اداریہ

اداریہ: ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

دورِ حاضر میں مسلمان ممالک کی ایک متحد، مضبوط اور مؤثر نمائندہ آواز کی ضرورت

گذشتہ دنوں جنوب مغربی یورپ کے تاریخی ملک سپین جانے کا اتفاق ہوا۔ سیر و سیاحت کے لیے سپین کو چننے کا مقصد اس کا خوشگوار موسم، تاحدِ نگاہ کھلا آسمان، لمبے سفید ریتیلے ساحل، نیلگوں شفاف سمندر اور زمین کے جاذبِ نظر نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ وہاں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ اور شان و شوکت کے نشانات دیکھنا بھی تھا۔ چنانچہ چار ایام میں صوبہ اندلوسیہ کے چند مقامات دیکھنے کا پروگرام بنایا گیا۔ ایئرپورٹ سے اترے تو جبرالٹر کی جانب گامزن ہوئے جو آج بھی بحرِ روم اور شمالی بحرِاوقیانوس کے درمیان ایک سمندری درّہ ہونے کے باعث ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخی روایات کے مطابق ۷۱۱ء میں اموی بادشاہ ولید بن عبدالمالک کی جانب سے مقرر کردہ افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے جرنیل طارق بن زیاد دو ہزار سے بھی کم جانبازوں کے ہمراہ اترے اور چند ہی برسوں میں ہسپانیہ میں اسلامی پرچم لہرا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت سپین میں حکمرانوں کی نااہلی کے باعث ایک ’خلا‘، ایک vacuumبن چکا تھا جسے مراکش سے براستہ جبرالٹر یہاں داخل ہونے والے مسلمانوں نے پُر کر دیا، سو وہی یہاں کے حکمران ٹھہرے۔ اور پھر مسلمانوں نے لگ بھگ آٹھ صدیاں یہاں حکومت کی۔

سپین میں مسلمانوں کا دورِ حکومت ایک سنہری دور کہلاتا ہے۔ زمانۂ جہالت کے ایّام میں جسے عرفِ عام میں یورپ کی dark ages سے موسوم کیا جاتا ہے سپین میں علوم و فنون اپنے کمال پر تھے۔ اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ dark agesکے دوران یورپ کے علمی اور ثقافتی انقلاب کی داغ بیل سپین کے مدرسوں اور خانقاہوں میں رکھی جا رہی تھی۔ اور کیوں نہ رکھی جاتی، سپین میں علم دوستی معمول بن چکی تھی۔ اس سے قبل علم مذہبی درسگاہوں سے منسلک تھا، اغلبا ًدنیا کا پہلا سیکولر مدرسہ سپین میں ہی معرضِ وجود میں آیا جہاں مسلمان، عیسائی، یہودی وغیرہ مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک چھت کے نیچے اور ایک ہی استاد سے علم حاصل کرتے تھے۔ سپین کے سائنسدان، ریاضی دان، شعراء، وہاں کی عجوبہ عمارات و محلات اپنی مثال آپ ہیں۔آج بھی اس دور کی تعمیر شدہ عمارتوں کی شان و شوکت اور وجاہت پوری دنیا سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ مسلم سپین کو مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی باہمی ہم آہنگی کا سنہرا دور بھی قرار دیا جاتا ہے۔

یہ سب اس لیے بھی تھا کہ سپین میں ۱۰۳۱ء تک مسلمان متحد رہے۔ اس کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان باہمی اتحاد کو کھونے لگے اور اقتدار کی خاطر آپس میں ہی دست و گریبان ہونا ان کا معمول بن گیا۔ نتیجةً ایک ہی سلطنت کے اندر متعدد حکومتیں بن گئیں جو بیرونی دشمنوں کے ساتھ برسرِ پیکار ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں لڑنا بھی اپنا فرض سمجھتی تھیں۔ ان کی اس کمزوری سے یورپ کی ابھرتی طاقتوں نے فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کا اتحاد کمزور ہونے کے نصف صدی بعد ہی الفانسو ششم نے تولیدو پر قبضہ کر لیا اور پھر ۱۲۳۶ء میں قرطبہ، ۱۲۴۸ء میں سویا (Seville) اور ۱۴۹۲ء میں غرناطہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے اور سپین میں مسلمانوں کے اقتدار کی صف لپیٹ دی گئی۔ باوجودیکہ عوام کی اکثریت مسلمان حکمرانوں کو اپنے ہم مذہب حکمرانوں پر فوقیت دیتی تھی تاہم وہاں سے ان کا ایسا انخلا ہوا کہ ان کا نام ایک گالی سے تعبیر ہونے لگا۔ آنے والی مسیحی حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں سے بھی جو ظلم و زیادتیاں روا رکھیں یہ اپنی ذات میں ایک الگ ہی کہانی ہے۔

آج یہ سطور لکھنے سے امتِ مسلمہ کو یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک کامل نبی اور کامل مذہب کے پیروکار ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ اوسلم نے واضح فرمایا تھا کہ مَثَلُ المُؤْمِنِينَ في تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمِهِمْ وتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الجَسَدِ إذا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى له سَائِرُ الجَسَدِ بالسَّهَرِ والحُمَّى (صحیحین) یعنی مومنوں کی باہم ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور ان کے باہمی تعلق و تعاون کی مثال ایسے ہی ہے جیسے جسم کا باقی اعضا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے کہ اگر اس کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہو تو وہ دیگر اعضا کو بھی اس تکلیف میں شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے اور اس سے نیند اڑ جاتی ہے اور بخار ہو جاتا ہے۔سرورِدوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ اور ویسے بھی مقولہ ہے کہ زندہ اقوام اپنی تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں۔

آج کے نازک حالات میں جہاں اہلِ فلسطین پر پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں درج بالا ارشاداتِ نبویؐ کی روشنی میں مسلمان ممالک کا فرض بنتا ہے کہ اس ظلم کے خلاف مؤثر کردار ادا کریں۔ اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں اور یقیناً ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے تو انہیں یہ بات سپین کی تاریخ سے سیکھ لینی چاہیے کہ آپس کا اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے آج نہتے اور معصوم مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے ہاتھ اس قدر طاقت ور محسوس ہوتے ہیں کہ مسلمان دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہونے کے باوجود بے بس نظر آتے ہیں۔

آج مسلمانوں کی اس بے بسی کی ایک وجہ مسلمانوں کی ایک متحد اور مضبوط نمائندہ آواز کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک اللہ والے کی جانب سے مسلمانوں کی ہمدردی میں اٹھنے والی صدا پر توجہ دی جائے قبل اس کے کہ دیر ہو جائے اور تاریخ اپنے آپ کو اس طرح دہرائے کہ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کو فقط ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہنے پر اکتفا کرنا پڑے۔

امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حماس اسرائیل جنگ کے تناظر میں مسلمان ممالک کو باہم اتحاد پیدا کرنے اور ظلم کے خلاف مؤثر آواز اٹھانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کو بھی سمجھ دے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہتّر۷۲، تہتّر۷۳ سال پہلے یہ تنبیہ کی تھی کہ مسلمانوں کو ایک ہونا چاہیے۔ اگر ایک نہ ہوئے تو وہ فیصلہ کریں کہ ایک ایک کر کے مرنا ہے۔ ایک ایک کر کے اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے یا ایک ہی وجود ہو کر اپنا ایک وجود برقرار رکھنا ہے اور باقی رہنا ہے۔ کاش کہ اب بھی یہ لوگ اس بات کو سمجھ جائیں اور ایک ہو جائیں!‘‘(خطبہ جمعہ ۱۷؍ نومبر، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل لندن ۸؍ دسمبر ۲۰۲۳ء صفحہ ۷)

اسی طرح مسلمانوں کی جانب سے ایک متحد اور مضبوط نمائندہ آواز ہونے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا:’’مسلمان ممالک کو جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ایک ہو کر اور ایک آواز ہو کر بولنا چاہیے۔ اگر دنیا کے ترپّن۵۳، چوّن۵۴ ممالک کہے جاتے ہیں کہ مسلمان ہیں وہ ایک آواز میں بولیں تو یہ بڑی طاقت ہو گی اور اس کا اثر بھی ہو گا ۔

ورنہ پھر اِکَّا دُکَّا آوازیں کوئی اثر نہیں رکھتیں اور یہی ایک طریقہ ہے دنیا میں امن قائم کرنے کا اور اس جنگ کے خاتمے کا۔ پس مسلمان ممالک کو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی توفیق بھی دے۔ (خطبہ جمعہ ۲۰؍ اکتوبر، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل لندن ۱۰؍ نومبر ۲۰۲۳ء صفحہ ۷)

اس نصیحت کے باوجود مسلمانوں کی بھرپور اور ایک آواز بلند ہوتی نظر نہیں آتی۔ لگتا ہے کہ

دل سر بہ مہر، کانوں میں روئی بھری ہوئی

آنکھوں میں اختلاف کے جالے پڑے ہوئے

اگر تو کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر ترپّن۵۳، چوّن۵۴مسلمان ممالک جن کے کچھ نہ کچھ باہمی اختلافات بھی ہیں کس طرح ایک آواز بن سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب بھی ہمیں تاریخ سے ملتا ہے۔ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کے اندرونی جھگڑے اور مناقشات بہت بڑھ گئے تو ایک دفعہ روم کے بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ وقت مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بہت اچھا ہے۔ وہ آپس میں لڑرہے ہیں اور اُن کی طاقت اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے۔ اس لئے مسلمانوں پر اگر حملہ کیا گیا تو وہ بہت جلد شکست کھا جائیں گے۔ جب یہ افواہ اُڑتے اُڑتے حضرت معاویہؓ تک پہنچی تو انہوں نے اس بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ یاد رکھو اگر تم نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو علیؓ کی طرف سے پہلا جرنیل جو تمہارے خلاف لڑنے کے لیے نکلے گا وہ مَیں ہوں گا۔ جب یہ پیغام اسے پہنچا تو اس نے لڑائی کا ارادہ فوراً ترک کر دیا۔‘‘ (خلافتِ راشدہ، انوار العلوم جلد ۱۵، صفحہ ۱۰۰)

پس دو ممالک، دو لیڈرز کے مفادات اور مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں، ان کی پالیسی میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بات جب ظلم کے خلاف اکٹھے ہونے اور اس سے بھی بڑھ کر دینی حمیت اور غیرت کے اظہار کی ہو تو اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متفقہ امور کو بنیاد بنا باہم متحد ہو جانا نہ صرف اپنی بقا اور ترقی کا ضامن بن جاتا ہے بلکہ دنیا میں قیامِ امن کی ایک کلید بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ اسلامی ممالک کے سربراہان کو توفیق دے کہ وہ مسلمانوں کی ایک مضبوط نمائندہ آواز مقرر کر سکیں جو نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں کوشاں رہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دنیا میں امن کے قیام کے لیے بھی اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کر سکے۔وباللہ التوفیق

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button