یادِ رفتگاں

حضرت نواب اکبر یار جنگ بہادرؓ آف حیدرآباد دکن

(ڈاکٹر مبارز احمد ربانی۔ یوکے)

سيدنا حضرت مصلح موعود خليفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ حضرت مسیح موعود عليہ السلام اور تابعين کرام کے حالات زندگی کو تحريری شکل ميں محفوظ کرنے کی اہميت کو بيان کرتے ہوئے ۱۹۵۵ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر احباب جماعت کو نصيحت کرتے ہوئے فرمايا : جس وقت يورپ اور امريکہ احمدی ہوا تو انہوں نے آپ کو برا بھلا کہنا ہے کہ حضرت صاحبؑ کے صحابہؓ اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے حالات بھی معلوم نہيں۔ آپؓ نے آگے چل کر مزيد فرمايا : بہرحال صحابہ کے سوانح محفوظ رکھنے ضروری ہیں۔جس جس کو کوئی روايت پتہ چلے اس کو چاہئے کہ لکھ کر اخباروں ميں چھپوائے، کتابوں میں چھپوائے اور جن کو شوق ہے ان کو دے تا کہ وہ جمع کريں اور پھر وہ جو کتابيں چھاپیںان کو ضرور خريدے اور اپنے بچوں کو پڑھائے۔ (روزنامہ الفضل ۱۶؍فروری ۱۹۵۶ء صفحہ ۴) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے احباب کرام کی خدمت ميں حيدر آباد دکن کے ايک مخلص رکن حضرت نواب اکبر یار جنگ بہادرؓ کا ذکر خير پيش خدمت ہے۔

حضرت مسیح موعود عليہ السلام نے فرمايا تھا کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔ (تجلیات الٰہیہ،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹تا ۴۱۰) حضرت نواب اکبر یار جنگ بہادر کی شخصيت آپؑ کی اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی۔آپ ايک نيک، متقی، ايماندار، شریف،غريب پرور، صاحب روٴيا و کشوف بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ايک نہايت قابل جج اور اعلیٰ پائے کے سياست دان بھی تھے۔ جماعت احمديہ کے لٹريچر ميں آپ کی زندگی کے بارے ميں کچھ معلومات محفوظ ہيں۔ (روز نامہ الفضل ۲۰؍جون ۱۹۵۷ء۔ بدر ۲۰؍ جون ۱۹۵۷ء۔ بدر ۱۱؍ جولائی ۱۹۵۷ء۔ روز نامہ الفضل ۱۳؍ جون ۲۰۰۲ء) جبکہ غير از جماعت لٹريچرکے مطالعہ سے بھی آپ کی زندگی کے کچھ مزيد نماياں اور روشن پہلو سامنے آئے ہيں۔ اميد ہے کہ يہ معلومات احباب کی دلچسپی کا موجب اور علم ميں اضافے کا باعث بنيں گی۔

تعارف

حضرت نواب اکبر یار جنگ بہادر کا تعلق کوہاٹ کے ايک آفريدی پٹھان خاندان سے تھا۔ آپ کے آباء و اجداد کا پيشہ بالعموم سپہ گری اور زمينداری تھا جو مغل بادشاہ فرخ سير کے عہد ميں (اٹھارھويں صدی کی ابتدا ميں) کوہاٹ سے ہجرت کر کے اتر پردیش کے ضلع فرخ آباد کے ايک قصبہ قائم گنج ميں آباد ہوا۔ يہ علاقہ انڈيا ميں آباد پٹھانوں کے چار بڑے علاقوں ميں سے ايک تھا۔ آپ کا اصل نام غلام اکبر خا ں تھا۔آپ کے والد صاحب کا نام احمد شير خاں اور دادا کا نام علی شير خاں تھا۔ آپ نومبر ۱۸۷۷ء ميں قصبہ گوجر خاں ضلع راول پنڈی ميں پيدا ہوئے۔ احمد شير خاں صاحب کے دو بيٹے اور ايک بيٹی تھی۔غلام اکبر خا ں چھوٹے بيٹے تھے۔ ابتدائی تعليم و تربيت والد صاحب کی زير نگرانی ہوئی اور بہت جلد علوم فارسی و عربی سيکھ لیے۔ آپ ۱۶؍ سال کی عمر ميں قانون کی تعليم حاصل کرنے کی غرض سے قائم گنج سے ہجرت کر کے پہلےاورنگا آباد اور پھر حیدرآباد دکن ميں منتقل ہو گئے۔ وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے فدا حسين خاں کے ماتحت وکالت شروع کی جو ڈاکٹر ذاکر حسين صاحب (جو بعد ميں ہندوستان کے تيسرے صدر مملکت بنے ) کے والد تھے۔ فدا حسين خاں آپ کے رشتے کے ايک بھائی تھے۔ آپ نے اپنی خداداد قابليت کے سبب وکالت کے پيشے ميں بہت شہرت اور امتياز حاصل کيا۔چنانچہ حيدر آباد ہائی کورٹ کے جج نامزد ہوئے۔ ۱۹۱۱ء سے ايک قانونی رسالہ ’’دکن لاء رپورٹ‘‘ بھی جاری کيا۔ کچھ عرصہ تک بلديہ حيدرآباد کے صدر نشين بھی رہے اور کئی مرتبہ’’مجلس وضع قوانين‘‘ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ ۱۹۱۸ء ميں سرکاری طور پر عدالت عاليہ کے رکن بھی نامزد ہوئے اور اس ضمن ميں متعدد اہم کميشنوں کی خدمات بھی انجام ديں۔آپ کی قابليت اور مفيد سرگرميوں کے سبب آپ کو ۱۹۳۲ء ميں نواب اکبر يار جنگ بہادر کے خطاب سے نوازا گيا اور بعد ميں نظام حیدرآباد کی حکومت کے ہوم سيکرٹری، وزارت داخلہ، قانون، تعليم اور انتظامی امور کے اعلیٰ عہدوں پر نامزد ہوتے رہے۔ ۱۹۳۸ء ميں آپ ملازمت سے ريٹائر ہوئے۔

قبولِ احمديت

حضرت نواب اکبر یار جنگ بہادر نے ۱۹۰۸ء ميں حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی وفات سے چند يوم پہلے لاہور ميں آپؑ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل کيا۔ ملاقات کے بعد آپ نے بھانپ ليا کہ يہ سچا چہرہ ہے منجانب اللہ ہے چنانچہ آپ نے بيعت کر لی۔ بيعت کرنے کے بعد حضرت نواب صاحب کو لاہور ميں رہنے کا موقع نہيں ملا اور واپس حیدرآباد دکن چلے گئے۔ حضور کی المناک وفات، پھر دوسری قدرت کے ظہور کی خبر سنی تو حضرت خليفۃ المسیح الاولؓ کی بيعت کر لی۔ خلافت ثانیہ کے قیام پر اختلاف کا سن کر سوچ ميں پڑ گے اور فیصلہ کیا کہ خود قادیان جا کر تسلی ہونے پر بيعت کر یں گے۔ ۱۹۱۶ء ميں موقعہ بنا۔ پہلے لاہور پہنچے۔ اختلاف کرنے والے عمائدین کی باتیں سنیں اور حیران تھے کہ اتنے عظیم الشان عالمگیر مشن کو چلا نے کے لیے ایک کم عمر کم تعلیم یا فتہ اور کم تجربہ کار کس طرح موزوں ہو سکتا ہے۔ لاہور والوں نے یہ بھی زور دیا کے آپ کو قادیان جانے کی ضرورت نہیں ہے مگر آپ جو ارادہ کر کے چلے تھے اس کے مطابق قادیان جا کر حالات معلوم کیے۔ تین چار دن تک حضرت خليفۃ المسیح الثانیؓ اور دوسرے بزرگوں سے خوب باتیں کیں مگر تسلی نہ ہوئی۔ آخر واپسی کا ارادہ کر لیا۔ اس مرحلہ پر خدا کا عجیب کرم ہوا۔ عصر کی نماز کے بعد حضرت خليفۃ المسیح الثانی ؓ محراب ميں رخِ انور مقتدیوں کی طرف کر کے بیٹھ گئے اور مختلف باتیں کر نے لگے۔ اس دوران حضرت نواب صاحب کی نظریں حضورؓ کی پیشانی پر جم گئیں اسی سوچ ميں غرق تھے کے یہ نو جوان مسیح و مہدی کا عظیم الشان عالمگیر مشن کس طرح چلا سکتا ہے؟ اسی لمحہ آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور دیکھا کہ پیچھے محراب ميں حضرت مسیح موعودؑ جلوہ گر ہوئے ہیں۔ تب حضرت نواب صاحب کی نظریں بے اختیار حضرت مسیح پاکؑ کی مبارک پیشانی پر جالگیں۔ ایک روحانی اطمینان ملا کہ یہ ہے ناںقیادت کرنے والی عظیم شخصیت۔ حضرت نواب صاحب کی نظریں اسی مبارک پیشانی پر جمی رہیں لیکن حضرت مسیح موعودؑ کا وجود کم ہونا شروع ہوا۔ اور کم ہوتے ہوتے اچانک حضرت خليفۃ المسیح الثانی ؓ کے وجود ميں یوں سما گیا جیسے کوئی ہتھیار میان ميں سما جا تا ہے۔ اس نظارہ سے خدا ئے قادر نے حقیقت آشکار کر دی۔ (روز نامہ الفضل ۱۳؍ جون ۲۰۰۲ء۔ ایم ٹی اے پروگرام : حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی وفات اور ظہور قدرت ثانیہ کے بارہ میں مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب سے ایک گفتگو )

حضرت نواب اکبر یار جنگ بہادر کا سياسی کردار

آپ کو حيدر آباد کے تين وزرائے اعظم فريدون ملک، ولی الدولہ اور کشن پرشاد کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ کشن پرشاد آپ کو قدر کی نگاہ سے ديکھتے تھے۔ اسی طرح حيدر آباد کے کانگريس کے راہنما بھی آپ کی عزت کرتے تھے۔ ۱۹۴۸ء ميں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد تمام تنظيموں نے اس قتل کی مذمت کرنے کے لیے نظام کالج گراؤنڈز ميں بڑے پيمانے پر ايک جلسہ منعقد کرنے کا فيصلہ کيا اور متفقہ طور پر آپ کو اس کی صدارت کے لیے منتخب کيا۔ يہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت نواب صاحب کو انگريزی زبان پر اتنا عبور حاصل نہ تھا۔ آپ اپنا تمام دفتری کام اردو زبان ميں کرتے اور فيصلے بھی اردو زبان ميں ہی لکھواتے جن کو بڑے پيمانے پر سراہا جاتا کيونکہ وہ پختہ تجربے کا نتیجہ ہوتے اور قانون کی صحيح ترجمانی کرتے تھے۔ کئی مشہور وکلاء بھی آپ کی عدالت ميں پيش ہوئے جن ميں تیج بہادر سپرو بھی شامل ہيں جو برصغير کے ايک مشہور وکيل، سياست دان اور تحريک آزادی کے اہم رکن تھے۔ حضرت نواب صاحب کو بےکار رہنا پسند نہيں تھا۔ اسی لیے فعال عادات کے مالک ہونے کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنی خدمات عدالتی کاموں کے لیے پيش کيں۔

نواب بہادر یار جنگ (اصل نام: محمد بہادر خان) تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے ایک مشہور سیاسی راہنما اور مجلس اتحاد المسلمین کے صدر تھے۔ نواب اکبر یار جنگ کی شخصيت کے بارے ميں آپ جو رائے رکھتے تھے اس کا اندازہ ہم ا ن کے اس خط سے لگا سکتے ہيں جو آپ نے ۱۹۴۱ء ميں محمدعلی جناح صاحب کو لکھا جس ميں تحرير کيا : ارکان ميں سے کسی کا انتخاب موجودہ حالات ميں نا ممکن ہو تو پھر مجلس حکومت کے ريٹائرڈ عہدے داروں ميں سے دو نام آپ کی خدمت ميں سفارش کے ساتھ پيش ہیں۔ پہلا نام نواب اکبر یار جنگ کا ہے جو ہائی کورٹ کے جج اور ہوم سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اور اب بطور وکیل پریکٹس کر رہے ہیں۔ ان کا بہت منصفانہ کیریئر رہا ہے۔ وہ ایک قابل آدمی ہے۔ آپ ان سے بخوبی واقف ہیں۔ جب آپ کسی کیس میں پیشی کے لیے تشریف لائے تو وہ آپ کے معاون تھے۔ آخری دفعہ چائے کی محفل میں وہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ سے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ان کی داڑھی کالی ہے۔

نواب بہادر یار جنگ صاحب آپ کی شخصيت سے اچھی طرح واقف تھے جس کی ايک مثال آپ خود بيان کرتے ہيں کہ ۱۹۲۸ء ميں جلسہ عيد ميلادالنبیؐ حيدرآباد ميں منعقد کيا گيا تھا۔ اس ميں اسلام کے چار مختلف فرقوں کے علماء کو مدعو کيا گيا۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس حالات زندگی بيان کیے۔ان چار ميں نواب اکبر يار جنگ نے جماعت احمديہ کی نمائند گی کی اور ترديد معترضين اسلام کے عنوان کے تحت عيسائيوں اور آريوں کے لغو اعتراضات کے نہايت عام فہم اور مدلل جواب ديے۔

مذا ہب سے محبت

حضرت نواب اکبر یار جنگ بہادر دین اسلام سے گہرا لگاؤ اور عشق رکھتے تھے۔ اسلام کے احکامات پر پورا اترتے ہوئے نظر آتے تھے۔ آپ اپنی تمام زندگی صوم و صلوٰۃ کے پابند رہے۔ وہ مذہب کو آسمانی آواز سمجھتے تھے۔ زکوٰۃ کے علاوہ آپ صدقہ و خيرات کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔خاص طور پر ہر جمعرات کے دن غرباء کی امداد کرتے۔ آپ نے ۷۲ سال کی عمر ميں حج بيت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ آپ تمام مذاہب کو عزت کی نگاہ سے ديکھتے تھے۔ اسی طرح جماعت احمديہ سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے ہر مکتبہ فکر ميں آ پ کی عزت کی جاتی تھی۔آپ کی بلند پايہ شخصيت اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہونے کی مثال ہميں اس واقعہ سے ملتی ہے۔ جناب حکیم سید محمد احمد صاحب اپنی کتاب ’’انوار علم و عرفان‘‘ میں ریاست ٹانک کے چند علماء کے ذکر میں مولانا محمود حسن خاں صاحب کے متعلق لکھتے ہیں : حیدرآباد دکن سے بعض دوستوں اور قدردانوں نے باصرار تمام مولانا کو لکھا اور حیدرآباد بلا لیا۔ آپ کے علم و فضل کی شہرت بہت پہلے حیدرآباد پہنچ چکی تھی۔ یہ تعجب کی بات ہے مولانا خود حنفی تھے اور نواب اکبر یار جنگ آپ کے میزبان عقیدۃً قادیانی تھے۔ مولانا نے دوران قیام حیدرآباد قادیانیوں کے خلاف کئی رسائل لکھے جس میں ’’تصدیق السنہ‘‘ اور ’’معیار السنہ‘‘ بھی شامل ہیں لیکن نواب موصوف کی وضعداری، قدرشناسی اور علم نوازی کی انتہا تھی کہ وہ آپ سے کبھی بھی ذرا بھی کبیدہ خاطر نہیں ہوئے اور آپ کے ساتھ حسب معمول حسن عقیدت سے پیش آتے رہے۔

علم و ادب سے دلچسپی

حضرت نواب صاحب علم و ادب سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اردو ميں کئی مضامين اور کہانياں ان سے ياد گار ہيں۔ آپ کے کئی مضامین اخبار الفضل میں بھی شائع ہوئے۔ آپ تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتے تھے اور قوم کے تاریخی ورثہ کی حفاظت میں بھی پیش پیش تھے۔اجنتا کے مشہور قدیم غاروں کا تاریخی مقام ریاست حیدرآباد کے علاقہ میں موجود تھا۔ ۱۹۲۰ء کی دہائی میں حکومت نے بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ مل کر نہ صرف ان غاروں کی تجدید پر توجہ دی بلکہ غاروں کی دیواروں پر رنگین پینٹنگز کو پہلی دفعہ کلر فوٹو گرافی کے ذریعے محفوظ کر نے کے اقدامات اٹھائے۔ چنانچہ حضرت نواب صاحب نے بھی اس اسکیم میں گہری دلچسپی لی اور اس کی بھرپور حمایت کر تے رہے جس کو بین الاقوامی ماہرین نے بھی تسلیم کیا اور سراہا۔

ايک پُر جوش مقرر

حضرت نواب صاحب ايک پر جوش مقرر کے طور پر بھی مشہور تھے۔ ۱۱؍ اگست ۱۹۳۶ء کو حضرت مہاراج کرشن جیؑ کے جنم دن منانے کے لیے ينگ مين کايسٹا يونين آف حيدر آباد نے ايک بڑے جلسے کا انتظام کيا جس ميں حيدر آباد کے بڑے بڑے امراء اور بلند پايہ شخصيات کے علاوہ ايک کثير تعداد ہندوؤں اور مسلمانوں کی بھی شامل تھی۔ يہ جلسہ راجہ نر سنگ راج بہادر عالی کی حويلی ميں منعقد ہوا۔ حضرت نواب صاحب کی تقرير جس کا عنوان ’’ شری کرشنا دی پرافٹ آف ہند‘‘ تھا کو خصوصی اہميت حاصل تھی۔ اس تقرير کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کو قائم کرنا تھا۔ آپ نے قرآن کريم کی کئی آيات، احادیث اور بزرگوں کے اقوال کے ذريعے يہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کرشن جیؑ مہاراج بھی اللہ تعالیٰ کے ويسے ہی نبی ہيں جيسے باقی انبياء عليہم السلام جن کا قرآن کريم ميں ذکر موجود ہے۔ چنانچہ فرمايا : اگر کرشنؑ کا ذکر قرآن کريم ميں نہيں ہے تو اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ ہم ان کی نبوت پر شک کريں۔ کيا تم اس بات پر يقين کرو گے کہ ايک قوم جس کی تہذيب اور ثقافت ايشيا کے اتنے بڑے حصے ميں پھيلی ہو اور جس کے فلسفہ اور علوم نے يونان اور مصر کو متاثر کيا ہو اس ميں کوئی راہنما اور مدرس نہ مبعوث کیا گيا ہو ؟ ان راہنماؤ ں کو رشی، منی، نبی يا پيغمبر کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ان ميں سے ايک جس کا ہم جنم دن منانے کے لیے يہا ں جمع ہوئے ہيں وہ شری کرشنا ہيں۔ جن کو ميں اپنے مذہبی الفاظ ميں کرشن عليہ السلام کہتا ہوں۔ اس عظيم شخصيت کو ہندو اوتار کہتے ہيں۔ انہيں نبی کہنے ميں مجھے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے ميں تمام انبياء کو سلام پيش کرتا ہوں۔

علمی لحاظ سے حضرت نواب صاحب کی يہ ايک لمبی پُرمعارف تقرير تھی۔ مندرجہ بالا اقتباس اس تقرير کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ آپ اسلام اور ديگر مذاہب کے بارے ميں وسيع علم رکھتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کے اسی وجہ سے بعض تحريرات و تصانیف ميں آپ کے نام کے ساتھ ’’مولوی ‘‘ کا لقب لکھا ہوا ملتا ہے۔ آپ کی يہ تقرير حيدر آباد، کلکتہ، بمبیٔ اور مدراس کے اردو اور انگلش اخباروں ميں شائع ہوئی۔ مدراس کے اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے ’’مذاہب کے اتحاد‘‘ کے عنوان کے تحت یہ تقریر شائع کی۔آپ کے ہندو مسلم اتحاد اور امن کی کوششوں کو سراہتے ہوئے دونوں ہندو اور مسلم حلقوں ميں اس تقریر کو بہت پذيرائی حاصل ہوئی۔ اور آپ کو مبارک باد کے کئی خطوط موصول ہوئے جن ميں آپ کی بہادری اور جرأت کو سراہا گيا مگر بعض ہندو مسلم حلقوں کی جانب سے اس تقریر کو ناپسند بھی کيا گيا۔ ان لوگوں نے نظام حيدرآباد مير عثمان علی خاں صاحب کو اپنے تحفظات سے آگاہ کيا جس پر مير عثمان علی خاں صاحب نے اخبار کے ذريعے سرکاری ملازمين کو ايسے موضوعات پر بات نہ کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اخباروں کو بھی خبردار کيا کہ آئندہ ایسی متنازع تقاریر یا مضامين کو شائع نہ کيا جائے۔ افواہیں تھيں کہ نظام پر دباؤ ڈال کر آپ کو رياست سے نکال ديا جائے گا ليکن ايسا کبھی بھی نہيں ہو پايا۔ اس کی وجہ يہ تھی کہ نظام اور وزير اعظم کشن پرشاد صاحب آپ کی شخصيت، ديانت داری، وقار اور مقبوليت سے واقف تھے۔ سزا تو ايک طرف حضرت نواب صاحب کی نيک شہرت کی وجہ سے چار ماہ بعد ہی ان کو ہا ئی کورٹ کے جج رہنے کی مدت ميں مزيد دو سال کے لیے توسيع کر دی گئی اور ان کو قانون ساز کونسل کا رکن بھی نامزد کيا گيا۔

وفات

عمر کے آخری حصہ ميں آپ کمزور اور ضعیف ہو نے کی وجہ سے تقریباً صاحب فراش تھے۔ صحت میں تبدیلی کے لیے آپ نے کچھ وقت بمبئی اور کلکتہ میں گزارا۔ آپ کا انتقال جون ۱۹۵۷ء کو ۸۰؍ سال کی عمر میں ہوا۔ اولاد میں دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے غلام احمد خاں، ڈاکٹر رشید الدین خاں، بشیر الدین خاں، وحید الدین خاں اور رفیع الدین خاں تھے۔ اللہ تعالیٰ حضرت نواب صاحب کو جنت الفردوس ميں جگہ عطا فرماۓ اور ہميں اپنے ان بزرگوں کی نيکياں جاری رکھنے والا بنائے۔آمين ثم آمين

اس مضمون کو لکھنے ميں مندرجہ ذيل غير از جماعت لٹريچر سے مدد لی گئی ہے :

ایک نادر سفرنامہ : دکن کے اہم مقامات کے احوال و کوائف ۱۹۸۲ء مصنف : عبدالغفار خاں صفحہ ۱۷ تا ۲۳۔

The prophet of India in The Hindu by Narendra Luther 1997

Hyderabad Personalities: A Unique Authentic and Comprehensive Biographical Directory of Hyderabad and its People p. 32 by Hari Sharan Chhabra۔1954ء

قائد اعظم خطوط کے آئینے میں ۱۹۸۵ء مصنف : خواجہ رازی حیدر صفحہ ۱۳۸۔

سوانح بہادر یار جنگ ۱۹۹۰ءمصنف : نذیرالدین احمد صفحہ ۲۰۳ تا ۲۰۴۔

رياست ٹونک كے چند علماء و فضلاء، الموسو مہ، انوار علم و عرفان ۱۹۹۸ء مصنف : حکیم سید محمد احمد صفحہ ۷۰۔

AJANTA: The Colour and Monochrome Reproductions of the Ajanta Frescoes based on Photography

by G. Yazdani and Laurence Binyon۔1930ء

Bewildered India: Identity, Pluralism, Discord p. 188 – 192 by Rasheeduddin Khan 1994

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button