متفرق مضامین

حساب الْجُمَّل

(’ابو لطفی‘)

حساب الجُمّل کیا ہے جسے حساب الابجد یا حساب الابجدیّہ بھی کہا جاتا ہے ؟

عربی حروف تہجیّ کے ہر حرف کی نمبروں میں ایک قیمت مقرر ہے۔ جب کسی لفظ کے تمام حروف کی قیمتوں کو جمع کیا جائے تو ان کےمیزان کو اُس لفظ کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے۔ اِس طرح کسی لفظ یا کسی عبارت کے ہر حرف کی قیمتوں کا حساب کرنے کے طریق کو حساب الجمّل کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی بجائے ۷۸۶ کا عدد لکھتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ بَسملہ کے تمام حروف کی قیمتوں کو جمع کرنے سے میزان ۷۸۶ بنتا ہے۔ آگے چل کر اس کی تفصیل بیان کی جائے گی۔ مگر یادرہے کہ ۷۸۶ کی بجائے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنا بہتر، بابرکت اور ثواب کا ذریعہ ہے۔

حساب الجمل کی تاریخ حضرت مسیحؑ سے بھی صدیوں قبل تک جاتی ہے۔ یہود اِس فن کو خوب جانتے تھے، عربوں میں بھی اس کا رواج تھا۔ برصغیر میں اس فن کو جاننے والے کثرت سے ہوا کرتے تھے جو بالعموم شعراء تھے۔اب بھی اس کے جاننے والے یہاں موجود ہیں مگر بہت کثرت سے نہیں۔

حساب الجمل میں عربی حروف ہجاء کی ترتیب عام ترتیب سے مختلف ہے۔ سب سے پہلا حرف تو الف ہی ہے مگر آخری حرف غ ہے۔ پوری ترتیب یوں ہے:

ا ب ج د ہ و ز ح ط ی ک ل م ن س ع ف ص ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ غ

یہ کُل ۲۸ حروف ہیں۔ ہمزہ کو الف شمار کیا جاتا ہے۔ اِس ترتیب کو زبانی یاد کرنا خاصا مشکل ہے کیونکہ ہم حروف تہجی کی عام ترتیب سے واقف ہیں جو اکثر کو از بر ہے۔ سوائے اس کے کہ عربی حروف تہجی میں ہ پہلے ہے پھر و۔جبکہ اردو میں و کے بعد ہ ہے۔

حساب الجمل میں حروف تہجی کی ترتیب کو آسانی سے یاد کرنے کا طریق پرانے زمانے سے ہی یہ وضع کیا گیا کہ ان حروف میں سے تین تین یا چار چار کا ایک لفظ بنایا گیا جسے یاد کرلینا مشکل نہیں۔ وہ الفاظ یہ ہیں:

اَبْجَدْ ھَوَّزْ حُطِّیْ کَلِمَنْ

ا:۱ ب:۲ ج:۳د:۴ ھ:۵ و:۶ ز:۷ ح:۸ ط:۹ ی:۱۰ ک:۲۰ ل:۳۰ م:۴۰ ن:۵۰

سَعْفَصْ قَرْشَتْ ثَخَذْ ضَظَغْ

س:۶۰ ع:۷۰ ف:۸۰ ص:۹۰ ق:۱۰۰ ر:۲۰۰ ش:۳۰۰ ت:۴۰۰ ث:۵۰۰ خ:۶۰۰ ذ:۷۰۰ ض:۸۰۰ ظ:۹۰۰ غ:۱۰۰۰

ہر حرف کےساتھ اس کی قیمت درج کر دی گئی ہے۔ یہ آٹھ الفاظ بہت لوگوں کو ازبر یاد ہیں جو اس فن میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور ہر ایک کی قیمت بالترتیب ایک سے دس تک۔ پھر گیارہ نہیں بلکہ دہائیوں میں قیمت بڑھتی ہے یعنی ۲۰، ۳۰، ۴۰…وغیرہ۔ ۱۰۰ کے بعد ۲۰۰، ۳۰۰، ۴۰۰-۱۰۰۰ تک چلی جاتی ہے۔

اِن الفاظ کا ترجمہ کیا ہے؟ عام ڈکشنریوں میں ان میں سے چند ایک کا ترجمہ ملتا ہے۔مثلًا ابجد حروف ہجا ء۔ ھوز کا ترجمہ مَاتَ (وہ مر گیا)۔ انٹر نیٹ پر ان الفاظ کے مندرجہ ذیل معانی درج ہیں مگر ان کے لیے کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ وہ معانی یہ ہیں:

ابجد (أخَذَ)۔ ھوز ( رَکِبَ )۔ حطی ( وَقَفَ )۔ کلمن (صار متعلمًا )۔ سعفص ( أ سرَعَ )۔ قرشت (اخذ بالقلب)۔ ثخذ (حَفِظَ)۔ ضظغ ( أتَمَّ )۔ان الفاظ کے تلفظ میں بھی کسی کسی جگہ معمولی فرق ہے۔ آخر میں سکون وقف کی وجہ سے دیا گیاہے۔بہرحال اس مضمون میں جو تلفظ ظاہر کیا گیا ہے وہ ہم نے سکول لائف میں زبانی یاد کیا تھا۔

اوپر ذکر ہوا تھا کہ بَسملہ ( بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم) کے حروف کے اعداد کا مجموعہ ۷۸۶ بنتا ہے، وہ اس طرح ہے:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

ب:۲ س:۶۰ م:۴۰ ا:۱ ل:۳۰ ل:۳۰ ہ:۵ ا:۱ ل:۳۰ ر:۲۰۰ ح:۸ م:۴۰ ن:۵۰ ا:۱ ل:۳۰ ر:۲۰۰ ح:۸ ی:۱۰ م:۴۰ میزان:۷۸۶

حساب الجمل میں قانون یہ ہے کہ تمام لکھے ہوئے حروف شمار ہوں گے، اگر چہ ان میں سے بعض تلفظ میں ادا نہ ہوتے ہوں۔ تمام حرکات کو ہٹا دیا جائے گا۔ حرکات اِشباعیہ یعنی کھڑی زبر، کھڑی زیر اور الٹی پیش بھی ساقط ہوں گی۔ مشدد حرف پر سے تشدید ہٹا دی جائے گی یعنی مشدد حرف ایک حرف شمار ہوگا نہ کہ دو۔ مثلاً اَلصّٰلِحٰتُ میں حرکات (اعراب) ہٹادی جائیں تو یہ رہ جائے گا: الصلحت یعنی یہ ۶ حروف شمار ہوں گے۔ یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ الصلحت میں لام تلفظ میں نہیں آتا، لہٰذا اسے چھوڑ دیا جائے۔ نہیں۔ بلکہ اسے شامل کیا جائے گا۔ اور ص پر تشدید ہے۔ مگر ایک ہی ص شمار ہوگا۔

اردو حروف ہجاء کے بعض حروف عربی حروف ہجاء میں نہیں مثلاً پ۔ٹ۔وغیرہ۔ ان کےلیے قاعدہ یہ ہے کہ پ کو ب شمار کریں گے۔ ٹ کو ت۔ چ کو ج۔ ڈ کو د۔ ڑ کو ر۔ ژ کو ز۔ گ کو ک۔ ہمزہ کو الف۔

خاکسار نے مشرقی افریقہ میں مشاہدہ کیا کہ کئی شیعہ حضرات کی گاڑیوں پر ۱۱۰ کا عدد لکھا ہوتا تھا۔ خصوصاً نیروبی میں۔ یہ عَلِیؓ کے حروف کا مجموعہ ہے۔ ع=۷۰۔ +ل=+۳۰ی=۱۰۔مطلب یہ ہے کہ اب بھی حساب الجمل کا رواج موجود ہے۔

یہود میں خاص طور پر حساب الجمل کا بہت رواج تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیرِ کبیر میں الٓمٓ کے تحت بحوالہ فتح البیان مصری صفحہ ۲۴تحریر فرمایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک یہودی حُیَی بن اَخطب اپنے بعض ساتھیوں کے ہمراہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ا ور کہا، سنا ہے آپ پر الٓم ذٰلک الکتٰب وحی نازل ہوئی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: ہاں۔ وہ کہنے لگا اس کے اعداد ۷۱ بنتے ہیں، یعنی آپ کی امت کا زمانہ ۷۱ سال ہے۔ پھر پوچھا کچھ اور حروف بھی نازل ہوئے ہیں؟حضورؐ نے فرمایا: المص۔ اُس نے کہا اِس کے اعداد ۱۶۱ ہیں۔ کہا کچھ اور بھی ہے ؟تو فرمایا المر۔ اُس نے کہا یہ تو ۲۷۱ سال کا عرصہ ہوا۔ پھروہ کہنے لگا ہم پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے۔ معلوم نہیں آپ کا زمانہ چھوٹا ہے یا بڑا، پھر وہ اٹھ کر چلا گیا۔

حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ یہ بات تو بہر حال غلط ہے کہ ان حروف میں آپؐ کے زمانے کا ذکر ہے۔ کیونکہ آپؐ کا زمانہ تو قیامت تک ہے۔ مگر آپؐ نے یہود کی باتوں کی تردید بھی نہیں کی۔ لہٰذا ان مدتوں سے مراد یہ ہے کہ اِن سالوں میں خاص واقعات اسلامی تاریخ میں ہوں گے۔ پھر حضور ؓ نے ان واقعات کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔جس کے لیے قارئین تفسیر کبیر جلد اول (زیر الم) ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بھی حساب الجمل کا ذکر ملتا ہے۔ حضورؑ ازالہ اوہام میں تحریر فرماتے ہیں: ’’چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اِس حدیث کا جو اَلْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِأَتَیْنِہے، ایک یہ بھی منشا ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود ظاہر ہوگا، اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں یہ عاجز داخل ہے، تو مجھے کشفی طور پر اِس مندرجہ ذیل نام کے اعدادِ حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح موعود ہے کہ تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی۔ اور وہ نام یہ ہے غلام احمد قادیانی۔ اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں۔ اور اِس قصبہ قادیان میں بجز اِس عاجز کے کسی اور شخص کا غلام احمد نام نہیں بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا کہ اِس وقت بجز اِس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں ‘‘۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۸۹-۱۹۰)

حضورؑ نے غلام احمد قادیانی کے اعداد ۱۳۰۰ بیان فرمائے ہیں۔ وہ اس طرح ہیں:

غلام احمد قادیانی

غلام احمد قادیانی

غ:۱۰۰۰ ل:۳۰ ا:۱ م:۴۰ ا:۱ ح۸ م:۴۰ د:۴ ق:۱۰۰ ا:۱ د:۴ ی:۱۰ ا:۱ ن:۵۰ ی:۱۰میزان: ۱۳۰۰

ایک الٰہی اِنکشاف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اور یاد رہے کہ اگر چہ قرآن شریف کے ظاہر الفاظ میں عمرِ دنیا کی نسبت کچھ ذکر نہیں، لیکن قرآن میں بہت سے ایسے اشارات بھرے پڑے ہیں جن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عمرِ دنیا یعنی دورِآدم کا زمانہ سات ہزار سال ہے۔ چنانچہ منجملہ ان اشاراتِ قرآنی کے ایک یہ بھی ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت ﷺ کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے، یعنی تیئیس برس کا تمام و کمال زمانہ، یہ کل مدت گذشتہ زمانہ کے ساتھ ملا کر 4739 برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت ﷺ کے روزِ وفات تک قمری حساب سے ہیں…(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۳)

کافی عرصہ ہوا خاکسار نے سورۃ العصر کے اعداد نکالے، تو یہ اعداد ۴۷۴۰ نکلے، جبکہ حضورؑ نے ۴۷۳۹ لکھے ہیں۔ متعدد بار خاکسار نے کوشش کی مگر ہر بار اعداد ۴۷۴۰ ہی نکلتے تھے۔پھر اچانک خاکسار کے دل میں آیا کہ اِس سورت میں الإنسان میں اگر الف کی جگہ کھڑی زبر ہو تو اعداد ۴۷۳۹ بن جائیں گے۔ یعنی یہ لفظ اس طرح لکھا جائے الإِنْسٰن۔ اور ایسٹ افریقہ میں خاکسار کے تجربہ میں آیاتھا کہ قرآن کریم کے عربی ممالک کے چھاپوں میں بعض جگہ الف کی جگہ کھڑی زبر ہوتی ہے (جو کہ حساب جمل میں شمار میں نہیں آتی )۔ اس پر عاجز نے قرآن کریم کا عربی ملک میں شائع کردہ نسخہ دیکھا تو فی الواقع وہاں إِنَّ الْإنْسٰنَ لَفِیْ خُسْرٍ تھا۔ اس سے یہ معمّہ حل ہو گیا، الحمدللہ، اور حضور علیہ السلام کے کشف کے عین مطابق سورۃ العصر کے اعداد ۴۷۳۹ ہوئے۔

یادر ہے کہ قرآن کریم کے برصغیر کے چھاپوں میں إن الإنسان لَفِی خُسر ہے۔ مگر کوئی اسے قرآن کریم کی حفاظت کے خلاف نہ سمجھے۔ کیونکہ قرآن کریم تحریری صورت میں تو نازل نہیں ہوا تھا۔ وحی تھی۔ کھڑی زبر ہو یا الف، تلفظ ایک ہی ہے ذرہ بھر فرق نہیں۔

سورۃ العصر کے اعداد کی تفصیل

و:۶ ا:۱ ل:۳۰ ع:۷۰ ص:۹۰ ر:۲۰۰ میزان:۳۹۷

ا:۱ ن:۵۰ ا:۱ ل:۳۰ ا:۱ ن:۵۰ س:۶۰ ن:۵۰ میزان: ۲۴۳

ل:۳۰ ف: ۸۰ ی:۱۰ خ:۶۰۰ س:۶۰ ر:۲۰۰ میزان: ۹۸۰

ا:۱ ل:۳۰ ا:۱ ا:۱ ل:۳۰ ذ:۷۰۰ ی:۱۰ ن:۵۰ میزان۸۲۳

ا:۱ م:۴۰ ن:۵۰ و:۶ ا:۱ میزان۹۸

و:۶ ع:۷۰ م:۴۰ ل:۳۰ و:۶ ا:۱ ا:۱ ل:۳۰ ص:۹۰ ل:۳۰ ح:۸ ت:۴۰۰ میزان:۷۱۲

و:۶ ت:۴۰۰ و:۶ ا:۱ ص:۹۰ و:۶ ا:۱ ب:۲ ا:۱ ل:۳۰ ح:۸ ق:۱۰۰ میزان:۶۵۱

و:۶ ت:۴۰۰ و:۶ ا:۱ ص:۹۰ و:۶ ا:۱ ب:۲ ا:۱ ل:۳۰ ص:۹۰ ب:۲ ر:۲۰۰ میزان:۸۳۵

کل میزان = ۴۷۳۹

ازالہ اوہام ہی میں حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ میں نے اس مسجد کی تاریخ جس کے ساتھ میرا مکان ملحق ہے، الہامی طور پر معلوم کرنی چاہی تو مجھے الہام ہوا مبارَک و مبارِک وَ کلُّ أمرٍ مبارک یجعل فیہ ‘‘ (روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۹۰)

خاکسار نے اس الہام کے اعداد نکالے تو وہ ۱۳۰۱ نکلے۔ یعنی ۱۳۰۱ ہجری۔ مبارَک =۲۶۳، و=۶، مبارِک=۲۶۳، و =۶، کلُّ =۵۰، أمر= ۲۴۱، مبارَک= ۲۶۳، یجعل=۱۱۳، فیہ =۹۶ ان سب کی میزان ۱۳۰۱ ہے۔

یعنی مسجد مبارک کی بنیاد ۱۳۰۱ ہجری میں رکھی گئی جوکہ ۱۸۸۳ عیسوی ہے۔

پھر اسی تسلسل میں تحریر فرماتے ہیں:’’ اور ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ ایک شخص کی موت کی نسبت خدائے تعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبردی، جس کا ماحصل یہ ہے کہ کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ۔ یعنی وہ کتاہے اور کتّے کے عدد پر مرے گا۔ جو باون سال پر دلالت کر رہے ہیں یعنی اس کی عمر باون سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔ جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا تب اُسی سال کے اندر اندر راہی ملک بقا ہوگا‘‘۔(روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۹۰)

اس پیشگوئی کو ہم نے خود پورا ہوتے دیکھا ہے۔ کلب: ک =۲۰، ل=۳۰، ب=۲، میزان ۵۲۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشوف والہامات میں حساب الجمل کا ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ جماعت میں اِس علم کو زندہ رکھا جائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button