الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیّدہ اُمّ طاہرمریم النساء بیگم صاحبہؓ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ سیّدہ عذرا عباسی صاحبہ کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کی حرم محترم اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ مریم النساء بیگم صاحبہؓ (المعروف اُمّ طاہر)کی سیرت شامل اشاعت ہے۔

حضرت مریم بیگم صاحبہؓ ۱۹۰۵ء میں رعیہ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئیںجہاں آپؓ کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ سرکاری ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر تھے۔آپؓ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے حضرت شاہ صاحبؓ سے فرمایا:’’آپؓ نے اپنی اولاد کی خوب تربیت اور پرورش کی ہے، جس سے ہم کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔‘‘

حضرت شاہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سخت بیمار ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بکروں کا صدقہ دیا۔مَیں اس وقت قادیان میں موجود تھا۔مَیں رات کوحضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے پاس ہی رہا اور دوا پلاتا رہا۔صبح کو حضورؑ تشریف لائے۔حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ حضور! ڈاکٹر صاحب ساری رات میرے پاس بیدار رہے ہیں اور دوا وغیرہ اہتمام سے پلاتے رہے ہیں۔ حضورؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ہم کو بھی ان پر رشک آتا ہے۔یہ بہشتی کنبہ ہے۔

حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اپنی والدہ ماجدہ کے تذکرہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہماری والدہ صاحبہ سے فرمایا: ’’یہ آپ کا گھر ہے آپ کو جو ضرورت ہوبغیر تکلف آپ اس کے متعلق مجھے اطلاع دیں۔آپ کے ساتھ ہمارے تین تعلق ہیں۔ایک تو آپ ہمارے مرید ہیں۔دوسرے آپ سادات سے ہیںاور تیسرا ہمارا آپ کے ساتھ ایک اَور تعلق ہے۔‘‘ یہ کہہ کر حضورؑ خاموش ہو گئے۔والدہ صاحبہ کو اس آخری فقرہ سے حیرانی ہوئی اور ڈاکٹر صاحب سے آ کر ذکر کیا۔اس وقت ہمشیرہ مریم بیگم صاحبہ پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ ’’کوئی روحانی تعلق ہو گا۔‘‘ لیکن حضورؑ کا یہ قول ظاہری معنوں میں بھی ہمشیرہ سیدہ مریم بیگم صاحبہ کے رشتے کی وجہ سے لمبے عرصے بعد پورا ہوگیا۔

حضورعلیہ السلام کے ہاں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو پیدا ہوئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: مبارک احمد حضرت مسیح موعودؑ کو بہت پیاراتھا ،وہ شدیدٹائیفائیڈ سے بیمار ہوا۔اس وقت قادیان میں دو ڈاکٹر موجود تھے۔ایک حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ اور دوسرے حضرت ڈاکٹرسید عبد الستار شاہ صاحبؓ جورخصت پر یہاں آئے ہوئے تھے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ بھی ان کے ساتھ مل کر علاج کر رہے تھے۔مبارک احمد کی بیماری میں کسی نے خواب دیکھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔یہ خواب سن کر حضورؑ نے فرمایاکہ ’’معبرّین نے لکھا ہے کہ ایسی خواب کی تعبیر تو موت ہے مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے سے بعض دفعہ تعبیر ٹل جاتی ہے۔ اس لیے آؤ مبارک احمد کی شادی کردیں۔‘‘ اس وقت اتفاقاً حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کی اہلیہ صاحبہ صحن میں نظر آئیں۔حضرت مسیح موعودؑ نے انہیںبلا کر فرمایاکہ ’’ہمارا یہ منشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کردیں۔ آپ کی لڑکی مریم ہے۔اگر آپ پسند کریںتو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے۔‘‘انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی عذر نہیںلیکن اگر حضورؑ کچھ مہلت دیں تو میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھ لوں؟یہ خاندان نیچے گول کمرہ میں ٹھہرا ہوا تھا۔باہر سے ڈاکٹر صاحبؓ آئے تو انہوں نے اس رنگ میں بات کی کہ بعض دفعہ ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے گا تو کیا آپ پکے رہیں گے؟ ڈاکٹر صاحبؓ نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے گا۔ اس پر انہوں نے ڈاکٹر صاحبؓ کو ساری بات سنائی تو ڈاکٹر صاحبؓ نے کہا کہ اچھی بات ہے۔اگر حضرت مسیح موعودؑ کو یہ پسند ہے توہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔

چنانچہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا (جو آٹھ سال کی عمرکے تھے) سیدہ مریم بیگم صاحبہ سے(جو دو اڑھائی برس کی تھیں) نکاح ۳۰؍اگست ۱۹۰۷ء کو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے پڑھا۔ نکاح کے چند روز بعد ۱۶؍ستمبر۱۹۰۷ء کو صاحبزادہ صاحب کی وفات ہوگئی۔

حضرت مصلح موعودؓنے حضرت اُمّ طاہرؓ کی وفات پر ’’میری مریم‘‘ کے عنوان سے ایک مفصّل مضمون میں تحریر فرمایاکہ شاید ۱۹۱۷ء میں امۃالحی مرحومہ کے مکان میں مَیں نے ایک دبلی پتلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی کو دیکھا تو پوچھنے پر امۃالحی مرحومہ نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ کی لڑکی مریم ہے۔میں نے پوچھا کہ کیا مریم کی شادی بھی کہیں تجویز ہے؟ جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ’’ہم سادات ہیںہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگرحضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں کسی جگہ شادی ہو گئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اسی طرح بیٹھی رہے گی۔‘‘ میرے لیے یہ سخت صدمہ کی بات تھی۔میں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اَور جگہ ہو جائے مگر ناکامی کے سوا کچھ اَور نتیجہ نہ نکلا۔آخر میں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں سے تحریک کی کہ اس طرح اس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہیے، ان میں سے کوئی مریم سے نکاح کر لے۔ لیکن اس کا جواب بھی نفی میں ملا۔تب میں نے اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑکا فعل کسی جان کی تباہی کا موجب نہ ہونا چاہیے اور اس وجہ سے کہ ان کے دو بھائیوں سید حبیب اللہ شاہ صاحبؓ اور سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ سے مجھے بہت محبت تھی۔میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں مریم سے خود نکاح کر لوں گا۔

حضرت اُمّ المومنینؓ کی روایت ہے کہ جب مبارک احمد فوت ہو گیا اور مریم بیگم بیوہ رہ گئی تو حضرت مسیح موعودؑ نے گھر میں ایک دفعہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ یہ لڑکی ہمارے گھر میں ہی آئے تو اچھا ہے۔یعنی ہمارے بچوں میں سے ہی کوئی اس کے ساتھ شادی کرلے تو بہتر ہے۔

۷؍فروری ۱۹۲۱ء کوحضورؓ کا نکاح حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ حق مہرکے عوض حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ نے پڑھایا اور خطبہ نکاح میں یہ بھی فرمایا: انبیاء کے بعد ان کے جانشینوں کے دو سلسلے معلوم ہوتے ہیںایک تو ایسے خلفاء جو اُن کی نسل سے ہوتے ہیںاور دوسرے وہ جو نسل سے نہیں ہوتے۔حضرت مسیح موعودؑ کو چونکہ اشارات سے معلوم ہو گیا تھا کہ آپؑ کے قائم مقام آپؑ کی نسل سے ہوں گے اور ان کے ذریعہ وہ مقصد پورا ہوگاجس کے لیے آپؑ آئے تھے۔ اس لیے آپؑ سے اپنی اولاد کے متعلق دعا کرائی گئی کہ ’’وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے۔‘‘ … مَیں بوڑھا ہوں۔میں چلا جاؤں گا مگر میرا ایمان ہے کہ جس طرح سے پہلے سیّدہ سے خادم دین پیدا ہوئے اسی طرح اس سے بھی خادم دین ہی پیدا ہوں گے۔ یہ مجھے یقین ہے کہ جو لوگ زندہ ہوں گے وہ دیکھیں گے۔

۲۱؍فروری ۱۹۲۱ء کو نہایت سادگی سے جا کرحضورؓ دلہن کو لے آئے اور حضرت اماںجانؓ کے گھر میں ان کو اتارا جنہوں نے ایک کمرہ ان کو دے دیا۔ یہاں آپؓ پانچ سال تک رہیں اور یہیں پہلا بچہ طاہر احمد (اوّل) پیدا ہوا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ اپنی والدہ کی وفات کے وقت دسویں جماعت کا امتحان دے رہے تھے۔ آپؒ اپنی والدہ محترمہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ابا جانؓ سے امی کو بہت زیادہ محبت تھی اور اگرچہ اس کا اظہار میرے سامنے کرنا مناسب نہ سمجھتی تھیںمگر بعض اوقات وفور محبت سے امی کے منہ سے ایسی بات نکل ہی جاتی تھی جس سے ابا جان کی محبت کا اظہار ہو۔امی، ابا جانؓ کی رضاکواس قدر ضروری خیال کرتی تھیںکہ بعض دفعہ بالکل چھوٹی چھوٹی باتوں پر جن کی طرف ہمارا خیال بھی نہ تھا امی نظر رکھتی تھیں۔ ایک دفعہ مَیں نے مچھلی کے شکار کو جانا چاہا۔سب تیاری وغیرہ مکمل کرلی بس صرف ابا جانؓ سے پوچھنے کی کسر باقی رہ گئی۔میں نے امی سے کہا کہ وہ مجھے ابا جانؓ سے اجازت لے دیں۔امی نے پوچھا تو ابا جانؓ نے جواب دیا کہ ’’تم کل جمعہ میں وقت پر نہیں پہنچ سکوگے۔‘‘مگر میں نے وعدہ کیا کہ ہم ضرور وقت پر پہنچ جائیں گے۔جس پر ابا جان نے اس شرط پر اجازت دے دی۔ مگر باہر آکر امّی نے مجھے کہا کہ ’’طاری!میں تمہارے ابا جان کی طرف سے محسوس کرتی ہوںکہ تمہارے ابا جان نے اجازت دل سے نہیں دی۔مَیں نہیں چاہتی کہ تم اپنے ابا جان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرو۔تم میری خاطر آج شکار پر نہ جاؤکسی اَور دن چلے جانا۔‘‘ اگرچہ سب سامان مکمل تھامگر امی نے مجھے کچھ اس طرح سے کہا کہ مَیں انکار نہ کر سکا اور اپنے باقی ساتھیوں سے کوئی بہانہ کر کے اس ٹرپ کا ارادہ چھوڑ دیا۔ امی نے حضرت صاحبؓ پرایک رنگ میںجان فدا کردی کیونکہ حضرت صاحبؓ کی ہر بیماری میں اس جانفشانی سے خدمت کی کہ حضرت صاحبؓ کے صحت یاب ہوتے ہی خود بیمار ہو گئیں۔ (ماخوذ از سوانح فضل عمرؓحصہ پنجم صفحہ۳۴۰)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقع ہو تا تھا تو واپسی پر میں اس یقین سے گھر میںگھستا تھاکہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہو گااور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیااور یہ قیاس میرا شاذ ہی غلط ہوتا تھا۔میں دروازے پر انہیں منتظر پاتا۔خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھرتھراہٹ سی پیدا ہو رہی ہوتی تھی‘‘۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں: مریم بیگم مرحومہ ہمارے گھر بہو بن کر آئیں اور بیٹی بن کر رہیں۔حضورؓ، اماں جانؓ کی بہت تابعدار، چاہنے والی،جاںنثار، خدمت گزار اور ہم سب بہن بھائیوں سے بلا مبالغہ عاشقانہ محبت رکھنے والی۔ اپنے شوہر نامدار حضرت خلیفہ ثانیؓ کی دل و جان سے شیدا ، ہنس مکھ،گھر کی رونق، سب عزیزوں سے اپنی سب اولاد سے دلی تعلق یعنی جو دوسری بیویوں کے بطن سے اولاد تھی ان کی بھی بہی خواہ اور دل سے محبت کرنے والی رہیں۔کہا کرتی تھیں کہ مَیں صرف اپنے میاں کی حیثیت سے اُن سے اور آپ سب سے اور بچوں سے اتنی محبت نہیں کرتی،مَیں تو حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد جان کر کرتی ہوںاور سب کے لیے جان فدا کرنے کو حاضر ہوں۔ ان کی والدہ محترمہ بہت نیک اور مخلص خاتون تھیں۔یہ اخلاص و ایمان انہوںنے ماں کے دودھ سے ہی حاصل کیا۔

حضرت سیدہ مہر آپاصاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جانؓ سے حضرت اُمّ طاہرؓ کو جس قدراور جس رنگ میں عشق تھا اس کی مثال ہی نہیں ملتی۔ آپؑ کا نام مبارک آتے ہی چہرہ محبت و عشق کے جذبات سے تمتما اٹھتا۔ آپؓ کی وہ کیفیت احاطہ تحریرمیں نہیں آ سکتی۔ہزاروں سلام اور ہزاروں درود حضرت مسیح موعودؑ پر بھیجتیں۔اس حالت میں آنکھوں میں آنسو ہوتے۔ شدید پیار سے کرب کی کیفیت اُن پر وارد ہو جاتی۔اسی طرح حضرت اماں جانؓ سے جو پیار اور احترام تھا مَیں نے کسی اَور میں اس نوعیت کا نہیں دیکھا۔ جن حالات میں آپؓ نے لجنہ کا کام سنبھالا وہ اس وقت کئی لحاظ سے ساز گار نہ تھے۔نہ تو مالی سہولتیں تھیں نہ ہی اس قدر کام کرنے والے کارکن ہی تھے۔خود ان کی اپنی صحت بھی نہ تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ان کا دل کام میں تھا، کتاب میں نہیں۔ جماعت کی مستورات اس امر کی گواہ ہیںکہ انہوں نے باوجود علم کی کمی کے اس کام کو کیسا سنبھالا۔ انہوں نے لجنہ میں جان ڈال دی۔ آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہا قابلیت موجود ہے۔ بیواؤں کی خبرگیری ،یتامیٰ اورکمزوروں کی پر ورش، جلسہ کا انتظام ،باہر سے آنے والی مستورات کی مہمان نوازی ،غرض ہر بات میںانتظام کو آگے سے بہت ترقی دی۔

(باقی آئندہ سوموار کے شمارہ میں۔ ان شاءاللہ)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button