خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ احد کے حالات وواقعات کا تذکرہ نیز فلسطین کے معصوموں کے لیے دعا کی  مکرّر تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۵؍دسمبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… جنگ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی ایسی بہترین اور نفیس تھی جو آپؐ کی فوجی قیادت کی غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت ہے

٭… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ اُحد کے دن بھی خشوع و خضوع اور عجزو نیاز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگ رہے تھے

٭… انگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ جنگ اُحد میں مسلمانوں کی بہادری کے وہ نظارےتھے جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیرو تربیت پذیر ہوئے

٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عورتوں کے احترام کی تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے ابودجانہ ؓنے ہند زوجہ ابو سفیان پرتلوار نہیں چلائی

٭… فلسطین کے معصوم مسلمانوں کےلیے دعا کی مکرّر تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍دسمبر۲۰۲۳ء بمطابق ۱۵؍ فتح ۱۴۰۲؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۵؍دسمبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينے کي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے غزوہ اُحد کا ذکر ہورہا تھاجس کی مزید تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان ِاُحد میں جب پڑاؤفرمایا تومسلمانوں کی فوج کےعقب میں ایک طرف سے اُحد کا پہاڑ تھا جس کی وجہ سےمسلمان فوج پشت کے حملےسےمحفوظ ہوگئی تھی۔البتہ ایک طرف پہاڑی درّہ تھا اور یہ مقام ایسا تھا کہ دشمن اس طرف سے حملہ آور ہوسکتا تھا ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نزاکت اور خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے پچاس تیر انداز صحابہ کرامؓ کے ایک دستے پر عبداللہ بن جبیرؓ  کو امیر بناکر اس درّہ پرمتعین فرمایا۔ آپؐ نے ان تیر اندازوں کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ

اگر تم دیکھو کہ ہمیں پرندے اُچک رہے ہیں یا ہم نے دشمن فوج کو شکست دے دی اور اُس کو پامال کردیا ہے توبھی ہرگز اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہاری طرف پیغام بھیجوں ۔

ایک سیرت نگار لکھتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ تم دشمن کے گھڑسوار دستوں کو ہم سے دُور رکھنا تاکہ وہ ہمارے پیچھے سے حملہ آور نہ ہوسکیں۔بےشک ہم تب تک غالب رہیں گےجب تک تم اپنی جگہ قائم رہو گے۔پھر فرمایا کہ اے اللہ !میں تجھے اِن پر گواہ بناتا ہوں ۔

ایک مصنف نے لکھا ہے کہ

آپؐ کی یہ جنگی حکمت عملی ایسی بہترین اور نفیس تھی جس سے حضور علیہ السلام کی فوجی قیادت کی غیر معمولی صلاحیت کا پتا چلتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کمانڈرخواہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو آپؐ سے زیادہ باریک ، نفیس اورباحکمت جنگی منصوبہ بندی تیار نہیں کرسکتا۔

تیر اندازوں کے دستےاُحد کے پہاڑ پر مقرر کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن ہوگئے اور صفوں کو تیار کرنے لگے ۔تعداد اور سامان حرب کے لحاظ سے بظاہر مسلمانوں کی پوزیشن کمزور تھی ۔مشرکین کے لشکر نے اپنی دس صفیں جبکہ اسلامی لشکر کی صرف دو صفیں تھیں اور پچاس تیر انداز درّہ پر تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خشوع و خضوع اور عجزو نیاز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگ رہے تھے ۔حضرت انس ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے دن یہ دعا فرما رہے تھے کہ اے اللہ! اگرتُو چاہے تو زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی یعنی اگر تُو نے مدد نہ کی تو پھر یہی حال ہوگا۔ بعض روایات میں ہے کہ جنگ بدر کے دن بھی یہی دعا کی تھی ۔ واللہ اعلم

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے کہ عبداللہ بن جحشؓ نے کہا آؤہم دونوں مل کر دعائیں مانگتے ہیں۔حضرت سعدؓ نے دعا مانگی کہ اے میرے ربّ!کل جب ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو میرا سامنا سخت طاقتور جنگجو سے ہو اور میں اُسے قتل کروں۔ پھرحضرت عبد اللہ بن جحشؓ نے دعا مانگی کہ اے اللہ! کل میرا سامنا ایسے شخص سے ہو جو سخت طاقتور ہواور جو میرے ناک کان کاٹ ڈالے اور جب میں تجھ سے ملوں تو میں کہوں کہ تیری اور تیرے رسول ؐکی رضا میں میرا یہ حال ہوا ہے۔پھر جنگ میں دونوں کے ساتھ اُن کی دعاؤں کے مطابق ہی ہوا۔

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھتے ہیں کہ اپنے عقب کو پوری طرح محفوظ کرکے آپؐ نے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اور مختلف دستوں کےجُداجُدا امیر مقرر فرمائے۔اس موقع پر آپؐ کو یہ اطلاع دی گئی کہ لشکر قریش کا جھنڈا طلحہ کے ہاتھ میں ہے۔ طلحہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو قریش کے مورث اعلیٰ قُصی بن کلاب کے قائم کردہ انتظام کے ماتحت جنگوں میں قریش کی علمبرداری کا حق رکھتا تھا۔یہ معلوم کرکے آپؐ نے فرمایاکہ

ہم قومی وفاداری دکھانے کے زیادہ حقدار ہیں۔

چنانچہ آپؐ نے حضرت علی ؓسے مہاجرین کا جھنڈا لے کر مصعب بن عمیر ؓکے سپرد فرمایا جو اسی خاندان کے ایک فرد تھے جس سے طلحہ تعلق رکھتا تھا۔دوسری طرف ابوسفیان امیر العسکر تھا اور عورتیں لشکر کے پیچھے دفیں بجا بجا کر اور اشعار گا گا کر مردوں کو جوش دلاتی تھیں۔

جنگ کاآغاز ابو عامر نے کیا۔یہ قبیلہ اوس میں سے تھا اور مدینہ کا رہنے والا تھا اور اسے راہب کے نام سے پکارا جاتا تھا۔یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بغض و حسد میں بھاگ کر مکہ چلا گیا تھا اور اس کو غلط فہمی تھی کہ جب میں میدان میں جاؤں گا تو میرے قبیلے کے لوگ میرے ساتھ آملیں گے۔اس اُمید میں اُس نے جب بلند آواز سے پکارا کہ اے اوس کی افواج! میں ابو عامر ہوں تو انصار نے کہاکہ اے فاسق! تیری آنکھ ٹھنڈی نہ ہواور اُن پر پتھر پھینکے تووہ اپنے ساتھیوں سمیت بھاگ نکلا ۔

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ ابو عامراور اُس کےساتھیوں کے بھاگنے کےنظارہ کو دیکھ کر قریش کا علمبردار طلحہ بڑے جوش کی حالت میں آگے بڑھا اور بڑے متکبرانہ لہجے میں مبارز طلبی کی ۔ حضرت علی ؓ آگے بڑھے اور دو چار ہاتھ میں طلحہ کو کاٹ کر رکھ دیا۔اس کے بعد قریش کی طرف سے تقریباً نو شخصوں نے باری باری اپنے قومی جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں لیا مگر سارے کے سارے باری باری مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔

مشہور انگریز مؤرخ سر ولیم میور لکھتا ہے کہ مسلمانوں کے خطرناک حملوں کے سامنے مکی لشکر کے پاؤں اکھڑنے لگ گئے ۔ قریش نے کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ اسلامی فوج کے بائیں طرف عقب سے ہوکر حملہ کریں مگر ہر دفعہ ان کو اُن پچاس تیر اندازوں کےتیر کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں خاص طور پر متعین کیے ہوئے تھے ۔ مسلمانوں کی طرف سے اُحد کے میدان میں بھی وہی شجاعت و مردانگی اور موت و خطر سے وہی بے پروائی دکھائی گئی جو بدر کے موقع پر انہوں نے دکھائی تھی۔جب اپنی خود کے ساتھ سُرخ رومال باندھے ابودجانہؓ ان پر حملہ کرتا تھا تو اس تلوار کے ساتھ جو اُسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی چاروں طرف گویا موت بکھیرتا جاتا تھا ۔

حمزہؓ اپنے سر پر شُتر مُرغ کے پروں کی کلغی لہراتا ہوا ہر جگہ نمایاں نظر آتا تھا۔ علیؓ اپنے لمبے اور سفید پھریرے کے ساتھ اور زبیرؓ  اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زرد پگڑی کے ساتھ بہادران اِلیڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے دشمن کے واسطے موت و پریشانی کا پیغام اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ وہ نظارے ہیں جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیرو تربیت پذیر ہوئے۔

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیاہے کہ لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی ہی دیر میں ساڑھے چھ سو مسلمانوں کے مقابلے میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کار سپاہی سَر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔اس موقع پردرّہ پر موجود مسلمانوں نے سمجھا کہ آپؐ نے جو کچھ فرمایا تھا صرف تاکید کے لیے فرمایا تھاورنہ آپؐ کی مُراد یہ نہیں ہوسکتی تھی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو یہاں کھڑے رہو۔اس لیے اُنہوں نےدرّہ چھوڑ دیا اور میدان جنگ میں کود پڑے ۔اس نافرمانی کی وجہ سےپھر بعد میں جونتائج ظاہر ہوئےاُن کا بھی آئندہ ذکرہوگا ۔

ابو دجانہ ؓکی تلوار کے بارے میں حضرت انس ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن ایک تلوار پکڑی اور فرمایاکہ اسے مجھ سے کون لے گا ؟حضرت ابو دجانہؓ نےپوچھا کہ اس کا حق کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا کہ

اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور کسی کافر سے نہ بھاگنا اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا ۔

اُنہوں نے تلوار لی اور مشرکوں کے سر پھاڑ دیے اور اس کا حق ادا کردیا۔

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ  لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لینے کے سب سے زیادہ خواہشمند زبیر ؓتھے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار ابو دجانہ ؓکو دی تو انہوں نے عہد کیا کہ وہ دیکھیں گے کہ ابودجانہ ؓاس تلوار کے ساتھ کیا کرتا ہے ۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ابو دجانہؓ  تلوارلے کر مشرکین کی صفوں میں گھس کر موت بکھیرتے ہوئے لشکر کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے جہاں قریش کی عورتیں کھڑی تھیں ۔ ہند زوجہ ابوسفیان ان کے سامنے آئی اور بڑے زور سے چیخ مارکر اپنے مردوں کو مدد کے لیے بلایا لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ابودجانہؓ نے اپنی تلوار نیچے کرلی اور وہاں سے ہٹ آئےاور بعد میں زبیر ؓکے پوچھنے پر بتایا کہ

میرا دل اس بات پر تیار نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ایک عورت پر چلاؤں اور عورت بھی وہ جس کے ساتھ کوئی مرد محافظ نہیں۔

حضرت مصلح موعود ؓتحریر فرماتے ہیں کہ آپؐ ہمیشہ عورتوں کے احترام کی تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں مگرپھر بھی مسلمان ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جاتے تھے ۔پس

یہ ہیں اسلامی جنگوں کے اصول ۔

حضور انور نےآخر میں فلسطینیوں کے لیے دعا کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

https://www.alfazl.com/2023/12/15/85771/

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button