بچوں کا الفضل

نئے سال کی پارٹی!

فارس: امی جان! ہمارے سکول میں نئے سال پر رات کو پارٹی ہے۔ کیا میں اس میں شامل ہو سکتا ہوں؟

فاتح:لیکن آج سائق صاحب نے دستخط کروائے ہیں کہ نئے سال پر اجتماعی تہجد اور وقارِ عمل ہے۔ ہم نے اس میں لازمی شامل ہونا ہے۔

امی جان: تو آپ دونوں کی رائے مختلف ہے اس بارہ میں۔ چلیں آپ دونوں اپنی اپنی بات کے صحیح ہونے کے بارہ میں مجھے قائل کریں!

فارس: امی جان! وقارِ عمل میں تو ہر سال شامل ہوتے ہیں۔ اب میری کلاس کو نائٹ پارٹیز کی اجازت ہے۔ میں بڑا ہوگیا ہوں۔

فاتح: بھائی آپ کو یاد ہے کہ آپ نے ہی مجھے ہالووین پارٹی میں نہ جانے کے بارہ میں بتایا تھا تو اب اس پارٹی میں آپ کیوں جانا چاہ رہے ہیں۔

فارس: وہ… وہ…

امی جان: فاتح کی بات میں تو وزن ہے۔

فارس: جی امی جان!

امی جان: فارس بیٹا! ہم احمدی مسلمان ہیں اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہم سے اس بدلتے معاشرہ میں اپنی روایات قائم رکھنے کی توقع رکھتےہیں۔ میں آپ کو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا ایک واقعہ سناؤں؟

فاتح جلدی سے: جی جی امی جان!

امی جان : حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ جب یہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ایک مرتبہ لندن میں New Year‘s day کے موقع پر جب اگلے روز نیا سال چڑھنے والا تھا اور عید کا سماں تھا۔ رات کے بارہ بجے لوگ ٹریفالگر سکوائر (Trafalgar Square) میں اکٹھے ہو کر موج مستیوں میں مصروف تھے۔ حضورؒ اس رات بوسٹن اسٹیشن پر تھے۔ جیسے اس سال آپ کا پروگرام ہے اسی طرح اللہ کے فضل سے اکثر احمدی ہر سال کا نیا دن اس طرح شروع کرتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عبادت کرتے ہیں۔ حضورؒ بھی وہاں اخبار کے کاغذ بچھاکردو نفل پڑھنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد ایک شخص پاس آکر کھڑا ہوگیا اور ابھی حضورؒ نے نماز ختم نہیں کی تھی کہ اس شخص کی سسکیوں کی آواز آئی۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضورؒ نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا انگریز تھا جو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ حضورؒ فرماتے ہیں کہ میں گھبرا گیا۔ میں نے کہا پتا نہیں یہ سمجھا ہے کہ میں پاگل ہو گیا ہوں۔ اس لیے شاید بیچارہ میری ہمدردی میں رو رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟تو اس نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے۔ ساری قوم اس وقت نئے سال کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک ایساآدمی ہے جو اپنے ربّ کو یاد کررہا ہے۔اس چیز نے اور اس موازنہ نے میرے دل پر اس قدر اثر کیا ہے کہ میں برداشت نہیں کرسکا۔ چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا:

God bless you. God bless you.

God bless you. God bless you

(ماخوذ از خطبہ جمعہ 20؍اگست 1982ء )

تو ایک احمدی کے لیے یہ معیار ہے۔ اسی لیے جماعت ہم سب کی تربیت کے لیے اس دن مختلف تربیتی پروگرام رکھتی ہے تاکہ ہم ان برائیوں میں نہ پڑ جائیں جو دنیا والے پلان کرتے ہیں۔

فارس : میں سمجھ گیا امی جان! میں جلدی سو جاؤں گا اور پھر ہم سب تہجد کے لیے مسجد جائیں گےاور پھر وقارِ عمل میں بھی شامل ہوں گے۔

شاباش: امی جان نے پیار سے کہا۔

فارس: امی جان تو میں پھر نئے سال کی ریزولیوشن کیا بناؤں؟

امی جان: چلیں یہ تو ہم کر سکتے ہیں! فاتح سے شروع کرتے ہیں۔

فاتح:میں سات سال کا ہوگیا ہوں تو میں کوشش کروں گا کہ اطفال الاحمدیہ کے تمام پروگرامز میں جاؤں۔

فارس: میں کوشش کروں گا کہ اس بار بھی اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھوں اس لیے بہت محنت کروں گا۔

امی جان: اور میں کوشش کروں گی کہ آپ دونوں کی قراردادوں کو پورا کرنے میں آپ کی مدد کروں۔

ابو جان جو کمرے میں داخل ہوکر ان کے ریزولیوشن سن رہے تھے، بولے: اور میں کوشش کروں گا کہ اس بار چھٹیوں میں آپ سب کو کہیں گھمانے لے جاؤں!

فاتح اور فارس مل کر کہتےہیں: ہررے!

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button