یادِ رفتگاں

میرے والد محترم مکرم عبد الکریم قدسی ؔصاحب

(ابن قدسی)

والد محترم عبد الکریم قدسی صاحب کی پیدائش کرتو ضلع شیخوپورہ میں ۶؍جون۱۹۴۸ء کو ہوئی۔آپ کے والد کا نام مکرم میاں اللہ دتہ صاحب اور والدہ کا نام مکرمہ سردار بی بی صاحبہ ہے۔

خاندان میں احمدیت: آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد مکرم میاں اللہ دتہ صاحب کے ذریعہ آئی تھی جنہوں نے ۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعودؓکے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور پھر احمدی ہونے کے بعد ساری زندگی وقف کی طرح گزاری۔ہمیشہ تبلیغ کرتے رہے۔ بہت سے خاندان احمدی کیے اور ساری عمر وقف کی روح کے ساتھ جماعت کی خدمت کی۔

ابتدائی تعلیم:ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں ہی حاصل کی۔اچھے ماحول اور قابل اساتذہ کی توجہ سے آپ میں شعور کی پختگی اور تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوئیں۔ چھٹی جماعت میں ہی سکول کی لائبریری آپ سے منسوب ہوئی۔ آپ مطالعہ کتب شوق سے کرتے۔اس کے علاوہ ریڈیو پر ادبی پروگرام سننا اور شاعری پڑھنا آپ کے پسندیدہ مشاغل تھے۔اس وقت ریڈیو پر ادبی پروگرام کثرت سے نشر ہوتے تھے جس نے آپ کے شعور اور صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔آپ کے استاد صوفی احمد علی جو ہیڈ ماسٹر تھے اردو کے بہترین استاد تھے۔ان کی تربیت میں آپ نے تلفظ اور زبان کو گہرائی سے جانا جس کے نتیجے میں مڈل میں آپ نے حمد کہی اور ادبی سفر کا آغاز ہوا۔

ملازمت:۱۹۶۸ء میں ملازمت کے سلسلے میں لاہور آئے۔لاہور آنے کے بعد پرائیویٹ میٹرک اور پنجابی فاضل کیا۔ ۱۹۷۴ء میں پاکستان انجینئرنگ کمپنی بادامی باغ میں بطور ہیلپر انسپکٹر (انسپکشن ڈیپارٹمنٹ ) ملازمت کا آغاز کیا۔یہ سلسلہ ۱۹۹۴ء تک چلتا رہا پھر اس وقت کی حکومت نے یہ ادارہ ختم کر دیا اور ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ دے دیا گیا۔کچھ سال جنرل سٹور اور پی سی او چلایا۔پھر آپ پہلے ربوہ آئے اور پھر بذریعہ سری لنکا امریکہ شفٹ ہوگئے۔

نکاح وشادی: ۱۹۷۳ءکے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کا نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے مکرمہ بشریٰ کریم صاحبہ بنت مکرم محمد صلاح الدین صاحب کے ساتھ پڑھایا۔اگلے سال رخصتی ہوئی۔مکرم ایم صلاح الدین صاحب حضرت مستری نظام الدینؓ صحابی حضرت مسیح موعود ؑکے بیٹے تھے۔

(حضرت مستری نظام الدین صاحب ؓ کا ذکر صحابہ کی فہرست تاریخ احمدیت جلد ہشتم ضمیمہ صفحہ ۲۲نمبر شمار۹۴ رجسٹر نمبر۷ صفحہ نمبر۲۴۲میں ہے۔)

جماعتی خدمات : آپ ۳۰سال تک جماعت احمدیہ رچنا ٹاؤن ضلع لاہور کے سیکرٹری مال رہے۔اس کے علاوہ بھی مختلف شعبہ جات میں خدمات کی توفیق ملی۔

ذوق شاعری :آپ کے ذہن میں سکول دور میں ہی تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہو چکی تھیں لیکن باقاعدہ آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا جب آپ نے باقاعد ہ ادبی محفلوں اور مشاعروں میں جانا شروع کیا۔آغاز اردو شاعری سے کیا لیکن مادری زبان پنجابی ہونے کی وجہ سے پنجابی میں بھی طبع آزمائی کی اور ایسی لازوال شاعری کی کہ جس کی بدولت بہت جلد آپ پنجابی کے نمایاں شاعروں میں شمار ہونےلگے۔

آغاز میں ہی اتفاق یہ ہوا کہ ایک مشاعرے میں آپ نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے غزل سنائی۔

عزت و ناموس انسان چار سو بے آبرو

میکدہ و ساقی و جام و سبو بے آبرو

اے بہاری، اے محبان وطن کی آبرو

میں یہاں لاہور میں ڈھاکہ میں تو بے آبرو

مشاعرے میں ساغر صدیقی بھی موجود تھے آپ نے خوب داد دی اور پوچھا کہ کون سے پرچے میں چھپتے ہیں۔آپ نے صورت حال بتائی تو ساغر صدیقی نے آپ کی فکری صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے آپ کو ہفت روزہ ’’لاہور‘‘کا ایڈریس دیا اور اصلاح کی صلاح دی۔پھر آپ کی مکرم ثاقب زیروی صاحب اور ’’لاہور ‘‘ رسالہ سے گہری وابستگی ہوگئی۔ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ’’شاعر ہونا اور شاعری کی اصلاح کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔‘‘ انہوں نے شرقی بن شائق سے ملنے کو کہا جو نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے۔ملاقات کے بعد غزل سنائی۔انہوں نے پیار اور توجہ بھری نظروں سے آپ کو حلقہ احباب میں داخل کیا اور ان کی وفات تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔۱۹۷۲ء میں پہلا مشاعرہ ریڈیو پاکستان لاہور سے پڑھا۔ان مشاعروں کی وجہ سے آپ کو ادب کی بڑی شخصیات کی صحبت میں رہنے کا موقعہ ملا جن میں استاد دامن،واصف علی واصف،احسان دانش،اقبال صلاح الدین،بشیر منذر،ڈاکٹر رشید انوراور یزدانی جالندھری شامل ہیں۔

ادبی خدمات :آپ نے خود کو غزل کے لیے وقف کیے رکھا۔اردو اور پنجابی میں غزل کا خاص ملکہ حاصل تھا اس کے علاوہ آپ نے نظم، افسانہ،کہانی،سفر نامہ اور گیت نگاری میں بھی عمدہ کام کیا جو قابل ِتحسین ہے۔۱۹۶۰ء میں آپ کی پہچان بطور افسانہ نگار ہوئی اور دو کہانیاں بھکارن اور ضمیر فروش انتخاب میں چھپیں۔پنجابی میں آپ کا نام ایک استاد شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ پنجابی میں آپ کا ادبی کام بہت زیادہ ہے جو پنجابی زبان وادب کے لیے خطیر سرمائے سے کم نہیں ہے۔

ایوارڈز : ادبی خدمات کے صلے میں پاکستان میں آپ کوحکومتی اور ادبی حلقوں کی طرف سے اعزازات سے نوازا گیا:(۱)پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ (۲)مسعود کھدر پوش ایوارڈ (۳)پاکستان ٹیلی ویژن لاہور (بہترین گیت نگار)(۴)حرف نواایوارڈ(بہترین پنجابی غزل )(۵)ساغر صدیقی ایوارڈ (۶)علی ارشد میر ایوارڈ

ان کے علاوہ آپ کے اعزاز میں بے شمار پارٹیاں اور شامیں منائی گئیں۔

ادبی پرچوں سے تعلق : ہفت روزہ لاہور، تخلیق، امروز، نوائے وقت، مشرق، مغربی پاکستان، تحریریں، مساوات، نصرت اور کئی پرچوں میں آپ کی تخلیقات شائع ہوتی رہیں۔اسی طرح پنجابی میں لہراں،پنجابی ادب،سویرا انٹرنیشنل،میری بولی میرا دھرم،ریڈیواور ٹیلی ویژن سے بے شمار گیت ریکارڈ ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ کی چند نظموں اور غزلوں کا منظوم ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ پنجابی تصنیف ’’سردل‘‘ کا ترجمہ گور مکھی میں شائع ہوا۔ادارہ لوک گیت پر کاش چندی گڑھ نے اسے ۲۰۰۷ء میں شائع کیا۔اسی طرح دو مزید کتابوں کا گورمکھی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔چھٹی اور ساتویں کے نصاب میں آپ کی نظمیں شامل ہیں۔یونیورسٹی آف ایجوکیشن لوئر مال کیمپس لاہور میں ایم اے اردو کا ایک مقالہ آپ کی شاعری کے حوالے سے لکھا جا چکا ہے۔اس کے علاوہ اس سال ۲۰۲۳ء میں آپ کی دو کتابوں ’’سارے بند مکان ‘‘اور’’ برہوں کی رڑک ‘‘ کاگور مکھی ایڈیشن شائع ہوا ہے۔

جماعتی تصانیف: جماعت کے حوالے سےلکھے گئے کلام پر مشتمل تصانیف کی تعداد پندرہ ہے جس میں خلافت احمدیہ اوراحباب جماعت کے حوالے سے کلام موجود ہے۔ آپ کا ایک غیر معمولی کام قصیدہ یا عین فیض اللّٰہ والعرفان کامنظوم اردو اور پنجابی ترجمہ ہے۔اس کے علاوہ درثمین کے ۳۱۳؍ اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔آپ کا کلام جماعتی تاریخ کو محفوظ کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ معروف جماعتی شخصیات کی وفات پر کلام آجاتا۔اسی طرح جماعتی حوالے سے کوئی غیرمعمولی واقعہ ہوتا تواسے بھی اشعار کی شکل میں محفوظ کر لیتے۔

جماعت احمدیہ کے شاعر :حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ بیان فرمودہ ۲۹؍نومبر ۲۰۱۹ء میں آپ کو ’’جماعت کےشاعر‘‘ فرمایا۔(الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍دسمبر ۲۰۱۹ء )اس کے بعد سےآپ اپنے تعارف کے طور پرہمیشہ یہی بات کہتے تھے کہ میں جماعت کا شاعر ہوں۔اس کے علاوہ میرا کوئی تعارف نہیں ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ جنوری ۱۹۹۳ء میں یوں نوازشوں کی بارش ہوئی۔ حضورؒنے فرمایا کہ ’’مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک احمدی رسالے میں ایک نوجوان احمدی شاعر کا ایک شعر پڑھا تھا۔عبدالکریم قدسیؔ صاحب ان کانام ہے۔ان کا جو مقطع تھا وہ مجھے بہت ہی پسند آیا۔وہ شعر یہ تھا۔

آ! تیرے بعد گلے ملنا ہی بھول گیا

آ! قدسیؔ کو سینے سے لگا پہلے کی طرح‘‘

(روزنامہ الفضل ۲۵؍جنوری ۱۹۹۳ء صفحہ نمبر۲)

وفات و پسماندگان:آپ کی وفات ۹؍نومبر ۲۰۲۳ءکو امریکہ میں ہوئی۔آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ۱۲؍نومبر بعد از نماز ظہر نماز جنازہ ادا کی گئی جبکہ ۱۳؍نومبر ۲۰۲۳ کوامریکہ میں ہی قطعہ موصیاں میں آپ کی تدفین ہوئی۔ پسماندگان میں اہلیہ مکرمہ بشریٰ کریم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

(۱)مکرم عبد القدیر صاحب ورجینیا امریکہ و اہلیہ مکرمہ مبشرہ قدیر صاحبہ (۲) عبد الکبیر قمر و اہلیہ مکرمہ شائشتہ کبیر صاحبہ (۳)مکرمہ امۃ الحمید فیضان صاحبہ اہلیہ مکرم فیضان احمد صاحب ورجینیا امریکہ(۴)مکرمہ قدسیہ کریم صاحبہ اہلیہ مکرم شہزاد احمد صاحب ورجینیا امریکہ۔

اللہ تعالیٰ نے اگلی نسل میں چار پوتے،تین پوتیاں،چار نواسے اورتین نواسیاں عطا فرمائیں۔ان کے علاوہ پسماندگان میں ایک بھائی اور تین بہنیں شامل ہیں۔

جماعت سے وابستہ ہونے کا ایک واقعہ :آپ اپنی کتاب ’’سروں کے چراغ ‘‘کے ابتدائیہ بعنوان ’’عمر کی نقدی ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’خاکسار ۱۹۶۸ء میں اپنے گاؤں ’’کرتو پنڈوری‘‘ سے لاہور میں ملازمت کے لیے آیا۔اپنے گاؤں کے بارے میں کیا لکھوں۔

اس پنڈدی کیہ تعریف کراں۔ میرا پنڈ سی ٹکڑا جنت دا

تعصّب کا نام ونشان تک نہ تھا۔ایک گھر میں ایک فرد سنی،ایک شیعہ،ایک احمدی۔ یہی پورے گاؤں کی آبادی کا تناسب تھا۔مجال ہے کبھی مذہب کے معاملے میں لڑائی جھگڑا ہو۔اہل سنت کا جلسہ ہے تو ہم لوگ دریاں وغیرہ بچھا رہے ہیں۔محرم کے جلوس کے راستوں کی صفائی اور چھڑکاؤ کرنے کی ہماری ذمہ داری تھی۔احمدیوں کے جلسے کے انتظامات میں شیعہ،سنی دوست ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ہماری مسجد میں تینوں فرقوں کی نمازیں ہوتیں۔اہل تشیع کے نمازیوں کو ہم احمدی بچے بڑے سے دستی پنکھے سے ہوا دے رہے ہوتے۔ہم نماز پڑھتے تو وہ لوگ ہوا دیتے۔سیکولر فضا میں پلے بڑھے اور یہی لباس پہنے ہم ۱۹۶۸ء میں ملازمت کے سلسلہ میں لاہور چلے آئے۔

بیس سال کی عمر تھی۔خود کو انقلابی شاعر سمجھنے لگے۔سیکولر سوچوں کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ملنے لگا اپنی مسجد دُور تھی۔نماز گھر میں ہی پڑھتے تھے۔جمعہ کبھی کہیں پڑھ لیا کبھی کہیں۔ایک جمعہ پر ایک دوست کے گھر دعوت تھی۔ساتھ والی مسجد میں جمعہ پڑھنے چلے گئے۔مولوی صاحب نے آدھا خطبہ شیزان کے خلاف دیا۔باقی باتوں کے علاوہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس میں وہ لوگ خاکِ ربوہ بھی ملاتے ہیں۔میں نماز پڑھے بغیر باہر آگیا۔دوست کہنے لگا کیا ہوا۔میں نے کہا مولوی کی بکواس سنی ہے۔کہنے لگا چھوڑو یہ باتیں۔یہ سب روزی روٹی کے چکر ہیں۔آؤ گھر کھانا کھاتے ہیں۔کھانے کے ساتھ میں نے شیزان ہی رکھی ہے۔

کھانا کھا کر واپس آئے توو ہی مولوی صاحب ایک دکان سے شیزان پی رہے تھے مجھ سے نہ رہا گیا پوچھا مولوی صاحب آپ اور شیزان۔کہنے لگے دراصل مجھے ڈاکٹر نے سکرین والا کوئی مشروب پینے سے منع کیا ہے۔صرف شیزان پینے کی ہدایت دی ہے کہ یہ بہرحال خالص جوس ہوتا ہے اس میں سکرین نہیں ہوتی۔میں اسے دوائی سمجھ کے پیتا ہوں۔میں نے کہا کہ وہ خاکِ ربوہ ملانے والی بات؟ قہقہہ لگا کر بولے ایسے تڑکے نہ لگائیں تو ہماری دکانداری کیسے چلے۔اس واقعہ کے بعد ذہن سے سیکولرازم اور انقلابیت کا سارا بخار اُتر گیا۔

بادامی باغ لاہور جہاں ہماری ’’بیکو ‘‘نامی (بعد ازاں پیکو ) فیکٹری تھی۔ اس کے قریب ایک احمدی گھرانے کا پتا چلا لیا جہاں جمعہ ہوتا تھا۔وہاں باقاعدگی سے جمعہ پڑھنا شروع کیا اور وہیں سے سلسلہ جُڑ گیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔جہاں کہیں سے بھی ظلم وستم کی خبر آتی۔سید والا،چک سکندر،گھٹیالیاں،لاٹھیاں والا،لاہور،کراچی نواب شاہ یا کہیں اور شہادت ہوتی۔مسجد یا دکان ومکان جلائے جاتے۔اس پر جب تک کچھ لکھ نہ لیتا نیند نہ آتی۔

اگرچہ لاہور میں ستر کی دہائی سے لےکر ۲۰۰۰ء کا دور ادبی لحاظ سے ایک سنہری دور کہلاتا ہے۔روزانہ کوئی نہ کوئی کہیں نہ کہیں طرحی یا غیر طرحی مشاعرہ ہوتا رہتا۔اور ہم کوشش سے شرکت کرتے۔دسمبر۱۹۷۲ء سے ریڈیو پاکستان لاہور سے مشاعرے پڑھنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا۔ ۱۹۷۲ء ہی میں میرے ساتھ ’’دیس پنجاب محاذ ‘‘ والوں نے جس کے کرتا دھرتا جناب مشتاق بٹ ایڈووکیٹ،اعزاز احمد آذر اور تنویر ظہور اور ریاض راجی وغیرہ تھے۔ایک ادبی شام کا انعقاد کیا تاہم دل کی تاریں جو ایک بار نظام ِ سلسلہ اور عشقِ خلافت سے جڑ گئیں تو پھر یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔‘‘(سروں کے چراغ از عبد الکریم قدسیؔ صفحہ ۲۳تا ۲۶ )

۱۹۷۴ء کے واقعات کا آپ کی زندگی پر اثر :آپ اپنی کتاب ’’رزق خیال‘‘ کےابتدائیہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘ میں ۱۹۷۴ء کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’جب ۱۹۷۴ء میں ہمیں یعنی جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیّت قرار دیا گیا تو اگلے دن کی تمام اخبارات کی شہ سرخیاں اسی فیصلے کے بارہ میں تھیں۔…گھر سے دفتر جانے لگا تو بیگم نے کہا جو مغموم بیٹھی تھی کہ بہتر ہے آج دفتر نہ جائیں۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے اور مجھے سارا دن آپ کی فکر لگی رہے گی۔ میں نے کہا کل بھی تو لوگ باتیں کریں گے اس کا مطلب ہے کہ میں وہاں نہ جاؤں تاکہ مجھے لوگوں کی باتیں نہ سننی پڑیں۔ تم دعا کرو انشاء اللہ کچھ نہیں ہوگا۔ خیر میں دفتر پہنچا۔ مین گیٹ سے ہمارے دفتر کا فاصلہ دس سے پندرہ منٹ کا تھا۔ راستے میں ہی میں نے کئی جواب سوچ رکھے تھے کہ اگر کوئی یہ سوال کرے گا تو میں یہ جواب دوں گا۔ اگر وہ بات ہوئی تو میں فلاں بات کروں گاخیر یہی سوچتے دفتر میں داخل ہوا۔ سارے کولیگ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے السلام علیکم کہا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ صرف ایک ساتھی نے سلام کا جواب دیا باقی سب خاموش رہے اور مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

آخر انچارج صاحب مخاطب ہوئے کہ قدسی صاحب پہلے تو ہم آپ کو السلام علیکم کہا کرتے تھے۔ اب ظاہر ہے حکومت نے قانونی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا ہے اب ہم آپ کو کیا کہا کریں۔ میں نے کہا دیکھیں پہلے تو کسی پارلیمنٹ کو یہ حق ہی نہیں کہ وہ کسی کے عقیدے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ دوسرا السلام علیکم کا مطلب ہے تم پر سلامتی ہو۔ مخاطب جو اب میں کہتا ہے کہ آپ پر بھی سلامتی ہو۔ اگر آپ اس دعا کا تبادلہ نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں۔ میں کون ہوتا ہوں آپ کو مجبور کرنے والا۔ چاہے تو آپ مجھے دیکھ کر قدسی صاحب آپ پر لعنت ہو کہہ دیا کریں میں قطعاً برا نہیں مانوں گا جواباً میں بھی کہہ دیا کروں گا کہ جناب آپ پر بھی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔اس پر وہاں خاموشی چھا گئی۔ تھوڑی دیر بعد انچارج صاحب کہنے لگے نہیں نہیں بھلا ہم ایسا کیوں کہیں گے۔ ہم آپ سے ویسے ہی ملا کریں گے جیسے پہلے ملتے تھے۔ اصل میں کچھ لوگ آئے تھے خیر چھوڑیں۔ چلیں اپنا اپنا کام کریں۔ اور ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔‘‘( رزق خیال از عبد الکریم قدسی ؔصفحہ ۱۲،۱۳)

مزید لکھا :’’(میں) ۱۹۷۴ء کے واقعات پر سر نہ پیٹتا تو کیا کرتا۔ جب ملاں لوگ یہ کہتے کہ یہ احمدی صرف زبانی کلمہ پڑھتے ہیں اور منہ سے تو حضرت محمد ﷺ کا نام لیتے ہیں مگر اندر سے یہ مرزا غلام احمد کا نام لیتے ہیں۔ یہ سن کر میرا خون کھول اُٹھتاتھا۔ … ملاؤں کی ان جھوٹی باتوں کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ میرا جماعت سے تعلق اور خلافت احمدیہ پر ایمان پختہ تر ہوتا چلا گیا۔‘‘( رزق خیال از عبد الکریم قدسی ؔصفحہ نمبر ۱۵)

سوچوں اور قلم کا راستہ تبدیل کرنے والا واقعہ :فلمی گیت لکھنے کی پیشکش سے متعلق آپ نے ثاقب زیروی صاحب سے مشورہ لینا چاہا۔ آپ اپنی کتاب ’’رزق خیال‘‘ کےابتدائیہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اب میں تو دل میں سمجھ بیٹھا تھا کہ ثاقب صاحب بہت خوش ہوں گے۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا۔ وہ اسی طرح لکھنے میں مصروف رہے۔ جب میں نے بات ختم کی تو صرف یہی کہا کہ ’’تو پھر‘‘ میں نے وہی کہانی ذرا دوسرے انداز میں دہرا دی۔ اتنی دیر میں ان کا صفحہ مکمل ہوا۔ انہوں نے صفحہ الٹا۔ دونوں کہنیاں میز پر رکھیں دونوں ہاتھوں پر چہرہ رکھا جیسے طاق میں دیا رکھا ہو۔ فرمانے لگے یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ایک احمدی شاعر فلم کے گیت لکھے گا۔ اور جب اس کا لکھا ہوا کوئی ایسا گیت…ہواؤں میں بکھرے گا تو لوگ کتنے خوش ہوں گے کہ واہ واہ! ایک احمدی شاعر نے کیسا خوبصورت گیت لکھا ہے۔ اب میرا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ پیشانی عرق ندامت سے تر ہوگئی۔ سچی بات ہے میرا اس پہلو کی طرف دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ طاق میں رکھا ہوا چراغ میری سوچوں کے اندھیرے کا سینہ چیر رہا تھا۔ وہ فرما رہے تھے کہ جو قلمکار قلم کی حرمت کا خیال رکھتا ہے ادبی تاریخ میں اُسے احترام دیا جاتا ہے۔ برخوردار! ہم پر تو دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ہمیں قلم کی حرمت کا بھی خیال رکھنا ہے اور سلسلے کی حرمت کا بھی۔ ہماری قلم سے کوئی مصرعہ،کوئی شعر، غزل، نظم یا کوئی ایسی لائن نہیں نکلنی چاہیے جس سے سلسلے کی آبرو پر حرف آئے یا جماعت کا وقار مجروح ہو۔میں اس فکر میں تھا کہ جتنی جلدی ہو یہاں سے بھاگوں۔ مگر منہ سے کوئی الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ میں نے بمشکل کہا سوری سر! میرا تو اس طرف دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ اور وہاں سے چلا آیا۔‘‘( رزق خیال از عبد الکریم قدسی ؔصفحہ ۱۵تا ۱۷)

آپ کے قلم نے سلسلہ کی حرمت کا ہمیشہ خیال رکھا۔ اگرچہ آپ کے کلام کو ہر حلقہ میں اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن آپ کے لیے ہمیشہ سلسلہ کی خدمت باعث تفاخر تھی۔ایک دفعہ(جب آپ پاکستان میں تھے ) آپ کے سامنے اسی واقعہ کا ذکر ہوا تو خاکسار نے مذاق کے رنگ میں کہا کہ اگر آپ فلموں کے لیے گیت لکھنا شروع کر دیتے تو شاید ہمارے ہاں بھی مالی فراوانی ہوتی۔اس پر آپ نے بڑی سنجیدگی سے فرمایا کہ مالی فراوانی تو ہوسکتی تھی لیکن جو محبت مجھے خلافت کی طرف سے اب مل رہی ہے شاید مجھے وہ نہ ملتی۔خلیفہ وقت کی خوشنودی سے بڑھ کر دنیا کی کوئی دولت نہیں ہے۔ اگر وہ خوشنودی نہ ملے تو دنیا کی ساری دولت بھی مل جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

خداتعالیٰ پر یقین اور خدمت دین: آپ کے ایک قریبی ساتھی جو آپ کے استاد بھی تھے اور دوست بھی تھے۔ان کے حوالے سے ایک واقعہ آپ نے اپنی کتاب ’’ہجرت بدماں زندگی ‘‘ میں لکھا ہے۔آپ نے ان کا نام نہیں لکھا۔ آپ نے لکھا کہ ’’علامہ صاحب فارسی،اردو اور پنجابی کے نامور قلمکار تھے۔فارسی میں امیر خسرو پر جو تحقیقی کام انہوں نے سر انجام دیا وہ اداروں سے ممکن نہ ہوسکا۔ …کافی عرصہ لاہور میں رہے۔…بعد ازاں اپنے آبائی شہر اوکاڑہ میں چلے گئے جب کبھی لاہور آتے تو مجھے مہمان داری کا شرف عطا کرتے اکثر ان کے ساتھ ان کے ایک شاگرد بھی ہوتے وہ بھی صاحبِ دیوان شاعر ہیں۔دونوں استاد شاگرد احمدی تھے۔ نظام سلسلہ سے فعال تعلق نہ تھا۔ تاہم خود کو احمدی سمجھتے اور کہتے تھے۔نام لکھنا مناسب نہیں۔

خاکسار ۱۹۸۲ء سے ۲۰۱۱ء تک تقریباً ۲۹سال حلقہ رچنا ٹاؤن لاہور کا سیکرٹری مال رہا۔…غالباً نوے کی دہائی کی بات ہے۔علامہ صاحب بعض اوقات میرے ہاں فروکش ہوتے تو وہ ایسے دن ہوتے جن میں میں نے چندہ وغیرہ ضلعی سیکرٹری مال کے ہاں جمع کروانا ہوتا۔وہ مجھے رات گئے تک حساب کتاب بناتے دیکھ کر کر دلی ہمدردی کا اظہاربھی کرتے۔وہ دور ویسے ہی مجھ پر اقتصادی مشکلات کا دور تھا۔۱۹۹۴ء میں میرے چھوٹے بیٹے … نے جامعہ میں داخلہ لیا۔

علامہ صاحب میرے بہی خواہ،دلی ہمدرد اور یقیناً میرا بھلا چاہنے والے تھے۔ایک دن کہنے لگے میری دو باتیں اپنی ڈائری میں لکھ رکھو

(۱)تم ساری زندگی اقتصادی مشکلات سے نبرد آزما رہو گے۔

(۲)تم اپنے ہمعصر شاعروں کے شائع ہونے والے شعری مجموعوں کا مقابلہ نہیں کر سکو گے۔

ان دو باتوں کو درست ثابت کرنے کے لیے انہوں نے اپنی طرف سے دلائل کے انبار لگا دیے۔یعنی یہ کہ آپ نے جس برخوردار کو جماعت کے سپرد کیا ہے وہ تمام عمر آپ کی کوئی مالی مدد نہیں کر سکے گا۔میں نے اس سے گفتگو کی ہوئی ہے وہ آرام سے ایم اے کر سکتا تھا اور پھر کسی کالج میں لیکچرار لگوانا میرا بائیں ہاتھ کا کام تھا۔لیکچرار کی اتنی تنخواہ ضرور ہوتی ہے کہ اپنے بال بچوں کے ساتھ وہ ماں باپ کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔بیچارے مربی کا الاؤنس ہی اتنا ہوتا ہے کہ وہ بمشکل اپنی دال روٹی ہی پوری کر سکتا ہے الٹا آپ اس کی مدد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

دوسرے تم اپنا بہترین وقت روزنامچے،کھاتے اور رسیدبکس پر قربان کر دیتے ہو جبکہ اس وقت میں تم بہترین تخلیقات معرضِ وجود میں لاسکتے تھے۔اس طرح تمہاری کتابوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہتا یہی دیکھ لیجیے ’’پیڑ دے پتھر‘‘ پچیس برس قبل چھپی تھی۔اس کے بعد کوئی کتاب نہیں چھپ سکی (یہ ان کے شاگرد کی دلیل تھی )وہ بھی آپ نے خود نہیں چھاپی تھی آپ کے ایک مہربان نے شائع کی تھی۔(پیڑ دے پتھر علامہ صاحب کے ادارے نے چھاپی تھی )

میں نے گزارش کی کہ دیکھیے علامہ صاحب آپ ایک عالم فاضل انسان ہیں میں تو معمولی پڑھا لکھا آدمی ہوں۔آپ بھی خدا کے فضل سے احمدی ہیں۔آپ کے شاگرد نے بھی بیعت کر رکھی ہے۔آپ مجھے لکھ کر یہ فتویٰ دیں کہ یہ دونوں کام غلط ہیں تو میں دونوں چھوڑ دیتا ہوں۔بیٹے کو بھی واپس بلاتا ہوں اور سیکرٹری مال کا کام چھوڑ دیتا ہوں مگر اس کے گناہ وثواب کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔مسکرائے اور کہنے لگے میرے کندھے پر بندوق رکھ کرنہ چلائیں۔خود فیصلے کریں۔

میں نے عرض کی دیکھیے آپ کی جیب میں ایک سو روپے ہیں اس میں سے آپ نے زکوٰۃ ادا کی تو باقی ساڑھے ستانوے روپے بچے۔میری جیب میں سو روپے ہیں وہ میں نے سود پر دے دیے۔میری جیب میں ایک سو دس روپے آگئے۔بظاہر فائدے میں سود والا رہا مگر اللہ نے سود کو حرام قرار دیا ہے سود کے دس روپے اصل زر کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔مگر دوسرے نے زکوٰۃ ادا کی تو اس کے پیسے پاک اور بابرکت ہوگئے۔ہم نے بیٹے کو اللہ کی راہ میں وقف کیا، بظاہر گھاٹے کا سودا ہے مگر اللہ اسی کی برکت سے اس خاندان کو عزت وتوقیر بخشے گا اور چار چاند لگائے گا وہ جو حضرت مصلح موعوؓد کا شعر ہے۔خدمت دین کو اک فضل الٰہی جانو۔اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو۔جس نے بھی خدمتِ دین کو فضل الٰہی جان لیا اس نے گویا سب کچھ پا لیا۔

آج میرے مہربان زندہ ہوتے تو یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ معاشی طور پر اس خاندان پر کیا کیا اور کیسے کیسے افضال ہوئے۔اور اپنے ہم عصر قلم کاروں کے مقابلے میں (چند ایک کو چھوڑ کر ) میری کتابوں کی تعداد کیا ہے؟

کسے خبر تھی کہ جس شاعر کو پچیس برس تک کوئی کتاب شائع کرنے کی توفیق نہ مل سکی۔اسی شاعر کے مطبوعہ شعری مجموعوں کی تعداد پچیس کی حدود کو چھونے لگے گی۔

اگرچہ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی اعزازات وایوارڈ سے بھی نوازا۔پی ٹی وی سے بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ،مسعود کھدر پوش ایوارڈ،پاکستان رائٹرزگلڈ ایوارڈ،حرف نوا ایوارڈ، ساغر صدیقی ایوارڈ،چالیس کے قریب ریڈیو اور پی ٹی وی سے گیت ریکارڈ ہو کر نشر ہونا،پنجابی سلیبس میں میرے مضامین اور نظمیں شامل ہونا۔بہت سے ممالک میں مشاعروں میں شرکت،مختلف یونیورسٹیز میں میرے اردو اور پنجابی کلام پر مقالہ جات لکھے جانا۔

تاہم میرے لیے جو بات باعثِ تفاخر ہے وہ ان دس کتب کا منصہ شہود پر آنا ہے۔زندگی رہی تو یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے(وفات تک ۱۵ کتب) تاہم کتنی بھی بڑھ جائے وہ ان فیوض وبرکات کی گرد کو بھی نہیں پہنچتی جو مجھے اور میرے خاندان کو خلافت سے مخلصانہ عشق ومحبت کی وجہ سے عطا ہوئے ہیں۔میرا ہی ایک شعر ہے کہ

خلافت کے ثمر میں اس قدر جھولی میں پاتا ہوں

کہ جب بھی گننے لگتا ہوں تو گنتی بھول جاتا ہوں ‘‘

(ہجرت بداماں زندگی از عبدا لکریم قدسی ؔ صفحہ ۹تا۱۲)

سلسلہ کے لٹریچر کی اہمیت :آپ اپنی ’’آداب ہجر‘‘ کے ابتدائیہ ’’تذکرے محبت کے ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے ۱۹۷۲ء میں ریڈیو پاکستان لاہور سے پہلا مشاعرہ پڑھا۔ اکثر اخبارات کے ادبی صفحوں، ادبی پرچوں میں بھی میرا کلام چھپنے لگا۔ لاہور میں تو ۱۹۶۸ء سے چھپ رہا تھا۔ مگر مرکزی پرچوں میں سوائے ’’خالد‘‘کے جہاں سال میں ایک آدھ میری چیز چھپ جاتی۔ اور کہیں میرا کلام نہیں چھپتا تھا۔ خواہش تھی ’’تحریک جدید‘‘ میں چھپوں جس کے ایڈیٹر محترم مولانا نسیم سیفی صاحب تھے۔…تحریک جدید میں نہ چھپنے کا قلق ضرور تھا۔ اس وقت جلسہ سالانہ کے علاوہ ربوہ جانا بہت کم ہوتا۔ غالباً کسی شادی میں شرکت کے لیے ربوہ جانا ہوا۔ جون کی دوپہر تھی میں صاحب خانہ کو جل دے کر دفتر تحریک جدید چلا گیا۔ اور پوچھتے پوچھاتے سیفی صاحب تک پہنچ گیا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا۔ انہوں نے اپنے سامنے کرسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا تشریف رکھیے خود کچھ لکھنے میں مصروف تھے میں سوچ رہا تھا کہ فارغ ہوں تو بات کروں گا۔انہوں نے نظر اُٹھائی اور کہا فرمائیے! کیسے آنا ہوا۔ عرض کی کہ جناب میں نے چند غزلیں بھجوائی تھیں اشاعت کے لیے مگر آپ نے کوئی بھی نہیں چھاپی۔ مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ آخر آپ کا معیار کیا ہے۔ کیا ریڈیو سے بھی کڑا معیار ہے۔ دیگر پرچے مجھے چھاپتے ہیں۔ ’’لاہور‘‘بھی چھاپتا ہے۔ میرے کلام میں کوئی اور خوبی ہو نہ ہو اس میں بے وزنی کا سقم آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ میری نظر میں شاعری کی پہلی یہی سیڑھی ہے۔ آپ مجھے پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھنے دیں گے تو باقی سفر طے کر پاؤں گا ناں! انہوں نے مدد گار کارکن کو کہا کہ قدسی صاحب کو ٹھنڈا پانی پلائیں اس کے بعد چائے…کہنے لگے آپ ریڈیو پر مشاعرے پڑھتے ہیں ہم بھی سنتے ہیں ادبی جرائد میں آپ شائع ہوتے ہیں ہم پڑھتے ہیں۔ شاعر شہرت کے لیے لکھتا ہے وہ آپ سمیٹ رہے تھے اور آپ کیا چاہتے ہیں۔ عرض کی جناب ریڈیو پر مشاعرہ پڑھا اور ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ اخبار کا ادبی صفحہ اگلے دن ردی میں چلا گیا۔ ماہنامہ پرچہ مہینے بعد پرانا ہو گیا۔ مگر سلسلے کے پرچے ردی نہیں ہوتے۔ انشاء اللہ محفوظ رہیں گے۔ میں بھی اُن میں محفوظ ہونا چاہتا ہوں۔ خو د کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں سلسلہ کے پرچوں میں۔

سیفی صاحب اپنی کرسی سے اُٹھے مجھے تھپکی دی اور کہا ہم آپ کو ضرور چھاپیں گے صرف ایک شرط ہے کہ سلسلے کا وقار ملحوظ خاطر رہنا چاہیے اور ’’تحریک جدید‘‘ کے مزاج کا خیال رکھیے آپ کو نہ چھپنے کی شکایت کبھی نہیں ہو گی۔ اور یہ شکایت آخر وقت تک انہوں نے پیدا نہیں ہونے دی۔الفضل کے ایڈیٹر ہوئے تو بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے کوئی چیز بھجوائی ہو اور انہوں نے نہ چھاپی ہو۔ بلکہ اگر ایک دو ماہ تک غیرحاضری ہو جاتی تو ان کا خط آ جاتا کہ الفضل کو آپ کے تازہ کلام کا انتظار ہے۔‘‘(آداب ہجر از عبد الکریم قدسی ؔ صفحہ ۱۳تا ۱۵)

ایک خواب اور درجن کتابیں :آپ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی خدمت میں کتب کی اشاعت کے حوالے سے دعا کے لیے لکھا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےانتہائی شفقت فرماتے ہوئے دعا سے نوازا اور ساتھ ہی لندن رقیم پریس سے کتب کی اشاعت کی منظوری عنایت فرمائی۔حضور انور کی ان نوازشات کے نتیجے میں شائع شدہ کتب کی تعداد ۱۵ ہوگئی۔ اور وفات سے قبل تیار ہونے والی پندرھویں کتاب کے مسودہ کے ابتدائیے میں تحریر کیا کہ

’’جماعتی اور دینی مجموعات جن کی تعداد تادمِ تحریر پندرہ ہے۔آخر میں گوش بر آواز چھپے گی۔اس میں صفحات کی قید نہیں ہوگی۔کم تو خیر نہیں مگر زیادہ صفحات ضرور ہوسکتے ہیں۔اس کی اشاعت کی باری ۲۰۲۴ء میں انشاء اللہ ضرور آجائے گی۔اس طرح ۱۲عدد اردومجموعے اور تین عدد پنجابی مجموعے کل پندرہ مجموعہ جات ہوںگے۔اور حضور انور کی دعا کی قبولیّت کے زندہ نشان کی روشنی زمانہ دیکھے گا اور اس کی گواہی دے گا۔‘‘(گوش بر آواز از عبد الکریم قدسی ؔ)

اسی کتاب’’ گوش بر آواز ‘‘ کے ابتدائیہ میں لکھا کہ ’’جماعتی موضوعات سے ہٹ کر بھی معاملات چل رہے ہیں۔ اردو غزلیات اور نظموں کے تین مجموعہ جات ہیں۔ان میں ایک ’’اشک رواں ‘‘ چھپ چکا ہے۔دوسرا سارے بند مکان بھی چھپ چکا ہے۔تیسرا اشاعت کے مراحل میں ہے۔کم وبیش پانچ پنجابی کے مجموعہ جات ہیں۔ان پر بھی کام ہورہا ہے لیکن مجھے ان کی زیادہ فکر نہیں۔ میرا ٹارگٹ جماعتی کتابوں کی اشاعت ہے۔میں نے بیماری کے دوران باری تعالیٰ سے یہی دعا مانگی تھی کہ مجھے دینی کتابوں کی اشاعت کی مہلت عطا ہو۔اس مہلت پر فائق حق جماعتی کتب کاہی ہے۔اور امید ہے کہ ۲۰۲۳ء کے سالوں میں یہ مجموعہ جات اشاعت پذیر ہوجائیں گے۔انشاء اللہ ‘‘(گوش بر آواز از عبد الکریم قدسی ؔ)

اسی کتاب’’ گوش بر آواز ‘‘ کے ابتدائیہ میں لکھا کہ ’’یہ ہیں جماعتی موضوعات پر ۱۵مجموعہ ہائے کلام جن کی تفصیل سن کر ڈاکٹر پرویز پروازی نے ۲۱دسمبر ۲۰۲۲ء کی ملاقات میں حیرت کا اظہار کیا اور فرمایا یار اتنا مواد ؟ بڑی بات ہے۔اس کو مرتب کرنا اس سےبڑی بات ہے اور سب کا زیورِ اشاعت سے آراستہ ہو جانا بہت بڑی بات ہے

میں نے عرض کی ڈاکٹرصاحب ’’ہمیں تو اور کوئی کام ہی نہیں آتا۔‘‘ایک چھوٹا سا رائٹنگ پیڈ اور قلم میری طرف بڑھایا۔اور کہا لکھو ’’احمدیہ علم الکلام کے میدان میں عبد الکریم قدسی ؔ کے۱۵ شعری مجموعے خوشگوار حیرت اور فرحت و انبساط کے ساتھ پڑھے جائیں گے۔‘‘

رائٹنگ پیڈ واپس لیا۔تحریر پڑھی اور نیچے اپنے دستخط کر دیے۔ اور تاریخ درج کی۔یہ تین سطری خلعت کیا عطا ہوئی۔مجھے اترانے کا سلیقہ بخش دیا۔(گوش بر آواز از عبد الکریم قدسی ؔ)

جلسہ سالانہ یو کے:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بے پناہ شفقتوں میں ایک شفقت آپ کو جلسہ سالانہ میں بطور نمائندہ بلانا بھی تھا۔پہلے ۲۰۰۶ء کے جلسہ سالانہ یوکے پھر ۲۰۰۸ء جوبلی سال میں ہونے والے’’عالمی مشاعرہ‘‘ میں شامل ہوئے۔اور ہمیشہ اس بات کا تذکرہ خوشی اور انبساط سے کرتے۔

ایک دفعہ خاکسار نے کہا کہ اب تو آپ دو دفعہ لندن جا چکے ہیں اور اب آپ کا آسانی سے یوکے کا ویزہ لگ جائے گا۔ (اس وقت آپ پاکستان میں ہی تھے امریکہ شفٹ نہیں ہوئے تھے۔ )فرمانے لگے کہ جب آپ بادشاہ کے مہمان بن چکے ہوں تو پھر کسی اورکا مہمان بنا نہیں جاتا۔اب تو جب حضور یاد فرمائیں گے تو پھر ہی جاؤں گا۔

مربیان کا احترام:مربیان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ابھی پاکستان میں ہی تھے کہ ایک دفعہ ایک عہدیدار نے ایک مربی صاحب کے ساتھ کچھ اس انداز سے گفتگو کی جو نامناسب تھی۔مکرم والد صاحب کو اس کا بہت دکھ ہوا۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ وہ رات کو کسی وقت اٹھیں تو والد صاحب کمرے میں ٹہل رہے تھے۔پوچھنے پر بتایا کہ کچھ نہیں آپ سو جائیں۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ تھوڑی دیر سونے کے بعد دوبارہ آنکھ کھلی وہ ٹیبل پر بیٹھ کر کچھ لکھ رہے تھے۔انہیں سمجھ لگ گئی کہ کوئی واقعہ ہوا ہے جس کی وجہ سے آپ پریشان تھے۔وہ کہتی ہیں کہ میں پھر سو گئی۔جب آنکھ کھلی تو دیکھا آپ سو گئے ہیں اور ٹیبل پر وقف زندگی کے حوالے سے نظم لکھی ہوئی پڑی تھی۔

جب محترم والد صاحب پاکستان میں تھے اور خاکسار ربوہ سے ان کے پاس لاہور گیا ہوا تھا۔ ان دنوں موبائل نہیں تھے بلکہ لینڈ لائن فون ہی استعمال ہوتا تھا۔فو ن آیا تو خاکسار نے ریسیو کیا۔وہ پی ٹی وی اسٹیشن پاکستان سے تھا۔انہوں نے پیغام دیا کہ ایک مشاعرہ ہے اور قدسی صاحب کو پیغام دیں کہ وہ اس مشاعرہ میں شامل ہوں۔اور تفاصیل کے لیے فون کرنے کا بھی کہا۔والد صاحب اس وقت گھر نہیں تھے۔جب آئے تو میں نے انہیں پیغام دیا تو انہوں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے نہیں جاسکتا۔کچھ دن بعد سیالکوٹ سے ایک مربی صاحب کا فون آیا اور انہوں نے مجھ سے ہی بات کی اور کہا کہ ہم ایک مشاعرہ کروانا چاہتے ہیں تو کیا مکرم قدسی صاحب اس مشاعرہ میں آجائیں گے؟ میں نے ان سے کہا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے مشکل ہے لیکن میں پھر بھی آپ کا پیغام ان کو دے دیتا ہوں۔جب والد صاحب کو بتایا کہ سیالکوٹ جماعت والے مشاعرہ کروا رہے ہیں اور ان کی طرف سے دعوت ہے تو پوچھا کس کا فون آیا۔میں نے بتایا کہ وہاں کے مربی صاحب نے فون کیا تھا۔آپ نے کہا کہ انہیں فون کرکے پیغام دے دیں کہ میں آ جاؤں گا۔میں نے عرض کی کہ آپ کی طبیعت؟ کہنے لگے وہاں کے مربی صاحب کا فون آیا ہے اس لیے میں انکار نہیں کر سکتا۔ جس طرح بھی ہومیں وہاں جاؤں گا۔اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی انتظام کر دے گا۔

میں حیرت سے سوچنے لگ گیا کہ یہاں لاہور پی ٹی وی پاکستان کے مشاعرہ میں نہیں گئے اور لاہور سے اتنی دُور سیالکوٹ جانے کےلیے تیار ہوگئے ہیں کیونکہ وہاں کے مربی صاحب کا فون آگیا تھا۔

خداتعالیٰ پر یقین : آپ کو خدا کی ذات پر بہت یقین تھا۔جب کوئی مسئلہ ہوتا تو ہمیشہ یہی کہتے کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔جب بھی کوئی کہیں جانے لگتا تو ہمیشہ اسے فی امان اللہ کی دعا دیتے تھے۔ آپ کی پوتی عزیزہ امۃالمصور بیماری کے ایام میں ہسپتال آپ کے ساتھ جاتی اور پاس رہا کرتی تھی،بیان کرتی ہے کہ جتنی مرضی تکلیف میں ہوں،کسی سرجری یا آپریشن کے لیے آپ کو لے جایا جاتا ہمیشہ مجھے فی امان اللہ کہہ کر جاتے۔ آخری بیماری میں جب آپ تقریباً بے ہوشی کی کیفیت میں تھے پھربھی زبان سے اللہ اللہ ہی کہتے تھے۔

خلافت احمدیہ سے محبت :آپ کے دل میں خلیفہ وقت کے لیے والہانہ محبت تھی۔جس کا اظہار اپنے اشعار کے ذریعہ کرتے تھے۔خلیفہ وقت کے حوالے سے چھوٹےسے چھوٹا واقعہ آپ کی طبیعت پر گہرا اثر چھوڑتا جسے آپ اشعار کے ذریعہ بیان کرتے تھے۔اپنے ذاتی معاملات کے لیے خلیفہ وقت سے ہی راہنمائی لیتے اور اسی کی روشنی میں آگے قدم بڑھاتے۔آپ کی بیٹی عزیزہ قدسیہ کریم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ والد صاحب اپنی ہر خوشی غمی خلیفہ وقت تک لازماً پہنچاتے تھے۔ہم میں سے کسی کو کوئی پریشانی ہوتی توہمیشہ یہی نصیحت کرتے کہ حضرت صاحب کودعا کے لیے لکھیں۔

آپ کی بیٹی عزیزہ امۃ الحمید فیضان بیان کرتی ہیں کہ ۲۰۰۶ءاور۲۰۰۸ء کے جلسہ سالانہ میں حضور انور سے ملاقات کی کیفیت کو بڑی محبت سے بیان کرتے تھے۔ہمیشہ یہی کہتے کہ وہ دن جو حضور انور کے ساتھ آپ کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہوئے گزارے وہ ان کی زندگی کے یادگار دن ہیں۔

مساجد سے تعلق اور نمازوں میں باقاعدگی: پاکستان، سری لنکا اور پھر امریکہ آپ جہاں بھی رہے مساجد سے مضبوط تعلق رکھا۔باجماعت نمازوں کی ادائیگی کا بہت اہتمام کرتے تھے۔پاکستان میں رہتے ہوئے بڑی باقاعدگی سے مسجدمیں جاتے پھر سری لنکا میں اس کو جاری رکھا۔وہاں مسجد دُور تھی اس لیے کچھ نمازوں کی باجماعت ادائیگی آپ کے گھر میں ہی ہوتی تھی جس میں قریب رہنے والے دیگر احمدی احباب شامل ہوتے۔یہ سلسلہ امریکہ جا کر بھی جاری رہا۔وہاں جس حلقہ میں آپ کی رہائش تھی اس حلقہ کا نماز سینٹر آپ کا ہی گھر تھا۔نماز سے پہلے صفیں وغیرہ خود بچھاتے اور نمازیوں کا انتظار کرتےرہتے تھے۔

دوستانہ مراسم اورنظام جماعت: والدصاحب کا وسیع حلقہ احباب تھا۔آپ کے کئی غیر احمدی دوست احباب تھے۔۲۰۲۰ءمیں جب آپ پاکستان آئے تو خاکسار کو ان کے ہمراہ ان کے غیر احمدی دوست احباب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔اس وقت اندازہ ہوا کہ آپ کے غیر احمدی دوست احباب بھی آپ سے کس قدر محبت اور احترام کرتے ہیں۔جس دوست سے بھی ملے وہ بہت پیار اور محبت سے ملا۔خاکسار نے واپسی پر پوچھا کہ جماعت کی مخالفت ہے اس کے باوجود آپ کے سب غیر احمدی دوست آپ سے بہت محبت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں نے دوست ہی ان کو بنایا ہے جو جماعت کی مخالفت نہیں کرتے۔جوجماعت کی مخالفت کرتے ہیں میں ان کو دوست ہی نہیں بناتا۔

اہلیہ و اولاد کے تاثرات: آپ انتہائی شریف النفس انسان تھے۔نمازوں میں باقاعدہ تھے۔ساری زندگی بڑی سادگی اور محنت سے گزاری۔درود شریف کا ورد بکثرت کرتے۔ عموماً کم گوتھے لیکن جہاں جماعتی وقاریا کسی عہدیدار کے حوالے سے کوئی ناپسندیدہ بات ہوتی تو اس کاجواب لازمی دیتے۔خلافت احمدیہ اور نظام جماعت سے گہری وابستگی تھی۔ اولاد سے بہت محبت اورپیار کرنے والے تھے۔ہر مشکل اور تنگی میں صبر وحوصلہ سے کام لیتے اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے تھے۔نمازوں میں باقاعدہ تھے۔ بیماری کا بہت صبر سےمقابلہ کیا۔

آپ کا وسیع حلقہ احباب تھا۔اس لیے ہر ایک کےپاس آپ کے حوالے سے بے شمار یادیں ہوںگی جو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button