متفرق مضامین

مُطاعِ آدم و عالم محمدِ عربیﷺکا معزّز اور ممتاز خاندان

(ولید احمد۔ متخصص تاریخ و سیرت جامعہ احمدیہ جرمنی)

’’جیسا کہ خدا تعالیٰ قادر ہے، حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تا کہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے جو تمام نبی علیهم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

یمن کا گورنر ابرہہ الاشرم اپنی ۶۰؍ ہزار فوج کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے لیے مکہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔اس وقت اہل مکہ میں ایک پریشانی کا عالم تھاکیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم اس بھاری فوج کے خلاف کوئی طاقت نہیں رکھتے۔نبی کریم ﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب بطور نمائندہ ابرہہ کےپاس گئے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ابرہہ نے انہیں بلوا لیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟حضرت عبد المطلب نے جواب دیا کہ آپ کے لوگوں نے میرے کچھ اونٹ پکڑ لیے ہیں وہ مجھے واپس لوٹادیں۔ابرہہ حیران رہ گیا اور کہا کہ میں یہاں تمہارے معبد اور مرکز کعبہ کو تباہ کرنے آیا ہوں اور تم ہو کہ صرف اپنے اونٹوں کی فکر کررہے ہو۔ اس پر آپ نے بڑے اطمینان اور یقین سے بھرے ہوئے لہجہ میں فرمایا: میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اس لیےمجھے صرف انہی کی فکر ہے،لیکن میرا ایمان ہے کہ اس گھر یعنی خانہ کعبہ کا بھی ایک مالک ہے جو اس کی خود حفاظت کرے گا۔یہ سن کر ابرہہ سخت غصے میں اپنی فوج کے ساتھ کعبہ کی طرف بڑھامگر کعبہ کے مالک کا ایساتصرف ہوا کہ اول تو ابرہہ کے ہاتھیوں نے مکہ کی سمت جانے سے انکار کردیا اور بعد ازاں فوج پر ایک آفت آگئی اور یہ لشکر تباہ و برباد ہوکر داستان عبرت بن گیا۔

اصحاب الفیل کا واقعہ اور اس کی حکمت

اس تاریخی واقعہ کو قرآن کریم نے سورۃ الفیل میں بیان کیا ہےاور اس کے بعد سورۃ القریش آتی ہے جس میں ابرہہ کی فوج کی تباہی کے واقعہ کی وجہ لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ بیان کی گئی ہے۔یعنی قریش میں باہم ربط پیدا کرنے کے لیے یہ واقعہ پیش آیا اور تایہ کہ وہ اس شہر سے جڑے رہیں جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کے مطابق ایک عظیم الشان نبی نے مبعوث ہونا تھا۔مکہ کی وادی میں گزارہ کوئی آسان کام نہ تھا،بعض اوقات لوگوں کی فاقہ تک نوبت پہنچ جاتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نےاُس عظیم نبی کے لیے اس شہر کو آباد رکھااور ہر دور میں اِس قوم کی مدد کرتا رہا۔اس سلسلہ کا آغاز حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مکہ میں آباد ہونے سے ہوتا ہےکہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک غیر آباد وادی میں ان کی مدد فرمائی اور ان کے لیے آب زمزم کا انتظام کیا اوربالآخرایک قوم کا آغاز ہوا۔

حضور اکرم ﷺ کا بہترین نسب

آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب ہی نہیں بلکہ آپؐ کا خاندان ہر دور میں ہی معزز اور ممتاز دکھائی دیتا ہے۔آپ کا نسب ہر لحاظ سے سب سے اعلیٰ تھا۔ آنحضرت ﷺ اپنے نسب کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں:بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّى كُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ۔مجھے بنی آدم کی بہترین نسلوں میں سےنسلاً بعد نسلٍ مبعوث کیا گیا،یہاں تک کہ میں اس نسل میں ہوں جس میں میں نے ہونا تھا۔(صحیح بخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبی ﷺ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ جیسا کہ خدا تعالیٰ قادر ہے، حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تا کہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے جو تمام نبی علیهم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں۔ اسی حکمت اور مصلحت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہمارے سیّد و مولیٰ نبی ﷺ کے وجود باجود کی نسبت ان دونوں خوبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہےلَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ (التوبہ: ۱۲۸) یعنی تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو خاندان اور قبیلہ اور قوم کے لحاظ سے تمام دنیا سے بڑھ کر ہے۔ اور سب سے زیادہ پاک اور بزرگ خاندان رکھتا ہے‘‘۔(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۸۱)

مکّہ کا سب سے قدیم قبیلہ

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو قبول کرتے ہوئے جب اللہ تعالیٰ نے چاہ زمزم جاری فرمایا تو اس کے بعد سب سے پہلے یہاں پر قبیلہ جرھم آباد ہواجس کے سردار مضاض بن عمرو کی بیٹی کے ساتھ حضرت اسماعیلؑ نے شادی کی۔ آپؑ کےہاں بارہ بچے ہوئے جو عرب میں مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ آپ کے بڑے بیٹے کا نام نابت تھااور اس کے بعد قیدار پیدا ہوئے۔ قبیلہ قریش قیدار ہی کی نسل میں سے ہے۔ حضرت اسماعیل ؑجب تک زندہ رہے وہ کعبہ کے متولی اور نگران رہے۔ ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے نابت نے اقتدارسنبھالا۔ جب وہ بھی فوت ہوگئے تو ان کے نانا مضاض بن عمرو کے پاس تولیت کعبہ آگئی اور کافی عرصہ تک یہ اعزاز قبیلہ جرھم کے پاس ہی رہا۔ مگر ایک مدت دراز کے بعد قبیلہ خزاعہ نے ایک جنگ کے بعد اس علاقے پر اپنا اثر و نفوذ قائم کر لیا تو مکہ سے نکلتے ہوئے قبیلہ جرھم نے زمزم کے چشمہ کو بند کردیاجسے بعد میں آنحضرت ﷺ کے دادا عبد المطلب نے اپنی ایک رؤیا کی مدد سے دوبارہ کھوج کر جاری کیا۔

قبیلہ قریش

قریش وہ قبیلہ ہے جس میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ علماء تاریخ کے مطابق نضر بن کنانہ اس کے بانی تھے۔ (سیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۱۳۷) انہی کی نسل میں آپ ﷺ کی پیدائش سے تقریباً ۱۵۰؍سال پہلے ایک بہت ہی نامور شخصیت قصی بن کلاب گزرے جو کہ ایک بہترین منتظم اور بہادر سردار تھے۔آپ نے اپنے خاندان کو متحد اور اکٹھا کیا اور بنو خزاعہ کو مکہ سے نکال کر دوبارہ مکہ پر قابض ہوگئے۔چنانچہ اپنے قبیلے کو جمع کرنے کی وجہ سے قبیلہ کو قریش کہا جانے لگاکیونکہ عربی زبان میں قریش کے لفظ میں جمع کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ۱ صفحہ ۵۷)قصی نے چونکہ قریش کو دوبارہ اکٹھا کیا تھا اس وجہ سے آپ کو مُجَمِّع یعنی جمع کرنے والا بھی کہتے ہیں۔قریش کا دوبارہ مکہ میں آباد ہونا آسان نہیں تھا۔ان کی معاشی حالت اتنی اچھی نہ تھی۔یہاں تک کہ بعض اوقات بھوک اور فاقہ کی حالت پیدا ہوجاتی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’مگر پھر بھی قریش کو داد دینی پڑتی ہےکہ انہوں نے ان تمام صعوبتوں کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیااور اپنی زبان پر وہ ایک لمحہ کے لئے بھی حرفِ شکایت نہ لائے اول تو ان کی یہی بڑی قربانی تھی کہ انہوں نے اپنے کام کاج چھوڑے، پیشوں کو ترک کیا، تجارتوں کو نظر انداز کیا، زمینداریوں سے منہ موڑااور ایک وادی غیر ذی زرع میں جہاں روزی کا کوئی سامان نہ تھا، اہل و عیال کو لے کر رہنا شروع کردیا‘‘۔(تفسیرِکبیر جلد ۱۰ صفحہ ۱۰۰)

قصی بن کلاب نےقریش کے اس مشکل حالات میں بھی باقاعدہ ایک تنظیم قائم کی اور مختلف کاموں اور فرائض کو قریش کے مختلف قبائل میں تقسیم کردیا۔ان کے پیش نظر اس علاقے میں رہنے کا اگر کوئی مقصد تھا تو صرف ایک کہ انہیں ان کے آباءو اجداد نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور پیشگوئی بتا رکھی تھی کہ اس علاقے میں ایک عالمگیر نبی کی آمد مقدر ہے۔ پس وہ اس تقدیر کے منتظر ایک نسل کے بعد دوسری میں یہ جذبہ منتقل کرتے چلے جارہے تھے۔

عبد مناف بن قصی

قصی بن کلاب کے چار بیٹے تھے۔ عبد قصی،عبد الدار، عبد العزیٰ اور عبد مناف۔قصی نے اپنی وفات سے پہلے اپنے تمام کام اپنے بڑے بیٹے عبدالدار کے سپرد کیے لیکن عبد الدار اپنے والد کی طرح اتنا قابل نہ تھا۔چنانچہ قصی کے بعد قریش کی ریاست عبد مناف کوحاصل ہوئی جو اپنے بھائیوں میں سب سے لائق تھے۔آنحضرت ﷺ آپ ہی کی نسل میں سے ہیں۔عبد مناف کے چار بیٹے عبد الشمس، مطّلب، ہاشم اورنوفل تھے جن میں سے ہاشم نہایت بااثر تھے۔

حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں:’’اُن کے دلوںمیں ایمان نہیں تھا، اُن کے پاس قرآن نہیں تھا،اُن کے سامنے قومی ترقی کا کوئی مقصود نہیں تھا، اُن کے سامنے کوئی اعلیٰ درجہ کاآئیڈیل (Ideal)نہیں تھا۔محض اتنی بات تھی کہ قصی نے ہم کو کہا ہے کہ ہمارے داد ا ابراہیم ؑنے یہ کہاہے کہ مکہ میں رہو۔اس لئے ہم یہاں رہنے کے لئے آگئے ہیں‘‘۔ (تفسیرکبیر جلد ۱۰ صفحہ ۱۱۹)

ہاشم بن عبد مناف

آنحضرت ﷺ کے پڑ دادا ہاشم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔آپ کا کام مکہ میں آنے والے حاجیوں کے آرام کا خیال رکھنا تھا،آپ نے اپنے اس فرض کو نہایت خوبی کے ساتھ سر انجام دیا۔آپ نے اپنے زمانہ میں تجارت کو بھی نہایت ترقی دی،لوگوں میں تجارت کا ایک شوق پیدا کیا۔ آپ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہر سال دو تجارتی سفر کیے جائیں،ایک سفر سردموسم میں یمن کی طرف اور دوسرا گرم موسم میں شام کی طرف۔ان دونوں قسم کے سفر کا ذکر رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیۡف کےنام سے سورہ قریش میں آیا ہے۔(سورۃ قریش آیت۳ )

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’مکہ میں بسنے کی وجہ سے یہ لوگ غریب ہوگئے تھے۔ہاشم جو رسولِ کریم ﷺ کے پڑدادا تھے انہوں نے تحریک کی کہ یہ لوگ شام اور یمن کا سفر کیا کریں تاکہ ان کی حالت اچھی ہو‘‘۔(تفسیر کبیر جلد۱۰ صفحہ ۱۰۵)

شیبہ بن ہاشم (عبد المطلب)

ایک مرتبہ ہاشم تجارت کی غرض سے شام کی طرف گئے۔راستہ میں آپ مدینہ ٹھہرے جہاں آپ نے بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمیٰ سے شادی کی جن کے بطن سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کیا جن کا نام شیبہ رکھا گیا۔ہاشم کے انتقال کے وقت آپ کے چار بیٹے تھے۔ ابو صیفی۔اسد۔فضلہ اور شیبہ مگر یہ سارے ہی کم عمر تھے۔ اس لیے آپ کی وفات پر ہاشم کے بھائی مطّلب نے آپ کا کام سنبھالا۔ مطلب کو جب یہ خبر ملی کہ ان کا بھتیجا شیبہ بہت ہی ہوشیارہے تو وہ فوراً مدینہ گئے اور انہیں اپنے ساتھ مکہ لے آئے۔ اس وقت شیبہ کی عمر آٹھ سال تھی۔لوگو ں نے جب یہ دیکھا کہ مطلب اپنے ساتھ ایک بچے کو لے کر آئے ہیں تو شیبہ کا نام عبد المطلب یعنی مطلب کا لڑکا مشہور ہوگیا۔ (سیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد ۱ صفحہ۱۸۵) آنحضرتﷺ کے دادا عبدالمطلب نہایت ذہین شخص تھےاس وجہ سے مطلب کی وفات کے بعد آپ کو اپنے والد کے مناصب ملے۔زمزم کا چشمہ جو صدیوں سے مفقود ہوچکا تھا عبدالمطلب اپنی ایک خواب کی بنا پر اسے تلاش کرنے لگے۔اس موقع پر آپ نے ایک نذر بھی مانی کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے دس بچو ں سے نوازے گا اور انہیں میں اپنے سامنے جوان ہوتا دیکھ لوں گا تو ان میں سے ایک کو خدا کی راہ میں قربان کردوں گا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ۱ صفحہ ۷۱۔۷۲)آخر آپ کو وہ چشمہ مل گیااور ساتھ میں وہ دبے ہوئے خزائن بھی جو جرھم قبیلہ کے لوگ اپنی ہجرت کے وقت مکہ سے جاتے ہوئے دفنا کر گئے تھے۔اس واقعہ کے بعد قریش میں آپ کو بہت زیادہ عزت حاصل ہوگئی۔

عبداللہ بن عبدالمطلب

خدا تعالیٰ نے عبدالمطلب کی دعا اورخواہش کو پورا کیا اور آپ کے بیٹوں کی تعداد دس تک پہنچ گئی۔ جب وہ سارے جوان ہوگئے تو آپ اپنی نذر کو پورا کرنے کے لیے ان سب کو اپنے معبدمیں لے آئے اور وہاں قرعہ اندازی کی۔قرعہ میں آپ کے سب سے محبوب بیٹے عبداللہ کا نام آیا۔آپ ان کو ذبح کرنے کے لیے قربان گاہ کی طرف بڑھے،لوگوں نے آپ کو ایسا کرنے سے روکا۔آخر وہاں کی ایک مشہور کاہنہ کا مشورہ لینے پر یہ فیصلہ ہوا کہ عبد اللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ ڈالا جائے۔اس کے مطابق عبد المطلب نے دعا کے ساتھ فال نکالی مگر پھر بھی عبد اللہ کا نام ہی نکلا۔اس کے بعد دس اونٹوں کا اضافہ کر کے فال نکالی گئی مگر پھر عبد اللہ ہی کا نام نکلا۔ اسی طرح اونٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور بالآخر ۱۰۰؍ اونٹوں کی تعداد پر جاکر یہ قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔مزید تسلی کے لیے آپ نے قرعہ دو مرتبہ پھر دہرایا لیکن دونوں مرتبہ اونٹوں کے نام کا قرعہ نکلا اور اس طرح حضرت عبداللہ کی بجائے اس نذر کو پورا کرنے کے لیے ۱۰۰؍ اونٹوں کی قربانی کر دی گئی۔(تاریخ الطبری، جلد۲ صفحہ ۲۴۰۔ ۲۴۳)

عبد المطلب نے اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کی شادی اصحاب الفیل کے واقعہ سے چند ماہ پہلےحضرت آمنہ بنت وہب سے کروائی تھی۔اس وقت آپ ﷺ کے والد کی عمر ۲۵؍ سال تھی اور آپ کی والدہ ۱۷؍ سال کی تھیں۔حضرت عبد اللہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ایک تجارتی سفر کے لیے شام کی جانب گئے جہاں سے واپسی پر آپ مدینہ میں ٹھہرے اور وہیں انتقال فرماگئے۔اور آپ کی وفات کے بعد حضرت آمنہ کو اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم بیٹا عطا کیا جس نے دنیا بھر کا معلم اور راہنما بننا تھا۔ وہ دُر یتیم جو اپنے والد کی وفات کے چند دن بعد اس دنیا میں آیا اللہ تعالیٰ نے اسے ساقیٔ کوثر، شافع محشر،رحمۃ للعالمین،خاتم النبیین،فخر رسل اور نبی کامل کے طور پر چن لیا اور آپ مکہ میں اپنے خاندان کے درمیان پرورش پانے لگے۔

قریش کی قربانی میں مسلمانوں کے لیے سبق

ان تمام واقعات میں ہم سب کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن کریم میں قریش کی قربانی کا ذکر کیا ہے اس میں ہمیں بھی قربانی کی راہوں پر آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ عُسر ہو یُسر ہو، تنگی ہو یا آسائش ہو،امن ہو یا خوف ہو قرآن کریم ہمیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین کامل قائم رکھنے اور اسی کے حضور جھکنے کی تعلیم دیتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓنے اس مضمون کو سورہ قریش کی تفسیر کرتے ہوئے بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔آپ ؓ فرماتے ہیں:’’یہاں یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ ایلاف کیوں اتاری؟ قریش نے تو جو کچھ کرنا تھا کر لیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں قریش کی تعریف کرنے کے تو یہ معنے تھے کہ ان کو اور بھی مغرور کر دیا جائے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ دیکھا ہمیں کافر کافر کہتے تھے مگر ہم نے کتنی قربانی کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا کیوں کیا؟ اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ تم بھی قربانی کا یہ نمونہ پیش کرو۔ پنجابی کی ایک مثال ہے۔ دِھیئے نی میں تینوں کَہوَاں نُہویں نی تو کن رَکھ۔ یعنی ساس نے جب کوئی بات بہو سے کہنی ہو تو وہ بیٹی کو ڈانٹتی ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ بہو اس بات کو سن لے اور ہوشیار ہو جائے۔ اس طرح قریش کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس لئے کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو تو جہ دلائے کہ کسی زمانہ میں ایک کافر اور مشرک قوم مکہ میں آکربسی اور اس نے مکہ کو بسانے کے لئے ایسی حیرت انگیز قربانی کی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ بے شک ان میں یہ خوبی خدا تعالیٰ کے تصرف سے پیدا ہوئی مگر تمہارے ساتھ بھی تو اس کا فضل ہے تمہیں بھی اس قربانی کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اسلام کے لئے ایسی ہی قربانی پیش کرنی چاہیے اور ایسا ہی نمونہ دکھانا چاہیے جیسے ان لوگوں نے دکھایا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۰ صفحہ ۱۲۱)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button