علیہ وسلم

وہی ہے جس نے اپنے ایک مقرب صحابی پر اس بات پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ وہ لمبی نماز کیوں پڑھاتا ہے جس کی وجہ سے کسی مقتدی کو ذرائع معاش تک پہنچنے میں دیر ہو جاتی ہے اور پھر آپ نے مستقل حکم جاری فرمایا کہ انفرادی نماز چاہے کوئی شخص جتنی لمبی چاہے پڑھے مگر باجماعت نماز مختصر ہو کیونکہ مقتدیوں میں ضعیف اور کمزور اور نماز کے بعد کہیں جانے کے خواہشمند بھی ہوتے ہیں۔ (بخاری ،کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظة والتعلیم)

آپ ہی وہ ارفع وجود ہیں جنہوں نے خدا سے محبت کا معیار انسان کی سچی ہمدردی کو ٹھہرایا ہے وہ عورت جو خوب نمازیں پڑھتی اور کثرت سے روزے رکھتی تھی مگر اپنے ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش نہیں آتی تھی اس کے متعلق فرمایا یہ جہنمی عورت ہے۔(الادب المفرد امام بخاری باب لا یوذی جارہ حدیث نمبر ۱۱۹ ) درحقیقت انسانیت زندہ باد کا سچا نعرہ سب سے پہلے محمد مصطفیٰﷺ نے ہی لگایا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کی روح کو بلند سے بلند تر مقامات عطا فرماتا چلا جائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button