(منظوم کلام سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ) اے چشمۂ علم و ھدیٰ، اے صاحب فہم و ذکا!اے نیک دل، اے باصفا، اے پاک طینت، با حیا!اے مقتدا، اے پیشوا، اے میرزا، اے راہنما!اے مجتبیٰ، اے مصطفےٰ، اے نائبِ ربّ الوریٰ!کچھ یاد تو کیجے ذرا ٭ ہم سے کوئی اقرار ہے دیتے تھے تم جس کی خبر بندھتی تھی جس سے یاں کمرمٹ جائے گا سب شور و شر موت آئے گی شیطان پرپاؤ گے تم فتح و ظفر ہوں گے تمہارے بحر و برآرام سے ہوگی بسر، ہوگا خدا مدّنظرواں یہ تھے وعدے خوب تر٭ یاں حالتِ اِدبار ہے ہردل میں پُر ہے بغض و کیں، ہر نفس شیطاں کا رہیںجو ہو فدائے نورِ دیں، کوئی نہیں، کوئی نہیںہر ایک کے ہے سر میں کیں، ہے کبر کا دیوِ لعیںاک دم کو یاد آتی نہیں، درگاہِ ربّ العالمیںبے چین ہے جانِ حزیں ٭ حالت ہماری زار ہے کہنے کو سب تیار ہیں، چالاک ہیں ہشیار ہیںمنہ سے تو سو اقرار ہیں، پر کام سے بیزار ہیںظاہر میں سب ابرار ہیں، باطن میں سب اشرار ہیںمصلح ہیں پر بدکار ہیں، ہیں ڈاکٹر پر زار ہیںحالات پُر اسرار ہیں ٭ دل مسکنِ افکار ہے چھینے گئے ہیں ملک سب باقی ہیں اب شام و عربپیچھے پڑا ہے ان کے اب دشمن لگائے تا نقبہم ہورہے ہیں جاں بلب، بنتا نہیں کوئی سببہیں منتظر اس کے کہ کب، آئے ہمیں امدادِ ربپیالہ بھرا ہے لب بلب ٭ ٹھوکر ہی اک درکار ہے کیا آپ پر الزام ہے، یہ خود ہمارا کام ہےغفلت کا یہ انجام ہے سستی کا یہ انعام ہےقسمت یونہی بدنام ہے دل خود اسیرِ دام ہےاب کس جگہ اسلام ہے باقی فقط اک نام ہےملتی نہیں مے جام ہے ٭ بس اک یہی آزار ہے (رسالہ تشحیذالاذہان ماہ مارچ ۱۹۱۳ءبحوالہ کلام محمود،صفحہ۱۱۳،۱۱۴،ایڈیشن۲۰۰۸ء)