خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ احد کے حالات وواقعات کا تذکرہ نیز فلسطین کے معصوموں کے لیے دعا کی  مکرّر تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۲؍دسمبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… آنحضور صلي اللہ عليہ وسلم کے تاکيدي حکم کے باوجود جب درّے کي حفاظت پر مامور اکثريت نے درّہ خالي کرديا تو دشمن نے اس طرف سے حملہ کيا اور مسلمانوں کو شديد نقصان پہنچايا

٭… صحابہؓ کے متعلق يہ کہنا يا سوچنا بھي ان کي شان کے خلاف ہے کہ انہيں مالِ غنيمت کي پڑي ہوتي تھي،
وہ تو اپنے بيوي بچے اپنا مال حتيٰ کہ اپني جان تک رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم پر نچھاور کرچکے تھے

٭… مسلمانوں کو بھي اللہ تعاليٰ توفيق دے کہ ايک بن کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائيں اور ظلم کو روکنے کي کوشش کريں

٭… فلسطین کے معصوم مسلمانوں کےلیے دعا کی مکرّر تحریک

٭… مکرم شيخ احمد حسين ابو سردانہ صاحب شہید غزہ اور مکرم عثمان احمد گاکوريا صاحب آف کينيا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍دسمبر۲۰۲۳ء بمطابق ۲۲؍ فتح ۱۴۰۲؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۲؍دسمبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

آج کل خطبات میں غزوۂ احد کا ذکر ہورہا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا تھا کہ عام جنگ میں مسلمانوں نے کافروں کو بہت نقصان پہنچایا اور وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی حکم کے باوجود جب درّے کی حفاظت پر مامور اکثریت نے درّہ خالی کردیا تو دشمن نے اس طرف سے حملہ کیا اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جب مشرکوں کے پرچم بردار ایک ایک کرکے ہلاک ہوگئے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ جب مسلمانوں نے کفار کو بھاگتے دیکھا تو وہ ان کا پیچھا کرنے اور مالِ غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اسی وقت مسلمانوں کا وہ تیرانداز دستہ جسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے درے پر تعینات کرکے یہ حکم دیا تھا کہ کسی بھی حال میں اپنی جگہ سے نہ ہلیں، کہا جاتا ہے کہ وہ دستہ مالِ غنیمت جمع کرنے کے لیے اپنی جگہ سے بھاگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر کردہ امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے ان لوگوں کو منع کیا لیکن وہ نہ رکے۔ حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ کے ساتھ دس سے بھی کم صحابہؓ اپنی جگہ جمے رہے۔

اکثر مؤرخین اور کتب تاریخ و حدیث میں یہی لکھا ہے کہ وہ صحابہؓ جو درّہ چھوڑ کر گئے تھے، انہیں مالِ غنیمت جمع کرنے کی جلدی تھی۔ اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت ۱۵۳کی تفسیر میں مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ صحابہؓ مال غنیمت کے حصول کے لیے جلدی جانا چاہتے تھے۔ لیکن صحابہؓ کرام کے بارے میں دنیاوی خواہش کے لیے درّے کو چھوڑنے کی بات دل کو لگتی نہیں۔ صحابہؓ کے متعلق یہ کہنا یا سوچنا بھی ان کی شان کے خلاف ہے کہ انہیں مالِ غنیمت کی پڑی ہوتی تھی، وہ تو اپنے بیوی بچے اپنا مال حتیٰ کہ اپنی جان تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور کرچکے تھے۔

فتح کی صورت میں مال غنیمت مل جانا ایک زائد بات تو ہوسکتی ہے لیکن صحابہؓ  کا مطلوب و مقصود مال غنیمت ہرگز نہیں ہوسکتا۔

پس جب درے پر موجود صحابہؓ نے دیکھا کہ کفار پر واضح فتح ہوگئی ہے اور اب مسلمان کفار کو بھگا رہے ہیں تو یہ صحابہ ؓبھی جنگ کی فتح کی خوشی منانے میں شریک ہونے کے لیے بےچین ہوگئے۔ وہ شاید سمجھ رہے ہوں کہ ہمارے بھائی تو جہاد میں براہِ راست شامل ہورہے ہیں اور ہم یہاں درے پر کھڑے ہیں، پس جنگ کے آخری لمحات میں وہ بھی عملی جہاد میں شامل ہونے اور فتح کی خوشی منانے میں شریک ہونے کے لیے درہ چھوڑ کر میدانِ جنگ میں آگئے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورہ آل عمران آیت ۱۵۳کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ

اصل بات یہ ہے کہ درّے پر تعینات صحابہ ؓکو بھی یہ خواہش تھی کہ ہم بھی اس جنگِ احد میں شریک ہوں۔ یہ بھی ایک دنیاوی خواہش تھی کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم جنگ میں براہِ راست شامل نہیں حالانکہ انہیں تو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا تھا۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا افسر اور اس کے ساتھی تو آخرت کو چاہتے تھے۔ ان کے مدّنظر انجام اور نتیجہ تھا، وہ جانتے تھے کہ اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔ اس کے برعکس تمہاری نظر سطح پر پڑی ہوئی تھی۔ یہ معنی صحابہ کرام کی اس شان کے مناسبِ حال ہیں، جو ان کے کاموں اور قربانیوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الربع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں دنیا سے مراد جو لوگ لوٹ مار اور مالِ غنیمت مراد لیتے ہیں یہ ٹھیک نہیں۔ وہ وقتی فتح کی طرف نظر رکھتے تھے اور دنیا سے مراد یہ ہے کہ وہ جو معاملہ (یعنی فتح) پہلے ظاہر ہوچکا ہے ان کی نظر اس پر تھی جبکہ عبد اللہ بن جبیرؓ  کی آخرت پر نظر تھی یعنی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں سب سے بڑی کامیابی کو دیکھ رہے تھے۔

بہرحال درہ خالی ہوگیا اور عبداللہ بن جبیرؓ اپنے گنتی کے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں رہ گئے۔ کفار مکہ کے فرار ہونے والے لشکر میں سے خالد بن ولید جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے انہوں نے درے کو خالی دیکھ کر عکرمہ بن ابی جہل کو ساتھ لے کر گھڑ سوار دستے کے ہمراہ اس پہاڑی درہ پر حملہ کردیا۔ کفار کا یہ حملہ اتنا زبردست اور شدید تھا کہ ایک ہی حملے میں درے پر تعینات صحابہ شہید ہوگئے۔ مسلمان جو اس حملے سے بےخبر میدانِ جنگ میں مالِ غنیمت جمع کرنے اور کفار کو قیدی بنانے میں مصروف تھے وہ سنبھل نہ پائے اور اس اچانک حملے سے مسلمان بکھر گئے۔ جنگ کا پانسہ اچانک کفارِ مکہ کے حق میں پلٹ گیا۔ فرار ہوتے کفار بھی اس نئی صورتِ حال میں واپس پلٹ آئے اور یوں آگے اور پیچھے سے کفار نے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ مسلمانوں کی ترتیب قائم نہ رہی اور انہوں نے غنائم کو اپنے ہاتھوں سے پھینک دیا۔ اس جنگ میں حضرت حمزہ ؓکی شہادت بھی ہوئی تھی۔ وہ دو تلواروں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے جنگ کر رہے تھے۔ وہ نہایت بہادری سے کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے۔ اسی دوران وہ یکایک پھسل کر گرے اور وحشی نے نیزہ مار کر آپؓ کو شہید کردیا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہ ؓکی شہادت کی خبر ملی تو آپ کو اس کا شدید صدمہ ہوا۔ روایت میں مذکور ہے کہ

جب غزوۂ طائف کے بعد حضرت حمزہ کا قاتل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ نے اسے معاف تو فرمادیا مگر حمزہ کی محبت کا احترام کرتے ہوئے فرمایا کہ وحشی میرے سامنے نہ آیا کرے۔

اس وقت وحشی نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ جس ہاتھ سے مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو قتل کیا ہے جب تک اسی ہاتھ سے مَیں کسی بڑے دشمنِ اسلام کو قتل نہ کرلوں گا چین نہ لوں گا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں اس نے جنگ یمامہ میں نبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ کذاب کو قتل کرکے اپنے عہد کو پورا کیا۔

حضرت حمزہ ؓکی نعش کی بے حرمتی بھی کی گئی تھی اور آپ رضی اللہ عنہ کا شدید مثلہ کیا گیا تھا۔ ان تکلیف دہ مناظر کو دیکھ کرحضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید صدمہ پہنچا۔ حضرت حمزہ ؓکی بہن حضرت صفیہؓ ایک مضبوط خاتون تھیں۔ وہ جنگ کے اختتام پر بڑی تیزی کے ساتھ میدانِ جنگ کی طرف بڑھ رہی تھیں یہاں تک کہ قریب تھا کہ وہ مسلمانوں کی مثلہ شدہ لاشوں کو دیکھ لیتیں۔ ایسے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہ فرمایا کہ کوئی خاتون ان تکلیف دہ مناظر کو دیکھے۔ چنانچہ آپؐ نے انہیں روکنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ حضرت صفیہ ؓکو روکنے کی کوشش کی گئی مگر آپؓ کو روکا نہ جاسکا۔ بالآخر جب آپ کو یہ بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپ ان لاشوں کو نہ دیکھیں تو آپ رک گئیں اور اپنے پاس سے دو کپڑے دیے اور فرمایا کہ یہ مَیں اپنے بھائی حمزہ ؓکے لیے لائی ہوں، کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے۔

حضرت صفیہؓ نے اپنے بھائی حمزہ ؓکی لاش دیکھنے کی خواہش کی، آپؓ کی یہ درخواست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمادی۔

حضرت صفیہؓ نے اپنے بھائی کی مثلہ شدہ لاش دیکھی تو فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔

جنگِ احد کی تفصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِ انور نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ مَیں فلسطینیوں کے متعلق دعا کے لیے بھی کہتا رہتا ہوں،

دعا کریں کہ ظلم کے خلاف اللہ تعالیٰ دنیا کو حقیقی امن قائم کرنے کی توفیق دے۔ مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ایک بن کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور ظلم کو روکنے کی کوشش کریں۔

مزیدتفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

https://www.alfazl.com/2023/12/22/86338/

خطبے کے آخری حصے میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو نماز ہائے جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر فرمایا۔

۱۔ مکرم شیخ احمد حسین ابو سردانہ صاحب جو غزہ اسرائیل میں رہتے تھے۔ گذشتہ دنوں غزہ میں اسرائیلی بمباری میں ہمارے یہ احمدی بزرگ شہید ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم غزہ کی موجودہ جنگ میں شہید ہونے والے پہلے احمدی ہیں۔ مرحوم کی عمر تقریباً ۹۴؍سال تھی۔ مرحوم الازہر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل علماء میں سے تھے۔ ۱۹۷۰ءمیں مرحوم نے خدائی تصرف کے تحت بیعت کی اور احمدیت میں داخل ہوئے۔ مرحوم ہردلعزیز، خلافت سے محبت کرنے والے، قرآن کریم سے لگاؤ رکھنے والے مخلص احمدی تھے۔ آپ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ آپ کی دوسری اہلیہ جو آپ کے ساتھ تھیں وہ بھی اس حملے میں زخمی ہوئی ہیں۔

۲۔ مکرم عثمان احمد گاکوریا صاحب آف کینیا۔ مرحوم گذشتہ دنوں وفات پاگئے تھے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں مرحوم کا جماعت سے تعارف ہوا اور ۱۹۶۴ء میں مرحوم کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ مرحوم کا جماعتی خدمات کا لمبا سلسلہ ہے جو کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ متعدد جماعتی کتب کا سواحیلی زبان میں ترجمہ کیا۔ کینیا جماعت کے ابتدائی موصیان میں سے تھے۔ مرحوم عمدہ اخلاق کے مالک، بااصول، تہجد گزار، چندہ جات کی ادائیگی میں باقاعدہ، مبلغین کا احترام کرنے والے، مہمان نواز، نیک بزرگ تھے۔ مرحوم کی ساری اولاد کسی نہ کسی شکل میں سلسلے کی خدمت کی توفیق پارہی ہے۔

حضورِ انور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button