تاریخ احمدیت

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق: (قسط۳۰) امریکہ سے چرچ کے وفد کی قادیان آمد اکتوبر ۱۹۶۹ء

(عمانوایل حارث)

۱۳؍ا کتوبر۱۹۶۹ء کو قادیان کی مقدس سرز مین نے پیشگوئی ’’یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق‘‘ (اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گی ) کا ایک نہایت ایمان افروز نظارہ دیکھا جو قادیان دارالامان کے مقامی باشندوں کے لیے ایک خاص حیرت اور خوشی کا موقع تھا جب امریکہ سے سفر کرکے یونائیٹڈ پریس بی ٹیرین چرچ ( The United Presbyterian Church in U.S.A) کے۲۶؍ افراد پرمشتمل ایک وفد قادیان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے پہنچا۔ کیونکہ ہزاروں میل کا سفر کرکے آنے والے ان مہمانوں نے جب مسیح موعود علیہ السلام کی بستی میں قدم رکھا اور مقامات مقدسہ کی زیارت کا شرف پایا تو ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے پیارے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ۸۸؍ سا ل پرانی پیش گوئی ایک بار پھر سے پوری ہوئی۔

یاد رہے کہ ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم کا واقعہ ہوا تو جماعت احمدیہ کی امامت و قیادت یعنی خلافت احمدیہ کامسکن و سلسلہ احمدیہ کا انتظامی مرکز قادیان دارالامان سے ہجرت کے بعد لاہور اور پھر ربوہ منتقل ہو گیا تھا، لیکن قادیان دارالامان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مولد ا ور مدفن ہونے کے شرف رکھتا ہے، ہمیشہ کے لیے جماعت احمدیہ کا اوّلین مرکز اور سب احمدیوں کے لیے مقدّس و محترم سرزمین ہے۔

یہ مذکورہ بالا وفد ۱۹؍ خواتین اور ۷؍ مردوں پر مشتمل تھا جو دن سوا تین بجے قادیان پہنچا۔ ان مہمانوں کے اس سفر کے پس منظر میں ملتا ہے کہ بٹالہ کے بیرنگ یونین چرچ کالج (Baring Union Church College)کے پرنسپل ڈاکٹر رام سنگھ صاحب نے قریباً ایک ماہ قبل قادیان کی جماعتی انتظامیہ کو اطلاع دی تھی کہ پریس بی ٹیرین چرچ کی طرف سے ۳۰؍ یا ۳۲؍ اراکین پر مشتمل ایک وفد ہندوستان آرہا ہے۔ بٹالہ مشن کے معائنہ کے لیے آنےپر اراکین وفد کا کچھ وقت کے لیے قادیان آنے کا بھی پروگرام ہے۔ چنانچہ مرکزی صیغہ کی طرف سے آنے والے معزز مہمانوں کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے مناسب حال تیاری کر لی گئی تھی۔

وفد کی آمد سے دو روز قبل مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف نے اطلاع دی کہ یہ وفد بتاریخ ۱۳؍اکتوبر بٹالہ پہنچنے والا ہے۔ چونکہ وفد کے اراکین اسی روز رات کے وقت امرتسر سے بذریعہ طیارہ واپس دہلی روانہ ہوں گے اس لیے قادیان میں انہیں صرف دو گھنٹہ کا قیام میسّر آئے گا۔ چنانچہ جماعت کی طرف سے اسی مختصر و قلیل وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا پروگرام مرتب کرلیا گیا۔

وفد کے اراکین ریٹائرڈ تھے اور چرچ میں گہری دلچسپی رکھنے والے مذہبی خیالات کے لوگ تھے۔ یہ لوگ ۷کاروں پر مرکز احمدیت میں آئے اورقادیان کے احمد یہ محلہ میں ان معزز مہمانوں کا اھلاً و سهلاً و مرحبا کے نعروں کے ساتھ پر تپاک استقبال کیا گیا۔

اس استقبال کے بعد صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوة والتبلیغ کی قیادت میں قادیان کے انگریزی دان مقامی احباب جماعت نے اراکین وفد کوضروری معلومات بہم پہنچائیں اور جملہ ارکان وفد مسجد مبارک،مسجد اقصٰی، دارالمسیح اور بہشتی مقبرہ کی زیارت کے بعد مہمان خانہ میں تشریف لائے جہاں ایک خوشنما شامیانے کے نیچے ان کی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔

وہاں ایک مختصر اجلاس منعقد ہواجس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس میں مولوی جاوید اقبال صاحب نے سورة الکہف کا آخری رکوع ترتیل سے سنایا۔بعدہ اسی حصہ کا انگریزی ترجمہ قرآن سے محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے پڑھ کر سنایا۔اجلاس کی کارروائی کے موقع پر صدارتی کرسیوں پر حضرت مولا نا عبدالرحمان صاحب فاضل اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے علاوہ معزز مہمانوں کے پارٹی لیڈر جیمز ڈی نسبت ( James D. Nesbitt) تشریف فرما تھے۔انگریزی ترجمہ سنائے جانے کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے ارشاد پر جناب شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی اے ناظر جائیداد نے صاحبزادہ صاحب کی طرف سے مہمانوں کی خدمت میں استقبالیہ ایڈریس پڑھ کر سنایا (جو پہلے سے تیار کرکے سائیکلو سٹائل کروالیا گیا تھا) چنانچہ جناب عاجز صاحب نے نہایت خوش اسلوبی سے انگریزی زبان میں ایڈریس پڑھا۔ یہ ایڈریس وفد کے ہر رکن نے پوری توجہ اور انہماک سے سنا۔ متعدد اراکین نے اپنے طور پر نوٹس بھی لیے۔ بعض اراکین کے پاس چھوٹی ٹیپ ریکارڈنگ مشینیں تھیں، جن پر انہوں نے اجلاس کی کارروائی کو ریکارڈ کیا۔ اسی وقت بعض اراکین نے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کا فوٹو دیکھنے کی خواہش کی جسے جلد پورا کردیا گیا۔

اس دوران پنجاب کے موسم کے مطابق کوکاکولا کے ٹھنڈے مشروب سے مہمانوں کی تواضع بھی کی گئی۔

ایڈریس ختم ہونے پر پارٹی لیڈر مسٹر جیمز نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے مختصر خطاب کیا۔ موصوف نے کہا کہ ہم لوگ امریکہ کی مختلف ریاستوں کے باشندے ہیں اور چرچ کی طرف سے دو ماہ کے لیے ہندوستان بھر کا دورہ کرنے آئے ہیں۔اس موقعہ پر جہاں ہم مسیحی مشنوں کا معائنہ کر رہے ہیں اور ان مقامات کے اپنے مشنریوں کے کام کا جائزہ لے رہے ہیں وہاں اس ملک کے دیگر مذاہب کے مراکز اور ان کی مذہبی مساعی کا مطالعہ بھی ہمارے مدنظر ہے۔اسی کے مطابق ہمارا باقاعدہ پروگرام جماعت احمد یہ کے مرکز قادیان آ نے کا بھی تھا۔ چنانچہ اسی پروگرام کو پورا کرتے ہوئے ہم سب آج یہاں وارد ہوئے ہیں اور ہمیں آپ کا مرکز دیکھ کر اور آپ کی باتیں سن کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ آپ کے خیالات ہمارے لیے جدید معلومات کا باعث ہوئے ہیں۔ ہم آپ کا محبت سے دیا گیا لٹریچر بغور مطالعہ کر یں گے۔ آخر میں مسٹر جیمز نے وفد کے ممبران کی طرف سے جماعت کا شکر یہ ادا کیا۔

چونکہ اس موقع پر ڈاکٹر رام سنگھ صاحب خود قادیان تشریف نہ لاسکے تھے اس لیے مسٹر لو پروفیسر بیرنگ کالج بٹالہ نے ان کی نمائندگی کرتے ہوئے کالج کی طرف سے بھی جماعت احمدیہ کی پُرتپاک مہمان نوازی اور ملاقات کا شکریہ ادا کیا۔

اجلاس کے بعد مہمانوں سے درخواست کی گئی کہ ملحقہ کمرہ میں جماعت کا لٹریچر موجود ہے۔خود تشریف لے جا کر حسب پسند انتخاب فرمالیں۔وہاں میزوں پر ترتیب وار سلسلہ کا شائع کردہ انگریزی لٹریچر قرینے سے رکھا گیا تھا، جس کی ایک سائیکلو سٹائل فہرست بھی مہیاکی گئی تھی۔ ایک دوسری میز پر غیر ممالک میں جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کردہ ترجمةالقرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر بطور نمائش سجایا گیا تھا۔ جس سے جماعت کی اشاعتی مساعی کا کسی قدر اندازہ کیا جاسکتا تھا۔

چنانچہ اراکین نے اشتیاق اور دلچسپی سے جماعت کا یہ سارا لٹریچر ملا حظہ کیا اور اپنی اپنی پسند کی کتب اور پمفلٹ انتخاب کیے۔ پارٹی لیڈ رمسٹر جیمز کوان کی خواہش کے مطابق جملہ لٹریچر کی ایک ایک کاپی مع ایک نسخہ انگریزی ترجمۃالقرآن صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے بطور ہدیہ پیش کیا۔مہمان کو پیش کردہ اس مجموعہ میں حسب ذیل کتب اور پمفلٹ شامل تھے:

اسلام مجھے کیوں پیارا ہے۔ مسیحؑ کشمیرمیں۔ مسیحؑ ہندوستان میں۔ مقبرہ مسیحؑ۔ مسیحؑ کہاں فوت ہوئے؟ مسیحؑ کے بارہ میں جدید انکشافات۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم۔ اسلام: وقت کی ضرورت۔ اسلام کا اقتصادی نظام۔ تحریک احمدیت۔ ہماری تعلیم۔ اسلام اور کمیونزم۔ پاک نبی حضرت محمدﷺ۔ اسلامی اصول کی فلاسفی۔ تحفہ شہزادہ ویلز۔ امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ۔ شہزادہ امن کا آخری پیغام۔ ایک عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ قرآنی تعلیمات کی خصوصیات۔ وغیرہ

اس موقعہ پر آنے والے امریکن معزز مہمانوں کا ایک گروپ فوٹو بھی ہوا۔ وفد کے جملہ افراد جماعت احمدیہ کی خوش اخلاقی،مہمان نوازی، تنظیم،اسلام کی ٹھوس تبلیغ و اشاعت کے صحیح جذ بہ سے بہت متاثر ہوئے اور بار بار شکر یہ ادا کر تے ہوئے خوشی اور مسرت کے ساتھ حسب پروگرام واپس روانہ ہو گئے اور اس روز امرتسر سے بذریعہ طیارہ دہلی پہنچ گئے۔

معززمہمانوں کے سامنے پڑھے گئے مذکورہ بالا ایڈریس کا خلاصہ یہ تھا کہ قادیان میں اس وفد کی آمد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی صداقت کا زندہ نشان ہے۔اور قادیان دارالامان جو دنیوی لحاظ سے اپنے اندر کوئی اہمیت اور کشش نہیں رکھتا، لیکن روحانی پہلو سے جماعت احمدیہ کے لیے بےحد متبرک ہے۔ اس کے خاص مقامات جماعت کے لیے مقدس ہیں۔ کیونکہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اسی بستی میں پیدا ہوئے۔ اسی جگہ سے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تجدید کا کام جاری کیا۔ خدا کے فضل اور اس کے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ دنیا کے اکناف تک پھیل چکی ہے۔جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو الہا ماً خبر دی گئی تھی کہ ’’میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ‘‘

اس ایڈریس میں مہمانوں کو بتایا گیا کہ قادیان کو اس وقت جس حالت اور صورت میں دیکھ رہے ہیں یہ ۲۲؍ سال پہلے سے بہت مختلف ہے۔ ملکی تقسیم سے پہلے یہاں پندرہ ہزار آبادی کا ۹۰؍ فیصد حصہ جماعت احمدیہ کے افراد پر مشتمل تھا۔ مگر حالات کی تبدیلی سے اب صرف ایک محلہ میں احمدی مسلمان آباد ہیں جو ملکی تقسیم کے وقت ۳۱۳؍ افراد تھے۔ اب بفضلہ تعالیٰ ایک ہزار کی نفری ہے۔ جو مردوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔ قادیان کی نسبت اس نوع کی صورت حال کا بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک عظیم الشان پیش گوئی سے تعلق ہے، اس پیش گوئی کا ایک حصہ اس رنگ میں تو پورا ہوچکا ہے کہ قادیان کی اکثر آبادی کو یہاں سے مجبوراً ہجرت کرنا پڑی۔ ہمارا یقین ہے کہ قادیان سے متعلق پیش گوئی کا دوسرا حصہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ اس درمیانی دور میں قادیان کے احمدی مسلمان ساکنین ایک خاص مذہبی قربانی کا نمونہ پیش کررہے ہیں بالکل ویسی ہی قربانی جو ہر زمانہ کے مامور کی برگزیدہ جماعت نے پیش کی۔ اور مسیحی علماء اور مشنریز تو ایسی تاریخ اور افراد کی قربانیوں سے ذاتی طور پر واقف و آگاہ ہیں۔

وفد کے قادیان آنے سے قبل ہی ہمیں بتایا گیا تھا کہ آنے والے مہمانوں کی خواہش ہوگی کہ جماعت احمدیہ دوسرے اسلامی فرقوں سے جن باتوں پر اختلاف او رامتیاز رکھتی ہے خصوصیت سے ان کے بارہ میں واقفیت بہم پہنچائی جائے۔ چنانچہ ایڈریس میں مختصراً ان امور پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دین کے لیے افراد جماعت کی طرف سے جانی قربانیاں بھی دی گئیں۔ اس سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحبؓ اور حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحبؓ کی افغانستان میں شہادت کا ذکر کیا گیا۔

قرآنی تعلیم کی روشنی میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح ؑکو خدا کا برگزیدہ نبی اور پیارا بندہ سمجھتی ہے جسے خدا نے اپنے خاص فضل و کرم کے ساتھ صلیب کی لعنتی موت سے بچالیا۔ صلیبی واقعہ کے بعد آپ نے یروشلم سے ہجرت کر کے تبت اور کشمیر کالمبا سفر اختیار کیااور سرینگرکے محلہ خانیار میں طبعی وفات پائی۔ وہاں آپ کا مقبرہ اب بھی موجود ہے۔ یہ وہ انکشاف ہے جوز مانہ حاضر میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مقدس بانی نے زبردست اور ثقہ دلائل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش فرمایا۔

نظام جماعت کا مختصر ڈھانچہ بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ جماعت خلافت کے تحت ساری دنیا میں حقیقی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کررہی ہے۔ ایڈریس میں جماعت احمدیہ کی عالمگیرتبلیغی مساعی، وصیت اور وقف زندگی کے نظام اور جماعت کی وسعت اور ترقی پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد گیمبیا کے احمدی گورنر جنرل سر ایف ایم سنگھاٹے کے اخلاص اور ان کی خدمات کا خصوصی ذکر کیا گیا اور اسی موقع پر امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے انتباہ اور دنیا میں رونما ہونے والے عظیم الشان انقلاب کا بھی مختصر الفاظ میں ذکر کیا گیا اور بتایا کہ ۱۹۶۷ء کے سفر یورپ میں حضور ایدہ اللہ نے اہل یورپ کو مخاطب فرمایا اور انہیں متنبہ کیا کہ پچیس سےتیس سال کے اندراندر ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہونے والا ہے۔ اگر سب لوگ خدا کے ساتھ صلح کرلیں، اپنی بداعمالیوں اور فساد فی الارض کی کارروائیوں سے باز آجائیں تو آنے والی تباہی ٹل سکتی ہے۔ اس انقلاب کے بعد اسلام کو غیر معمولی ترقی و عروج حاصل ہوگا۔ وغیرہ۔ (ماخوذ از اخبار بدر، قادیان، ۱۶؍اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحہ ۱۱،۲،۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button