از مرکز

حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت اور آپؑ کے حق میں وقوع پذیر ہونے والی الٰہی تائیدات

٭…قادیان دارالامان میں جماعت احمدیہ بھارت کے ۱۲۸ ویں جلسہ سالانہ کا با برکت انعقاد

٭…قادیان دار الامان میں ۴۲؍ ممالک کے ۱۴ہزار ۹۳۰؍ احباب جماعت کی شمولیت

٭…افریقہ کے چار ممالک سینیگال، ٹوگو، گنی کناکری اور گنی بساؤ کے جلسہ ہائے سالانہ سے براہ راست مناظر

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا اسلام آباد ٹلفورڈ سے براہِ راست بصیرت افروز اختتامی خطاب کا خلاصہ

(اسلام آباد، ٹلفورڈ، ۳۱؍دسمبر ۲۰۲۳ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) جماعت احمدیہ مسلمہ بھارت کا ۱۲۸ واں جلسہ سالانہ بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس بستی قادیان دارالامان میں مورخہ ۳۰،۲۹ و۳۱؍دسمبر ۲۰۲۳ء اپنی تمام ترعظیم الشان روایات کے ساتھ بخیروخوبی منعقد ہوا جس میں ۴۲؍ ممالک سے۱۴ہزار ۹۳۰؍ افراد نے شمولیت کی سعادت حاصل کی۔

یاد رہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے۱۸۹۱ء میں اذن الٰہی سے جلسہ سالانہ کی بنیاد قادیان دارالامان کی بستی میں رکھی جہاں مسجد اقصیٰ میں پہلا جلسہ منعقد ہوا۔ بعد ازاں خلافتِ احمدیہ کے یہاں سے ہجرت کر جانے سے پہلے تک قادیان کے جلسہ ہائے سالانہ کو خلفائے کرام کی بنفس نفیس موجودگی کے باعث مرکزی حیثیت حاصل رہی۔

جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے سائے میں خلافت احمدیہ کی ولولہ انگیز قیادت میں ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے۔ باہمی فاصلوں کے باوجود احباب جماعت کے خلافت کے گرد جمع ہونے کے سامان پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ ایک لمبے عرصے سے یہ روایت بن چکی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح جلسہ سالانہ قادیان سے براہ راست خطاب فرماتے ہیں۔ چنانچہ آج سال کے آخری دن جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایوان مسرور اسلام آباد ٹلفورڈ سے بصیرت افروز اختتامی خطاب ارشاد فرمایا۔ اس موقع پرافریقہ کے چار ممالک سینیگال، ٹوگو، گنی کناکری اور گنی بساؤ کے جلسہ ہائے سالانہ بھی منعقد ہو رہے تھے اورقادیان دارالامان کے علاوہ ان ممالک کے بھی براہ راست مناظر ایم ٹی اے دکھائے گئے۔

حضور انور کی تشریف آوری

یوکے وقت کے مطابق صبح دس بج کر ۳۲ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فلک شگاف نعروں کی گونج میں ایوان مسرور میں داخل ہوئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام شاملین کو ’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘ کا تحفہ پیش فرمایا۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت مولانا عبد المومن طاہر صاحب کے حصے میں آئی۔آپ نے سورت آل عمران کی آیات ۱۹۱تا۱۹۶ کی تلاوت اور تفسیر صغیر سے ان کا ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم مرتضیٰ منان صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منظوم کلام بعنوان ’’محاسنِ قرآن کریم‘‘ میں سے منتخب اشعار پیش کیے جن کا آغاز حسب ذیل شعر سے ہوا

کچھ ایسا فضل حضرتِ ربّ الوریٰ ہوا

سب دُشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا

دس بج کر ۴۸ منٹ پر حضور انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرما نے کے بعد اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔

خلاصہ خطاب حضورِ انور

تشہد، تعوذ، سورۃ الفاتحہ اورسورۃ المزمل کی آیت ۱۶ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے۔ جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف بھی ایک رسول بھیجا تھا۔

آج قادیان میں جماعت احمدیہ بھارت کا جلسہ سالانہ اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ بہت سے دوسرے ممالک بھی ہیں کہ جہاں گذشتہ دنوں میں یا آج کل جلسہ ہائے سالانہ کا انعقاد ہورہا ہے۔ آج بھی بہت سے ملکوں میں یہ اختتامی سیشن ہے مثلاً سینیگال ہے، ٹوگو ہے، گنی کناکری ہے، گنی بساؤ ہے۔ ان تمام ممالک میں دو طرفہ براہِ راست یہ ٹرانسمیشن ہورہی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ مَیں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا، تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دوں گا۔ ان سے کہہ دو کہ مَیں عیسیٰؑ کے قدموں پر آیا ہوں۔ پس اب تمام ملکوں میں جلسوں کا انعقاد، آپؑ کا نام عزت سے پکارا جانا، آپ کے نام کا نعرہ، یہ سب اس خدائی وعدے کے مصداق ہیں کہ آپ ہی وہ مسیح موعود اور مہدی موعود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے ہیں۔ آج یہ قادیان کی بستی جو سَوا سَو سال پہلے ایک معمولی گاؤں یا بستی تھی۔ ایک خوب صورت شہر کی حیثیت اختیار کرگئی ہے اور دنیا کے کونے کونے میں اس کی شہرت ہے۔ یہ شہرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کی وجہ سے ہے۔ آپ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی وجہ سے ہے۔ آج اس بستی میں دنیا کے درجنوں ممالک کے باشندے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے جمع ہیں۔ اس وقت تقریباً ۴۲؍ممالک کے نمائندے وہاں موجود ہیں۔

ایک ایسی بستی میں جہاں پہنچنے کا راستہ بھی دشوار گذار ہے وہاں سے ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ مَیں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور پھر یہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتا ہے۔ پس مسلمانوں کو تو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ آپ علیہ السلام وہی امام مہدی اور مسیح موعود ہیں کہ جن کی آمد کے ساتھ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا نیا دور شروع ہوا ہے۔ کمزوریاں دُور کرنے کا زمانہ آیا ہے، اور اشاعت و تبلیغِ اسلام کا زمانہ آیا ہے۔ لیکن نام نہاد علماء کے خود غرضانہ مفادات عامۃ المسلمین کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انہیں ماننا پڑے گا، یہ خدا کا وعدہ ہے کہ آخر یہ لوگ مانیں گے۔فرمایا: اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے حوالے سے کچھ باتیں کروں گا۔

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کی خوب صورت اور پُر معارف تفسیر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو اس امت میں سے پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ نبوت کے اول اور آخر کے لحاظ سے حضرت موسیٰ ؑسے مشابہ ہوں گے۔ پس وہ مشابہت ایک تو اول زمانے میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اور ایک آخری زمانے میں۔ سو اول مشابہت یہ ثابت ہوئی کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بالآخر خدا نے فرعون اور اس کے لشکر پر فتح دی تھی، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار ابو جہل پر جو اس زمانے کا فرعون تھا، اور اس کے لشکر پر فتح دی اور ان سب کو ہلاک کرکے اسلام کو جزیرہ عرب میں قائم کردیا… اور آخری زمانے میں یہ مشابہت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ملتِ موسوی کے آخری زمانے میں ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جو جہاد کا مخالف تھا اور دینی لڑائیوں سے اسے کچھ بھی سروکار نہ تھا۔ بلکہ عفو اور درگزر اس کی تعلیم تھی، اور وہ ایسے وقت میں آیا تھا کہ جب بنی اسرائیل کی عملی حالت اور چال چلن میں بہت فتور واقع ہوگیا تھا اور ان کی سلطنت جاتی رہی تھی اور وہ رومی سلطنت کے ماتحت تھے اور وہ حضرت موسیٰ سے ٹھیک ٹھیک چودھویں صدی پر ظاہر ہوا تھا، اور اس پر سلسلہ اسرائیلی نبوت کا ختم ہوگیا تھا۔ اور وہ اسرائیلی نبوت کی آخری اینٹ تھی۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے میں مسیح ابن مریم کے رنگ اور صفت میں اس راقم کو مبعوث فرمایا اور میرے زمانے میں رسمِ جہاد کو اٹھا دیا۔ جیسا کہ پہلے ہی خبر دی گئی تھی کہ مسیح موعود کے زمانے میں جہاد کو موقوف کردیا جائے گا۔ اسی طرح مجھے عفو اور درگزر کی تعلیم دی گئی۔ اور مَیں ایسے وقت میں آیا جب کہ اندرونی حالت اکثر مسلمانوں کی یہودیوں کی طرح خراب ہوچکی تھی اور روحانیت گم ہوکر صرف رسوم اور رسم پرستی ان میں باقی رہ گئی تھی۔

حضورِ انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں مسیح موسوی اور مسیح محمدی کی بہت سی مماثلتیں پیش فرمائیں، اسی طرح آخری زمانے کی نشانیاں پیش کرکے ثابت فرمایا کہ یہ زمانہ مسیح موعود کی بعثت کا زمانہ ہے اور حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی وہ مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں کہ جن کی آمد کی پیش گوئیاں قرآن کریم اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھیں۔

آج لوگ قادیان میں اکٹھے ہیں جو اسی کا ثبوت ہےکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ کے ذریعے دنیا کے ہر ملک میں اسلام کا جو پیغام پہنچا ہے یہ اسی بات کی دلیل ہے ۔

آیات قرآن سے مسیح موعودؑ کی بعثت کے وقت کی علامات کا تذکرہ جاری رکھتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ وَاِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ اورجس وقت وحشی آدمیوں کے ساتھ اکٹھے کیے جائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ وحشی قومیں تہذیب کی طرف رجوع کریں گی اور ان میں انسانیت اور تمیز آئے گی۔ شریفوں اور رذیلوں میں کچھ فرق نہیں رہے گا بلکہ رذیل غالب آ جائیں گے یہاں تک کہ کلید دولت اورعنان حکومت ان کے ہاتھ میں ہو گی۔

پھر فرمایا: وَاِذَا الۡبِحَارُ فُجِّرَتْ۔ اور جس وقت دریا چیرے جاویں گے۔ یعنی زمین پر نہریں پھیل جائیں گی اور کاشتکاری کثرت سے ہوگی۔ اور جس وقت پہاڑ اُڑائے جائیں گے اور ان میں سڑکیں اورریل کے چلنے کےلیےجگہیں بنائی جائیں گی۔ پھرفرمایا کہ سخت ظلمت جہالت اور معصیت دنیا پر طاری ہو جائے گی اندھیرا چھا جائے گا۔ اور جس وقت تارے جھڑ جاویں گے۔ یعنی ربّانی علماء فوت ہو جائیں گے۔

پھر فرمایا کہ یاد رہے کہ مسیح موعودؑ کے آنے کے لیے پیش گوئی انجیل میں بھی ہے کہ وہ اس وقت آئے گا کہ جب سورج اور چاند کا نُور جاتا رہے گا ۔

پھر فرمایا اور جب رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے۔ یہ اشارہ درحقیقت مسیح موعودؑ کے آنے کی طرف ہے اور اس بات کا بیان مقصود ہے کہ وہ عین وقت پرآئے گا۔ آج کل کے علماء مسیح موعودؑ کو نہ ماننے کی دلیل تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت کا زمانہ ہوگا لیکن جب قیامت آ رہی ہے تو رسولوں کو جمع کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اصل بات یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ایک رسول آئے گا جو تمام رسولوں کی امت کو اکٹھا کرے گا اور اُنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لائے گا۔ کاش نام نہاد علماء اس نکتے کو سمجھیں۔

پھر خدا کے تائیدی نشانات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ عبدالحق غزنوی نے مجھ سے مباہلہ کیا اور کہا کہ اس کے نتیجے میں اس کے گھر لڑکا پیدا ہو گا لیکن چودہ سال ہوئے وہ ابھی تک پیدا نہیں ہوا اور اس کے دوران میرے گھر کتنے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہیں ۔چراغ دین جمونی نےخود ساختہ مباہلہ کیا اور اس کے چند دن بعد اپنے دو لڑکوں سمیت مر گیا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ تائیدی نشانات آج بھی جاری ہیں جو دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں کہ کس طرح خدا لوگوں کی خوابوں وغیرہ سے مدد کر کے ہدایت دیتا ہے۔ مثلاً گنی بساؤ جہاں آج جلسہ ہو رہا ہے کے ایک ممبر ابراہیم صاحب اپنے دوست کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے ایک غیر احمدی مولوی نے جماعت کے خلاف بدکلامی شروع کر دی انہوں نے کہا کہ احمدی تو مسلمان ہیں اور آپ امام ہو کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس پر اس نے غصہ میں آ کر کہا کہ اگرمیں جھوٹا ہوں تو مجھے اللہ کی سزا ملے اور اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو تمہیں سزا ملے گی۔ یہ بات کہہ کر وہ اپنے گاوٴں چلا گیا۔ ابھی گاؤں پہنچا تھا کہ معلوم ہوا کہ گاؤں کے باہر اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ اس پر میرے ساتھ جو دوست بیٹھے تھے انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ آج احمدیت کی سچائی کا نشان ظاہر ہوا ہے اور میں اس جماعت میں شامل ہوتا ہوں۔

تنزانیہ گیٹا ریجن میں تبلیغ کے دوران ایک خاندان سے رابطہ ہوا۔ ایک اخبار میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر دیکھ کر اس خاندان نے کہا کہ یہ تصویر جب سے دیکھی ہے تو دل کے لیے تسکین کا باعث بن رہی ہے اور احمدیت قبول کر لی ۔

حضور انور نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ پاکستان اور ہندوستان میں چند بد بخت ایسے بھی ہیں کہ جو اس تصویر کو پائے دان میں رکھتے ہیں اور پاوٴں کے نیچے مسلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے نیک فطرت لوگ بھی پیدا فرمائے ہیں جن کے لیے یہ تصویر تسکین کا باعث بن رہی ہے۔

تنزانیہ میں عبداللہ صاحب نے کہا کہ جب وہ احمدی نہ تھے کہ ان کے ایک گاؤں میں احمدی معلم صاحب تبلیغ کے لیے آئے وہ چلے گئے لیکن انہوں نے بیعت نہ کی۔ اس کے بعد ایک اور مسلمان گروپ بڑی گاڑیوں میں آیا کہ احمدی جھوٹے اور غلط ہیں اور لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکایا۔ اس پر انہوں نے معلم صاحب سے رابطہ کیا کہ جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں کہ یہ مخالفت میرے لیے احمدیت کی سچائی کی نشانی ہے ۔اب دیکھیں ان کے لیے کیسے مخالفت بھی ہدایت کا موجب بن گئی ہے ۔

انڈیا، راجدھانی امپھال جگہ کے ایک دوست کے گھر تبلیغ کے لیے جب گئے اور وہاں گھر والے صاحب نے مسیح موعودؑ کے حق میں مختلف بروشر نکال کر دکھائے کہنے لگے کہ جب سے ۲۰۱۶ء سے مجھے مسیح موعود کی آمد کا علم ہوا تو اس وقت سے میں نے اعلان کر دیا کہ میں احمدی ہوں۔ اس پر لوگ مجھے مارنے اور توبہ کروانے آئے لیکن اس دن زلزلہ آیا اور میری توبہ کروانے والے لوگوں کا اتنا نقصان ہوا کہ وہ آ نہ سکے اس لیے یہ میرے لیے احمدیت کی ایک کرامت اورسچائی کا نشان ہے۔

تنزانیہ کے ایک صاحب کھیتی باڑی کرتے ہیں جہاں وہ کام کرتے تھے بجلی گری اور ان پر بھی اثر ہوا یہ کہتے ہیں کہ اس سے یہ دور جا گرے، بےہوش ہو گئے۔ ہوش آیا تو تیز بارش تھی اور بجلی گرنے کی وجہ سے لاغر تھے اور اکیلے جنگل میں تھے تو دعا کی کہ اللہ مجھے احمدیت کی سچائی کا نشان دکھا۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اس نے مجھے مٹی اور کیچڑ میں لت پت پایا اور مردہ سمجھ کر جانے لگا تو میں نے رہی سہی طاقت سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اس کو معلوم ہوا کہ میں زندہ ہوں مجھے اٹھا کر گاوٴں پہنچا دیا جہاں اعلان ہو چکا تھا کہ ہمارے کھیتوں میں بجلی گری ہے اور میں گم شدہ تھا تو یہ اعلان ہوا کہ میں مر چکا ہوں ۔اس طرح خدا نے مجھے بچا کر احمدیت کی سچائی کا نشان دکھایا۔ ان تائیدات کے سلسلہ سے نیک فطرت لوگ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں نہ کہ بدبخت لوگ۔

کوتونو کے ایک عیسائی ہماری مسجد میں آئے اور سوالات کیے اور کہنے لگے کہ خدا نے خود میری راہنمائی کی ہے کہ چند دن قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ دو بزرگ تھے ایک نے کہا جس مذہب کی پیروی تم کر رہے ہو وہ درست نہیں اور دوسرے بزرگ اللہ اکبر! اللہ اکبر! کہہ رہے تھے۔ جب ان کو حضرت مسیح موعودؑ اور میری تصویر دکھائی گئی تو کہنے لگے کہ یہ دو بزرگ ہی تو میری خواب میں آئے تھے تو وہ اپنے خاندان سمیت احمدیت میں داخل ہو گئے اور اپنے گھر کے ساتھ ایک چھوٹا سا چرچ بنایا ہوا تھا اس کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ غیر مسلموں کو بھی ہدایت دیتا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کے نشانات دکھا رہا ہے۔

قرغیزستان کی ایک خاتون نے اپنے بھائی کی عادات و عبادات میں تبدیلی دیکھی۔ ان کو بھی ان کے بھائی کے دوست نے تبلیغ کی اور وہ احمدیت میں داخل ہو گئیں۔

انڈونیشیا کے ایک نو مبائع احمدیت کو غلط سمجھتے تھے۔ انہوں نے کسی اَور جماعت کی بیعت کر لی۔ پھر انہوں نے خواب میں حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا۔ ایک سال بعد ایک احمدی سے تبلیغی گفتگو ہوئی۔ کتاب کا مطالعہ کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر دیکھ کر انہوں نے بیعت کر لی۔

انڈونیشیا میں ایک نوجوان نے فوری بیعت کر لی اور کچھ کتب اور حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر والے بروشر لے کے وہ گھر پہنچا تو تصویر دیکھ کر اس کے والد نے بھی فوری بیعت کر لی۔ اللہ تعالیٰ نے فوری سینہ کھول دیا۔

مالی میں ایک صاحب بیعت کے لیے مشن ہاؤس آئے اور بیعت کی وجہ یہ بتائی کہ وہ ریڈیو احمدیہ شوق سے سنتے ہیں۔ ایک دن سنتے سنتے ان کی آنکھ لگ گئی تو خواب میں رسول اللہ ﷺ نے ان کی بیعت کی راہنمائی کی۔

حضور انور نے یہ واقعات پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ کیا یہ تائیدات اور تائیدی نشانات اس بات کی دلیل نہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام وہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جن کی خبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے دی تھی۔ اگر دل صاف ہو اور فطرت نیک ہو تو ان نام نہاد علماء کے پیچھے چلنے کے بجائے نیک دل سے فیصلہ کرے۔

حضور انور ایدہ اللہ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات پیش کیے جن میں آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کثرت سے لوگوں کے آنے کی خبر دی۔ جس سے خدا کے عالم الغیب ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ مہمانوں کے آنے کی خبر دی۔ ان کے قیام و طعام کی خبر دی۔ آج قادیان میں کئی گیسٹ ہاؤسز بن چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان سب کے سامان کرتاہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان معجزہ ہے۔

آج آپ لوگ جو قادیان جلسہ میں شامل ہیں اور جو اپنے ممالک میں ہیں آپ سب اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں۔ ہر احمدی کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ آپؑ کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے کوشش کرنی ہے۔ اپنی ظاہری و باطنی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اب دعا بھی کریں گے ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ دعا میں اپنے فلسطینی بھائی بہنوں اور بچوں کو یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ظلم کی چکی سے نکالے۔ ان مسلمانوں کو یاد رکھیں جن کی حکومتیں ان کو ظلم کا نشانہ بنا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستانی احمدیوں کے لیے دعا کریں۔ اسیرانِ راہِ مولا کے لیے دعا کریں۔ نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ آج رات تہجد میں نئے سال کے بابرکت ہونے، دنیا کے ظلم وستم کا خاتمہ ہونے کے لیے، دنیا کو حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے مقصد کو سمجھنے اور ماننے کے لیے دعا کریں۔

حضور انورایدہ اللہ نے حاضری بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قادیان کی حاضری اس وقت ۱۴ہزار ۹۳۰؍ ہے۔ ۴۲؍ ممالک کی نمائندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ جلسہ ہر لحاظ سے بابرکت کرے۔

حضور انور ایدہ اللہ نے مکرر دعا کی تحریک کرتے ہوئے آخر پر فرمایا کہ خاص طور پر نئے سال کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لیے دعا کریں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمان امّہ پر رحم فرمائے اور جماعت احمدیہ کو مزید ترقیات دیتا چلا جائے۔

گیارہ بج کر ۴۹ منٹ پر حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد پہلے قادیان دار الامان سے اردو، عربی اور مقامی زبانوں میں ترانے پیش کیے گئے۔ بعد ازاں ٹوگو اور گنی بساؤ سے شاملین جلسہ نے روایتی انداز میں ترنم کے ساتھ عربی اور مقامی زبانوں میں ترانے پیش کر کے خلافت احمدیہ سے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کیا۔

بارہ بج کر تیرہ منٹ پر حضور انور ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرما کر ایوان مسرور سے تشریف لے گئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button